چین کے سب سے بڑے اور اہم تزویراتی صوبے سنکیانگ میں چینی حکومت کے جبری اقدامات تاحال جاری ہیں، وہاں کی کسی بھی حکومت نے انہیں نہیں بخشا ہے۔ جیسا کہ اسی پرچے میں اپنے گزشتہ مضمون مورخہ ۱۶؍مارچ ۲۰۱۹ء میں راقم نے تفصیل سے بتایا تھا کہ سنکیانگی ایغور مسلمان گزشتہ کئی عشروں سے مسلسل جبر و تشدد کا شکار ہیں، خطے میں کبھی عرصۂ دراز تک ایک خالص ’’مسلم ترکستان‘‘ نامی حکومت قائم رہی تھی تاہم سابقہ تمام حکومتوں نے اس پر ہمیشہ چڑھائی ہی جاری رکھی تھی، حتیٰ کہ اس کی خودمختاری ختم کر کے آہنی شکنجے میں کس لیا۔ کل کی خودمختار اسلامی ریاست آج بدترین آہنی قید خانہ بنی ہوئی ہے، جہاں سے محض چھن چھن کر خبریں باہر آرہی ہیں۔ اس معاملے میں بہرحال غیر ملکی ابلاغ کو داد دینی چاہیے کہ وہاں کی اندرونی تشویشناک صورتحال کو کھول کھول کر دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ جبکہ مسلم دنیا کی کوئی بھی حکومت اپنے ہی مسلم بھائیوں کی حد درجہ بے بسی پر محض تماشائی بنی ہوئی ہے۔ بلکہ آگے بڑھ کر چینی حکام کے ظلم کی تائید بھی کرتی ہے۔ صرف ایک ترکی ہی وہ ملک ہے، جسے اپنے ہی مسلم بھائیوں کی مظلوم کیفیت پر تشویش رہتی ہے اور وہ چین پر تمام حراستی یا تعلیمی مراکز ختم کرنے پر زور دیتا رہتا ہے۔
ذیل کی تازہ ترین خبریں چینی حکومت کے مزید ظلم وستم کے انکشافات کرتی ہیں:
الجزیرہ ٹی وی نے چینی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ چین نے ایغور مسلمانوں کے لیے کسی حراستی یا حفاظتی کیمپ بنانے کی شدت سے تردید کی ہے۔ سنکیانگ کے مسلم گورنر ’’شہرت ذاکر‘‘ نے ایسی تمام خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وہاں کے ’’بورڈنگ ووکیشنل ٹریننگ اسکول‘‘ ہیں جہاں طلبہ کو رہائشی سہولتیں بھی حاصل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب محسوس کیا جائے گا کہ معاشرے کو ان اسکولوں کی ضرورت نہیں رہی ہے تو انہیں ازخود ختم کر دیا جائے گا۔ چین کا کہنا ہے کہ بہرحال دہشت گردی پر بھی نظر رکھنی لازمی ہے۔
حراستی مراکز سے آزاد کیے جانے والے بعض ایغور مسلم کہتے ہیں کہ اندر بہت زیادہ جسمانی و ذہنی تشدد کیا جاتا ہے اور تمام حراستی افراد کو نفسیاتی طور پر ترغیب و ترہیب دی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گھر کے چاقو پر بھی چینی حکام چپ لگانے کو کہتے ہیں تاکہ دیکھ سکیں کہ یہ چاقو کہیں کسی حملے میں تو استعمال نہیں کیا جارہا؟ اس علاقے میں باہر سے آنے والے مغربی سیاح خود بھی شکوہ کرتے ہیں کہ ان کے کیمرے سے ہر قسم کی تصویر ختم کر دی جاتی ہے اور ہدایت کی جاتی ہے کہ مقامی باشندوں سے بات چیت نہ کیا کریں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ یہاں کا ہر مسلمان اس خوف سے سہما ہوا رہتا ہے کہ پولیس کہیں ان کے گھر پر چھاپہ نہ ماردے یا انہیں کہیں جبری تعلیمی مرکز (جیل) میں نہ منتقل کردے۔ برطانوی اخبار ’’انڈی پینڈنٹ‘‘ نے الزام لگایا ہے کہ مسلم خواتین کورات چینی حکام کے ساتھ بستروں پر گزارنے پر مجبور کیاجاتا ہے۔ اسی کے ساتھ امریکا نے بھی الزام لگایا ہے کہ چینی حکومت مسلم اقلیتوں کے مذہب اور ثقافت کو مٹا دینے کے درپے ہوچکی ہے۔
دوسری جانب ورلڈ بینک نے سنکیانگ کے لیے منظور کردہ رقم ۵ کروڑ ڈالر کی ترسیل فی الحال روک دی ہے۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ جن اسکولوں کی ترقی کے لیے یہ فنڈ جاری کیے جارہے تھے، ان کے بارے میں پریشان کن خبریں موصول ہو رہی ہیں اور تصدیق کرنے کے مصدقہ ذرائع بھی دستیاب نہیں ہیں۔ (فنانشل ٹائمز، امریکا)۔ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے نمائندوں کا اصرار ہے کہ چین نے سنکیانگ کے دس لاکھ ایغور اور دیگر اقلیتوں کو حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے۔ کپاس کی پیداوار میں چین سرفہرست ہے، مگر اس کی اس پیداوار میں سب سے بڑا حصہ سنکیانگ ہی سے آتا ہے، اس لیے امریکا و جاپان میں اس امر پر تشویش جنم لے رہی ہے کہ سنکیانگ کی کپاس دراصل ایغور مسلمانوں سے جبری و بامشقت مزدوری کا نتیجہ ہے جس کا معاوضہ انہیں بہت ہی کم دیا جاتا ہے۔ دنیا کے بعض مفکرین کہتے ہیں کہ سنکیانگ کے مسلمانوں کے ساتھ چینی حکومت جدید دور کا ہولوکاسٹ کر رہی ہے، یہودیوں کے لیے تو وہ ناجائز تھا لیکن مسلمانوں کے لیے جائز ہے۔
امریکی مذہبی مشیر ’’سیم براؤن بیک‘‘ نے چینی وضاحتوں کی تردید کرتے ہوئے چین پر زور دیا ہے کہ وہ تمام حراستی کیمپس بند کرے، بصورت دیگر وہ اس پر پابندی والے اقدامات بھی اٹھا سکتا ہے۔ الجزیرہ ٹی وی نے بتایا ہے کہ آسٹریلیا بھی چین کی پالیسی پر نظرثانی کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے کیونکہ اس کے مطابق ایغور آسٹریلوی شہری جب اپنے رشتہ داروں سے ملنے ارمچی پہنچتے ہیں تو ایئرپورٹ ہی پر ان کے چینی پاسپورٹ ضبط کر لیے جاتے ہیں اور مسلسل نگرانی کی جاتی ہے۔ آسٹریلوی مسلم ایغور شہریوں نے الجزیرہ کوبتایا کہ ان کے تقریباً ۱۷ خاندان ایسے ہیں جن کی زندگیاں برباد کر دی گئی ہیں۔ آسٹریلیا میں اس وقت کم و بیش ۶۰۰ سنکیانگ مسلم گھرانے ہیں، جنہوں نے وہاں کی شہریت حاصل کرنے کے لیے ہزاروں ڈالر خرچہ برداشت کیا ہے، جس کے نتیجے میں انہیں آسٹریلیا میں اپنے مکانات بنانے میں بھی سہولت دے دی گئی ہے۔ تازہ ترین خبر کے مطابق امریکی کانگریس نے ایغور مسلمانوں پر جبرکے خلاف چین پر معاشی پابندیاں عائد کرنے کا بل منظور کیا ہے اور مطالبہ کیاگیا ہے کہ کوئی امریکی کمپنی چین کو نگرانی کرنے والے آلات برآمد نہ کرے۔ (العربیہ نیوز، جدہ ۱۹۔۱۲۔۴)
ایک چینی معروف فوٹو گرافر ’’لوگینگ‘‘ جس نے اب تک فوٹو گرافی کے تین عالمی ایوارڈ حاصل کیے ہیں، ارمچی میں جب ایک عالمی فوٹو گرافی مقابلے کے لیے پہنچا، جس میں شرکت کے لیے اسے ارمچی کی انتظامیہ کی جانب سے باقاعدہ دعوت دی گئی تھی تو اسے دوسرے دن ہی غائب کر دیا گیا۔ اس کی بیوی ’’زوزیاؤلی‘‘ نے کہاکہ حالانکہ وہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ ہی ارمچی پہنچی تھی، لیکن اب وہ مجھے کہیں نظر نہیں آرہا۔ ارمچی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس کے شوہر کو ایک دوسرے فوٹو گرافر کے ساتھ خفیہ ادارے ساتھ لے گئے ہیں۔ خاتون نے اپنے شوہرکی برآمدگی کی دہائی دی ہے۔ الجزیرہ کو وہیں کے رہنے والے خفیہ طورپر بتاتے ہیں کہ ہمارے گھروں، دکانوں، شادی ہالوں اور قبرستانوں میں پراسرار لوگ ہماری ہر نقل و حرکت اور گفتگو کا مسلسل جائزہ لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی مسلم شراب نوشی چھوڑتا ہے یا جب کسی نوجوان کے چہرے پراچانک ڈاڑھی نظر آتی ہے تو چینی حکام اس شبے میں حرکت میں آجاتے ہیں کہ شاید یہ لوگ کسی دہشت گردانہ کارروائی میں ملوث ہونے جارہے ہیں۔ چینی حکام کے مطابق ذاتی محفل میں بھی جب کوئی اپنی مسلم شناخت پر اصرار کرتاہے تودراصل وہ دہشت گردی کو فروغ دینے کاارادہ رکھتا ہے۔ ’’ٹی آر ٹی ورلڈ‘‘ اخبار کے مطابق حکومت کی جانب سے رمضانوں میں روزے رکھنے پر بھی پابندی عائد کی جاتی ہے اور اسکولوں میں طلبہ کو باقاعدہ چیک کیاجاتا ہے کہ کہیں وہ روزہ تو نہیں رکھ رہے۔ اس مقصد کی خاطر انہیں پانی وغیرہ پلایاجاتا ہے۔ سنکیانگ کے شہر ’’لنزیا‘‘ میں جسے ’’چھوٹا مکہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، مسجدوں کے گنبدوں کو توڑا جارہا ہے۔
قومی اخبارات کے مطابق امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے ۲۷ ستمبر ۲۰۱۹ء کو جنرل اسمبلی میں کشمیر کے مسئلے پر عمران خان کے خطاب کے جواب میں عمران خان سے سوال کیا کہ کشمیر کے ساتھ وہ سنکیانگ کے ۱۰ لاکھ ایغور مسلمانوں کے عقوبتی مراکز کے بارے میں چین کے خلاف کیوں نہیں بولے تھے؟ اس کا تبصرہ غالباً اس باعث بھی تھا کہ عمران خان نے یہودیوں کے ہولوکاسٹ پر دنیا کی پریشانی کی دہائی دی تھی، تاہم سنکیانگ کے مسئلے پر امریکا وقتاً فوقتاً سرکاری طور پر تشویش کا اظہار کرتا رہتا ہے۔
واضح رہے کہ چینی خطے میں اسلام تقریباً ۱۴۰۰ سالوں سے موجود ہے اور ساتویں، آٹھویں، نویں صدیوں میں یہاں اسلام تجارت، جنگ اور سفارتی وجوہات سے مسلسل پھیلتا رہا ہے۔ یاد رہے کہ چین کے دیگر صوبوں میں بھی چینی مسلم موجود ہیں۔ لیکن ان کی سب سے بھاری تعداد (ایک کروڑ ساٹھ لاکھ) سنکیانگ ہی میں پائی جاتی ہے۔
دنیا بھر میں مسلمانوں کا خون آزادانہ طورپربغیر کسی شرمندگی کے بہایا جارہا ہے، لیکن کسی بھی مسلم حکومت کو اس بارے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بین الاقوامی طاقتوں کے ہاتھوں مسلمان مرتے رہیں تومرتے رہیں، اپنے اقتدار کا تسلسل بہرحال جاری رہنا چاہیے۔
مضمون کے تمام حقائق مختلف ذرائع مثلاً فوربس میگزین، نیویارک ٹائمز، الجزیرہ ٹی وی، گوگل سرچ اور جنگ کراچی وغیرہ سے اخذ کیے گئے ہیں)
Leave a Reply