
افغان طالبان سے راوبط بہتر بنانے اور اس معاملے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں سے افغانستان کا تزویراتی لینڈ اسکیپ ایک بار پھر تبدیل ہو رہا ہے۔ اسے ایک ’’نیا‘‘ گریٹ گیم بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ افغانستان میں امریکی مداخلت کے پندرہ سال بعد اس سرزمین پر اپنا اثر قائم کرنے کی مسابقت انیسویں اور بیسویں صدیوں کے دوران روس و برطانیہ اور ۱۹۸۰ء کی دہائی میں سرد جنگ کے زمانے کی یاد دلاتی ہے۔
طالبان میں کئی بڑی طاقتوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی سے خطے میں سلامتی کے حوالے سے لاحق خدشات ایک بار پھر توانا ہوتے جارہے ہیں۔ افغانستان میں استحکام لانے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اعتماد کا فقدان ہے۔ افغانستان کے عدم استحکام کے مہیب سائے خطے کے دیگر ممالک پر بھی پڑتے ہیں۔
پاکستان، افغان طالبان کا سب سے بڑا حامی رہا ہے۔ اس پر دہرا کھیل کھیلنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے تاہم افغان اور مغربی افسران کے علاوہ خود طالبان کے کچھ ذرائع بھی چند برسوں سے ایران سے استوار ہونے والے خفیہ تعلقات کا پتا دیتے ہیں۔ ڈیڑھ دو برس کے دوران روس اور طالبان کے تعلقات میں بھی ایسی گرم جوشی دکھائی دی ہے، جس کی نظیر نہیں ملتی۔ دسمبر ۲۰۱۶ء میں افغانستان میں تعینات اہم کمانڈر جنرل جان نکلولسن نے روس اور ایران کو طالبان انتہا پسندوں سے روابط قائم کرنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اور اس تنقید کا جواب دونوں ممالک نے طالبان سے بہتر روابط کی تصدیق کرکے دیا۔
امریکا بھی حالیہ برسوں کے دوران طالبان کے ساتھ روابط قائم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے مگر اسے زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ افغانستان میں کسی بھی علاقائی اتحاد کی جہت تبدیل کرنے میں تین عوامل پیش پیش رہے : افغانستان میں داعش کا ابھرنا، نئی افغان حکومت کے طرز عمل میں تبدیلی اور روس، چین، ایران اور پاکستان سے امریکا کے تعلقات میں تناؤ۔
داعش نے جنوری ۲۰۱۵ء میں افغانستان میں اپنے قیام کا اعلان کردیا تھا۔ اس اعلان نے ایران اور روس کو طالبان سے تعلقات بہتر بنانے کی تحریک دی۔ افغانستان میں تعینات امریکی فوجی دستوں میں کمی لانے کی پالیسی نے بھی طالبان کو مضبوط کیا اور امریکا کا کردار بھی محدود ہوگیا۔
طالبان نے نیشنل سیکورٹی فورسز کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے اضلاع پر قبضہ کرلیا۔ اس کے نتیجے میں ہر علاقائی دارالحکومت میں یہ تاثر پروان چڑھا کہ افغانستان کی قسمت افغان حکومت کے ہاتھ سے نکل کر ہوا میں معلق ہوچکی ہے۔ اس صورت حال کو اپنے حق میں کرنے کے لیے سبھی نے کمر کس لی۔ افغان حکومت کی اپنی صفوں میں کشمکش سے سیاسی عدم استحکام کا تاثر مزید گہرا ہوا۔
گزشتہ دو سال کے دوران وسط ایشیائی ریاستوں اور چین کے صوبے سنکیانگ کے قرب و جوار میں انتہا پسندی میں اضافے نے ماسکو اور بیجنگ کو چوکنا کردیا۔ روس، ایران اور چین میں یہ تاثر تیزی سے پروان چڑھا کہ داعش دراصل امریکا یا مغربی طاقتوں کی ’’تخلیق‘‘ ہے۔ اس کے ابھرنے کو ایران، چین اور روس اپنی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اس گروپ کو سر اٹھانے اور پاؤں پھیلانے سے روکنے کے لیے انہوں نے طالبان سے تعلقات بہتر بنانا مناسب جانا۔
طالبان کے لیے روسی قیادت کے دل میں پیدا ہونے والے نرم گوشے کو ایک چونکا دینے والی پیش رفت قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس پیش رفت سے قبل روس نے برسوں تک طالبان کی شدید مخالفت کی، انہیں دہشت گرد قرار دیا اور ان کے خلاف ابھرنے والی قوتوں بالخصوص شمالی اتحاد کی بھرپور پشت پناہی کی۔ دسمبر ۲۰۱۵ء میں ایک جہاں دیدہ روسی سفارت کار نے اعلان کیا کہ ’’ہمارے اور طالبان کے مقاصد میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے اس لیے ہم افغانستان میں خفیہ اور اہم معلومات کا تبادلہ کرسکتے ہیں‘‘۔ طالبان ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ دو سال کے دوران ان کے نمائندوں نے روسی افسران سے روس اور دیگر ممالک میں متعدد ملاقاتیں کی ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ماسکو کا طالبان سے روابط استوار کرنا امریکا پر دباؤ بڑھانے کے لیے ہے۔ اور وہ خطے میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع بھی کرنا چاہتا ہے۔ طالبان سے روس اور ایران کے پنپتے ہوئے تعلقات پاکستان کے لیے بھی خاصے سودمند ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ اس پر عالمی دباؤ کم ہوتا جارہا ہے۔ اب تک پاکستان پر یہ الزام تواتر سے عائد کیا جاتا رہا ہے اس نے افغان طالبان سے غیر معمولی روابط برقرار رکھے ہیں اور کوئٹہ میں افغان قیادت کا میزبان بھی رہا ہے۔
داعش کے خلاف ایران اور طالبان بھی قریب آرہے ہیں۔ یہ ایک غیرمعمولی پیش رفت ہے کیونکہ مسلکی اعتبار سے ایران اور طالبان ایک دوسرے کے شدید مخالف رہے ہیں۔ روس کی طرح ایران نے بھی طالبان کے خلاف ابھرنے والی ہر قوت کی حمایت کی۔ ۲۰۰۱ء میں طالبان حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے تشکیل دیے جانے والے اتحاد سے بھی ایران نے خوب تعاون کیا تھا مگر داعش کے ابھرتے ہوئے خطرے نے انہیں ہاتھ ملانے پر مجبور کردیا۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران نے پیغام بھجوایا کہ وہ امریکا کے خلاف اُن کی مددکے لیے تیار ہے۔ اس سے پہلے تہران نے امریکی حمایت سے بننے والی افغان حکومت کی حمایت کی تھی۔ افغان طالبان کے رہنماؤں سے مئی ۲۰۱۵ء میں قطر میں ایرانی نمائندوں نے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں طے پایا تھا کہ داعش سے ہر صورت نمٹنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ طالبان کے سپریم لیڈر ملّا اختر منصور ایران سے واپس آرہے تھے کہ بلوچستان میں امریکی ڈرون کا نشانہ بن گئے۔
ان تمام مسائل کے درمیان کابل حکومت کی ۲۰۱۴ء میں بنائی گئی غیر متوازن خارجہ پالیسی کے باعث سیاسی اندازے غلط ثابت ہوئے۔ روس، ایران اور چین میں اشرف غنی حکومت کو کمزور اور مذاکرات کے لیے غیر موزوں سمجھا جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ صدر غنی سلامتی سے متعلق مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ علاوہ ازیں وہ اشرف غنی کو ان کے پیش رو حامد کرزئی کی طرح امریکا کے بہت قریب گردانتے ہیں۔ اشرف غنی کے بعض فیصلوں نے پڑوسیوں کو ناراض بھی کیا۔ منصب سنبھالنے کے فوری بعد انہوں نے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کا اعلان کیا مگر ایسا کرتے ہوئے انہوں نے افغانستان کے روایتی اتحادی بھارت کو یکسر نظر انداز کردیا۔ نئے افغان صدر نے اسلام آباد کی طرف بہت سے دوستانہ اشارے کیے مگر پھر ایک سال کے اندر ان کا رویہ تبدیل ہوگیا اور کابل اور اسلام آباد نے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھار کردی۔ اس کے بعد اشرف غنی بھارت سے روابط بحال کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیے۔ چند ایک مواقع پر انہوں نے بھارت کی میزبانی میں پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کی حکومت نے ایک عرب ملک کی قیادت میں تشکیل پانے والے فوجی اتحاد کا حصہ بننے پر آمادگی ظاہرکی ہے۔ یہ پیش رفت طالبان کے حق میں نہیں۔
اب افغانستان میں یہ خدشہ تقویت پاتا جارہا ہے کہ طالبان کو دیگر علاقائی قوتیں بھی ڈھکی چھپی طاقت کے طور پر استعمال کریں گی۔ بیشتر علاقائی کھلاڑی اب یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ وہ امریکا پر مزید اعتماد نہیں کرسکتے۔ ایسے میں وہ طالبان سے روابط قائم کرکے اپنا اپنا کردار تلاش کر رہے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اب افغانستان کی سلامتی امریکا کے ہاتھ سے پھسل کر ان تمام طاقتوں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔ افغانستان ایک مدت سے غیر ملکی مداخلت کا اکھاڑا بنا ہوا ہے۔ حالیہ پیش رفت ظاہر کرتی ہے کہ اب یہاں ایک اور گریٹ گیم شروع ہونے والا ہے۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کئی عشروں سے کوئی ملک افغانستان کو براہ راست کنٹرول کرنے کے قابل نہیں ہوا۔ ان میں امریکا کے علاوہ سابق سوویت یونین بھی شامل ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“World powers jostle in Afghanistan’s new ‘Great Game’.” (“BBC”. January 12, 2017)
Leave a Reply