
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل زندگی شاندار نمونہ اور بہترین اسوہ ہے۔ آپ نے جہاں خواتین کو معاشرے میں باعزت زندگی اور اعلیٰ مقام عطا کیا۔ خواتین کو ہر قسم کے ان تمام بے بنیاد الزامات و اتہامات سے بَری قرار دیا اور طنز و تشنیع کا نشانہ بننے سے ان کا تحفظ کیا جو مختلف معاشروں، سوسائٹیوں اور اقوام میں ان کی تحقیر و تذلیل، رسوائی اور حقوق سے محرومی کا سبب بن رہے تھے یا آج تک بنتے چلے آرہے ہیں۔ بیوگی اور طلاق کی صورت میں بے بسی و بے کسی کی زندگی گزارنے کے مسائل سے بھی ان کی حفاظت کی۔ اس کے ساتھ ہی یتیم کی شکل میں بے سہارا ہونے والے ان کے بچوں کی بھی سرپرستی کی تدبیر فرمائی۔
قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اے لوگو! اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا کہ اس سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پھیلائے۔ اور اس اللہ سے ڈرو جس کا حوالہ دے کر تم دوسروں سے اپنے حقوق کا سوال کیا کرتے ہو۔ اللہ تم پر نظر رکھے ہوئے ہے اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور طیب مالوں سے خبیثوں کو نہ بدلو اور نہ ان کے مالوں کو اپنے مالوں کے ساتھ ملا کر کھاؤ کہ یہ بہت بُرا ہے۔ اور اگر تمہیں یہ اندیشہ ہے کہ یتیموں کے معاملات میں عدل و انصاف کی راہ اختیار نہ کرسکو گے، تو جو عورتیں تمہیں اچھی لگیں دو۔ دو، تین۔ تین، چار۔ چار سے نکاح کر لو اور اگر یہ خطرہ ہو کہ عورتوں کے درمیان عدل و انصاف سے کام نہ لے سکو گے تو پھر ایک ہی پر اکتفا کرو‘‘۔ (النساء: ۱۔۲)
یہ وہ آیتیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء کا آغاز فرمایا، جس میں کہ عورت کے مسائل تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ پہلی آیت مسلمانوں کے ہر رشتۂ ازدواج کے انعقاد کے وقت تمام موجود لوگوں کو سنا کر ان کو بار بار عورتوں کے حقوق کے معاملے میں اپنی ذمہ داریاں یاد رکھنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ خواتین کے بیوہ ہو جانے یا طلاق واقع ہو جانے کی صورت میں ان کے ساتھ ان کے بچے بھی بے سہارا ہو جاتے ہیں، اگرچہ یتیمی کی صورت میں باپ کی طرف سے بچوں کو وراثت کا حق ملتا ہے لیکن باپ کی سرپرستی سے محرومی کے نتیجے میں وہ بے بسی و بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں بسا اوقات ان کے دوسرے اولیاء بھی ان کے اموال میں دست درازی اور حق تلفی کرنے لگتے ہیں۔ طلاق کی صورت میں بھی سوتیلی ماں کے آنے پر خود باپ عموماً اپنی اولاد کو اس شفقت سے محروم کر دیتے ہیں جو ان کی حقیقی ماں کی موجودگی میں دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان بے بس و بے کس بچوں کو ان کے جائز حقوق دینے کا حکم فرمایا، اور ان کے اموال کو ناجائز طریقوں سے نہ کھانے کی تاکید فرمائی۔ ساتھ ہی ان کے اولیا کے لیے اس مسئلے کے مشکل ہونے کی صورت میں کہ وہ کس طرح اپنے اور ان کے اموال اور سامان اور اسباب کا ہر وقت حساب رکھیں اور خبیث سے طیب کو بدلنے سے بچنے کی کوشش کریں، یہ راہ بھی سجھا دی کہ اگر ان کے سامان اور مال و اسباب کو الگ رکھنا مشکل ہو تو ان کی ماؤں سے نکاح کرلو۔ اس طرح وہ بچے خود تمہارے بچوں کے درجے میں آجائیں گے اور ان کی ماں کے ساتھ مل کر ان کے حقوق کی ادائیگی، پرورش، تعلیم و تربیت تمہارے لیے آسان ہو جائے گی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس امر کی تاکید فرمائی اور عملی نمونہ پیش کیا کہ کوئی عورت بیوہ ہو جائے کہ اس کا شوہر انتقال کر جائے اور اپنے پیچھے یتیم بچے چھوڑ جائے یا کوئی مرد طلاق دے دے تو ایسی عورتوں کی دلجوئی کریں، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھیں، ان سے نکاح کرلیں اور ان کے بچوں کی پرورش کریں۔ ایسا نہ ہو کہ عورت یا اس کے بچے سماج میں بے سہارا رہ جائیں۔ افلاس کا شکار اور پریشانیوں کا نشانہ بن جائیں۔ بچے اپنی پریشان ماں کے لیے بوجھ اور وبال جان بن کر نہ رہ جائیں۔
خود رسول کریمؐ نے کئی مطلقہ اور بیوہ خواتین سے نکاح کیے اور ان بے سہارا خواتین کا سہارا بننے کے ساتھ دینِ اسلام کی تبلیغ و دعوت کے کاموں میں مدد لی کہ خاندانوں اور قبیلوں کے درمیان محبت اور تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے رشتہ داری قائم کرنے میں یہ بہت مفید عمل ہے۔ اس سے قوموں کے درمیان روابط و تعلقات میں خوشگواری کا ماحول پیدا ہوتا ہے اور دل جوئی سے ایک دوسرے کے دل موہ لینے کا موقع ملتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا پہلا نکاح اس وقت کیا تھا جب آپ کی عمر مبارک ۲۵ سال اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی، یعنی حضرت خدیجہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں ۱۵؍سال بڑی تھیں۔ وہ آپؐ سے پہلے کئی بچوں کی ماں بن چکی تھیں اور یکے بعد دیگرے دو شوہروں سے نکاح کر چکی تھیں اور دونوں کی موت کی وجہ سے دو بار بیوہ ہو چکی تھیں۔ آپؐ نے زندگی کا بڑا حصہ (۲۵ سال) اکیلے انہی کے ساتھ گزارا، حتیٰ کہ عام الحزن یعنی نبوت ملنے کے دسویں سال میں حضرت خدیجہؓ نے ۶۵ سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔ اس وقت ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبارک ۵۰ سال ہو چکی تھی۔
حضورؐ نے ۵۵ سال سے ۵۹ سال کی عمر یعنی بڑھاپے کے زمانے میں پانچ برسوں میں دس نکاح فرمائے۔ ان بیویوں میں بھی صرف ایک حضرت عائشہؓ کے علاوہ سب مطلقہ اور بیوہ تھیں، بعض تو کئی کئی بار کی مطلقہ اور بیوہ تھیں۔ ان تمام نکاحوں کی بنیاد اسلام کا فروغ، بہترین ملکی و ملی مصالح اور مسلمانوں کے لیے مقاصد حسنہ پر تھیں۔
حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کے نکاح سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی کی ایک ایک بات امت کے سامنے آگئی اور اندرونِ خانہ کی زندگی سے متعلق اسلام کی تعلیمات دنیا کو معلوم ہو گئیں۔ خاص طور سے عورتوں سے متعلق اسلامی تعلیمات کا بیشتر حصہ ان ہی دونوں امہات المومنین کے واسطے سے سامنے آیا اور پھر انہوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کی خلافتوں کو زیادہ بابرکت و پرمنفعت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ دونوں ہی حضور کے بڑے گہرے دوست اور دائیں بائیں بازو تھے۔ حضورؐ نے ان کی بیٹیوں کے گھر بسا کر ان کی دلجوئی کی۔
حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا پہلے سکران بن عمرو بن عبدود کے نکاح میں تھیں، یہ السابقون الاولون میں سے تھیں۔ پہلے خود مشرف بہ اسلام ہوئیں پھر ان کی ترغیب سے حضرت سکران نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ انہوں نے خاوند کے ساتھ مع اپنی والدہ کے حبشہ کی ہجرت کی تھی۔ حضرت سکران کا حبش ہی میں انتقال ہو گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مسائل و مصائب ختم کرنے کے لیے ۱۰؍ نبوت میں حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد ان سے نکاح کر لیا۔ ام المساکین حضرت زینب بن خزیمہ کا پہلا نکاح طفیل سے اور دوسرا عبیدہ سے ہوا تھا۔ یہ دونوں ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی یعنی حارث بن عبدالمطلب کے فرزند تھے۔ حضرت زینب کا تیسرا نکاح عبداللہ بن حجش سے ہوا جو آنحضرت کے پھوپھی زاد تھے۔ وہ غزوۂ احد میں شہید ہو گئے تو حضرت زینب کی دلداری کے لیے ۳ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی نکاح کرلیا۔ وہ نکاح کے بعد صرف دو تین مہینے ہی زندہ رہیں۔
حضرت ام سلمہ بھی قدیم الاسلام تھیں ان کے پہلے شوہر حضرت ابوسلمہ صحیح روایات کے مطابق اسلام قبول کرنے والوں میں گیارہویں شخص تھے۔ پہلے حبشہ کی ہجرت کی، پھر مدینہ کی۔ ابوسلمہ اوّلاً غزوۂ بدر میں شریک ہوئے پھر غزوۂ بدر میں زخمی ہونے کے بعد جانبر نہ ہوسکے۔ انہوں نے جمادی الاخریٰ ۳ھ میں وفات پائی۔ چھوٹے چھوٹے بچے عمر، سلمہ، زینب اور وردہ چھوڑے۔ رسول اللہ نے ۴ھ میں ان سے نکاح کرکے ان کی بھی کفالت فرمائی۔
حضرت زینب بنت حجش کی والدہ امیمہ بنت عبدالمطلب ہمارے حضورؐ کی پھوپھی تھیں۔ حضرت زینب کا پہلا نکاح زید بن حارثہ کے ساتھ ہوا تھا جو حضرت خدیجہ کے غلام تھے۔ آپ نے انہیں آزاد کرکے منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔ حضورؐ نے پہلے تو رشتوں سے اونچ نیچ کا تصور ختم کرنے کی غرض سے اپنی پھوپھی زاد بہن کا نکاح کیا کہ اسلام میں آزاد اور غلام تک میں کوئی فرق نہیں ہے اور جب ان دونوں میں نباہ نہ ہوا اور ایک سال بعد طلاق ہو گئی تو آپ نے مطلقہ کی دلجوئی کے لیے ان سے نکاح کر لیا۔ ساتھ ہی دورِ جاہلیت کی ایک قدیم رسم کو بھی مٹا دیا کہ متبنیٰ (منہ بولا بیٹا) اصلی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ اور اس کی مطلقہ یا بیوہ سے اس کا منہ بولا باپ نکاح نہیں کرسکتا تھا۔
حضرت جویریہ بنت حارث قبیلہ بنی مصطلق کے سردار کی بیٹی تھیں۔ انہیں ۵ھ میں غزوۂ مرسمع میں ثابت بن قیس نے قیدی بنایا تھا۔ انہوں نے مکاتب کردیا کہ اگر تم اتنی رقم ادا کردو تو تم آزاد ہو۔ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اوراپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے ہوئے زرمکاتبت کی فراہمی کے لیے درخواست کی۔ آپ نے زرمکاتبت ادا کرنے کے بعد نکاح کی پیشکش کی۔ یہ اپنے قبیلے کے سردار کی بیٹی تھیں۔ پیغمبر اسلام کے ساتھ نکاح ان کے لیے بڑا اعزاز تھا۔ فوراً راضی ہو گئیں۔ لوگوں کو ان سے آپ کے نکاح کرلینے کی خبر ہوئی تو بنی مصطلق کے تمام قیدیوں کو جو سو سے زیادہ تھے، یہ کہتے ہوئے چھوڑ دیا کہ یہ حضور کے رشتہ دار ہوگئے ہیں۔ ام المومنین حضرت جویریہؓ کے خاندان نے بھی اس کے بعد مسلمانوں سے دشمنی ختم کردی۔ یہ نکاح شعبان ۵ ھ میں ہوا تھا۔
حضرت ام حبیبہ قریش کے سردار ابوسفیان کی بیٹی تھیں۔ وہ نہایت قدیم الاسلام تھیں۔ ان کا پہلا شوہر عبیداللہ بن حجش تھا۔ میاں اور بیوی دونوں نے حبش کی ہجرت کی تھی۔ عبیداللہ بَلا کا شراب نوش تھا، اس لیے عیسائیوں میں گھل مل جانے کے بعد عیسائی ہوگیا، مگر حضرت ام حبیبہ اسلام پر قائم رہیں۔ انہوں نے اسلام کی خاطر ماں باپ، بھائی، خاندان، اعزا و اقربا اور مکہ معظمہ وطن کو چھوڑا تھا، پردیس میں آکر خاوند کا سہارا بھی جاتا رہا۔ ہمارے رسولؐ کو معلوم ہوا تو عمرو بن امیہ القہیری کے ذریعے نجاشی کے پاس ایک خط بھیجا کہ ام حبیبہ کو حضورؐ کا شادی کا پیغام پہنچائیں۔ بادشاہ نے اپنی خاص لونڈی کو جو شاہی ملبوسات اور عطریات کی تحویل دار تھی، بھیجا۔ پیام ملتے ہی سجدہ شکر بجا لائیں اور اپنے جسم سے تمام زیور اتار کر لونڈی کو عطا کر دیے۔ نجاشی نے خود مجلس نکاح منعقد کی اور حضورؐ کے وکیل کی حیثیت سے چار سو دینار زر مہر نقد ادا کرکے نکاح کا خطبہ دیا۔ دوسری طرف ام حبیبہ کے وکیل خالد بن سعید نے خطبہ دیا۔ وکیل کی معرفت ۶ھ میں نکاح کا ایجاب و قبول ہوا۔ نجاشی نے یہ کہہ کر کہ انبیاء کی سنت یہ ہے کہ نکاح کے بعد کھانا (ولیمہ) ہوتا ہے تمام حاضرین کو کھانا کھلایا۔ حضورؐ کی طرف سے اس دلجوئی کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ اس کے بعد ابوسفیان مسلمانوں کے خلاف خود کسی جنگ میں مقابلے میں نہیں آیا۔
ام المومنین حضرت صفیہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں اور یہودیوں کے قبیلہ بنوقریظہ اور بنو نضیر کے سردار کی بیٹی تھیں۔ ان کا پہلا نکاح سلام بن شکم سے اور دوسرا کنانہ بن ابی الحقیق سے ہوا تھا۔ وہ جنگ خیبر میں مارا گیا اور حضرت صفیہ قید ہو گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا تو یہ مسلمان ہو گئیں۔ آپ نے نکاح کی پیشکش کی تو خوشی خوشی راضی ہو گئیں اور جمادی الاخریٰ ۷ھ میں نکاح ہو گیا۔ اس نکاح کے بعد بنو قریظہ اور بنو نضیر نے کبھی بھی مسلمانوں کے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیا۔
حضرت میمونہؓ کا پہلا نکاح حویطب بن عبدالعزیٰ سے اور دوسرا ابی رہم بن عبدالعزیٰ کے ساتھ ہوا تھا، جب حضور نے ۷ھ میں عمرہ فرمایا، اس وقت وہ بیوہ تھیں۔ حضورؐ نے نکاح فرما کر بیوگی کا غم دور کردیا۔ ان کی ضروریات زندگی کی تکمیل کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی اور ان کا سہارا بن گئے۔
جنگ احد میں ستر مسلمان شہید ہوئے، ان کی بیویاں بیوہ ہو گئیں اور ان کے بچے یتیم ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان یتیم بچوں کی کفالت کرو، ان کی کفالت کو اپنے اوپر فرض جانو۔ اگر ان کے حقوق ویسے ادا نہ کر سکو تو ان عورتوں سے نکاح کرلو جن کے ساتھ یتیم بچے ہیں۔ یہی تدبیر تھی کہ ہمارے رسول کے زمانے میں کوئی عورت مطلقہ ہو یا بیوہ یا کنواری، نکاح کے لیے پریشان نہ ہوتی تھی۔ اس زمانے میں دنیا کے کسی ملک میں بھی مردوں کی شادیوں کی کوئی حد نہ تھی، لوگ جتنی عورتوں سے چاہتے شادی کرلیتے تھے، بہت سے لوگ محض عیاشی کے لیے عورتیں گھروں میں ڈال لیتے تھے اور بعد میں ان کے حقوق ادا کرتے تھے، نہ ان کی خبر گیری کرتے تھے۔ شروع میں ہمارے رسولؐ نے بھی اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی لیکن آگے چل کر آپ نے اعلان کر دیا کہ ایک سے لے کر صرف چار تک عورتیں ایک وقت میں نکاح میں رکھ سکتے ہو اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ کسی بھی عورت یا اس کے بچوں کے ساتھ کوئی زیادتی یا ناانصافی نہ کرو گے، وگرنہ اپنے اوپر یہ بھروسا نہ ہو تو ایک سے آگے نہ بڑھنا۔ اس وقت جن مسلمانوں کے نکاح میں چار سے زیادہ عورتیں تھیں، انہوں نے چار سے زیادہ کو طلاق دے کر رخصت کر دیا کہ کسی اور کے ساتھ اسلام کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق نکاح کرکے سکون کی زندگی بسر کریں۔ تمام مسلمان حضورؐ کا اور آپ کی بیویوں کا بے حد احترام کرتے تھے۔ آپ کی بیویوں کو احترام کی وجہ سے ماؤں کا درجہ دیتے تھے۔ خود اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں امہات المومنین (سبھی مومنوں کی ماں) کا درجہ عطا کیا۔ ایسے میں اگر حضورؐ کسی کو طلاق دے دیتے تو کوئی ان سے نکاح نہ کرتا اور طلاق ہو جانے کی وجہ سے حضورؐ کی زوجہ ہونے کا شرف بھی میسر نہ رہتا، جس سے کوئی ان کی خبر گیری کرنے والا نہ ہوتا۔ اس طرح ان کے لیے مشکلات پیدا ہوتیں، اس لیے آپ نے سب کو اپنے نکاح میں باقی رکھا۔ ان کی عظیم شان، ان کا اعزاز اور بلند مرتبہ برقرار رہا۔
بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۷ مارچ ۲۰۱۲ء
Leave a Reply