
امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات خصوصی نوعیت کے ہیں۔ امریکا کو مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑا حلیف درکار ہے۔ سعودی عرب کی شکل میں اُس کی مراد پوری ہوئی ہے۔ سعودی عرب نے بیشتر اہم عالمی امور میں امریکا کی ہم نوائی سے کبھی گریز نہیں کیا۔ ایسا اس لیے ہے کہ سعودی حکمراں خاندان کو اپنی بقا کے لیے واحد سپر پاور کی ضرورت ہے۔ شاہی خاندان کے علاقائی اور عالمی بدخواہوں کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ ذرا سوچ سمجھ کر ہاتھ ڈالنا، ہم پر امریکا کا ہاتھ ہے!
امریکا میں ری پبلکنز کی حکومت ہے۔ ری پبلکنز نے ڈھائی تین عشروں کے دوران سعودی عرب سے تعلقات بہتر بنانے پر خاص توجہ دی ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی جماعت ہونے کے ناطے ری پبلکن پارٹی نے سعودی عرب کے ساتھ مل کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ سعودی عرب کو بڑے پیمانے پر اسلحے کی ضرورت ہے کیونکہ اُسے ایران اور یمن کے علاوہ بھی کئی ممالک سے خطرات لاحق ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے اپنے دفاع کی ذمہ داری بظاہر امریکا کو سونپ رکھی ہے۔ ایسے میں ری پبلکنز کا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف مزید جھکنا حیرت انگیز نہیں۔ ولی عہد محمد بن سلمان کی ’’انقلابی‘‘ پالیسیوں نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر آئندہ برس امریکا کے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک امیدوار کامیاب ہوگیا تو؟ کیا ڈیموکریٹک صدر کے آنے سے امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات کی نوعیت تبدیل ہوجائے گی؟ کیا خصوصی نوعیت کے تعلقات داؤ پر لگ جائیں گے؟
امریکا میں ڈیڑھ دو ہفتوں کے دوران بہت سے معاملات کا غیر معمولی چرچا رہا ہے۔ صدارتی انتخاب کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ امریکی صدر کے منصب کے لیے انتخاب لڑنے کے لیے ڈیموکریٹک امیدواروں کے درمیان بھی مباحثے جاری ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے اب تک اپنے امیدوار کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کا معاملہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔ ٹرمپ کے مواخذے کے لیے تحریک زور پکڑتی جارہی ہے۔ ملک بھر میں اُن کے خلاف فضا تیار ہو رہی ہے۔ دوسری طرف امریکا کے سب سے بڑے حلیف اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو پر مختلف الزامات عائد کیے جانے سے صورتِ حال عجیب تر ہوچلی ہے۔ اسرائیل میں سیاسی سطح پر خاصا انتشار پایا جاتا ہے۔ جب اتنا بہت کچھ ہو رہا ہو تو چند ایک معاملات کا منظر سے ہٹ جانا یا نظر نہ آ پانا حیرت انگیز نہیں۔ امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ امریکا میں کوئی بھی بڑی شخصیت سعودی عرب کے حوالے سے کوئی بھی ایسی ویسی بات کرنے سے احتراز کرتی ہے۔ سابق نائب صدر جوبائیڈن نے سعودی عرب کے بارے میں چند ریمارکس دیے جو مجموعی طور پر سیاسی گرد میں چھپ کر رہ گئے۔
جوبائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ امریکی قیادت سعودی عرب کو ایک سال قبل استنبول کے سعودی قونصلیٹ میں واشنگٹن پوسٹ کے سعودی نژاد صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی قیمت ادا کرنے پر مجبور کرے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جوبائیڈن کی نظر میں سعودی حکمراں خاندان جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار ہے اور اگر جوبائیڈن صدر بن گئے تو سعودی عرب کو اُتنے پیار سے ٹریٹ نہیں کیا جائے گا، جتنے پیار سے اس وقت کیا جارہا ہے۔ جو بائیڈن کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکی قیادت سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت روکے کیونکہ یہ اسلحہ یمن کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے اور یمن میں بچوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ جوبائیڈن کا یہ بھی کہنا تھا کہ سعودی قیادت نے جو کچھ کیا ہے، اُس کے نتیجے میں اب اس کی معاشرتی قدر قدرے گھٹ کر رہ گئی ہے۔
متوقع ڈیموکریٹک صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثے میں جو کچھ جوبائیڈن نے کہا، وہ ہر اعتبار سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر شدید نوعیت کے عدم اعتماد کو ظاہر کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ دیگر امیدواروں میں سے کسی نے بھی سعودی عرب سے متعلق جوبائیڈن کے خیالات سے اختلاف ظاہر کرنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جو کچھ سعودی عرب کے بارے میں جوبائیڈن نے کہا وہ بہت حد تک ڈیموکریٹک پارٹی کی اجتماعی سوچ ہے۔
جوبائیڈن کے خیالات اس اعتبار سے نظر انداز نہیں کیے جاسکتے کہ سعودی عرب اور امریکا کے خصوصی تعلقات کم و بیش سات عشروں پر مشتمل ہیں۔ ان تعلقات کا آغاز ۱۹۴۳ء میں اُس وقت ہوا تھا، جب اُس وقت کے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے مستقبل کے دو سعودی بادشاہوں فیصل بن عبدالعزیز اور خالد بن عبدالعزیز کو وہائٹ ہاؤس مدعو کیا تھا۔ یہاں سے مشرقِ وسطیٰ کی اہم ترین ریاست سے امریکا کے خصوصی تعلقات وہ دور شروع ہوا، جو کسی نہ کسی حیثیت میں اب تک جاری ہے۔ تب سے اب تک ہر امریکی صدر نے سعودی عرب سے تعلقات بہتر رکھنے کی خصوصی کوشش کی ہے۔ ۱۹۷۳ء میں جب سعودی عرب نے امریکا کو تیل فروخت کرنے سے انکار کردیا تب بھی اُس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن نے سعودی عرب جاکر شاہ فیصل بن عبدالعزیز کو سراہنے سے گریز نہیں کیا۔ انہوں نے تیل کی فراہمی پر پابندی کو نظر انداز کرتے ہوئے سعودی عرب سے تعلقات کو مثالی قرار دیا۔
۲۰۱۱ء میں عرب دنیا میں بیداری کی لہر دوڑنے کے بعد تعلقات میں در آنے والی تھوڑی سی کشیدگی یا سردمہری کے باوجود امریکی صدر براک اوباما نے چار بار سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اوباما انتظامیہ نے کسی بھی پیش رَو کے مقابلے میں سعودی عرب کو زیادہ (۱۰۰؍ارب ڈالر) کا اسلحہ بیچا۔ اوباما بائیڈن انتظامیہ نے یمن میں سعودی عرب کی جنگ کی سفارتی اور عسکری دونوں سطحوں پر حمایت کی۔ یہ حمایت اور مدد اس حقیقت کے باوجود تھی کہ سعودی عرب نے یمن میں حقیقی استحکام پیدا کرنے کے حوالے سے کسی بھی مرحلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور کوئی بھی حتمی نوعیت کی حکمت عملی تیار نہیں کی۔
سعودی عرب سے متعلق جوبائیڈن کے ریمارکس ستمبر میں سعودی عرب کے علاقے البقیق میں تیل کی تنصیبات پر مبینہ ایرانی حملے کے بعد امریکی ایوان نمائندن کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے دورۂ اردن کے تناظر میں دیکھے جانے چاہییں۔ اُردن میں نینسی پیلوسی نے کہا تھا کہ امریکا پر سعودی عرب کا ہر حال میں دفاع کرنے کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا اب سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت روک دے۔ انہوں نے جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
اب جبکہ امریکا میں صدارتی انتخاب کی دوڑ شروع ہونے والی ہے، ڈیموکریٹک پارٹی کی دو اہم شخصیات کی طرف سے سعودی عرب کے خلاف آراء کا اظہار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دیگر ڈیموکریٹک شخصیات بھی سعودی عرب سے تعلقات پر نظر ثانی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اہلان عمر نے سعودی عرب سے تعلقات کو غیر اخلاقی اور یکسر بے ہودہ قرار دیا ہے۔ الزابیتھ وارن اور برنی سینڈرز نے بھی سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Would a Democratic president mean the end of the US special relationship with Saudi Arabia?” (“brookings.edu”. November 25, 2019)
Leave a Reply