
جو لوگ کہا کرتے تھے کہ چین اپنی خارجہ پالیسی میں دفاعی اور بہت محتاط رویہ اختیار کرتا ہے، انہیں چاہیے کہ چینی صدر کے دورہ سعودی عرب اور ایران کے بعد اپنے اس مؤقف پر نظرثانی کریں۔ یہ دورہ شی جن پنگ کی قیادت میں، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں چین کی فعّال خارجہ پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس نئی حکمتِ عملی کی وجہ سے ایک اہم سوال سامنے آرہا ہے۔ کیا چین اِس خطے میں امریکا سے بہتر تعمیری کردار ادا کر سکے گا؟ ان حالات میں مشرقِ وسطیٰ جیسے خطے میں کودنا کسی خطرے سے کم نہیں (جس کے بارے میں رچرڈ حاس کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں تیس سالہ جنگ کا آغاز ہو گیا ہے اور اب خانہ جنگی اور پراکسی وار میں فرق کرنا ناممکن ہوگا)۔
موجودہ افراتفری کا آغاز ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکا کے حملے سے ہوا تھا۔ اس جنگ نے بہت سے تنازعات کو ایک سمت فراہم کر دی۔ امریکا نے صدام حسین کی سُنّی حکومت کا خاتمہ کر کے شیعہ حکومت کے لیے راہ ہموار کر دی تھی۔ اس اہم پیشرفت کی وجہ سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ گیا، اور ایران کا پلڑا بھاری ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی سعودی عرب کو اندازہ ہوا کہ شیعہ ممالک نے اس کا گھرائو کر لیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب، دونوں شام کی خانہ جنگی میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ دونوںممالک جانتے ہیں کہ بشارالاسد کی عَلَوی حکومت کے مستقبل میں خطہ پر گہرے اثرات ہوں گے۔ ایٹمی معاہدے کے تناظر میں سعودی عرب کے لیے اس وقت ایران کو قابو کرنا سب سے اہم ہے۔ کیونکہ اس معاہدے کے نتیجے میں ایران پر عائد عالمی اقتصادی پابندیاں بھی ختم ہو رہی ہیں، جو اس کے علاقائی قیادت کے عزائم میں سب سے بڑی رکاوٹ تھیں۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ سعودی عرب، ایران اور ترکی (ترکی بھی خطے کی قیادت کی جنگ میں شامل ہے) براہِ راست تصادم نہیں چاہتے۔ لیکن تینوں ممالک خطے میں لڑنے والے گروہوں کی طاقت میں اضافہ ضرور کر رہے ہیں۔ ان میں مذہبی انتہا پسند بھی شامل ہیں اور علاقائی گروہ بھی۔
اس حکمتِ عملی کے نتیجے میں جو دہشت گرد تنظیمیں سامنے آرہی ہیں، جیسے داعش، انہیں انسدادِ دہشت گردی کے روایتی طریقوں سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں ان روایتی حریفوں کے علاوہ بھی بہت ساری طاقتیں سرگرمِ عمل ہیں۔ بیرونی طاقتیں، جن میں فرانس، روس اور امریکا شامل ہیں، اپنے اپنے سیاسی و جغرافیائی مقاصد کے حصول کے لیے بھرپور طریقے سے اِس جنگ میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اور چین بھی اس دلدل میں کودنے جارہا ہے، لیکن ایک منفرد اور تعمیری سوچ کے ساتھ۔
چینی زبان میں لفظ ’بحران‘ جن دو الفاظ کا مرکب ہے، ان کے معنی ہیں، خطرات اور مواقع۔ اور یہی وہ دو چیزیں ہیں جو اِس وقت چین کو مشرقِ وسطیٰ میں نظر آرہی ہیں۔ اس جنگ میں شامل ممالک کے لیے سیاسی و جغرافیائی برتری کی اہمیت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ انہیں یہاں موجود وسیع اقتصادی مواقع بھی نظر نہیں آرہے۔ لیکن چین ان ممالک میں شامل نہیں۔ کچھ دن قبل چین کے صدر نے قاہرہ کے دورے کے موقع پر کہا کہ ’’مشرقِ وسطیٰ میں ہم پراکسی جنگ کے بجائے امن مذاکرات کو ترجیح دیں گے، ہم اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ نہیں چاہتے بلکہ تمام فریقین کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے لیے دوستی کے دائرے میں شامل ہوجائیں‘‘۔ یہ عوامل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں، صدر شی جن پنگ نے جب سے عہدہ سنبھالا ہے، وہ ایک وسیع تر خارجہ پالیسی کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔
ایسے موقع پر جب امریکا اپنا تزویراتی محور ایک خطے سے دوسرے خطے کی طرف منتقل کر رہا ہے، چین اس خطے میں توازن قائم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ چین بین الممالک تنازعات میں سیاست کرنے کے بجائے، ان ممالک کے ساتھ نیٹ ورک بنانے میں سرگرم ہے۔ وہ اپنا ’’کنٹرول‘‘ بڑھانے کے بجائے ’’رابطے‘‘ بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
چین کی بڑی حکمتِ عملی میں مشرقِ وسطیٰ کا کردار نہایت اہم ہے۔ چین قدیم شاہراہِ ریشم کو فعال کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ اس میں مشرقِ وسطیٰ سے گرزنے والا زمینی راستہ بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے پچھلے کچھ برسوں میں آٹھ عرب ممالک سے اسٹریٹجک شراکت داری قائم کی ہے اور چھ عرب ممالک سے معاہدے بھی کیے ہیں، جن کے تحت اس منصوبہ پر مشترکہ طور کام کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ترکی، ایران اور سات عرب ممالک بیجنگ میں قائم کیے گئے ایشین انفرا اسٹرکچر بینک کے بانی ارکان میں بھی شامل ہیں۔ یہ بینک اہم منصوبوں کے لیے اصل زر کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
لیکن چین مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے تجارت بڑھانے کے لیے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے مکمل ہونے کا انتظار نہیں کررہا، بلکہ چینی صدر نے حالیہ دورۂ سعودی عرب میں دعویٰ کیا کہ خلیج تعاون کونسل اور چین کے درمیان آزادانہ تجارت کا معاہدہ اس سال کے اختتام تک طے پا جائے گا۔ اس کے علاوہ صدر شی جن پنگ نے اعلان کیا ہے کہ چین مشرقِ وسطیٰ کو پچپن ارب ڈالر کے قرضے دے گا، جس میں پندرہ ارب ڈالر صنعتکاری کے فروغ، پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے دس ارب ڈالر اور دس ارب ڈالر کے رعایتی قرضے شامل ہیں۔ بقیہ بیس ارب ڈالر سے قطر اور عرب امارات کے ساتھ مل کر مشترکہ سرمایہ کاری فنڈ قائم کیا جائے گا۔ اس فنڈ سے خطے میں توانائی، انفرا اسٹرکچر کی بحالی اور جدید پیداواری صلاحیتوں اور جدید ٹیکنالوجی کی اشیاء بنانے والی صنعتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
یہ سب اقدامات جون ۲۰۱۴ء میں ہونے والی چین اور عرب ریاستوں کے تعاون فورم کے وزارتی کانفرنس میں صدر شی جن پنگ کی جانب سے پیش کیے جانے والے باہمی تعاون منصوبے کی کڑیاں ہیں۔ اس منصوبے کے مطابق توانائی کے شعبے میں تعاون کو اس سارے عمل میں بنیادی حیثیت حاصل ہوگی۔ انفرا اسٹرکچر کی تعمیر اور سرمایہ کاری و تجارت اس تعاون کی دیگر دو شاخیں ہوں گی۔ ایٹمی ٹیکنالوجی، سیٹیلائٹ اور توانائی کے ذرائع، یہ وہ تین جدید شعبے ہیں، جن میں تعاون سے بڑے اہداف حاصل کیے جاسکیں گے۔ اس طرح اس خطے میں موجود توانائی کے وسائل کا فائدہ اٹھاکر صنعتکاری کو فروغ دیا جائے اور خطے کی معیشت کو متنوع کرنے کے مقاصد حاصل کیے جائیں۔
چین کو اپنے مقاصد میں کامیابی کے لیے اس خطے کی کشیدگی میں کمی لانی ہو گی اور کمزور ممالک کو مستحکم کرنے میں مدد دینی ہوگی۔ اس کے لیے بہت سے متعلقہ ممالک کو اپنی خارجہ پالیسی کے حوالے سے محتاط ہونا پڑے گا۔ کیونکہ امن اور ترقی ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں۔
انتہا پسندی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو اپنے عوام کو زیادہ سے زیادہ روزگار اور اقتصادی مواقع فراہم کرنے ہوں گے جو کہ تجارت اور سرمایہ کاری سے ہی ممکن ہوگا۔ اور چین کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی اس خطے کو ضرورت ہے۔ اور اہم بات یہ ہے کہ صدر شی جن پنگ یہ سب دینے کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Xi of Arabia”. (“project-syndicate.org”. Jan.29,2016)
Leave a Reply