
چین بھلے کمیونسٹ ریاست ہو، لیکن کئی دہائیوں سے وہاں مزدوروں کو کچلا جاتا رہا ہے۔ حالات اب بدل رہے ہیں، چینی محنت کش اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہورہے ہیں اوریہ صورت حال عالمی معیشت بدل سکتی ہے۔
ماؤزے تنگ کے کمیونسٹ ساتھیوں نے جب ۱۹۴۹ء میں چین کا اقتدار سنبھالاتو ان کی کامیابی مارکشسٹ انقلاب کی طرف پیش قدمی سمجھی گئی، جہاں مزدوروں کی فلاح کے اقدامات کیے جائیں گے یا کم از کم محنت کشوں کو یہی تاثر دیا گیا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ مزدور ماؤزے تنگ کے صنعتی پہیے کے کل پرزے بن کر رہ گئے۔ اْنہیں ریاست کنٹرول کرتی اور مہنگائی کی چکی میں پیسا جاتا۔
آزاد منڈیوں سے متعلق اصلاحات ۱۹۸۰ء کی دہائی میں متعارف کرائی گئیں تو لاکھوں مزدور قلیل اجرت پر فیکٹریوں کا ایندھن بن گئے۔ چین کی کمیونسٹ سرکار نے بھی ان مزدوروں کا استحصال کرنے والے غیرملکی سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کیا۔چند نڈر مزدوروں نے مزاحمت کی کوشش کی تو انہیں بزور طاقت جھکنے پر مجبور کردیا گیا۔ لیکن حالیہ چند برسوں کے دوران صورتحال تبدیل ہونے لگی ہے۔ چین کے محنت کش اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کررہے ہیں۔ شین زین میں الیکٹرک ایڈاپٹر بنانے والی کمپنی پاور ون میں گزشتہ دنوں درجنوں ملازمین نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔سوئس انجینئرنگ کمپنی ’’اے بی بی‘‘ سے امریکی ’’فرم بیل‘‘ فیوز کو منتقلی کے باعث فیکٹری میں پہلے ہی ایک ہفتے سے کام ٹھپ پڑا ہے۔
ملازمین کے ایک احتجاجی بینر پر ’’ہمارے قانونی حقوق کا تحفظ کرو‘‘ کا نعرہ درج تھا۔ ایک اور بینر میں درج تھا ’’کسی کو ملازمت سے نکالا گیا تو تمام ملازمین کام چھوڑدیں گے‘‘۔
امریکی جریدے ’’ٹائم‘‘ سے گفتگو میں مزدوروں کی بڑی تعداد نے شکوہ کیا کہ فیکٹری مالکان کا برتاؤ اچھا نہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کمپنی کے مقامی منتظمین اوورٹائم، صحت سے متعلق بیمہ پالیسی اور پنشن کی مد میں مکمل ادائیگیاں نہیں کرتے۔ اس دوران ایک پولیس اہلکار ویڈیو کیمرے پر یہ سب ریکارڈ کرتا رہا لیکن مزدوروں نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔
مزدوروں نے اپنے مسائل کے حل کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے لیکن وہ بات چیت کے عمل میں تاخیر سے ناخوش نظر آئے۔ انہوں نے اپنے مطالبات کی فہرست جون میں کمپنی کے مقامی منتظمین کے حوالے کی تھی۔ مطالبات مسترد کیے جانے پر فیکٹری کے ایک ہزار ملازمین نے کام کرنے سے انکار کیا اور اس عزم کااظہار کیا کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے، وہ دوبارہ کام شروع نہیں کریں گے۔ فیکٹری کے گودام میں کام کرنے والے ۴۵ سالہ زینگ کوان کا کہنا تھا کہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کام چھوڑ کر ہڑتال کرنا ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے۔
چین میں زینگ اور اس کے ساتھی محنت کشوں کے آنے والے حقیقی انقلاب کاحصہ ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں صنعتی زون احتجاج کا مرکز بن گئے ہیں، جہاں مطالبات کے حق میں مظاہرے کیے جارہے ہیں اور مزدور بہتر سہولتیں اور کام کرنے کے اچھے مواقع حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ہانگ کانگ میں قائم محنت کشوں کے لیے آواز اٹھانے والی ایک تنظیم، چائنا لیبر بلیٹن کے مطابق چین کی فیکٹریوں میں ساٹھ سے ستّر ہڑتالیں ہر ماہ کی جارہی ہیں۔ یہ تعداد دوہزار گیارہ کے مقابلے میں تین گنا ہے۔
چین میں کئی دہائیوں کے استحصال سے مایوس مزدوروں کو موجودہ صورتحال نے حوصلہ دیا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ واحد طریقہ اب یہی رہ گیا ہے کہ اپنے خوابوں کا چین حاصل کرنے کے لیے انہیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔ ہانگ کانگ میں مقیم مزدوروں کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم کے وکیل فرینکن چان کہتے ہیں کہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے مزدوروں کے پاس جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔
مساوات
اس تبدیلی کے اثرات چین کی سرحدوں سے باہر بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ چین کے محنت کش ایسی بہت سی اشیا بناتے ہیں جو ہمارے روزمرہ کے استعمال میں رہتی ہیں۔ آئی پیڈ سے بلیو جینز اور بچوں کے کھلونوں تک، کون سی ایسی چیز ہے جو چین کی فیکٹریوں میں تیار نہیں کی جارہی۔ یہ سب کچھ چین میں تین دہائیوں کے دوران سستے داموں اشیا کی تیاری کے سبب ہے، اس وجہ سے کئی اشیا کی قیمتیں اب تک عام صارف کی پہنچ میں ہیں۔ لیکن چین کے مزدوروں کی جانب سے اجرت میں اضافے، بہتر سہولتوں کی فراہمی اور فیکٹریوں میں سازگار ماحول جیسے مطالبات، پیداواری لاگت میں اضافے کا سبب بنیں گے۔ اس وجہ سے چین میں تیار کیاجانے والا سامان مہنگا ہوسکتا ہے اور افراطِ زر میں اضافے کا دباؤ ترقی پذیر ملکوں پر پڑ ے گا۔
فی الحال، چین میں احتجاج کرنے والے مزدور عالمی معیشت کے لیے اچھا پیغام بھی لارہے ہیں۔ تنخواہوں میں اضافے کی صورت میں چین کے مزدور، محنت کش جی ایم سیڈانز سے لے کر مکڈونلڈز تک بننے والی تمام مصنوعات کے بڑے خریدار ہوں گے، اس طرح عالمی معیشت اور امریکی کمپنیوں کے منافع میں اضافے کے امکانات روشن ہوسکیں گے۔
ایچ ایس بی سی میں ایشیائی معیشت پر تحقیق سے متعلق شعبے کے شریک سربراہ فریڈرک نیومین کہتے ہیں: ’’مزدوروں کے لیے حقوق کی فراہمی مضبوط معیشت کی جانب پیش قدمی کا حصہ ہے۔ اس وقت یہ سب عالمی معیشت کے مفاد میں ہے‘‘۔
پراعتماد مزدور چین میں کاروبار کرنے کے قواعد دوبارہ ترتیب دے رہے ہیں۔گزشتہ تیس برس کے دوران ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی فیکٹریاں اس فکر کے بغیر کھول سکتی تھیں کہ چین کے مزدور ان کے کام میں خلل ڈال سکیں گے یا ان کے فیصلوں کی مخالفت کریں گے، لیکن اب ایسا نہیں۔ مارچ میں جب وال مارٹ نے چنگدے شہر میں اپنا اسٹور بند کرنے کا اعلان کیا تو کئی ملازمین نے اس پر خفگی کا اظہار کیا اور اسٹور کا گھیراؤ کرلیا۔ تنازع اتنا بڑھا کہ معاملے کا حل ثالثی کے ذریعے نکالا گیا، وال مارٹ کے مطابق مشتعل ملازمین نے آخرکار بھاری مراعات قبول کیں۔ لیکن ملازمین کے وکیل کا کہنا ہے یونین لیڈر اور چند مزدوروں نے وال مارٹ کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ہے۔ وال مارٹ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کمپنی لیبرقوانین کے مطابق ہی اسٹور بند کرے گی۔
اسی طرح مارچ میں شین زین میں آئی بی ایم فیکٹری سے کمپیوٹر بنانے والی چینی کمپنی لینووو میں منتقلی کے خلاف ملازمین ہڑتال پر بیٹھ گئے۔ اس چینی کمپنی نے آئی بی ایم کے ایک ذیلی ادارے کو خریدا ہے جو سستے انٹرنیٹ سرور تیار کرتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت شین زین کی یہ فیکٹری بھی لینووو کی ملکیت میں آئے گی۔
ملازمین کابڑھتا احتجاج چین کی فیکٹریوں کا رخ کرنے والے عالمی برانڈز کے لیے بھی خطرہ بنتا جارہا ہے۔ جنوبی شہر ڈونگوان میں جوتے بنانے والی ایک کمپنی کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب اپریل میں یویوین انڈسٹریل کے محنت کشوں نے کام کرنے سے انکار کردیا۔ یہ فرم مشہور برانڈ نائیک اور نیوبیلنس کو جوتے فراہم کرتی ہے۔ ملازمین کی ہڑتال کے باعث پیداوار اس بری طرح متاثر ہوئی کہ ایڈیڈاس کو اپنے کچھ آرڈر دوسرے سپلائرز کو منتقل کرنے پڑے۔ یویوین انڈسٹریل نے ہڑتال ختم کرانے کے لیے ملازمین کو اضافی رہائشی الاؤنس اورسوشل انشورنس کی مد میں پوری فیس ادا کی۔ اسی طرح شین زین میں پاور ون کے ملازمین کو بھی کامیابی حاصل ہوئی۔ ملازمین کے مطابق فیکٹری کی دو ہفتے بندش کے بعد کمپنی نے مذاکرات کیے اور ملازمین کو سالانہ بونس دینے، کام کے لیے مزید محفوظ ماحول کی فراہمی اور انشورنس کی مد میں تمام واجبات ادا کرنے پر رضامندی ظاہرکی۔ ہڑتال اور ملازمین سے معاہدے پر اے بی بی اور بیل فیوز نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ چائنا لیبر بلیٹن کے کمیونی کیشنز ڈائریکٹر جیفری کروتھل کہتے ہیں: ’’احتجاج کرنے والے جان گئے ہیں کہ وہ کامیاب ہوسکتے ہیں۔کچھ لو، کچھ دو کے لیے ان کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہے۔‘‘
۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کی دہائی میں، غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد نے روزی روٹی کمانے کے لیے صنعتوں کا رخ کیا، اس وجہ سے محنت مزدوری کرنے والوں کی بڑی تعداد سامنے آئی، اس صورتحال سے فائدہ اٹھاکر فیکٹری مالکان کوکم اجرت پر مزدورملنے لگے۔ لیکن حالیہ برسوں میں اس رجحان میں کمی آئی ہے۔ حکومت کی ایک بچہ پالیسی اور دیگر وجوہات کے باعث ۲۰۱۲ء سے مزدوروں کی تعداد سکڑنے لگی ہے۔ چین کی معیشت میں استحکام کے ساتھ نوکری پیشہ طبقہ اب گھر والوں اور دوستوں سے دور رہ کر ملازمت کرنے کے بجائے گھر بیٹھے پیسہ کمانے کے طریقے ڈھونڈ سکتا ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت کے باعث نوجوان نسل لیبرقوانین، معاہدوں اور دیگرمراعات کے بارے میں اپنے بزرگوں سے زیادہ علم رکھتی ہے۔ یہ تمام عوامل چین کی صنعتوں میں اجرت بڑھانے کا موجب بن رہے ہیں۔ نجی شعبے میں گزشتہ برس کے دوران تنخواہوں میں قریباً چودہ فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
چین کے نوجوان اپنے ماں باپ کے مقابلے میں زیادہ تنخواہ مانگ رہے ہیں۔ یے فینگ ابھی ۲۶ سال کا ہے، اس نے صرف زیادہ اجرت کے لیے ڈونگوان کا رخ نہیں کیا، وہ کام کرنے کے لیے پہلے سے بہتر اور محفوظ ماحول چاہتا ہے۔ پہلے وہ قریبی قصبے میں واقع پلاسٹک فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ جہاں اسے یہ خدشہ لاحق ہواکہ کیمیکل اور مشینوں کی حدت سے اس کی صحت تباہ ہو رہی تھی۔ وہ اب فیکٹری میں حفاظتی اقدامات اور صحت و صفائی کی سہولتیں دیکھ کر ہی نئی ملازمت کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہتا ہے۔ یے فینگ کہتے ہیں: ’’میں کام کرنے کی جگہ اور ماحول کا جائزہ لے کر یہ دیکھوں گا کہ کیا کچھ میری توقعات کے عین مطابق ہے‘‘۔
لیویے، الیکٹرونکس مصنوعات بنانے والی فیکٹری میں تیس سال کام کا تجربہ رکھتی ہیں۔ ان کی اولین ترجیح ایسی کمپنی ہے جو انہیں رہائش اور کھانا فراہم کرے، نائٹ شفٹ نہ لگائی جائے اور تنخواہ پانچ سو ڈالر ماہانہ ہو۔ جس فیکٹری میں کم ازکم تنخواہ دو سو دس ڈالر ہو، وہاں پانچ سو ڈالر ماہانہ اچھی خاصی تنخواہ ہے۔ لیویے نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مکان میں ایئرکنڈیشن بھی ہوناچاہیے۔
۲۶ سال کے ژینگ چنلونگ ٹیکسٹائل فیکٹری میں ٹیکنیشین کے طورپر کام کرچکے ہیں، اب ان کی خواہش ہے کہ منیجر کا عہدہ یا انتظامی شعبے میں کام کرنے کا موقع ملے تاکہ وہ انجینئرنگ کے شعبے میں مہارت حاصل کرسکیں۔ ژینگ کہتے ہیں کہ وہ ملازمت کے امکانات پر خاص توجہ دیتے ہیں، اس طرح مستقبل میں زیادہ سے زیادہ پیسے بنائے جاسکتے ہیں۔
ان حالات میں، فیکٹری مالکان کے پاس اپنے ملازمین کے مطالبات پورے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ موبائل فون سسٹم کے لیے سامان تیارکرنے والی کمپنی ڈاپو ٹیلی کام نے دوبرسوں کے دوران اپنی ڈونگوان والی فیکٹری میں ایسی تمام مراعات متعارف کرائی ہیں جو ملازمین کی توجہ حاصل کرسکیں۔ اس سلسلے میں کمپنی نے اپنے ملازمین کے لیے کشادہ اور مزید آرام دہ مکان حاصل کیے ہیں، سالگرہ کی تقریبات، گھومنے پھرنے اور دیگر تفریحی کاموں کے لیے ملازمین کو رقم ادا کی جاتی ہے، یہاں تک کہ سالانہ تعطیلات پر گھومنے پھرنے کے لیے فنڈ بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ ڈاپو کمپنی پانچ برس کے مقابلے میں اس وقت تنخواہوں کی مد میں پچاس فیصد زیادہ خرچ کررہی ہے۔ کمپنی کے ڈائریکٹر آپریشن چن زیلی کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ اتنی بھاری تنخواہیں نہ دے تو ملازمین کہیں اور نوکری ڈھونڈنے لگیں گے۔ وہ کہتے ہیں ملازمین اب جانتے ہیں کہ کس طرح معاملات طے کرنے ہیں اور کس طرح اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ طاقت کا توازن اب تبدیل ہوگیا ہے۔
پُرخطر کاروبار
ایسی شکایتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے محنت کشوں کو کمپنی کے افسران اور پولیس کی جانب سے ہراساں کیا گیا اور بعض کو اپنی نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔اس سلسلے میں چین کی سرکاری لاجسٹک کمپنی سائنوٹرانس کی شین زین میں موجود شاخ کے ملازم، تیس سال کے ژینگ چینگ یان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سائنوٹرانس کمپنی نے شین زین سے سارا آپریشن ڈونگوان منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو فیکٹری ملازمین نے انتظامیہ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا اور بات چیت کے لیے ژینگ چینگ یان کو اپنا نمائندہ منتخب کیا۔ سرکاری لاجسٹک کمپنی کی جانب سے فیکٹری دوسرے شہر لے جانے کے فیصلے کی بیشتر ملازمین نے مخالفت کی، کیوں کہ وہ شین زین میں اپنا گھر بار چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے، انہیں خدشہ تھا کہ ڈونگوان جانے سے ان کی تنخواہوں اور دیگر معاملات پر اثر پڑے گا۔ بات چیت کے دوران کمپنی سے مطالبہ کیاگیا کہ دوسرے شہر منتقلی سے انکارکرنے والے ملازمین کو زرتلافی ادا کیا جائے تو انتظامیہ نے ان کے سامنے دو ہی راستے رکھے۔کمپنی کے منیجرز نے صاف کہہ دیا کہ ملازمین چاہیں تو ڈونگوان جائیں یا پھر استعفیٰ دے دیں۔
ایسے میں فیکٹری ملازمین نے سائنوٹرانس سے مذاکرات کی کوشش کی لیکن مئی کے اواخر میں صورت حال انتہائی خراب ہوگئی۔ ژینگ چینگ یان بتاتے ہیں کہ سائنوٹرانس نے اسے اور دیگر چھ نمائندوں کو ایک ہوٹل بلایا، وہ سمجھے کہ کمپنی شاید با ت چیت آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئے تو بیس کے قریب غنڈے ان پر پل پڑے،کسی کوزمین پر لٹایا گیا تو کسی کو دیوار سے لگا دیا گیا اور ان سے کمپنی کے کارڈ چھین لیے گئے۔ اس دوران ایک شخص، جو ژینگ کے مطابق سائنو ٹرانس کا منیجر ہے، نے دھمکی دی کہ فیکٹری کے ملازمین کو مظاہروں کے لیے اکسانا اور منظم کرنا بند کردو۔ ایسا نہ کیا تو ان کی جان خطرے میں پڑجائے گی۔ ’’ٹائم میگزین‘‘ نے بیجنگ میں سائنوٹرانس کے ہیڈکوارٹر میں مسلسل رابطہ کیا اور اس معاملے پر ان کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن ہر بار یہی کہا گیا کہ انہیں شین زین کے حالات کا علم نہیں۔ مبینہ دھمکیوں کی اطلاعات پرژینگ کے ساتھیوں میں اشتعال پھیل گیا اور بیشتر نے ہڑتال پر جانے کا فیصلہ کیا۔ ایسے میں ژینگ بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا۔ وہ اور اس کے ساتھی سائنو ٹرانس کو عدالت میں گھسیٹنا چاہتے ہیں۔ ژینگ چینگ یان کہتا ہے جو کچھ ہوا وہ انتہائی نامناسب تھا۔
چین میں مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے ژینگ چینگ یان جیسے سرگرم کارکن کمزور لیبرقوانین کی وجہ سے مالکان کے استحصال کا آسان شکار ثابت ہورہے ہیں۔ دوسری جانب مزدوروں کی ساری تنظیمیں آل چائنا فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز کے تحت کام کررہی ہیں جو اپنے نام کے برعکس مزدوروں کے مفادات میں کم ہی دلچسپی لیتی ہے۔ چین میں اس پلیٹ فارم سے ہٹ کر یونین سازی پر پابندی ہے اور ایسی سرگرمیاں حکومتی انتقام کا نشانہ بنتی ہیں۔
فرنیچر فیکٹری کے ایک محنت کش ووگوان کے بارے میں شہر شین زین کے سرکاری حکام کا خیال ہے کہ اس نے ۲۰۱۳ء میں فیکٹری میں مظاہرہ کیا، لوگوں کو جمع کرنے اور عوامی نظم و نسق کو نقصان پہنچانے پر ووگوان نے ایک سال جیل بھی کاٹی۔ بعد میں یہ الزام واپس لے لیا گیا۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی خود کو غریبوں کا چیمپئن کہلاتے نہیں تھکتی، لیکن اب اسے یہ دھڑکا لگا ہوا ہے کہ یہی غریب اور تنخواہ دار کہیں ان کے لیے سیاسی خطرہ ثابت نہ ہوں، جیسا کہ پولینڈ میں ۱۹۸۰ء کی دہائی میں لیخ وئیسا کی تحریک کے دوران ہوا تھا۔ شین زین میں مقیم لیبر قوانین کے ماہر ہی یوآن چین کا کہنا ہے کہ حکومت کو یہ خدشہ ہے کہ محنت کشوں، مزدوروں اور فیکٹری ملازمین نے اپنی یونینز بنالیں تو کہیں چین میں بھی وہی کچھ نہ ہوجائے جو پولینڈ میں ہوا تھا اور اقتدار کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھوں سے نکل جائے۔
اب تک چین کی سرکار نے ہڑتالوں سے نمٹنے میں برداشت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن بعض حکام ایسے لوگوں کو ضرور ہراساں کرتے ہیں جن کے بارے میں خیال کیاجاتا ہے کہ وہ مظاہرین کو منظم کررہے ہیں۔ محنت کشوں اور مزدوروں نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ اب وہ اپنے نمائندوں کا باضابطہ نام دینے سے گریز کرتے ہیں۔ سرگرم مزدور رہنما کہتے ہیں کہ حالیہ ہفتوں میں حکومت کے مزاج میں تلخی آئی ہے اور مزدوروں پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ احتجاج کا سلسلہ ختم کریں۔ شاید یہ بیجنگ سرکار کی جانب سے ہرقسم کی مزاحمت کچلنے کے منصوبے کا حصہ ہو۔
کئی دہائیوں پر محیط ناختم ہونے والی مشکلات اور اسے دور کرنے کے لیے حکومت کے ناکافی اقدامات کے بعد چین کے محنت کشوں کے پاس ہڑتال کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔مزدور طبقہ اب متحد ہورہا ہے۔
انقلاب، ایک حقیقی انقلاب کا وعدہ اب پورا ہونے کو ہے۔
(مترجم: سیف اﷲ خان)
“Workers’ revenge”. (“Time”. August 28, 2014)
Leave a Reply