لفظوں کا اِسراف
الفاظ فکرِ انسانی کے ترجمان ہوتے ہیں، الفاظ کے درمیان متکلم اس طرح موجود ہوتا ہے کہ اس کی نفسیات، اخلاق اور کردار پر کوئی یقینی رائے قائم کی جاسکے۔
الفاظ بلاشبہ بولنے والے کے منہ سے ظاہر ہوتے ہیں، لیکن یہ فکر ہے جو لفظوں کی تشکیل کرتا ہے۔ زندہ انسان لفظوں کا درست استعمال کرتا ہے۔ وہ لفظوں کے استعمال میں ضرورت اور فضول کے درمیان فرق کرتا ہے۔ وہ لفظوں کو تول کر بولتا ہے۔ اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ بامعنی ہوتے ہیں۔ اس کا حقیقت پسندانہ مزاج لفظوں کی فضول خرچی اور مبالغہ آرائی کا تحمل نہیں کر سکتا۔ اس کے بالمقابل ’’مردہ‘‘ اور زوال یافتہ انسان اپنے سطحی فکر کی وجہ سے قوتِ فیصلہ سے محروم ہوتا ہے۔ وہ جس طرح کام کے میدان میں مفید و غیرمفید اور خوب و ناخوب کے درمیان فیصلہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتا، اسی طرح وہ لفظوں کے درمیان بھی انتخاب کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔ اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ معنویت سے خالی ہوتے ہیں۔ اس کی گفتگو، مترادفات، حشو و زوائد اور مبالغہ آرائی سے بوجھل ہوتی ہے۔
اس فرق کی ادنیٰ مثال معروف شخصیات کے ساتھ القاب و آداب چسپاں کرنے کا عجمی رواج ہے۔ اسلامی تاریخ کے دورِ اوّل میں اصحابِ رسولؐ جو زندگی کی توانائی سے لبریز تھے، انہوں نے کامیابی کو کردار و عمل میں دریافت کیا تھا۔ وہ تاریخ نویسی کے بجائے تاریخ سازی پر یقین رکھتے تھے۔ اس دور میں کسی کا ذکر اس کے مجرد نام کے ساتھ کیا جاتا تھا، نام سے پہلے اور بعد میں القاب و آداب کے طولانی سلسلہ کا مطلق رواج نہ تھا۔ وہ کردار کی بلند ترین چوٹی پر تھے کہ ان کے ناموں کے ساتھ ان کے کردار کا پورا وزن شامل ہوتا تھا۔ ان کا آداب و القاب کے بغیر مجرد تذکرہ مخاطب کے دل میں اعتراف پیدا کرنے کے لیے کافی ہوتا تھا۔ خیر القرون کے عہد تک یہ روایت قائم رہی، اپنے علما و مشائخ اور حکام کا قلبی احترام کے ساتھ مجرد ناموں سے ذکر کرتے رہے، ابو بکر، عمر، عثمان، علی، ابن عباس، ابن مسعود، ابن عمر اور ان کے شاگردوں کے لیے اصحاب علی، اصحاب ابن عباس، اصحاب ابن مسعود وغیرہ۔ حدیث و سیر کی کتابوں میں تمام روایتیں اسی فطری انداز کی نمائندگی کرتی ہیں۔
لیکن رفتہ رفتہ کردار و عمل کے اعتبار سے لوگوں میں تنزل آیا تو عوام کے درمیان اپنے رہنمائوں کا وقار و ادب بھی اسی کے بقدر کم ہونا شروع ہوا۔ ملّی قائدین نے قیادت میں کیفیت کو بحال کرنے کے بجائے وقار و عظمت کا تحفظ اس صورت میں دریافت کیا کہ قائدین و زعما اور دینی رہبروں کے ساتھ وزنی القاب چسپاں کرتے جائیں تاکہ عوام پر اس کا رعب پڑے۔ اس طرح موجودہ قائدین کو وہ عظمت حاصل ہو سکے جو پچھلے دور میں سلف صالحین کو ملت کے درمیان حاصل تھی۔ مگر یہ ایک منطقی طریقۂ اصلاح تھا جس سے حیثیت عرفی کو بحال نہ کیا جاسکا اور اس کا نتیجہ برعکس صورت میں ظاہر ہوا۔ وہ یہ کہ قائدین کو جب بلااستحقاق پُرعظمت خطابات ملنے لگے تو وہ اپنی کردار سازی کی طرف سے مزید غافل ہوتے چلے گئے اور ان کی ساری کوشش اس محاذ پر خرچ ہونے لگی کہ بنیادی کام کرنے کے بجائے (جہاں اپنے آپ کو فنا کرنا پڑتا ہے)، وہ نمائشی کام کیے جائیں جہاں کم کام کے ساتھ زیادہ بڑے القابات حاصل ہو سکیں۔ چنانچہ بعض حلقوں میں ناموں کے ساتھ القاب و آداب اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ مناسب غور و فکر کے بغیر یہ امتیاز کرنا سخت مشکل ہوتا ہے کہ ان میں کون نام ہے اور کون لقب۔
زندہ قوموں کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ ان کے ہاں پوری توجہ کام پر ہوتی ہے نہ کہ نام پر۔ نام ان کے ہاں ثانوی درجہ رکھتا ہے اور کام کو ہر لحاظ سے اوّلین درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اسی لیے ان کے ہاں کام کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور کارکنوں کے ذہن پر صرف کام چھایا رہتا ہے۔ کارکردگی کو بہتر صورت میں پیش کرنے کا شدید احساس انہیں مفت کریڈٹ لینے کی نفسیات سے محفوظ رکھتا ہے۔
موجودہ دور میں مغربی اقوام، جن کی پوری توجہ سائنسی ترقی پر مرکوز ہے، مذہبِ حق سے محرومی کے باوجود، غیرمعقول آداب و القاب کے ذہن سے پاک ہیں۔ اس لیے کہ وہ کام کے میدان میں ہیں اور برسرِ کار شخص کی نظر میں کام کی اہمیت ہوتی ہے نہ کہ بے موقع نام کی۔
اس کے برعکس جو اقوام دین و دنیا کے اعتبار سے جس قدر ناکارہ ہوتی ہیں، القاب و آداب کے میدان میں اتنی ہی طاق ہوتی ہیں۔ بغیر نام کے کریڈٹ لینا وہ اسی لیے پسند کرتی ہیں کہ کام کے میدان میں وہ کریڈٹ لینے سے خود کو عاجز پاتی ہیں۔
غیرواقعی ذہن جب بن جاتا ہے تو اس کے بہت دوررس اور مضحکہ خیز اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ معلوم ذرائع کے مطابق ایک حافظ نے خود کو مولانا لکھنا شروع کر دیا کہ حافظ کا لقب انہیں اپنے کارناموں کے تناسب سے کم تر نظر آرہا تھا۔ ایک صاحب نے خود کو سید پکارنا شروع کیا۔ توجہ دلانے پر ان کا جواب تھا اسی طرح لوگ سید ہوتے ہیں۔ ان لوگوں نے معروف خطاب اور معروف خاندان سے انتساب میں عزت کو دریافت کیا، مگر واقعہ کی خلاف ورزی میں انہیں بے عزتی محسوس نہیں ہوئی۔ موجودہ دور میں جھوٹے القاب کا رواج اتنا عام ہو چکا ہے کہ مطلق ناخواندہ لوگ جو اپنے ناموں کا درست املا نہیں لکھ سکتے، وہ بھی شیخ الاسلام، مفکرِ ملت، علامۂ دوراں سے کم تر لقب قبول نہیں کرتے۔ کمپیوٹر کی سہولت نے القاب کے کھیل کو مزید آسان کر دیا ہے۔ اب کمپیوٹر پر القاب و آداب کے سیٹ اپ موجود رہتے ہیں، صرف متعلقہ شخص کا نام خالی جگہ پر رکھنا پڑتا ہے۔ اس طرح نام کے ساتھ لقب جوڑنے کا معاملہ، اب القاب کے ساتھ نام جوڑنے کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ جھوٹی القاب بازی جس طرح شرعاً جرم ہے اسی طرح ادبی ظلم بھی۔
اردو کے نامور ادیب رشید حسن خاں اپنی کتاب ’’انشاء اور تلفظ‘‘ میں لکھتے ہیں: جب نام سے پہلے ’’ڈاکٹر‘‘ یا ’’پروفیسر‘‘ لکھ دیا تو پھر نام کے بعد صاحب لکھنے کی ضرورت نہیں، اسی طرح جب نام سے پہلے جناب لکھ دیا تو پھر نام کے بعد صاحب لکھنے کی ضرورت نہیں اگر نام کے بعد صاحب لکھا ہے تو پھر نام سے پہلے جناب لکھنا ضروری نہیں، ضروری کیا مناسب بھی نہیں۔ جناب ایڈیٹر صاحب، جناب ڈاکٹر صاحب، جناب پرنسپل صاحب، جناب محمود الٰہی صاحب۔ ان سب ڈگریوں میں جناب اور صاحب میں سے ایک لفظ زائد ہے (انشاء اور تلفظ، ص:۲۷)۔ جو زبان اتنی نازک ہو کہ ایک زائد لفظ کا تحمل اس کے لیے مشکل ہو، اس پر کئی سطروں کے القاب کا بار بلاشبہ ظلمِ عظیم ہے۔
اس القابی منکر کا حل یہ ہے کہ اعلانات و اشتہار میں تجریدی طریقہ اختیار کیا جائے۔ ناموں کے ساتھ نہ صرف یہ کہ القاب کا ذکر ناجائز سمجھا جائے بلکہ کسی عہدہ و منصب کی اضافت کو بھی ممکنہ حد تک ترک کر دیا جائے، جس طرح اسلام کے ابتدائی دور کا طریقہ تھا۔ ہر قسم کے رسمی اور غیررسمی اضافہ کو ختم کر کے، مکمل تجرید پر لے آنا ہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے پہلے صدر مدرس مولانا محمد یعقوب نانوتوی (۱۳۰۲ ہجری ۱۳۴۹ھ) نے فرمایا: مُڑے ہوئے کاغذ کو درست کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اسے برعکس طور پر دوبارہ موڑ دیا جائے۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’اردو ٹائمز‘‘ ممبئی۔ ۱۷؍جون ۲۰۱۲ء)