
جنگِ عظیم اول کے بعد جب یورپ کی صنعتی ترقی نے نئے نئے اسلحے ایجاد کرکے پورے براعظم کو کھنڈر بنایا ہوا تھا او ریورپی ریاستیں اپنے زخم چاٹتے ہوئے دوبارہ صنعتوں کا پہیہ پورے زوروشور سے گھمانا چاہتی تھیں تو ان کے سامنے افرادی قوت کا مسئلہ لاینحل بنا ہوا تھا۔ مردوں کو تو یورپ کی سورما طاقتوں نے ٹھکانے لگایا ہوا تھا۔
بوڑھوں‘ بچوں اور عورتوں میں سے عورتوں کو منتخب کیا گیا کہ اب کارخانوں کا بازو بنیں اور تاجرانہ ذہنیت کے حامل یورپیوں کی جھولیاں بھریں۔ چنانچہ چاکری کے اس جال میں پھانسنے کے لیے عورتوں کی زبوں حالی‘ کسمپرسی اور بے زبانی کو خوب خوب اُچھالا گیا جو یورپی عورت ہزاروں سال سے اپنے یہاں کے جابرانہ رسم و رواج اور غیرمنصفانہ قوانین کے سبب سے بھگت رہی تھی۔ اس تقابل میں عورتوں کو وہ چند چمکدار سکے بھی دکھائے گئے جو وہ گھر کی جھوٹی سچی پناہ گاہ سے نکل کر کارخانوں کے سنگدلانہ ماحول سے کماکر لائیں گی۔ ان چند سکوں کو اقتصادی آزادی کا روپ دیاگیایعنی اب مرد کی کفالت کی احتیاج سے نکل کر یورپ میں عورت معاشی اعتبار سے اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر جو چاہے گی پہنے گی‘ جو چاہے گی کھائے گی اور جو چاہے گی خرچ کرے گی۔
یورپ کی سنگدل حکومتوں نے ۱۹۲۰ء میں ان مظلوم عورتوں میں شراکت اور ملک کے نظم و نسق میں حصہ دار ثابت کرنے کے لیے ووٹ کا حقدار بنادیا۔ عورت خوش ہوگئی کہ اب پیسہ بھی کما کر لائے گی اور حکمران بھی اپنی رائے سے چنے گی۔ عورت کو خوش کرنے کے لیے اس کو اسکول کالج میں تعلیم کی سہولتیں دی گئیں اور ساتھ ساتھ تفریح گاہوں اور سمندر کے ساحلوں اور کھیل کے میدانوں میں نیم عریاں گھومنے کی بھی چھوٹ دی گئی۔ ان سارے سلسلوں کو وقار بخشنے کے لیے تحریکِ آزادیٔ نسواں یعنی Womens Lib کو بڑے طمطراق سے آگے بڑھایا گیا۔ بے چاری مظلوم عورت اس دفعہ یورپ کے شاطروں کے ہاتھوں جو کچھ ٹوٹا مارا اس کے پاس پہلے تھا‘ وہ بھی کھو بیٹھی۔ چند جھوٹی عظمتیں اور کھوٹی لقلقے کی باتیں آج اس کا کُل سرمایہ ہیں۔ پچھلے ۵۰‘۶۰ برسوں میں تحریکِ آزادیٔ نسواں مغرب میں جس رخ پر پلی بڑھی اور جو اہداف اس نے اپنائے، وہ کچھ اس طرح بیان کیے جاسکتے ہیں:
☼ جسمانی اور جنسی فرق سے بے پروائی برتتے ہوئے مردوں سے مکمل برابری۔
☼ طبقاتی نظام کا خاتمہ اس لیے کہ عورتوں پر ظلم اور ان کا استحصال دنیا میں موجود سیاسی اور اقتصادی نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔
☼ خاندان کی سربراہی مرد کے ہاتھوں سے چھین لینا کیونکہ فیملی میں عورت کی محکومی کی اصل وجہ یہی ہے۔ اس میں مضمر یہ نکتہ ہے کہ خاندان کی سربراہی عورت کے سپرد کی جائے جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ آغاز میں قربتوں کا یہی نظام رائج تھا۔
مگر مشکل یہ ہوئی کہ مغرب میں عورت برابری کی جنگ میں اس وقت گِھر گئی جب وہ اپنے اصل مقاصد یعنی اپنے سیاسی‘ اقتصادی اور قانونی حقوق کی بازیابی کو چھوڑ کر Unisex کے فلسفے کی چمپئن بن گئی۔ جنسی فرق کو بھلاکر اور غلبے سے بھاگ کر برابری اور مساوات کے راگ الاپ کر مغربی عورت نے اپنے لیے مضحکہ خیز رول منتخب کرلیا۔
سب سے پہلا بھرپور وار اس تحریک کا فیملی پر پڑا جس کی جڑیں تک ہل گئیں۔ Desexکتابیں‘ کھلونے وغیرہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ایک ہی قسم کے اختراع کیے گئے تاکہ دونوں کو تعلیم اور ذہنی نشوونما میں برابر کے مواقع ملیں لیکن اس عمل نے بچوں کے لیے پریشان کن نفسیاتی مسائل پیدا کر دیے‘ ان میں کنفیوژن پیدا ہوا اور بڑے ہوکر معاشرے میں اپنا صحیح مقام تلاش کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔
خود عورتوں کے لیے تازہ بہ تازہ مسائل پیدا ہوئے۔ ان کے ساتھ نفسیاتی اور جسمانی سختیاں اور زیادتیاں‘ فحش لٹریچر اور فلم‘ اشتہارات اور بیوی پر تشدد کی صورت میں یورپ کے معاشرے میں ہر سطح اور ہر طبقے میں پھیل گئی۔ عورتوں پر مغرب میں تشدد کی جو لہر آئی ہوئی ہے اس کی بھی وجہ یہی برابری کی تمنا ہے۔ معاشرتی حالات بعض مردوں کو اس نہج پر لے آئے ہیں کہ وہ عورتوں پر تشدد کرنے میں لذت محسوس کرتے ہیں۔ یہ حال گھر کے اندر اور گھر کے باہر، ہر جگہ دکھائی دیتا ہے۔
بے راہ روی میں عورتوں‘ بچوں‘ کم عمر لڑکے لڑکیوں کے ملوث ہونے کے بارے میں جتنا کم کہا جائے اور کم سنا جائے، بہتر ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ہر سال ۶۰ ہزار بچے زیادتیوں اور سختیوں کی بنا پر مرجاتے ہیں، ان میں سے آدھی تعداد جنسی اور جسمانی تشدد کی وجہ سے مرتے ہیں اور باقی آدھے بے اعتنائی اور کم خوراکی کی وجہ سے۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں ۱۸ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ہرتین میں سے ایک لڑکی بے راہ روی کا شکار ہوچکی ہوتی ہے۔
مغربی معاشروں کے یہ کچھ حقائق ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیشرفت نے عورت مرد کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں ڈالا‘ بجز اس کے کہ اس ٹیکنالوجی کی سہولتوں نے عورت کے استحصال اور اس کی کنیزی کو مزید سہل بنادیا ہے۔
بیشک آج مغرب کی عورت کی تصویر اس کے ساتھ ہمدردی کی متقاضی ہے مگر اپنے حقیقی مسائل کو چھوڑ کر جس طرح برابری اور مساوات کے سراب کے پیچھے مغرب کی عورت دوڑ رہی ہے‘ وہ اس کے لیے نت نئے مسائل تو پیدا کررہا ہے مگر حل کے قریب نہیں لاپارہا۔
ہمارے یہاں ایشیا میں دوسرے مسائل کے حل کے لیے جس طرح ہم یورپ سے نسخے مستعار لے کر آتے ہیں‘ اسی طرح عورتوں سے ناانصافیوں کا حل بھی یورپ کی حقوقِ نسواں کی تحریک سے ادھار لے کر اپنے یہاں لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہم بھول جاتے ہیں کہ مغرب نے آج تک ہمارے کسی بھی مسئلے‘ تعلیمی اقتصادی‘ سیاسی کاحل نہیں پیش کیا۔ ہمارے سارے مسائل جوں کے توں ہیں بلکہ روز بروز ہمارے ملکوں میں یہ مسائل ترقی پذیر ہیں۔ پھر یہ حقوقِ نسواں کے مسئلہ کا حل مغرب کہاں سے پیش کرسکے گا جو اس بارے میں خود تہی دامن ہے۔ اصل میں ہماری روزمرہ کی زندگی میں گوناگوں ناانصافیاں ہیں۔ نہ صرف عورتوں کے ساتھ ناانصافیاں ہمہ وقت اور ہمہ جہت ہیں بلکہ مردوں کے درمیان بھی ناانصافیوں کا بازار گرم ہے۔ یہ انصاف۔۔۔ عدل و قسط۔۔۔ اسلام نے مہیا کیا ہوا ہے۔ہم ان کی طرف متوجہ تو ہوں۔
یہ صرف عورتوں کا نہیں پورے معاشرے کا یکساں معاملہ اور مسئلہ ہے۔ اسلام نے تو عورتوں کو ملکیت وراثت ‘ مہر ‘ اخلاق و غیرہ کے حقوق دیئے ہوئے ہیں۔ ماں‘ بیوی ‘ بیٹی کے رشتے بھی مقدس سمجھے جاتے ہیں۔ معمر عورتوں کی تکریم بھی ہوتی ہے ان کو شریعت نے جوکچھ دیا ہے اس کو بے چون و چرا اور بغیرناانصافی برتے‘ دے دیا جائے تو ہمارے یہاں مرد و عورت میں مفاہمت اور قربت یقینی طور پر پائی جائے گی اور یورپ کی طرح محاذ آرائی ہرگز نظر نہیں آئے گی۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’طاہرہ‘‘ کراچی۔ شمارہ: اکتوبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply