
عورت اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے!
اللہ تعالیٰ نے انسان کو زوجین (مرد اور عورت) کی شکل میں پیدا کیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ اس لیے ان کی آبادی ایک دوسرے کے برابر ہوتی ہے۔ عام حالات میں اس تناسب میں فرق واقع نہیں ہوتا۔ مرد اور عورت مل کر اس تناسب کو برقرار رکھتے ہیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے، اسے کسی مصنوعی طریقہ سے تبدیل کرنا مرد اور عورت دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ بات کہ کس جوڑے سے لڑکے یا لڑکیاں پیدا ہوں؟ کس سے لڑکوں اور لڑکیوں کا سلسلہ جاری رہے؟ اور کون سا جوڑا بانجھ رہے؟ اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ اپنے علم و حکمت کے تحت فرماتا ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے:
’’اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں اور جسے چاہتا ہے لڑکے عطا کرتا ہے یا انہیں لڑکوں اور لڑکیوں کے جوڑے دیتا ہے او رجسے چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے۔ بے شک وہ علم والا اور قدرت والا ہے‘‘۔ (الشوریٰ: ۴۹۔۵۰)
یہ اس حقیقت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کا مالک ہے۔ ہر چیز اس کی مِلک ہے۔ تخلیق اسی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جس چیز کو وجود میں لانا چاہتا ہے، لے آتا ہے۔ اس میں کسی دوسرے کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اسی نے انسان کو وجود دیا۔ اس کے سلسلۂ نسل کو جاری رکھنے کے لیے وہ کسی کو لڑکیاں اور کسی کو لڑکے عطا کرتا ہے، کسی کو دونوں طرح کی اولاد سے نوازتا ہے۔ اس کی حکمت کے تحت کوئی اولاد سے محروم بھی ہوتا ہے۔ جب انسان کا وجود و بقا مرد اور عورت دونوں کا رہینِ منت ہے تو ان میں سے کسی کے برتر اور کم تر یا کسی کے مفید اور غیر مفید ہونے کا سوال ہی بے معنی ہے۔
آیت میں اولاد کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہبہ اور عطیہ کہا گیا ہے۔ لڑکا بھی اس کا عطیہ ہے اور لڑکی بھی عطیہ ہے۔ ہبہ کرنے والا کوئی بہتر چیز ہبہ کرتا ہے۔ اس پر ناگواری کا اظہار یا اسے بوجھ سمجھنا اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کی توہین ہے۔ اولاد میں پہلے لڑکیوں کا ذکر ہے۔ بعض اوقات لڑکیوں کی پیدائش ناگوار گزرتی ہے۔ آیت اس غلط نفسیات پر ضرب لگاتی ہے۔ قرآن مجید نے لڑکی کی ولادت کو بشارت کہا ہے (النحل: ۸۵) اس کی پیدائش ماں باپ کے لیے خوشخبری ہے، لیکن نادان انسان اسے خبرِ بد سمجھتا ہے۔
مرد اور عورت تہذیب کے معمار
دنیا میں بہت سی تہذیبیں اور تمدن وجود میں آئے۔ لیکن عورت کو غیر مفید اور مخلِ تمدن عنصر سمجھ کر میدان عمل سے دور رکھا گیا۔ اس نے کوئی کردار ادا بھی کیا تو اسے تسلیم نہ کیا گیا اور اس کی ہمت افزائی نہ ہوئی۔ اسی لیے تہذیب و تمدن پر مرد کا غلبہ رہا۔ اس کی فکر، خواہشات اور جذبات چھائے رہے اور عورت کنارے پر کھڑی رہی۔ قرآن مجید نے بتایا کہ تہذیب و تمدن کو وجود میں لانے اور اسے ایک رُخ دینے میں مرد اور عورت دونوں شریک ہوتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ تہذیب کو بداخلاقی کی راہ پر لگانے اور راہ راست سے ہٹانے میں بھی دونوں کی کوششوں کا دخل ہوتا ہے اور ان کے باہمی تعاون ہی سے تہذیب کو صحیح سمت بھی ملتی ہے۔ منافق اور بے ایمان مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کا تعاون حاصل ہوتا ہے اور وہ معاشرہ کو ناپاک کرنے اور اعلیٰ قدروں سے محروم کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ سورۂ توبہ میں ارشاد ہے:
’’منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں ایک ہی ہیں۔ برائی کا حکم دیتے اور بھلائی سے روکتے ہیں اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ روکے رکھتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ انہوںنے اللہ کو بُھلا دیا اور اللہ نے بھی انہیں فراموش کردیا۔ بلاشبہ منافق بڑے ہی نافرمان ہیں‘‘۔ (التوبۃ: ۶۷)
اس کے بعد ان کے انجام کا ذکر ہے کہ منافقین اسی طرح کفار (اللہ تعالیٰ کی ہدایت کا انکار کرنے والے) معاشرے کو غلط رُخ پر لے جاتے ہیں، اس لیے ان کے مرد اور عورتیں آخرت میں نارِ جہنم کے مستحق ہوں گے، جس میں وہ ہمیشہ پڑے رہیں گے۔ ان پر اللہ کی لعنت ہوگی اور وہ اس کی رحمت سے دور ہوں گے۔ (التوبۃ: ۶۸)
منافقین اور منافقات کے ناپاک رویہ کے برعکس اہل ایمان مرد و خواتین معاشرے کو حق و صداقت کی راہ پر لگانے، بھلائیوں کو فروغ دینے اور برائیوں سے پاک کرنے میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ اسی سے ایک پاکیزہ اور صالح معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
’’ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتے ہیں۔ ان لوگوں پراللہ ضرور رحم کرے گا۔ بلاشبہ اللہ غالب حکمت والا ہے‘‘۔ (التوبۃ:۷۱)
اس کے بعد ارشاد ہے کہ اللہ کا وعدہ ہے ان ایمان والے مردوں اور عورتوں سے کہ وہ انہیں ایسی جنتیں عطا کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیںگے۔ ان ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں ان کے لیے پاکیزہ مکانات ہوں گے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ انہیں اللہ کی رضا حاصل ہوگی۔ اس سے بڑی کوئی اور کامیابی نہیں ہے۔ (التوبۃ:۷۲)
اسلام کا خطاب مرد اور عورت دونوں سے ہے۔ اس کی تاریخ ہی یہ ہے کہ دونوں نے اس کی دعوت پر لبیک کہا، اس کی تبلیغ و اشاعت کی سعی کی، تکلیفیں اٹھائیں، اپنا وطن عزیز چھوڑا، ہجرت اختیار کی اور جب حکم ہوا تو دین کے غلبہ کی جدوجہد اور جہاد میں اپنا حصہ ادا کیا۔ سورۂ آل عمران کے آخر میں اہل ایمان کی قلبی کیفیت کا بیان ہے کہ اپنی تمام تر خدمات، قربانیوں اور راہ خدا میں استقامت کے باوجود انہیں کوتاہیوں کا احساس دامن گیر ہے اور وہ دست بہ دعا ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے قصور معاف کردے، روزِ قیامت ہم رسوا نہ ہوں اور تیرے انعام و اکرام کے مستحق قرار پائیں۔ اس کے جواب میں کہا گیا:
’’پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول کی کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ تم آپس میں ایک ہی ہو۔ پس جن لوگوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور انہیں میری راہ میں تکلیف دی گئی اور جو لڑے اور مارے گئے تو ضرور میں ان کی غلطیاں معاف کروں گا اور انہیں ایسے باغات میں داخل کروں گا، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ یہ بدلہ ہے اللہ کی جانب سے اور اللہ کے پاس اچھا بدلہ ہے‘‘۔
اسلامی معاشرے کی صورت گری میں مسلمان مرد و خواتین کی ایک دوسرے کو رفاقت حاصل رہی۔ اس کی ترقی کے ہر ہر مرحلہ میں دونوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ یہ تاریخ کی شہادت ہے۔ آج بھی یہ معاشرہ اُسی وقت وجود میں آسکتا ہے جب کہ وہ ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہوں اور اس کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔
مشترک قانونِ شریعت
قدیم مذاہب میں مرد اور عورت کی ایک حیثیت نہیں تھی۔ مرد کی سطح عورت سے اونچی تھی، اس لیے دونوں کے لیے الگ الگ قوانینِ حیات تجویز کیے گئے، لیکن اسلام کا مخاطب ’انسان‘ ہے۔ قرآن مجید کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین و شریعت کا بارِ امانت کائنات کی کوئی مخلوق نہ اٹھا سکی۔ یہ بار صرف انسان نے اٹھایا ہے۔ اس میں مرد اور عورت دونوں داخل ہیں:
’’ہم نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے ’امانت‘ پیش کی، لیکن انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے۔ (لیکن) انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بلاشبہ وہ بڑا ظالم اور بڑا نادان تھا۔ یہ اس لیے ہوا کہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو عذاب دے اور ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں پر اپنی شفقت و رحمت کے ساتھ توجہ کرے اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے‘‘۔
ان آیات میں ’امانت‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس سے مراد احکامِ دین اور شریعت کی عائد کردہ ذمہ داریاں ہیں۔ اس میں خدا اور بندے کے تمام حقوق آتے ہیں۔ ان کو امانت سے اس لیے تعبیر کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے شریعت پر عمل کرنے کی ذمہ داری انسان پر ڈالی ہے اور اس کے ادا کرنے کا اسے پابند بنایاہے۔
امانت کا ادا کرنا قابلِ ستائش ہے اور اس پر اجر و ثواب بھی ہے۔ اس کے لیے اختیار ضروری ہے۔ اگر کسی پہاڑ پر یا زیر زمین کوئی امانت رکھ دی جائے اور وہ غائب ہو جائے تو پہاڑ اور زمین سے باز پرس نہ ہوگی اور محفوظ مل جائے تو ان کی تعریف نہ ہوگی۔ آسمان، زمین اور پہاڑوں نے بارِ امانت اٹھانے سے اس لیے انکار کیا کہ وہ اختیار سے محروم ہیں اور انہیں جس کام پر لگا دیا گیا ہے وہ انجام دے رہے ہیں۔ یا یہ کہا جائے کہ وہ اس امتحان کے لیے تیار نہیں ہوئے کہ حقِ امانت ادا کرکے مستحقِ ثواب اور خیانت کرکے گرفتارِ عذاب ہوں، لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا۔ اس کے نتائج بھی اس کے سامنے تھے کہ وہ امانت ادا کر کے انعام و اکرام کا مستحق ہوگا اور خیانت ہو تو اس کی پاداش بھی اسے بھگتنی پڑے گی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان نے ازل میں جو بارِ امانت اٹھایا وہ احکام شریعت کا بار تھا۔ اب اس کے بدلے مرد اور عورت دونوں کو اس کی جزایا سزا بھی ملے گی۔ جو مرد یا عورت کفر و نفاق اور شرک و الحاد میں مبتلا ہوں گے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق ہوں گے۔ اس کی توجہ اور عنایت اُن خوش نصیب مردوں اور عورتوں کو حاصل ہوگی جو سرمایۂ ایمان اپنے ساتھ رکھیں گے اور وہ انعام و اکرام سے نوازے جائیں گے۔
ایک شبہ کا ازالہ
اسلام نے عورت کی تعلیم کی جو ترغیب دی ہے اس کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ وہ زبانی طور پر دین کی تعلیمات سے واقف ہو جائے، بلکہ اس میں کتابی علم بھی شامل ہے۔ کتابی علم سے مراد پڑھنا اور لکھنا دونوں ہی ہے۔ اس کے بغیر اس کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن تعلیم کے اس تصور کے خلاف حضرت عائشہؓ سے ایک حدیث روایت کی جاتی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’عورتوں کو بالا خانوں میں نہ رکھو، ان کو کتابت کی تعلیم نہ دو۔ انہیں سوت کاتنا اور بننا سکھائو اور سورۂ نور کی تعلیم دو‘‘۔
اس حدیث کی بنیاد پر متقدمین میں بعض علما کی یہ رائے رہی ہے کہ عورت کی اتنی تعلیم ہونی چاہیے کہ وہ کتاب پڑھ سکے۔ اسے تحریر و کتابت سکھانا صحیح نہیں ہے۔ بعد کے دَور میں بھی اس خیال کے حاملین رہے ہیں۔ لیکن حسب وجوہ سے یہ روایت اس قابل نہیں ہے کہ اس سے کوئی استدلال کیا جائے:
۱۔ اس حدیث میں کئی ایسی باتیں آئی ہیں جو اسلام کے مزاج اور اس کی عمومی تعلیمات کے خلاف ہیں۔
۲۔ کوئی شخص جب تک پڑھنے اور لکھنے پر قادر نہ ہو اسے تعلیم یافتہ یا ’پڑھا لکھا‘ نہیں کہا جاتا۔ اسلام کا منشا بظاہر یہ ہے کہ عورت تعلیم سے آراستہ ہو۔ اس کے لیے صرف پڑھنے کی صلاحیت کافی نہیں ہے۔ اسے لکھنے اور تحریر کے ذریعے اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔
۳۔ اس روایت کے غلط اور ناقابل قبول ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ کا عمل اس کے خلاف تھا۔ رسول اللہﷺ کی رحلت کے بعد ان کے نام مدینہ سے باہر کے علاقوں سے جو خطوط آتے تھے خود ان ہی کی ہدایت پر، عائشہ بنت طلحہؒ ان کا جواب دیا کرتی تھیں۔
۴۔ یہ روایت سند کے لحاظ سے بھی انتہائی ضعیف ہے۔ اس کے راویوں میں محمد بن ابراہیم شامی ہے، جسے محدثین نے کذاب، منکرالحدیث اور حدیث گھڑنے والوں میں شمار کیا ہے۔
اس مضمون کی ایک روایت حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بھی آئی ہے۔ اس کا ایک راوی جعفر بن نصر ’مہتم بالکذب‘ ہے۔کہا جاتا ہے کہ ثقہ راویوں کا نام لے کر غلط اور باطل روایات نقل کرتا تھا۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ روایت ایک ایسی حدیث کے خلاف ہے جو صحیح سند سے ثابت ہے۔ حضرت شفاء بنت عبداللہؓ کہتی ہیں کہ میں حضرت حفصہؓ کے پاس تھی کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا:
’’کیا تم ان کو مرض ’نملہ‘ کی دعا نہیں سکھائو گی جس طرح تم نے انہیں کتابت سکھائی ہے‘‘۔
یہ مسند احمد اور ابودائود کی روایت ہے اور صحیح ہے۔ یہ حدیث اس سے قوی تر سند سے مستدرک حاکم میں موجود ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شفاءؓ لکھنا جانتی تھیں۔ حضرت حفصہؓ کو انہوں نے اس کی تعلیم دی تھی۔ رسول اللہؐ نے اس کی تصویب و تائید فرمائی۔ اگر یہ عمل غلط ہوتا تو حضرت شفاءؓ کو اس کی تعلیم سے اور حضرت حفصہؓ کو اس کے سیکھنے سے منع فرماتے۔
علامہ خطابیؒ کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ خواتین کے لیے کتابت کی تعلیم ناپسندیدہ نہیں ہے۔
حافظ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ اس سے عورتوں کے لیے کتابت کی تعلیم کا جواز نکلتا ہے۔
علامہ ابن عبدالسلام محمد ابن تیمیہؒ (صاحب منتقیٰ الاخبار) کے نزدیک اس حدیث سے عورتوں کے لیے کتابت کی تعلیم کا جواز نکلتا ہے۔
اس موضوع پر مولانا شمس الحق عظیم آبادی (صاحب عون المعبود) کا رسالہ ’عقود الجمان فی جواز تعلیم الکتابۃ للنسوان‘ کے نام سے موجود ہے۔ اس میں دونوں طرح کی احادیث پر محدثانہ انداز میں گفتگو کی گئی ہے اور اہل علم کا نقطہ نظر بیان ہوا ہے۔ رسالہ فارسی میں ہے۔ یہی رسالہ اس وقت پیش نظر ہے اور بیشتر حوالوں کے لیے اسی پر اعتماد کیا گیا ہے۔ اس کا عربی ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔
بعض حضرات نے کہا ہے کہ حدیث میں ان خواتین کو کتابت کی تعلیم دینے سے منع کیا گیا ہے جن کے لیے وہ فساد اور بگاڑ کا سبب بن جائے۔
علامہ البانی نے اس پر سخت تنقید کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک موضوع حدیث، جس کی ہر سند انتہائی کمزور ہے اس کی بنیاد پر اس طرح کی بات کرنا صحیح نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ کتابت سیکھنے، بلکہ مطلق علم حاصل کرنے سے کوئی بھی آدمی فتنہ و فساد میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ اس کا تعلق صرف عورتوں سے نہیں، کتنے ہی مرد ہیں جن کی تحریریں ان کے دین و اخلاق کے لیے نقصان دہ ہیں، اس وجہ سے کیا حصول علم ہی سے سب کو منع کر دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ پڑھنا لکھنا اللہ کی ایک نعمت ہے۔ اس سے مرد اور عورت دونوں ہی کو فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہے۔
(بشکریہ: سہ ماہی ’’تحقیقاتِ اسلامی‘‘ نئی دہلی۔ جنوری تا مارچ ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply