
چین میں سنکیانگی مسلمانوں پر جو بربریت گزر رہی ہے، اس پر مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد تقی عثمانی نے سخت تشویش کا اظہار کیاہے۔ ایک بیا ن میں انہوں نے کہا ہے ’’سنگیانگ کے مسلمانوں کے بارے میں تشویشناک خبریں آرہی ہیں۔ حکومت پاکستا ن کا فرض ہے کہ وہ چینی مسلمانوں سے متعلق خبروں کی تحقیق کرے اور اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے مسلمانوں کو انصاف دلائے‘‘
(جنگ کراچی، ۵ جنوری ۲۰۲۰ء)
ادھرامریکی اخبار’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے اپنی اشاعت مورخہ ۱۶ نومبر ۲۰۱۹ء میں چینی حکام کی جانب سے ایغور مسلمانوں کے خلا ف ۴۰ صفحات کا چینی زبان کا حکم نامہ چینی زبان کی عبارت کے ساتھ ترجمہ کرکے شائع کیا ہے۔ اس نے تفصیل سے بتایا ہے کہ وہاں کس بُری طرح مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ رکھا جارہا ہے؟ اخبارلکھتا ہے کہ ’’ہانگ کانگ کے چینی مسلم طلبہ جب امتحان دے کر ہوسٹلوں سے واپس گھر لوٹنے لگے تو ان کے ذہن میں تھا کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اب وہ چھٹیاں گزاریں گے اور پورا خاندان د وبارہ اکٹھا ہو جائے گا۔ لیکن، اخبار کہتاہے کہ معاملہ یہ تھا کہ ان کے گھر والوں کو حراستی تعذیبی عمارتوں میں پہلے ہی سے منتقل کردیا گیا تھا۔ اعلیٰ حکام کو ہدایت کی گئی تھی کہ لوٹ کر آنے والے طلبہ کو اپنے گھر والوں سے متعلق سوالات پر خاموش رکھا جائے۔ ہدایت نامے میں درج تھا کہ انہیں کہا جائے کہ اگرچہ تمہارے والدین مجرم نہیں ہیں لیکن بہرحال ’’تعلیمی اسکولوں‘‘ سے وہ ابھی واپس نہیں لوٹیں گے۔ اگر طلبہ نے کوئی شور شرابہ کیا تو ان کے ساتھ وہ اپنے والدین کے لیے بھی مسئلہ بن جائیں گے۔ سو بہتر یہی ہے کہ آپ لوگ حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔ آپ کا تعاونی رویہ ان کے حق میں بھی بہترنتیجہ دے گا۔
حکام پر زور دیا گیا کہ ’’جب طلبہ حیران ہوں کہ اب ان کی فیسیں کون ادا کرے گا اوران کے گھر کی زمینوں کو کون کاشت کرے گا۔تو انہیں یہ کہہ کر چینی حکومت کا شکریہ ادا کرنے کی ہدایت کی جائے کہ وہی اب ان کی دیکھ بھال کرے گی۔ انہیں بتایا جائے کہ ان کے گھر والے دہشت گردی سے حفاظت کی تعلیم لے رہے ہیں۔ لیکن اس میں دراصل ایک خفیہ پیغام موجود تھا۔ وہاں انہیں سزائیں دی جارہی تھیں۔ ہدایت نامے میں مقامی حکام کو تنبیہ کی گئی ہے کہ ان مسلم طلبہ کے ملک بھر میں وسیع و عریض تعلقات ہیں۔ اس لیے وہ کسی بھی اسمارٹ فون یا ٹویٹر سے پیغامات بھیج کر ملک بھر میں آگ بھڑکا سکتے ہیں اور چینی حکومت کے لیے خاصی پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ طلبہ کی نقل وحرکت پر گہری نظر رکھی جائے۔ واضح رہے کہ چینی صدر نے اپریل ۲۰۱۴ء کو سنکیانگ کا دورہ کرتے ہوئے دو ٹوک احکام جاری کیے تھے کہ یہاں کسی بھی قسم کی شرانگیزی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔ اسی کے ساتھ سنکیانگی چینی حکام نے عوام میں صدر کی تقریر کے جستہ جستہ اقتباسات بھی لوگوں میں تقسیم کیے تھے۔
سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کے قبرستان کو بھی گذشتہ سال مسمار کردیا گیا تھا اور اب وہاں ان کے لیے اپنے مرحومین کو دفنانے اور ان کی قبروں کی زیارت کرنے کے لیے بہت سارے مسائل کھڑے ہوگئے ہیں۔ تسلی دی گئی کہ اس علاقے کو خوبصورت بنایا جائے گا۔ فرانس کے چینل ’’ایشا ایکسِس‘‘ نے یہ اطلاع فراہم کرتے ہوئے برباد شدہ قبرستان کی ویڈیو بھی جاری کی۔ ویڈیو میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ تعلیمی مرکز میں ایک استاد چند طلبہ کو بلیک بورڈ پر یہ حدیث سمجھا رہا ہے کہ ’’وطن کی محبت ایمان کا جزو ہے‘‘۔ ادھر مسلم شہریوں نے خفیہ طور پر تمام مقامی مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ آپس میں اس طرح جڑے رہیں جیسے انار کے دانے باہم جڑے رہتے ہیں۔
(نیویارک ٹائمز، ۱۶ نومبر ۲۰۱۹ء)
واضح رہے کہ سنکیانگ میں جولائی ۲۰۰۹ء میں چینیوں اور ایغوروں کے درمیان گزشتہ عشروں کا سب سے بڑا خونی تصادم ہوا تھا۔ واقعہ یہ تھا کہ جنوبی چین کے ایک کارخانے میں دو مسلم کارکنوں کو چینیوں نے ہلاک کردیا تھا۔ ایغور مسلمان چونکہ اس بات پر بھی حکومت سے ناراض تھے کہ وہ یہاں ہان چینی لوگوں کو مستقل آباد کرکے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کررہی ہے۔ اس لیے ہلاکت کے واقعہ نے ان میں مزیدچنگاری بھڑکا دی اور انہوں نے صوبے بھر میں اس کے خلا ف ہنگامہ برپا کردیا۔ خونی تصادم ہوا، جس میں پہلے ہی دن ۲۰۰ کے قریب لوگ ہلاک ہوئے جن میں سے بیشتر ’’ہان‘‘ تھے، جو ملک بھر میں چینیوں کا اکثریتی قبیلہ ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ کئی افراد غائب بھی کردیے گئے تھے۔ چینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ فسادات بیرونی ایغور تنظیم نے کروایا تھا، تاہم تنظیم کی صدر ’’رابعہ قدیر‘‘ کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ الزام محض جھوٹ ہے۔ نومبر ۲۰۰۹ء میں چینی حکام نے ۹؍افراد کو پھانسی پر لٹکایا جبکہ مزید ۲۰۰ کو موت کی سزائیں سنائیں۔
(وکی پیڈیا)
عجیب المیہ ہے کہ ایک طرف امریکا و مغرب میں عوامی آزادی کی عمومی فضا پائی جاتی ہے، جہاں ہر مذہب کے لوگ مساوات کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ مسلمان مینار والی اپنی مسجدیں بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔ جبکہ ادھر کمیونسٹ چین کی حکومت ہے، جہاں مسلمانوں پر بدترین سینسر اور تشدد ہے۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ سوائے ترکی کے کوئی بھی مسلمان ملک ان لاچار ایغور مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ وہ بے چارے ہمارے بھائی اسی طرح تعذیبی مراکز میں قید رہیں گے اور ان کے اہلِ خانہ ان سے ملنے اور خیر خبر جاننے کے لیے ترستے رہیں گے۔
Leave a Reply