
۲۰۱۲ء میں عہدہ سنبھالنے کے بعد چینی صدر شی جن پنگ نے اپنی متواتر تقاریر میں بدعنوانی کو اپنے ملک کے لیے محض ایک اہم مسئلہ نہیں بلکہ وجود کو لاحق خطرے کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بدعنوانی کا دیرینہ مرض ’’اشتراکی جماعت کے انہدام اور ریاست کے زوال‘‘ کا سبب بن سکتا ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں شی جن پنگ نے بدعنوانی کے خلاف ایک وسیع اشتہاری مہم چلائی ہے۔ ہندسوں کی حد تک اس مہم کے نتائج متاثر کُن ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اشتراکی جماعت نے اپنے تقریباً ۲۷۰,۰۰۰ عہدیداروں کو بدعنوانی میں ملوث ہونے کی بنا پر سزا دی ہے۔ اس طرح اس بد عنوانی مخالف مہم کا اثر حکومت کے ہر محکمے اور چین کی وسیع بیوروکریسی کے اندر ہر سطح تک پہنچا ہے۔ زیادہ سنگین جرائم میں ملوث مجرمان پر مقدمے چلائے گئے ہیں اور انہیں پابندِ سلاسل کیا گیا ہے۔ بعض کو سزائے موت سنا دی گئی ہے۔
شی جن پنگ کے بدعنوانی مخالف کریک ڈاون کا شکار ہونے والے بیشتر لوگ اگرچہ نچلی یا درمیانی سطح کے جماعتی ارکان اور کارکنان ہیں، لیکن جماعت کے کچھ اعلیٰ سطح کے عہدیدار بھی بدعنوانی کی ان تحقیقات کے نتیجے میں معزول ہوئے ہیں۔ اِن میں دفتر سیاسی ( ۲۵؍ارکان پر مشتمل کمیٹی، جو اشتراکی جماعت کا نظام چلاتی ہے) کے کچھ ارکان بھی شامل ہیں۔ بعض کو جماعت سے بے دخل کر دیا گیا ہے جبکہ دفتر سیاسی کی ایلیٹ قائمہ کمیٹی کے ایک سابق رکن کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ وہ اقدام ہیں جن کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔
شی جن پنگ کی یہ مہم بے حد مقبول ہوئی ہے۔ ان کی شخصیت کو عوامی رنگ ملا ہے اور شخصیت پرستی کا جو نومولود دائرہ انہوں نے اپنے گرد تعمیر کیا ہے، اسے بھی مضبوطی ملی ہے۔ اس مہم کو طبقۂ اشرافیہ کے شہزادوں کی بھی خاموش حمایت حاصل ہے، جو ماؤ کے زمانے کے انقلابی راہنماؤں کی اولادیں ہیں۔ وہ اپنے اور ملک کے مفادات کو یکساں سمجھتے ہیں اور شی جن پنگ کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ ان کے اپنے ہی ہیں۔ مگر نظام میں موجو دیگر اشرافی طبقوں کی جانب سے منفی ردِعمل آیا ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اس مہم کا محرک سیاسی ہے اور اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ شی جن پنگ طاقت پر اپنی گرفت مضبوط کر سکیں۔ ہانگ کانگ میں ذرائع ابلاغ کی تنظیموں نے خبر دی ہے کہ شی جن پنگ کے دونوں پیش روؤں، جیانگ زی من اور ہوجن تاؤ نے شی سے اس مہم کو لگام دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ کچھ مبصرین نے اس مہم کی افادیت پر بھی سوال اٹھائے ہیں کیونکہ جن پنگ کی کوششوں کے باوجود ۲۰۱۳ء کے مقابلے میں ۲۰۱۴ء کے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کرپشن انڈکس میں چین کا درجہ نہایت بُرا ہے۔ یہاں تک کہ شی جن پنگ نے خود بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے نظام کو صاف کرنے کی اپنی جدوجہد میں درپیش تعطل پر اظہارِ افسوس کیا، مگر ساتھ ہی بلند و بانگ الفاظ میں ہمت نہ ہارنے کا عہد کیا۔ بعض خبروں کے مطابق انہوں نے گزشتہ سال دفتر سیاسی کے بند کمرہ اجلاس میں اعلان کیا کہ ’’بدعنوانی کے خلاف اپنی جدوجہد میں مجھے زندگی یا موت کی پروا نہیں ہے، نہ ہی اپنی ساکھ تباہ ہونے کا ڈر ہے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ جزوی طور پر شی جن پنگ کی مہم کا محرک سیاسی ہے۔ ابھی تک شی جن پنگ کا اندرونی حلقہ اس مہم سے محفوظ رہا ہے۔ تحقیقات شفافیت سے کوسوں دور ہیں اور اس پورے عمل پر شی نے اپنا کڑا کنٹرول رکھا ہے، خصوصی طور پر اعلی سطح پر۔ چینی حکام نے اُن غیر ملکی ذرائع ابلاغ پر پابندیاں عائد کر دی ہیں جنہوں نے ذاتی طور پر بدعنوانی کی تحقیقات کرنے کی کوشش کی ہے۔ حکومت نے ان نقادوں کو بھی زیرِ حراست لے رکھا ہے جنہوں نے بدعنوانی کے خلاف زیادہ سخت اقدامات اٹھانے کے مطالبات کیے ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ مہم ناکام ہو جائے گی۔
بدعنوانی کے خلاف جنگ تو شی کی اُس وسیع جدوجہد کا صرف ایک حصہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو ’’بے انتہا مرکزیت پسند سیاسی نظام میں افضل ترین راہنما‘‘ کے طور پر سامنے لا کر طاقت پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ یہی بات چینی امور کی ماہر ایلزبتھ اکانامی نے لکھی ہے۔ اب تک شی اس مشکل ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ اگرچہ طاقت پر مکمل قبضہ دیگر خطرات کو جنم دیتا ہے، لیکن شی کو بدعنوانی کم کرنے کے قابل بھی بناتا ہے، چاہے وہ بدعنوانی مخالف مہم مکمل طور پر یک رنگ اور غیر سیاسی نہ ہو۔ یہ سب کچھ گنجلک نظر آتا ہے۔ آخرکار طاقت کا بہت زیادہ ارتکاز ہی بدعنوانی کے مرض کو جنم دینے کا اصل سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طویل مدت میں شی کی بدعنوانی مخالف مہم کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ شی کتنی کامیابی سے اسے ایک وسیع معاشی، قانونی اور سیاسی اصلاحی منصوبے میں ڈھال پاتے ہیں۔ تاہم اصلاحات سے متعلق شی کا تصور وہ نہیں جو عدالتوں، ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی کو آزاد کرے یا ایک مخالف جماعت کے قیام کی آزادی دے جو حکمران جماعت کی طاقت پر نظر رکھ سکے۔ درحقیقت، شی کو یقین ہے کہ مغربی طرز کی جمہوریت بدعنوانی کی اُتنی ہی شکار ہے جتنا یک جماعتی نظامِ حکومت۔ مغربی جمہوریت کے برعکس شی کا ادارہ جاتی اصلاحی پروگرام ایک طاقتور تفتیشی قوت کو قائم رکھنے کے گرد گھومتا ہے جو ایک ایماندار، مرکزی قیادت کا وفادار ہو۔ لگتا ہے کہ شی کو یقین ہے کہ کئی سال کے عرصے تک مستقل نگرانی اور باقاعدہ تفتیش بیوروکریٹس کی نفسیات کو بدل دیں گے۔ وہ بدعنوانی کو (حال کے بر عکس) ایک معمول کے بجائے ایک خطرے کے طور پر دیکھنے لگیں گے اور بالآخر اسے خیال میں لانے کی بھی جرأت نہ کریں گے۔
جوڑ توڑ، رشوت خوری، اور اثر و رسوخ کے غلط استعمال کی بیخ کنی سیاسی استحکام قائم کرنے میں چینی راہنماؤں کی بہت اچھی طرح مدد کر سکتی ہے، جس کے بارے میں چینی حکام کو ڈر ہے کہ وہ معاشی ترقی کی رفتار سست پڑنے اور ایشیا میں جغرافیائی و سیاسی کشیدگی بڑھنے کے نتیجے میں کمزور پڑ سکتا ہے۔ لیکن اگر شی کی بدعنوانی کے خلاف لڑائی انتظامی اصلاحات سے الگ رہی یا محض سیاسی حریفوں کو راستے سے ہٹانے کی مہم میں بدل گئی تو یہ الٹا نقصان پہنچائے گی اور ناراضیوں کے اُن شعلوں کو مزید بھڑکائے گی جو اِس ہم آہنگ معاشرے کے قیام کی راہ میں رکاوٹ ہیں جس کی اشتراکی جماعت خواہاں ہے۔
بد عنوانی کے ذریعے مفادات کا حصول
ایک مکتبۂ فکر کا موقف ہے کہ بدعنوانی چین کا وہ ثقافتی عارضہ ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ کچھ سیاسی سائنسدان اور ماہرِ سماجیات یہ کہتے ہیں کہ حکمرانی اور کاروبار کے سلسلے میں روایتی چینیوں کا ’’گانشی‘‘ پر انحصار (جس کا عام فہم ترجمہ روابط یا تعلق داریاں کیا جا سکتا ہے)، بدعنوانی کے مسئلے کی وسعت اور دوام کو سمجھنے میںسب سے بڑا عنصر ہے۔ بیشتر چینیوں کا گانشی نظام پر مطمئن ہونا یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ عوامی غم و غصے کو اس نہج پر پہنچنے میں اتنا طویل وقت کیوں لگا جہاں قیادت جوابی اقدامات کرنے پر مجبور ہوئی۔ لیکن تمام ثقافتوں اور معاشروں میں کسی نہ کسی قسم کا گانشی نظام موجود ہوتا ہے۔ چین کا گانشی نظام اتنا انوکھا نہیں کہ وہ بدعنوانی کے مسئلے کی اس شدت اور گہرائی کو بیان کرسکے جس نے آج چین کے معاشرے کو جکڑا ہوا ہے۔
اس مسئلے کے اصل مجرمان بہت واضح اور جانے پہچانے ہیں، وہ ہیں یک جماعتی نظامِ حکومت اور معیشت پر حکومتی کنٹرول۔ یک جماعتی ریاست میں جانچ پڑتال کے مضبوط نظاموں کا فقدان رشوت خوری اور جوڑ توڑ کو ہوا دیتا ہے۔ آج کوئی چینی ادارہ اِن علتوں سے محفوظ نہیں۔ وسائل، اراضی اور کاروبار پر حکومتی تسلط بدعنوانی کے بے شمار مواقع پیدا کرتا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں چینی معیشت بہت حد تک مخلوط معیشت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ چینی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق نجی طبقہ چین کی مجموعی پیداوار کے دو تہائی اور مزدور طبقے کی ستّر فیصد نوکریوں کا ذمہ دار ہے۔ چینی معیشت اب تنہا معیشت نہیں رہی۔ یہ عالمی منڈی میں مدغم ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود نجی طبقہ اب بھی حکومت کا بہت زیادہ محتاج ہے۔ حکومت کے پاس نہ صرف بے کراں وسائل ہیں بلکہ وہ اپنی تنظیمی اور ادارہ جاتی طاقت کو استعمال کر کے نجی طبقے پر اثر انداز ہونے اور اسے قابو کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
جب حکومت خرید و فروخت، تجارتی لین دین اور ریاستی اساسوں کے سودے کرتی ہے تو بولی اور نیلامی کے طریقے نہایت غیر شفاف ہوتے ہیں۔ سرکاری عہدیداران، بیوروکریٹ اور جماعتی حکام شفافیت کے فقدان کا ناجائز فائدہ اٹھا کر نہ صرف اپنی ذات کے لیے مالی فوائد سمیٹتے ہیں، بلکہ اپنے سے اعلیٰ افسران کے لیے بھی مواقع پیدا کرتے ہیں تاکہ اس کے بدلے ترقیاں حاصل کرسکیں۔ درمیانی درجے کے عہدیداران جو معاشی وسائل کی نگرانی پر مامور ہوتے ہیں، اپنے اعلیٰ افسران کو سستی زمینوں تک رسائی، ریاستی بینکوں سے مطلوب شرائط پر قرضے، حکومتی سبسڈیز، ٹیکسوں میں چھوٹ اور حکومتی ٹھیکوں کی پیشکش کرتے ہیں۔ اس کے بدلے میں وہ ان سے اپنے عہدوں کی ترقی مانگتے ہیں۔ اس قسم کے انتظامات نہ صرف منڈیوں میں بگاڑ کا باعث بنتے ہیں بلکہ جماعت اور ریاست کی کارکردگی پر بھی اثر ڈالتے ہیں۔
اس سے ملتے جلتے مسائل اُن حکومتی اداروں میں بھی پائے جاتے ہیں جو براہِ راست معاشی وسائل کو کنٹرول نہیں کر رہے، مثلاً چینی فوج۔ ترقی حاصل کرنے کے لیے چھوٹے افسران کا اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران کو قیمتی اشیا کے تحائف اور نقد رقم بطور رشوت دینا معمول کی بات ہے۔ گزشتہ سال تفتیشی حکام نے شو تسائی ہو کو گرفتار کیا جو ایک سابق جرنیل ہیں۔ یہ دفتر سیاسی کے رکن بھی رہے ہیں اور مرکزی فوجی کمیشن کے نائب سربراہ بھی۔ تفتیش کاروں کو ان کے گھر سے سونے، نقد پیسوں، زیورات اور قیمتی تصاویر کے بڑے ذخیرے ملے۔ جماعت کا الزام تھا کہ یہ تمام تحائف شو تسائی ہو کو ان چھوٹے افسران کی طرف سے دیے گئے، جو ترقی کا زینہ چڑھنا چاہتے تھے۔ اشتراکی جماعت کی طرف سے معزول کیے جانے کے بعد، چینی سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق، شو تسائی ہو نے اقبالِ جرم کر لیا۔ چند ماہ بعد وہ چل بسے۔ ان کی موت کی وجہ کینسر بتائی گئی۔
تاہم صرف براہِ راست ریاستی ملکیت ہی بدعنوانی کے راستے فراہم نہیں کرتی۔ نجی طبقے پر، جو بے انتہا انتظامی طاقت چینی حکام کو حاصل ہے، وہ انہیں اپنی جیبیں گرم رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ بے حد منظم صنعتوں مثلاً مالیات، مواصلات اور دوا سازی میں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے رشتہ دار نجی کاروباری لوگوں کے لیے اکثر بطور ’مشیر‘ کام کرتے ہیں، تاکہ وہ اجازت نامے اور منظوریاں حاصل کرسکیں جو انہیں کام کرنے کے لیے درکار ہیں۔ ریاستی غذا اور دوا انتظامیہ (State food and drug administration) کے سابق صدر زینگ شیائو نے نئی مصنوعات کی منظوری کے لیے کوشاں دوا ساز کمپنیوں سے رشوت کی مد میں کم و بیش ۰۰۰,۸۵۰ ڈالر وصول کیے۔ ۲۰۰۷ء میں جب زینگ شیاؤ کی جانب سے منظور شدہ کھانسی کا زہریلا شربت پینے سے پاناما میں سو لو گ مر گئے تو ان پر بدعنوانی کا مقدمی چلا۔ وہ مجرم ثابت ہوئے اور چند ماہ بعد پھانسی چڑھا دیے گئے۔
بدعنوانی نے قانون کے نفاذ اور عدالتی نظام کو بھی آلودہ کیا ہے۔ منظم جرائم پیشہ گروہ اپنے منشیات اور جسم فروشی کے اڈوں کو قانون کی گرفت سے محفوظ رکھنے کے لیے پولیس افسران کو رقوم دیتے ہیں۔ مشتبہ مجرمان اور ان کے رشتہ دار جیل سے چھٹکارا حاصل کرنے یا تفتیش سے بچنے کے لیے پولیس کو رشوت دیتے ہیں۔ چین کی عدلیہ بھی آزاد نہیں۔ لہٰذا اگر پولیس کو رشوت دینے سے کام نہ بنے تو ایسے جماعتی اور حکومتی عہدیداران تو ہمیشہ موجود ہی رہتے ہیں جو ’’صحیح قیمت کے عوض‘‘ مقدمے میں مداخلت کرنے کے قابل یا خواہش مند ہوتے ہیں۔ حکام الزام عائد کرتے ہیں کہ چویانگ کانگ، جو جماعت کی قانونی اور داخلی امورِ سلامتی کی قائمہ کمیٹی کے سابق رکن ہیں، رشوتیں حاصل کرکے ذاتی طور پر کئی مقدموں میں مخل ہوئے۔ چویانگ کانگ کو گرفتار کیا گیا، فردِ جرم عائد کی گئی اور گزشتہ سال وہ جماعت سے بے دخل کر دیے گئے۔ فی الوقت وہ مقدمے کی کارروائی کے انتظار میں ہیں۔ کئی دہائیوں میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ قائمہ کمیٹی کے کسی سابق رکن پر ریاست نے فوجداری مقدمہ چلایا ہو۔
جیسے جیسے چین کی مقامی منڈیوں کو فروغ ملا ہے، کثیر القومی کمپنیاں اور بینک جان گئے ہیں کہ رسائی حاصل کرنے کے لیے یہ پتا ہونا ضروری ہے کہ کس کی مٹھی گرم کرنی ہے۔ کئی اداروں نے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے بچوں کو اپنے پاس نوکری دینے کا راستہ اپنایا ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات وہ مغربی جامعات میں ان کی ٹیوشن فیس بھی ادا کرتے ہیں۔ دیگر نے اور بھی زیادہ براہِ راست راستہ اختیار کیا ہے۔ وہ ’’بیچ کے شخص‘‘ کو کثیر ’’مشاورتی‘‘ رقم ادا کرتے ہیں تاکہ وہ اسٹاک پیشکشوں میں حصہ لے سکیں یا حکومتی ٹھیکوں کے لیے بولیوں میں ترجیحی سلوک کے حقدار بن سکیں۔ اس ماحول نے بعض کثیر القومی کمپنیوں کی حوصلہ شکنی کی ہے اور انہیں سرمایہ لگانے اور کاروبار کرنے سے روکا ہے، خاص طور پر ایسی کمپنیاں جو امریکا کے بدعنوانی مخالف قوانین کی پابند ہیں۔
اسی دوران میں حکام نے اپنے ناجائز مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ڈھیلے مالیاتی قوانین اور شفافیت کے فقدان کا فائدہ اٹھایا ہے۔ بہت سے حکام کے پاس مختلف ناموں لیکن درست ویزوں کے ساتھ کئی چینی پاسپورٹ ہیں، جنہیں وہ بیرونِ ملک سفر کرنے اور غیر ملکی بینکوں میں اپنا پیسہ محفوظ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بدعنوانی سرکاری حلقوں اور وسیع کاروبار تک ہی محدود نہیں۔ معاشرے کا ہر پہلو اس کے اثرات محسوس کرتا ہے۔ تعلیمی نظام ہی کو دیکھ لیں۔ نسبتاً کم تعداد میں موجود اعلیٰ معیار کے چینی پرائمری و سیکنڈری اسکولوں اور جامعات میں سے کسی ایک میں داخلہ دلوانے کے لیے والدین کو داخلہ افسروں اور ہیڈ ماسٹروں کو اکثر رشوت دینی پڑتی ہے۔ اسی طرح اچھے اسپتالوں اور تربیت یافتہ طبی عملے کی قِلت نے ڈاکٹروں اور طبی انتظامیہ کو ’’ہانگ باؤ‘‘ یعنی پیسوں سے بھرا ایک سرخ لفافہ فراہم کرنے کی روایت کو جنم دیا ہے، تاکہ مناسب علاج کو یقینی بنایا جاسکے۔
نظام کو صاف رکھنے کی کوشش
اس دور رس مسئلے سے نمٹنے کے لیے شی نے محض ظاہری مرہم پٹی سے زیادہ کا وعدہ کیا ہے اور طویل مدت انتظامی اصلاحات لانے کا ارادہ کیا ہے۔ اس کا پہلا حصہ گزشتہ دو سالوں میں ریاستی سطح پر بدعنوانی کے خلاف ہونے والا کریک ڈاؤن ہے۔ اب تک اس مہم میں عوامی رنگ غالب ہے۔ اس میں صرف سرکاری عہدیداروں، بیوروکریٹ اور مرکزی کاروباری شخصیات کو ہدف بنایا گیا ہے، جن کے بدعنوانی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے بارے میں جماعت کو شک ہے۔ عام چینی لوگ ابھی اس کی زد میں نہیں آئے۔
اس مہم نے نہ صرف بدعنوانی پر سزا دینے بلکہ اس کی روک تھام کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ سال ۲۰۱۲ء کے آخر میں جماعت نے ہدایات کا ایک مجموعہ شائع کیا جو ’’آٹھ اصول اور چھ ممنوعات‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان ہدایات میں بیوروکریٹس پر تحائف اور رشوتیں وصول کرنے، مہنگے ہوٹلوں، ریستورانوں یا نجی کلبوں کے دورے کرنے، گالف کھیلنے، ذاتی سفر کے لیے حکومتی فنڈ استعمال کرنے، نجی کاموں کے لیے حکومتی گاڑیاں استعمال کرنے اور اسی جیسے دوسرے افعال پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
حکومت نے تمام عہدیداروں اور ان کے گھر والوں سے اپنے اثاثے اور آمدنی ظاہر کرنے کا بھی تقاضا کیا ہے تاکہ ناجائز ذرائع سے حاصل دولت کو چھپانا مشکل بنایا جاسکے۔ اس کے ساتھ ہی نظام میں موجود آمدنی کے تفاوت کو کم کرکے جوڑ توڑ کے امکانات کو کم کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ گزشتہ سال حکومت نے فوجی افسران، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور دیگر براہِ راست حکومتی ملازمین کی تنخواہیں اور ریٹائرمنٹ مراعات بڑھائی ہیں۔ جبکہ ریاستی اداروں کے بہت زیادہ تنخواہیں لینے والے اعلیٰ انتظامی افسران کی مشاہروں میں خاطر خواہ کمی کی گئی ہے۔
بنیادی طور پر شی کی مہم قوانین کے نفاذ کی جدوجہد ہے، جو مرکزی کمیشن برائے معائنۂ نظم و ضبط (سی سی ڈی آئی) پر عائد ہے۔ سی سی ڈی آئی ہر وزارت اور محکمے اورہر بڑے ریاستی ادارے کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے تفتیشی ٹیمیں بھیجتا ہے۔ ان ٹیموں کے پاس کسی سے بھی تفتیش کرنے، حراست میں لینے اور پوچھ گچھ کرنے کا لامحدود اختیار ہے، خاص طور پر حکومتی افسران سے، جن کی بڑی تعداد جماعت کی رکن بھی ہے۔ ایک دفعہ ٹیموں کو یقین ہو جائے کہ انہوں نے بداعمالی کے کافی شواہد جمع کر لیے ہیں تو سی سی ڈی آئی مشتبہ افراد کو جماعت سے بے دخل کر دیتا ہے اور اس کے بعد انہیں تفتیش کے لیے عدالتی نظام کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
شی نے اعلان کیا ہے کہ کسی بدعنوان افسر کو معاف نہیں کیا جائے گا، چاہے وہ کتنے ہی بڑے عہدے پر فائز ہو۔ تاہم، عملاً سی سی ڈی آئی نے اپنے اہداف بہت احتیاط سے چُنے ہیں، خاص طور پر اعلیٰ عہدوں پر۔
چو یانگ کانگ کے خلاف کارروائی کو ایک نئی نظیر کے طور پر دیکھا گیا۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی کے اواخر سے جماعت نے قائمہ کمیٹی کے کسی موجودہ یا سابق رکن کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے خاموش اصول کی پیروی کی ہے۔ چنانچہ چو کی معزولی اور ان کے خلاف کارروائی انوکھی مثال ہے۔ لیکن یہ مثال بھی مستقبل کا پتا دینے والے واقعہ سے زیادہ دوسروں کو متنبہ کرنے کی ایک چال نظر آتی ہے، جس کا مقصد جماعت کی قیادت کے اندر شی کے خلاف کسی ممکنہ مزاحمت کو روکنا ہے۔ چو اس لیے آسان ہدف تھے کیونکہ وہ سبکدوش ہو چکے تھے اور اب ان کے پاس کوئی براہِ راست اثر یا طاقت نہیں تھی۔ مزید یہ کہ انہوں نے جماعت کے اعلیٰ افسران کے اس گروہ کی بھی پُشت پناہی کی تھی، جس نے شی کی طاقت و اختیار کو ان کے دَور کے شروع میں چیلنج کرنے کی کوشش کی۔ ان افسران میں سے ایک چانگ کنگ کے بااثر جماعتی راہنما بوشیلائی تھے، جو ۲۰۱۳ء میں بد عنوانی اسکینڈل اور قتل کے منصوبے میں اپنی بیوی کے ملوث ہونے کی وجہ سے معزول ہوئے۔ چو کے خلاف کارروائی کی آخری وجہ چو اور ان کے گھر والوں کا کھلم کھلا بدعنوان سرگرمیوں میں ملوث ہونا تھا۔ کچھ اخباری رپورٹوں کے مطابق، حکام قائمہ کمیٹی کے دیگر ارکان اور ان کے قریبی گھر والوں کے بارے میں بھی تفتیش کر رہے ہیں۔ لیکن اب تک ’’سرخ اشرافیہ‘‘ کے کسی عالی رتبہ رکن کو ہدف نہیں بنایا گیا۔ شو اور چو سمیت اعلیٰ سطح کے سارے اہداف ایک ہی ڈھیلے سیاسی نظام کا حصہ ہیں۔ بظاہر، اب بھی کچھ سرخ لکیریں ہیں جنہیں شی پار نہیں کرنا چاہتے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اگرچہ شی نے ملک کے کلیدی فوجی ادارے کے بارے میں تحقیقات کی اجازت دے رکھی ہے مگر مرکزی فوجی کمیشن کی کمیٹی برائے معائنۂ نظم و ضبط، جو سی سی ڈی آئی، کے مساوی ہے، میں کسی قسم کی افرادی تبدیلی انہوں نے نہیں کی۔
شی کی مہم کے کچھ دوسرے عناصر بھی پریشان کُن ہیں۔ یہ عناصر موجودہ نظام میں اختیارات کا غلط استعمال کر کے فرار ہونے کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور ان قانونی اصلاحات کی روح کے خلاف ہیں جو شی لانا چاہتے ہیں۔ شی کا دعویٰ ہے کہ وہ باضابطہ عدالتی کارروائی میں بہتری اور پولیس اور عدالتی طریقوں میں کمی لانا چاہتے ہیں۔ مگر سی سی ڈی آئی خود بھی ہمیشہ معیاری قانونی طریقوں کا لحاظ نہیں رکھتا۔ مثال کے طور پر چینی قانون کسی مشتبہ شخص کو بغیر فردِ جرم عائد کیے صرف ۷ دن تک زیرِ حراست رکھنے کی آزادی دیتا ہے، بصورتِ دیگر حراست کی مدت بڑھانے کے لیے پولیس کو عدالتی حکام سے واضح اجازت طلب کرنی پڑتی ہے۔ مگر سی سی ڈی آئی نے بغیر کسی منظوری کے یا فردِ جرم عائد کیے طویل عرصوں تک مشتبہ افراد کو حراست میں رکھا ہے۔
اسی دوران نئے حاصل شدہ اختیارات کی بدولت سی سی ڈی آئی جماعتی نظام کے اندر بتدریج طاقتور ترین ادارہ بن کر ابھر رہا ہے۔ اگر جماعت سی سی ڈی آئی کی طاقت و اثر کو محدود اور متوازن کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی تو یہ کمیشن کسی کے سامنے بھی جوابدہ نہیں رہے گا اور اس کے اپنے اندر وہی مسائل سر اٹھائیں گے جن سے نمٹنے کے لیے اسے تشکیل دیا گیا ہے۔
اس مہم کی کامیابی میں شاید سب سے بڑی رکاوٹ بیوروکریٹک نظام کی طرف سے آنے والی مضبوط مخالفت ہے۔ شی نے کئی طاقتور بیوروکریٹس اور افسران کے مفادات پر براہِ راست ضرب لگائی ہے، یہاں تک کہ تفتیش سے بچ جانے والوں کی خوشحالی اور مراعات بھی سمٹ گئی ہیں۔ کئی افسران اس نظریے کو قبول کرنے میں بھی متامل ہیں کہ جس طریقے سے وہ کام کرنے کے ہمیشہ سے عادی تھے، بنیادی طور پر وہ غلط تھا۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ جوڑ توڑ کے ذریعے جو فائدے انہوں نے سمیٹے ہیں، وہ ان کا حق تھا۔ کیونکہ اس کے بغیر کوئی کام سرانجام نہ پاتا اور نظام ناکارہ ہو جاتا۔
شی کے دور کے آغاز میں کچھ افسران کا خیال تھا کہ اگرچہ کھلم کھلا رشوت کے لین دین کا دور ختم ہو گیا ہے، لیکن اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھا کر نفع حاصل کرنا اب بھی ممکن ہوگا۔ بس انہیں تھوڑا ہوشیار رہنے کی ضرورت ہوگی۔ ۲۰۱۳ء میں ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے چینی سرکاری ذرائع ابلاغ کا حوالہ دے کر خبر دی کہ ایک نیا نعرہ حکومتی عہدیداروں میں مقبول ہو گیا ہے۔ وہ نعرہ ہے ’’کھاؤ خاموشی سے، لو آہستگی سے اور چال چلو رازداری سے‘‘۔ مگر اعتماد کا یہ احساس یہ واضح ہونے کے بعد ہوا میں تحلیل ہو چکا ہے کہ شی کریک ڈاؤن کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔
گزشتہ دو سالوں میں، جماعتی ارکان اور ریاستی بیوروکریٹ نئے ضابطوں کو توڑنے کے حوالے سے کافی محتاط ہو گئے ہیں، اگرچہ بہت سے خاموشی کے ساتھ صورتِ حال کو جانچ رہے ہیں۔ روایتی طور پر بدعنوانی نظام کے پہیہ کو چالو رکھتی تھی۔ چنانچہ اس مہم کی وجہ سے نظام کے کام کرنے کی رفتار میں فرق آیا ہے اور چینی معیشت سست روی کا شکار ہوئی ہے۔ بیورو کریسی کی رکاوٹوں کو عبور کرنے میں اگر بدعنوانی کاروباری لوگوں کی مدد نہیں کرے گی تو شی پر ایسی معاشی اصلاحات نافذ کرنے کا اضافی دباؤ آجائے گا جو ان رکاوٹوں کو بڑی حد تک کم کر سکیں۔
’بدعنوانی مخالفت‘ کی سیاست
بدعنوانی مخالف مہم شی کے دور میں واقع ہونے والی بہت سی مرکزی تبدیلیوں میں سے ایک ہے۔ لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل میں یہ کیا صورت اختیار کرے گی۔ مایوس کُن منظر نامہ یہ ہوگا کہ جماعت کی اعلیٰ قیادت اور بیوروکریٹک قوتیں شی کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیں اور یہ مہم ناکامی سے دوچار ہو جائے۔ یہ نتیجہ تباہ کُن ہوگا۔ بدعنوانی ۲۰۱۲ء سے پہلے کی سطح تک بڑھ جائے گی، معیشت غیر مستحکم ہوگی، سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہو گا اور شی کے اختیار میں خاطر خواہ کمی آجائے گی، جس کے نتیجے میں ان کے لیے حکمرانی کرنا مشکل ہو جائے گا۔
ایک امید افزا منظرنامہ یہ ہوگا کہ شی اندرونی مخالفت پر غالب آجانے میں کامیاب ہو جائیں اور وسیع معاشی، قانونی اور سیاسی اصلاحات کی جانب بڑھیں۔ مثالی صورتِ حال یہ ہوگی کہ یہ مہم شی کی طاقتی اساس کو مزید مستحکم کرے اور انہیں وہ حمایت حاصل کرنے میں مدد دے جو پالیسی اور انتظامی و تنظیمی طاقت پر جماعت کی مضبوط گرفت کو کم کرنے کے لیے انہیں درکار ہے اور اس طرح ایک سازگار ماحول پیدا ہو جو زیادہ آزاد نجی طبقے کی افزائش کرے۔
مغربی طرز کا جمہوری نظام قائم کرنے میں شی کو کوئی دلچسپی نہیں، مگر انہیں اس بات کا یقین ضرور ہے کہ چین ایک شفاف تر اور زیادہ پُراثر استبدادی نظام ایجاد کر سکتا ہے۔ اس ہدف کو زیادہ بہتر طریقے سے حاصل کرنے کے لیے شی کو اپنے بدعنوانی مخالف جہاد میں کچھ دیگر مؤثر عناصر کو شامل کرنے پر بھی غور کرنا چاہیے۔ ان میں سے ایک وہ قدم ہے جس کا مطالبہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل اور جی۔۲۰ نے بھی کیا ہے، یعنی عوامی رجسٹروں کو بہتر بنا کر اس بات کو واضح کرنا کہ کون سی زمین کس کے قبضے میں ہے اور کون کس کمپنی کا مالک ہے، تاکہ بدعنوان افسران اور کاروباری حضرات کے لیے اپنے ناجائز منافع پوشیدہ رکھنا ممکن نہ رہے۔
فی الوقت مایوس کن منظرنامے کے بجائے امید افزا منظرنامے کی توقع کرنے کی وجوہات زیادہ ہیں۔ ریاست کے طاقتی ڈھانچوں پر شی پہلے ہی اپنی گرفت بہت حد تک مضبوط کر چکے ہیں اور کسی بھی ایسے شخص کو ہٹانے پر قادر و عازم ہیں جو اُن کے اختیار یا پالیسیوں کو چیلنج کرے۔ اب تک بدعنوانی مخالف مہم کے لیے اعلیٰ قیادت اور بیورو کریٹک نظام کی طرف سے آنے والی مخالفت پُرجوش نہیں دھیمی ہے۔ رپورٹوں کے مطابق بعض بیورو کریٹس نے خاموش احتجاج کے طور پر اپنے کام کی رفتار سست کردی ہے۔ جبکہ عوامی سطح پر اس مہم کو اب بھی مضبوط حمایت حاصل ہے، خاص طور پر کم اور درمیانی آمدنی والے چینیوں کی جانب سے جو سمجھتے ہیں کہ بدعنوانی نے چین کے پہلے سے موجود غیر منصفانہ نظام کو اور بھی غیر منصفانہ بنا دیا ہے۔ چنانچہ بدعنوانی کی مخالفت جماعت کے لیے سماجی کشیدگیوں اور تفاریق کو کم کرنے کا ایک ذریعہ ہے جو معاشی کارکردگی کے سست پڑنے کے نتیجے میں سر اٹھا سکتی ہیں، جبکہ نظام میں شدید معاشی عدم برابری بھی موجود ہو۔ اس عوامی حمایت کو قائم رکھنے کے لیے شی کو جو صلاحیت درکار ہے، وہ مہم کے پھیلاؤ اور شدت کو صحیح طرح معین کرنے کی مہارت ہے۔ نہ تو یہ مہم اتنی محدود یا میانہ رو ہو کہ بے دلی سے انجام پاتی نظر آئے، نہ ہی اتنی وسیع کہ خود ہی ظلم و زیادتی کا ذریعہ بن جائے۔
(مترجم: طاہرہؔ فردوس)
“Xi’s corruption crackdown”.
(“Foreign Affairs”. May/June 2015)
Leave a Reply