
مدیر محترم مولانا سید جلال الدین عمری کی تصنیف ’عورت۔ اسلامی معاشرہ میں‘ کو ہند و پاک کے علمی و دینی حلقوں میں غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہے۔ ا س کی تالیف کو نصف صدی کا عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ اپنے موضوع پر بھرپور، مدلل اور بے مثال کتاب ہے۔ مصنف کو اب تک اس پر نظرثانی کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اب انہوں نے نظرثانی کی تو اس میں جابجا اضافے کیے۔ یہاں اضافہ شدہ مباحث کے چند منتخب حصوں کو پیش کیا جارہا ہے۔ ان سے صحیح طور پر فائدہ کتاب کے اضافہ شدہ ایڈیشن کے مطالعہ ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ (ادارہ)
عہدِ جاہلیت میں عورت کی بے قدری
سرزمینِ عرب پر اسلام کی آمد سے قبل ظلمت کے جو بادل چھائے ہوئے تھے اس میں بعض اوقات لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ کبھی تو ماں، جس کا سینہ مہر و محبت کا سرچشمہ ہوتا ہے، وضعِ حمل کے بعد جب دیکھتی کہ لڑکی پیدا ہوئی ہے تو اسے موت کے آغوش میں پہنچا دیتی۔ بعض اوقات لڑکی چھ سال کی عمر کو پہنچ جاتی، اس کا باپ گڑھا کھود کر اس میں اسے پھینک دیتا اور مٹی سے پاٹ دیتا۔ جو معصوم جان اس درندگی سے بچ جاتی اسے بھیڑ کے اون سے بُنا ہوا کپڑا پہنا کر اونٹ اور بکریاں چَرانے میں لگا دیتے۔
قیس بن عاصمؓ نے دورِ جاہلیت میں آٹھ لڑکیاں اور ایک روایت کے مطابق بارہ تیرہ لڑکیاں زندہ دفن کی تھیں۔ انہوں نے رسول اللہﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا: ان کے بدلے اتنے ہی غلام آزاد کردو۔ انہوں نے اس پر عمل کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کا سرمایہ اونٹ تھے، آپ کے حکم سے انہوں نے اتنے ہی اونٹ ذبح کیے اور صدقہ کیا (ہو سکتا ہے دونوں باتوں پر عمل کیا ہو)۔
اس ظلم کا بعض لوگوں کو احساس تھا۔ مشہور شاعر فرزدق کے دادا صعصعہ بن ناجیہ لوگوں کو اس ظلم و بربریت سے منع کرتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد انہوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ میں نے ۶۳ (ایک روایت میں ہے کہ تین سو ساٹھ، ہوسکتا ہے اس میں مبالغہ ہو) لڑکیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا ہے، ہر ایک کو دس ماہ کی دو گابھن اونٹنیوں اور ایک اونٹ کے عوض حاصل کرتا تھا۔ کیا اس کا اجر مجھے ملے گا؟ آپ نے فرمایا: یہ تمہارا حسنِ سلوک ہے۔ اس کے صلہ میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام کی نعمت سے نوازا ہے۔
یہ وحشیانہ حرکت انسان کی فطرت کے خلاف ہے، اس لیے اس طرح کی اور بھی انفرادی کوششیں شاید ہوتی رہی ہوں۔ اس سے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ عرب میں قتل بنات عام تھا۔ اس سے ان کا وجود ہی آہستہ آہستہ ختم ہو جاتا۔ لیکن اتنی بات واضح ہے کہ عرب میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کے واقعات شاذونادر نہ تھے، بلکہ بہ کثرت ہوتے رہتے تھے۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ قبیلہ ربیعہ اور مضر میں ایسے لوگ تھے جو لڑکیوں کو دفن کرتے تھے (کبھی) دو آدمیوں کے درمیان بات طے ہوتی تھی کہ وہ ایک لڑکی کو باقی رکھے گا اور دوسری کو ختم کر دے گا۔ بغوی کہتے ہیں کہ اس کا رواج قبیلہ ربیعہ اور مضر اور بعض عربوں میں تھا، قبیلہ کنانہ میں اس پر عمل نہیں ہوتا تھا۔ قبیلہ کندہ کا بھی اس سلسلے میں ذکر آتا ہے، لیکن یہ کوئی عام روش نہ تھی۔ قاضی ابو محمد کہتے ہیں:
کان جمہور العرب لا یفعلہ۔۔۔ (عام عرب یہ نہیں کرتے تھے)
اسلام نے عورت کو حقِ حیات عطا کیا!
اسلام نے شروع ہی سے ’قتلِ اولاد‘ کو ایک اہم موضوع بنایا اور اس کے خلاف آواز بلند کی۔ اس کے نزدیک کسی ایک بے گناہ کا قتل نوعِ انسانی کا قتل ہے۔ اس کی بدترین صورت یہ ہے کہ انسان اپنی معصوم اولاد اور جگر گوشوں کو قتل کر دے۔ اس دنیا میں ہر انسان جو پیدا ہوتا ہے حق زیست لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اسے لازماً یہ حق ملنا چاہیے۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ ماں باپ کا دست شفقت جلّاد کا ہاتھ ثابت ہو، وہ اپنے جگر گوشوں کا حقِ حیات سلب کر لیں اور انہیں موت کی نیند سلا دیں۔
قتلِ اولاد کے محرکات
قتل اولاد کے مختلف محرکات تھے۔ بڑا محرک تو غربت و افلاس یا اس کا اندیشہ تھا۔ خاص لڑکیوں کو ختم کرنے کے کچھ اور اسباب بھی تھے۔
قبائل عرب کے درمیان جنگ عام تھی۔ کسی بھی وقت کوئی قبیلہ دوسرے پر حملہ کر دیتا۔ وہ سوچتے تھے کہ عورتیں اپنا دفاع نہیں کر سکتیں، وہ آسانی سے گرفتار ہو جائیں گی اور باندی بنا لی جائیں گی۔ اس سے بہتر ہے کہ ان کا وجود نہ رہے۔
یہ غلط عقیدہ بھی ان میں تھا کہ فرشتے، اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ اگر ہم اپنی لڑکیوں کو ختم کریں گے تو وہ ان ہی سے مل جائیں گی۔ اس لیے یہ کوئی غلط عمل نہیں ہے۔
وہ اسے اپنی توہین سمجھتے تھے کہ ان کی لڑکی دوسرے قبیلہ کے کسی فرد کے نکاح میں جائے اور ان پر اس قبیلہ کی برتری قائم ہو جائے۔
لڑکوں کے سلسلے میں یہ بھی ہوتا تھا کہ کبھی ایک شخص نذر مان لیتا کہ اگر مجھے اتنے لڑکے ہوں گے تو ایک لڑکے کو قربان کر دوں گا۔ مشہور واقعہ ہے کہ رسول اللہﷺ کے جدامجد عبدالمطلب نے نذر مانی تھی کہ اگر ان کے دس لڑکے ہوں گے اور وہ ان کی دفاع اور حمایت کے قابل ہو جائیں گے تو ان میں سے ایک کو اللہ کی راہ میں کعبہ کے پاس قربان کردیں گے۔ جب سب بچے اس عمر کو پہنچے تو انہوں نے اپنی نذر پوری کرنے کا ارادہ کیا۔ بچے بھی تیار ہو گئے۔ اس کے لیے قرعہ اندازی ہوئی تو رسول اللہﷺ کے والد ماجد عبداللہ کا نام نکلا۔ عبدالمطلب نے ان کی قربانی کا ارادہ کیا تو قریش نے منت سماجت کی کہ وہ اس اقدام سے باز آجائیں۔ پھر ایک کاہن کے مشورے سے فدیہ میں سو اونٹ ذبح کیے اور عبداللہ کی قربانی کے ارادے سے باز رہے۔
قرآن نے محرکاتِ قتل کی تردید کی!
اس طرح قتلِ اولاد کے پیچھے مختلف سماجی، معاشی، اور مذہبی محرکات تھے۔ قرآن مجید نے اس کے ایک ایک پہلو پر تنقید کی، ان کے اوہام و خرافات کی تردید کی اور ان کی نامعقولیت واضح کی، غلط تصورات کی اصلاح کی اور صحیح تصور پیش کیا۔
مشرکین عرب کے فکر و عمل پر شرک کا جس طرح غلبہ تھا اس کا سورۂ انعام میں تفصیل سے ذکر ہے۔ اسی سلسلے میں فرمایا کہ وہ اپنی کھیتی باڑی اور مویشی میں ایک حصہ خدا کا اور ایک حصہ اپنے مزعومہ خدا کے شریکوں کا رکھتے ہیں۔ ان کے یہ شریک انہیں اتنے عزیز ہیں یا ان پر ان کا اتنا خوف طاری ہے کہ اللہ کا حصہ تو ان شریکوں کے حصے میں چلا جاتا ہے، لیکن شریکوں کا جو حصہ ہے وہ اللہ کے حصہ میں کبھی شامل نہیں ہو پاتا۔ اس کے بعد فرمایا:
وَ کَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ اَوْلَادِہِمْ شُرَکَآؤُہُمْ لِیُرْدُوْہُمْ وَ لِیَلْبِسُوْا عَلَیْہِمْ دِیْنَہُمْط وَ لَوْ شَآئَ اﷲُ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَo
(اسی طرح بہت سے مشرکین کو خدا کے ساتھ ان کے ٹھہرائے ہوئے شریکوں نے ان کی اولاد کے قتل کو آراستہ کر دیا ہے، تاکہ ان کو ہلاک کر دیں اور ان کے دین کو ان کے لیے خلط ملط کر دیں۔ اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو وہ ایسا نہ کرتے۔ چھوڑو ان کو اور ان کی افترا پردازیوں کو۔۔۔ الانعام:۱۳۷)
آیت میں کَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ (بہت سے مشرکین) کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سے مراد وہ مشرکین ہیں جو قتلِ اولاد کا ارتکاب کر رہے تھے۔ ان کی ایک بڑی تعداد تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عرب کی اکثریت اس میں ملوث تھی۔
آیت سے قتلِ اولاد سے متعلق بعض باتیں معلوم ہوتی ہیں:
۱۔ مشرکین نے خدا کا جن کو شریک قرار دے رکھا تھا انہوں نے قتل اولاد کو ان کے لیے مزین کر دیا تھا۔ ایک غلط اور بھیانک عمل کو اس طرح آراستہ کر دیا تھا کہ وہ اس کی قباحت اور سنگینی کو محسوس نہیں کرتے تھے، بلکہ بعض اوقات وہ اسے ایک پسندیدہ فعل سمجھتے تھے۔
۲۔ شرکا سے مراد کون ہیں؟ یہ وہ شیاطین ہیں جو غلط اور فاسد خیالات ذہنوں میں ڈالتے رہتے ہیں اور انسان شعوری یا غیر شعوری طور پر ان کو اپنا لیتا ہے۔ اس میں وہ مذہبی راہنما، پروہت اور پادری بھی ہیں جو کسی غلط کام کو مذہبی رنگ دیتے ہیں اور ان کے معتقدین اسے مذہبی عمل سمجھ کر اختیار کر لیتے ہیں۔ ان میں گمراہ لیڈر اور رہنما بھی آتے ہیںجو مختلف حکمتیں بتا کر قتلِ اولاد کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ساری باتیں اس میں شامل ہیں۔
۳۔ تیسری بات یہ کہی گئی لِیُرْدُوْہُمْ (تاکہ انہیں ہلاک کر دیں) اس کے ذریعہ یہ حقیقت واضح کی گئی کہ قتلِ اولاد ہلاکت اور تباہی کا راستہ ہے۔ جو فرد یہ راہ اختیار کرتا ہے وہ نسل کشی کا ارتکاب کرتا اور اپنے ہی دست و بازو قطع کرتا ہے۔ جو قوم اس پر عمل کرتی ہے وہ اپنی افرادی قوت کو ختم کرتی چلی جاتی ہے اور بالآخر تباہ ہو کر رہتی ہے۔ اسی ہلاکت کا راستہ شیاطینِ جن و انس ان کو دکھا رہے ہیں۔ قتل اولاد کے جرم ہونے کا احساس توشاید کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے، لیکن قرآن مجید نے اس جرم کی شناعت اور اس کے نتائج بد سے دنیا کو سب سے پہلے اس تفصیل سے آگاہ کیا۔ تاریخ اس کی تصدیق کر رہی ہے۔ آج اس کی وجہ سے خاندان برباد ہو رہے ہیں۔ قومیں افرادی طاقت سے محروم ہو رہی ہیں۔ یہ تو دنیا کی تباہی ہے۔ آخرت کی بربادی اور وہاں کا نقصان اس سے زیادہ ہوگا۔
اس سلسلے کی چوتھی بات یہ کہی گئی وَ لِیَلْبِسُوْا عَلَیْہِمْ دِیْنَہُمْ (تاکہ ان کے دین کو ان پر مشتبہ کر دیں) اہلِ عرب کا دین اصلاً حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کا دین تھا۔ یہ شرک اور قتلِ اولاد جیسے ظلم سے پاک تھا، لیکن شیاطینِ جن و انس نے اس میں توحید کی جگہ شرک کو داخل کر دیا اور اولاد سے شفقت و ہمدردی کی جگہ ان کے قتل کی راہ دکھائی۔ یہ اسی راہ پر چل رہے ہیں۔ یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مہلت دے رکھی ہے۔ دین کے نام پر وہ جو افتراپردازی کر رہے ہیں وہ توجہ کے قابل نہیں ہے۔
اسی ذیل میں دو آیات کے بعد ارشاد ہوا:
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَہُمْ سَفَہًام بِغَیْرِ عِلْمٍ
(بے شک خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو حماقت میں بغیر کسی علم کے قتل کیا۔۔۔ الانعام:۱۴۰)
یہ اس بات کا اظہار و اعلان ہے کہ ’قتلِ اولاد‘ کسی بھی محرک کے تحت ہو، خسارے اور نقصان کا عمل ہے۔ یہ سراسر جہالت اور جاہلیت کا مظاہرہ ہے۔ اس کی کوئی معقول توجیہ نہیں کی جاسکتی، اس کے لیے کوئی علمی، دینی، اخلاقی اور سماجی جواز فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔
دختر کشی کی ممانعت
’قتل اولاد‘ سے یہاں خاص طور پر دختر کشی مراد ہے۔ اس لیے کہ زیادہ تر اسی کا ارتکاب ہوتا ہے۔ لڑکے کی جان لی جائے یا لڑکی کی، وہ قتل اولاد ہے۔ اسلام دونوں میں فرق نہیں کرتا۔
دختر کشی کے خلاف اسلام نے پوری شدت سے آواز بلند کی اور کہا کہ لڑکی کو حقِ زیست حاصل ہے۔ وہ زندہ رہے گی۔ جو کوئی اس کے اس حق پر دست درازی کرے گا، قیامت کے روز اس کی باز پرس سے بچ نہ سکے گا۔
وَ اِذَا الْمَوْؤُودَۃُ سُئِلَتْo بِاَیِّ ذَنبٍ قُتِلَتْo
(اور جب زندہ درگور کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ کس گناہ میں وہ ماری گئی۔۔۔ التکویر:۸۔۹)
یہ سوال بظاہر اس سنگ دل باپ اور شقی القلب ماں سے ہونا چاہیے جنہوں نے ایک معصوم بچی کو اپنے ہاتھوں سے زیر زمین دفن کیا تھا۔ اس کی جگہ اس بچی ہی سے پوچھا جارہا ہے کہ تم نے کیا جرم کیا تھا کہ تمہیں یہ ہولناک سزا دی گئی۔ وہ جب بتائے گی کہ اس کی آنکھیں کھلی بھی نہ تھیں کہ بند کر دی گئیں اور دنیا کو جی بھر کر دیکھنے سے پہلے ہی اسے ختم کر دیا گیا تو ظالم ماں باپ کی زبانوں پر تالے لگ جائیں گے اور وہ اپنے ظلم کی کوئی توجیہ نہ کر سکیں گے۔
آیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ مکہ کے ابتدائی دَور میں نازل ہوئی۔ اس وقت مسلمان تھوڑی سی تعداد میں تھے، جو انگلیوں پر شمار کیے جاسکتے ہیں۔ یہ ان کا کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا کہ ان کے درمیان اس بربریت کا مظاہرہ ہو رہا ہو، بلکہ یہ عرب کے بعض قبائل کا مسئلہ تھا، لیکن اس کے باوجود قرآن نے اس مسئلہ کو پورے زور سے اٹھایا اور اپنے ماننے والوں کو دعوت دی کہ وہ اس کے خلاف کھڑے ہوں۔ اسلام ہر طرح کے ظلم کے خلاف ہے۔ وہ کسی بھی فرد یا جماعت پر ظلم کو برداشت نہیں کرتا اور اسے ختم کرنا چاہتا ہے۔
معاشی محرک اور اس کا سدِّباب
قتل اولاد، خاص طور پر لڑکیوں کے قتل کے محرکات میں ایک بڑا محرک غربت اور افلاس بھی تھا۔ اہل عرب سمجھتے تھے کہ لڑکی حصول معاش میں تو کچھ زیادہ معاون نہیں ہوتی، بلکہ بوجھ ہی بنی رہتی ہے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس کی وجہ سے ان کے احتیاج اور تنگ دستی میں مزید اضافہ ہو۔ فقر و فاقہ نہ بھی ہو تو محض اندیشۂ فقر سے وہ یہ بھیانک اقدام کر بیٹھتے تھے۔
قرآن نے کہا کہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جو مخلوق پیدا ہوتی ہے وہ اپنا رزق لے کر آتی ہے، کسی دوسرے کا رزق نہیں کھاتی، اس لیے یہ نہ سمجھو کہ تمہاری اولاد تمہارا رزق تم سے چھین رہی ہے، وہ نہ ہوگی تو تم آسودہ رہو گے:
’’اپنی اولاد کو افلاس کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ بے شک ان کا قتل ایک بڑی غلطی ہے‘‘۔ (الاسراء: ۳۱)
یہ بات صاحب حیثیت افراد سے کہی گئی جو اولاد کی پیدائش کی وجہ سے معاشی تنگی کے خدشات میں مبتلا ہوتے ہیں۔ غریبوں اور ناداروں کو بھی اس سے منع کیا گیا۔
’’افلاس کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیں گے اور انہیں بھی‘‘۔ (الانعام: ۱۵۱)
مطلب یہ کہ فقر و فاقہ کی وجہ سے قتل اولاد جیسے بھیانک جرم کا ارتکاب نہ کرو۔ اس سے تم پر رزق کے دروازے نہیں کھل جائیں گے۔ اللہ روزی رساں ہے۔ یقین رکھو وہ تمہیں بھی بھوکا نہیں رکھے گا اور تمہاری اولاد کو بھی کھلائے گا۔ رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا کہ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:
’’تم اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کردو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گی‘‘۔ (بخاری، کتاب التفسیر)
یہاں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ قرآن نے تلاش معاش کا بھی حکم دیا ہے۔ اسے جاری رکھنا بہت بڑا کارِثواب ہے۔ اس سے رزق کی راہیں کھلتی ہیں۔
رسول اللہﷺ نے اس مظلوم اور نازک صنف کی حمایت میں جو آواز بلند کی، جو ہدایات اور تعلیمات دیں آج تک کوئی بھی مدعی حقوق نسواں ان سے زیادہ صحیح اور حقیقی تعلیمات نہ پیش کر سکا۔ آپ نے فرمایا کہ ماں کی نافرمانی اور زندہ لڑکیوں کو زیر زمین کر دینا غیر اخلاقی حرکت ہی نہیں، ایک فعلِ حرام کا ارتکاب ہے، ارشاد ہے:
’’اللہ نے حرام کی ہے تم پر مائوں کی نافرمانی، ادائے حقوق سے ہاتھ روکنا اور ہر طرف سے مال بٹورنا اور لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا‘‘۔ (بخاری، کتاب الادب)
لڑکیوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر جنت کی بشارت
رسول اللہﷺ نے لڑکیوں کو زندہ رہنے کا حق ہی نہیں دیا، ان سے محبت، ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ کیا، اس کی فضیلت بیان کی، اس پر جنت کی بشارت دی، لڑکے اور لڑکی کے درمیان برتائو میں فرق کو ناپسندیدہ اور غلط قرار دیا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جس شخص کے لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے، اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک نہ کرے اور اس پر اپنے لڑکوں کو ترجیح نہ دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا‘‘۔ (ابودائود، کتاب الادب)
حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص دو لڑکیوں کی پرورش کرے جنت میں آپ کی رفاقت اسے حاصل ہوگی۔
’’جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی، یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو میں اور وہ (انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) اس طرح جنت میں داخل ہوں گے‘‘۔
حدیث کے آخری جملہ میں رسول اللہﷺ نے ایک بہت بڑی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ وہ یہ کہ ظلم کی عمر ویسے بھی مختصر ہوتی ہے، لیکن ظلم کے تیر جن کے ہدف اپنے ہی جگر گوشے ہوں، ظالم کو زیادہ مہلت نہیں دیتے۔ وہ جلد اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ (۔۔۔ جاری ہے!)
(بشکریہ: سہ ماہی ’’تحقیقاتِ اسلامی‘‘ نئی دہلی۔ جنوری تا مارچ ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply