
دنیا بھر میں ۸ مارچ ۲۰۱۶ء کو ’’خواتین کا عالمی‘‘ دن منایا گیا۔ اس موقع پر خواتین نے مضامین لکھے، دستاویزی لیکچر دیے اور اجلاسوں کا انعقاد کیا گیا۔ جن میں خواتین کی ترقی کو اجاگر کیا گیا، نئے اہداف مقرر کیے گئے اور ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا۔ ۷مارچ کو بھارتی خواتین ہوابازوں نے ائیرانڈیا کا ایک طیارہ دہلی سے سان فرانسسکو تک اڑایا۔ انہوں نے سترہ گھنٹے تک پرواز کی۔ اس طیارے کا تمام عملہ خواتین پر مشتمل تھا۔ اس سے پہلے تین مسلم خواتین نے ائیر برونائی کا ایک طیارہ دارالسلام سے جدّہ تک اڑایا تھا۔
سعودی عرب میں بھی شہید شاہ فیصل کے دورِ حکومت میں بچیوں کی تعلیم کے لیے اداروں کے قیام اور مرحوم شاہ عبداللہ کے دور میں شوریٰ کونسل میں خواتین کی شمولیت کے بعد سے ان کی ترقی کا عمل دوچند ہوا ہے۔ حال ہی میں بلدیاتی انتخابات میں خواتین کی شرکت اور ان کا منتخب ہونا اس بات کا مظہر ہے کہ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز خواتین کو سعودی معاشرے میں ان کا جائز مقام دلانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے۔
جو معاشرہ اپنی نصف آبادی کی کاروبار زندگی میں فعال شرکت کو نظرانداز کر دیتا ہے،ناکامی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔جیسا کہ حال ہی میں ہلیری کلنٹن نے کہا ہے: ’’خواتین اور لڑکیوں کو آگے بڑھنے کے مواقع دینے سے معیشتیں پروان چڑھتی ہیں اور اقوام محفوظ ہوتی ہیں۔ یہ کرنے کی ایک اسمارٹ چیز ہے‘‘۔ وہ اس سے زیادہ درست نہیں ہوسکتی تھیں۔
۱۹۹۰ء کی دہائی میں ایک وقت میں چار مسلم خواتین اپنے اپنے ملکوں کی وزرائے اعظم اور صدور تھیں: ترکی میں تانسو چلر، پاکستان میں بے نظیر بھٹو اور بنگلادیش میں خالدہ ضیا۔ ان کے تھوڑے عرصے کے بعد انڈونیشیا میں میگاوتی سوئیکارنو پتری صدر منتخب ہوئی تھیں۔ یہ تمام خواتین قدامت پسند مسلم اکثریتی ممالک میں ووٹوں کے ذریعے منتخب ہوئی تھیں۔
خواتین کو اپنی بہنوں کی ترقی اور آگے بڑھنے کے لیے ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور مدد کرنی چاہیے۔ مردوں کو بھی اپنی بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں کو تعمیری زندگیاں گزارنے کے لیے مواقع مہیا کرنے چاہییں۔ یہی ہمارے ملک کی کامیابی اور ترقی کی کلید ہوگی۔
(بحوالہ: ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘۔ ۱۳؍مارچ ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply