
یمن کے دارالحکومت صنعا پر قبضے اور پھر سعودیہ کی جانب سے فضائی حملوں کے آغاز کے بعد یمن کا حُوثی قبیلہ دنیا بھر میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ عوام تو عوام، ہمارے خاصے صاحب علم افراد کے پاس بھی حُوثی قبیلے کی تاریخ اور مذہب کے بارے میں مستند معلومات نہیں ہیں۔ اہلِ صحافت، خصوصاً ٹی وی اینکرز اس بارے میں عجیب و غریب خود ساختہ حقائق پھیلا کر لوگوں کو مزید کنفیوز کر رہے ہیں۔
حُوثیوں کے بارے میں عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ یہ شیعہ مذہب کے زیدی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات ماضی کے حوالے سے کسی حد تک درست ہے، لیکن اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک نظر، زیدی فرقے کے مذہبی عقائد پر ڈال لیتے ہیں۔ زیدی شیعہ، عقائد کے اعتبار سے اثنا عشری (بارہ امامی) اور اسماعیلی شیعوں سے مختلف ہیں۔ اثنا عشری اور اسماعیلی شیعہ، امامت پر نص کے اصول کے قائل ہیں۔ جس کے مطابق امام کے انتخاب کا حق اُمت کے بجائے خدا کو حاصل ہے۔ جبکہ زیدی شیعوں کا ماننا ہے کہ امامت اگرچہ اہل بیعت اور اولادِ فاطمہؓ میں ہے، تاہم اُمت، اہل بیعت میں سے کسی بھی ایسے راہنما کو امام مان سکتی ہے جس کا عدل مشہور ہو اور جو ظلم کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے۔ فقہی اعتبار سے بھی زیدی شیعہ، حنفی اور مالکی سُنّی مکاتب فکر سے قریب ہیں۔
معاملات کو سمجھنے کے لیے ہم یمن کی پچھلی ایک دو صدیوں کی تاریخ پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے شمالی یمن، زیدی شیعہ اکثریتی علاقہ رہا ہے۔ زیدی شیعوں کے سیاسی تسلط کی تاریخ، شمالی یمن میں کوئی ہزار سال تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں ایسے ادوار بھی ہیں جن میں یہ تسلط شمالی یمن سے بڑھ کر، تقریباً پورے یمن میں موجود رہا ہے۔
اس کے برعکس جنوبی یمن، (جس کا سیاسی دارالحکومت بالعموم عدن کی بندرگاہ ہے) تاریخی اعتبار سے سُنّیوں کے شافعی مکتبِ فکر کی اکثریت کا گہوارہ رہا ہے۔ عدن کی بندرگاہ اور جنوبی یمن کے اکثر حصے اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں پہلے سلطنتِ عثمانیہ اور بعد میں براہ راست برطانوی سلطنت کے زیر اختیار چلے گئے تھے۔ تاہم شمالی یمن میں دو صدیوں سے قائم شیعہ زیدی امامت نے کسی نہ کسی طرح ۱۹۶۲ء تک اپنی سلطنت کو برقرار رکھا، اگرچہ اُس کی حیثیت کئی ادوار میں علامتی ہی تھی۔
۱۹۶۲ء میں مشرقِ وسطیٰ میں جاری عرب سوشلسٹ نیشنلسٹ تحریک کے نتیجے میں مصر کے صدر کرنل جمال عبدالناصر کے حامی فوجی افسران نے شمالی یمن میں شیعہ زیدی امامت کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ اس موقع پر سعودی عرب کی حکومت نے زیدی امام کا ساتھ دیا تھا۔ جبکہ باغیوں کی امداد کے لیے مصر کے صدر کرنل جمال عبدالناصر نے مصری فوج اور بڑی مقدار میں اسلحہ یمن بھیجا تھا۔ یمن کی یہ خانہ جنگی پانچ سال تک جاری رہی۔ ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ میں بدترین شکست کے نتیجے میں، جمال عبدالناصر شمالی یمن سے مصری افواج کے انخلا پر مجبور ہوگیا تھا۔ یوں سعودی عرب اور مصر کے درمیان ایک مفاہمت کے نتیجے میں یمن دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ ایک طرف شمال میں ’’جمہوریۂ یمن‘‘ معرض وجود میں آیا تو دوسری طرف جنوبی یمن میں جاری نیشنلسٹ سوشلسٹ گوریلا تحریک کے نتیجے میں برطانیہ کا عدن اور جنوبی یمن کی دوسری نوآبادیوں سے انخلا عمل میں آیا۔ جس کی بدولت ’’عوامی جمہوریۂ یمن‘‘ یا ’’سوشلسٹ یمن‘‘ کا قیام عمل میں آیا جو سرد جنگ کے زمانے میں عرب دنیا کی واحد سوشلسٹ جمہوریہ تھی۔
۱۹۹۰ء میں ایک معاہدے کے تحت شمالی اور جنوبی یمن میں اتحاد ہو گیا۔ یوں ۲۲ مئی ۱۹۹۰ء کو علی عبداللہ الصالح متحدہ یمن کے پہلے صدر بن گئے۔
۲۲ مئی ۱۹۹۰ء سے ۲۷ فروری ۲۰۱۲ء تک یمن پر بِلاشرکت غیرے حکمرانی کرنے والے علی عبداللہ صالح کا تعلق متحدہ یمن کے دارالحکومت صنعا کے نواح میں مقیم احمر قبیلے سے ہے، جس کی اکثریت مذہباً ’’زیدی شیعہ‘‘ ہے۔ خود عبداللہ کا تعلق بھی اسی مذہب سے ہے۔ عبداللہ الصالح کی متحدہ یمن پر حکومت کے قیام کو چند ماہ ہی گزرے تھے کہ اگست ۱۹۹۰ء میں کویت پر عراق نے قبضہ کر لیا۔ جس کے بعد عرب کی تمام ریاستوں نے صدام حسین کی عراقی حکومت کے خلاف اتحاد قائم کر لیا۔ لیکن یمن کا عمومی جھکاؤ عراق کی جانب تھا۔ جس کی وجہ سے یمن اور دیگر خلیجی ریاستوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ خصوصاً خلیج کی دوسری جنگ کے موقع پر یمن نے کھل کر اپنا وزن عرب اتحاد کے مخالف پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ یمن کی خارجہ پالیسی کے ردعمل میں سعودی عرب، کویت اور دیگر خلیجی ممالک کی عاقبت نااندیش قیادت نے اپنے ہاں سے بڑی تعداد میں یمنی شہریوں کو نکال دیا۔ یاد رہے کہ اس جنگ سے پہلے کویت اور سعودی عرب سمیت دیگر تیل پیدا کرنے والی ریاستوں کی یمن اور یمنیوں پر بڑی عنایات تھیں۔ تعلیم، صحت، اور دیگر ترقیاتی منصوبوں میں یمن کو ان ریاستوں سے بڑے پیمانے پر تعاوّن ملتا تھا۔ ان ملکوں میں یمنیوں کو کام کرنے اور رہنے کے لیے غیر معمولی سہولیات میسر تھیں۔ خلیجی ممالک سے بڑے پیمانے پر انخلا کی وجہ سے یمن میں عوام بہت زیادہ معاشی مشکلات کا شکار ہو گئے، خصوصاً یمن میں بے روز گاری میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ اس معاشی ناگفتہ بہ صورت حال میں یمن کے عوام میں عرب حکومتوں کے خلاف جذبات کا پیدا ہونا فطری عمل تھا، جس کا فائدہ ایران نے اٹھایا۔
اگرچہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں شیعہ زیدی امامت کے خاتمے کے بعد سے ہی شیعہ نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ حالات سے ناخوش تھا۔ تاہم ۱۹۹۰ء میں عرب ممالک کی جانب سے یمن کی اقتصادی امداد میں کٹوتی اور عمومی سرد مہری کے رجحان سے فائدہ اٹھانے کے لیے حسین بدرالدین حُوثی نے ایران کے تعاون سے ’’شباب المومنین‘‘ نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔ حُسین ایک زبردست خطیب اور اپنے ساتھ لوگوں کو لے کر چلنے میں ماہر تھا۔ اس نے سب سے پہلے نوجوانوں کے اندر اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ ایران کی امداد سے شیعہ اکثریتی علاقوں میں اسپتال، اسکولز اور سوشل ویلفیئر کے دوسرے منصوبے شروع کیے۔ ان تمام اداروں میں خاص طور پر ’’امامی شیعہ دینیات‘‘ کے پڑھنے اور پڑھانے کا نظام قائم کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں زیدی شیعوں کو امامی یا اثنا عشری بنانے کا آغاز ہوا۔ ’’شباب المومنین‘‘ کے زیراہتمام طلبہ اور طالبات کو بڑی تعداد میں ایرانی یونیورسٹیوں میں داخلہ دلوایا گیا، جو ایران سے عمومی تعلیم کے علاوہ مالی تعاون سمیت عسکری تربیت بھی حاصل کرتے تھے۔ یوں وہ ایران سے شیعہ انقلاب اور خمینی کے سپاہی بن کر یمن واپس آتے تھے۔ حسین بدر الدین حوثی نے اپنی خطیبانہ مہارت، انقلابی نعروں اور ایرانی پیسے کی مدد سے حُوثی قبیلے کے شیعہ قائدین اور عوام کو اپنے گرد جمع کرلیا۔ وہ بہت سے فوجی کمانڈروں اور حزب اختلاف کے لیڈروں کو بھی اپنے پیسے کے لالچ سے اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گیا۔
۱۴؍سال کی محنت اور ایران سے آنے والے بے پناہ وسائل کی بدولت بدرالدین حُوثی نے اتنی عسکری قوت مہیا کی کہ اُس نے ۲۰۰۴ء میں یمن پر قبضہ کرنے کے لیے بغاوت کر دی۔ یہ پہلی حُوثی بغاوت کہلاتی ہے جو شمالی یمن کے سعودی سرحد سے متصل صوبے صعدہ میں ہوئی تھی۔ حُوثیوں کی یہ بغاوت بُری طرح ناکام ہو گئی تھی، اس بغاوت میں شباب المومنین کا بانی حسین بدرالدین حُوثی اور اُس کے بہت سے اہم رفقاء یمنی فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ خیال رہے کہ اس وقت یمن پر زیدی مذہب سے تعلق رکھنے والے علی عبداللہ الصالح کی حکومت تھی۔ حسین بدر الدین حُوثی کے مارے جانے کے بعد تحریک کی قیادت اُس کے بھائی عبدالمالک الحُوثی کے پاس آگئی۔ عبدالمالک الحُوثی نے قیادت سنبھالتے ہی زیدی شیعوں سے تعلق مکمل طور پر ختم کر دیا۔ ’’شباب المومنین‘‘ کی تنظیم کو تحلیل کر کے اس کی جگہ نئی تنظیم ’’انصار اللہ‘‘ قائم کی جسے عرف عام میں ’’الحُوثی تحریک‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس تحریک میں صرف اور صرف اثناء عشری مذہب اختیار کرنے والوں کو شامل کیا گیا، جن میں اکثریت حُوثی قبیلے کے افراد کی ہے۔
عبدالمالک الحُوثی کی خوش قسمتی تھی کہ جب اُس کے پاس قیادت آئی تو اُس وقت امریکا اور مغربی ممالک، یمن میں القاعدہ کے فروغ اور استحکام سے سخت پریشان تھے۔ امریکا اور نیٹو نے القاعدہ کے یمن میں روز بروز فروغ پاتے اثر و رسوخ کے سامنے بند باندھنے کے لیے حُوثی تحریک کا انتخاب کیا۔ یوں اسے بیک وقت ایران اور مغربی ممالک کا مالی اور عسکری تعاون حاصل ہو گیا۔ جبکہ امریکا کی سرپرستی کی وجہ سے سعودیوں اور دیگر خلیجی حکومتوں نے بھی اس کی سرگرمیوں سے چشم پوشی اختیار کر لی۔
امریکا، مغربی طاقتوں اور اُن کے خلیجی اتحادیوں کے نزدیک یمن میں طاقتور ہوتی ہوئی القاعدہ کی مقامی شاخ ’’انصارالشریعہ‘‘ القاعدہ کے دیگر گروپوں کی نسبت بہت زیادہ خطرناک تھی۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ان طاقتوں نے دو دھاری پالیسی کی بنیاد رکھی۔ ایک طرف یمن کے حکمران علی عبداللہ الصالح کی وفادار فوج ری پبلکن گارڈز (جس کی قیادت علی عبداللہ الصالح کے بیٹے احمد علی الصالح کے پاس تھی) کو مضبوط کرنا شروع کیا۔ ۲۰۰۴ء سے لے کر ۲۰۱۱ء تک یمنی ری پبلکن گارڈز کو امریکا کی جانب سے ۳۲۶ ملین ڈالر سے زائد مالیت کا اسلحہ اور نقد رقوم مہیا کی گئیں، اسی عرصے میں اس کے فوجی کمانڈروں کی تربیت کے کئی پروگرامات پایہ تکمیل تک پہنچے۔ ’’انسدادِ دہشت گردی‘‘ کے سلسلے میں ۲۰۰۴ء کی بغاوت کے وقت سے معتوب چلی آنے والی حُوثی تحریک کی حکومت سے صلح کرائی گئی۔ ۲۰۰۸ء میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت بغاوت کے جرم میں قید تمام حُوثی قائدین کو نہ صرف رہا کر دیا گیا، بلکہ ان کا تمام ضبط شدہ اسلحہ اور گولہ بارود واپس کر دیا گیا۔ ایران سے ملنے والی عسکری امداد پر بھی آنکھیں بند کر لی گئیں، جس کا امریکی حکام یہ جواز پیش کرتے تھے کہ اگر انہیں ایران سے امداد مل رہی ہے تو یہ القاعدہ سے لڑ بھی رہے ہیں۔
دوسری جانب القاعدہ کے خلاف یمنی فوج اور امریکا نے براہ راست جنگ کا بھی آغاز کر دیا۔ یمنی فوج زمینی کارروائیوں کی ذمہ دار تھی جبکہ اسے سعودیہ کی سرزمین سے پرواز کرنے والے امریکی ڈرون طیاروں کے ذریعے فضائی امداد مہیا کی جاتی تھی۔ امریکی ڈرون طیاروں کی ان کارروائیوں کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا نے پاکستان، عراق اور صومالیہ کی نسبت کہیں زیادہ ڈرون حملے یمن پر کیے۔ بظاہر یہ زمینی عسکری کارروائیاں اور ڈرون حملے القاعدہ اور اس سے تعاون کرنے والوں پر کیے جاتے تھے، لیکن عملاً ان کے نتیجے میں یمن کے تمام ہی سنّی قبائل کی عسکری قوت کو کمزور کر دیا گیا کیونکہ مغربی طاقتوں کا خیال تھا کہ القاعدہ کو سنّی قبائل سے اجتماعی یا انفرادی طور پر تعاوّن ملتا ہے۔
یمن کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی اُس وقت رونما ہوئی جب تیونس، مصر اور لیبیا میں ’’عرب بَہار‘‘ کی کامیابی کے بعد، یمن کے دارالحکومت صنعا اور دوسرے شہروں میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی گئی۔ حکومت نے مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کی حکمت عملی اپنائی۔ ۲ ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔ ۲۲ ہزار شدید زخمی ہوئے، جبکہ ۷ ہزار افراد جیلوں میں قید کردیے گئے۔ علی عبداللہ الصالح کے ری پبلکن گارڈز کی جانب سے طاقت کے وحشیانہ استعمال کے باوجود مظاہرین ڈٹے رہے۔ امریکا اور اُس کے یورپی و خلیجی اتحادیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ افراتفری کے اس ماحول سے القاعدہ فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ لہٰذا پُرامن انتقالِ اقتدار کا ایک فارمولا تیار کیا گیا، جس کے تحت علی عبداللہ الصالح کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور یمن کے تمام شراکت داروں (Stake Holders) پر مشتمل حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ نئی قائم ہونے والی حکومت کا صدر ’’عبدربہ منصور ہادی‘‘ مسلک کے اعتبار سے شافعی تھا، جبکہ اس حکومت میں وزیراعظم کا عہدہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنی مضبوط سیاسی پوزیشن کی وجہ سے اخوان المسلمون کی یمنی شاخ ’’جماعت الاصلاح‘‘ کے پاس آ گیا۔
یہاں حالات نے ایک اور کروٹ لی، عرب حکومتیں نہ صرف القاعدہ سے خائف تھیں، بلکہ وہ یمن میں اخوان کے نظریات رکھنے والے کسی شخص کو ملک کے اعلیٰ عہدے پر برداشت کرنے کو بھی تیار نہیں تھیں۔ لہٰذا اس حکومت کے ساتھ ان کا رویہ ابتدا ہی سے بہت سرد مہری کا تھا۔ امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں نے بھی اس حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی یمن کو دی جانے والی ہر قسم کی امداد بند کر دی۔ دوسری طرف علی عبد اللہ الصالح نے اقتدار سے علیحدگی کے بعد یہ پراپیگنڈا کرنا شروع کر دیا کہ ۱۹۱۱ء میں یمن سے خلافتِ عثمانیہ کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ایک بار پھر متحدہ یمن کے اقتدار پر اہلِ سنّت کا قبضہ ہو گیا ہے۔ اس نعرے کو اہلِ تشیع میں پذیرائی حاصل ہوئی، یمن کے شیعہ اکثریتی علاقوں میں اہل تشیع کے اقتدار کی بحالی کے نعرے بلند ہونا شروع ہوئے۔ علی عبداللہ الصالح کے تعاون، عبد المالک حُوثی کی قیادت اور ایرانی عسکری ماہرین کی رہنمائی میں حوثی قبائل کی فوجوں نے پیش قدمی کرنا شروع کر دی۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ حُوثیوں کی پیش قدمی کی راہ میں مزاحمت کرنے والوں میں سب سے نمایاں نام سابق صدر علی عبداللہ کے زیدی مذہب کے حامل قبیلے الاحمر کا ہے۔ جس کے مسلح نوجوانوں نے جنرل علی محسن الاحمر کی زیر قیادت ۶ مختلف مقامات پر حُوثیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ لیکن اس موقع پر ۳۰ سال سے زیادہ عرصے تک یمن کے سیاہ و سفید کے مالک رہنے والے علی عبداللہ الصالح کے وفادار ری پبلکن گارڈز (جسے نئی حکومت نے بحیثیت ادارہ تحلیل کر دیا تھا) اور دیگر سرکاری عہدے داروں نے حُوثیوں کا ساتھ دیا، اور وہ بغیر کسی بڑی مزاحمت کے دارالحکومت صنعا پر قابض ہو گئے۔ پھر انہوں نے طاقت کے بَل بُوتے پر سب سے پہلے ’’جماعت الاصلاح‘‘ کے وزیراعظم ’’سلیم باسندوا‘‘ کو برطرف کر دیا۔ ’’جماعت الاصلاح‘‘ کی قیادت اور کارکنوں کو چُن چُن کر قتل کیا گیا۔ یہاں تک سب کچھ منصوبے کے مطابق تھا، اسی لیے یورپی اور خلیجی حکومتوں نے حُوثیوں کے دارالحکومت صنعا پر قبضے پر بھی کسی خاص رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔
یمن کے دارالحکومت صنعا پر حُوثیوں کے مکمل قبضے اور وزیر اعظم کی جبری برطرفی کے بعد، قصر صدارت میں اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی جمال بن عمر (امریکی ٹاؤٹ کے طور پر شہرت رکھنے والے مراکش کے سابق سیاستدان) کی زیرنگرانی اور خلیج تعاون کونسل کی ضمانت میں ’’جماعت الاصلاح‘‘ کو ایک طرف رکھ کر، حُوثی نمائندوں اور باقی یمنی سیاسی جماعتوں کے مابین ایک دستاویز پر دستخط ہوئے، جسے ’’اتفاقی السلم والشراک‘‘ (معاہدہ امن و اشتراک) کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت سابق یمنی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ فوری طور پر ایک ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام پر اتفاق ہوا، جس کا وزیراعظم حُوثی ہونا قرار پایا۔ ’’عبد ربہ منصور ہادی‘‘ کو اس مجوزہ حکومت کا عبوری صدر نامزد کیا گیا۔ حُوثیوں نے اس امن معاہدے کی سیاسی دستاویز پر دستخط کردیے، لیکن انہوں نے فوجی اور دفاعی امور سے متعلق دستاویز کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، جس کے تحت حُوثیوں کو دارالحکومت صنعا سے پیچھے ہٹ جانا تھا اور سکیورٹی، سرکاری حکام کے حوالے کر دینی تھی۔
معاہدے کی شب حُوثیوں نے یمن کے تمام زیر قبضہ شہروں اور قصبات میں زبردست آتش بازی اور فائرنگ کرتے ہوئے ’’انقلابِ آزادی‘‘ کی کامیابی کا جشن منایا۔ انہوں نے دارالحکومت کو خالی کرنے کے بجائے وزارت دفاع، داخلہ، فوجی مراکز سمیت دارالحکومت کے تمام اہم مقامات پر اپنا قبضہ مستحکم کرلیا۔ صنعا اور دیگر زیر قبضہ شہروں میں واقع اہم فوجی چھاؤنیوں سے ٹینکوں، توپوں اور بکتربندگاڑیوں پر مشتمل بھاری اسلحہ اپنے قبضے میں لے کر، شمال میں واقع اپنے محفوظ فوجی ٹھکانوں میں منتقل کردیا۔ یہی نہیں بلکہ عبوری صدر کو اُس کے محل میں نظر بند رکھنے کے بعد صنعا سے نکال دیا۔ تہران اور صنعا کے درمیان براہ راست پروازوں کا غیر قانونی معاہدہ کر لیا۔ اسی دوران ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خصوصی ایلچی علی شیرازی نے فارسی نیوز ویب پورٹل ’’دفاع پریس‘‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ حُوثی گروپ ’’انصار اللہ‘‘، لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کی ایک نئی شکل ہے جو ’’یمن میں کامیابی کے بعد اسلام دشمنوں کے خلاف ایک نیا محاذ شروع کرے گا‘‘۔ اُدھر حُوثی باغیوں نے صنعا سے آگے پیش قدمی کرتے ہوئے یمن کے عارضی دارلحکومت عدن کو محاصرے میں لے لیا۔
عین یہی وہ وقت تھا جب حُوثیوں پر سعودی طیاروں کے فضائی حملوں کا آغاز ہوا۔ خیال رہے کہ سعودی عرب کی ڈیڑھ ہزار کلومیٹر طویل سرحد یمن سے ملتی ہے۔ حُوثی یمن کے علاوہ، سعودی عرب کے تین صوبوں ’’نجران، جازان اور عسیر‘‘ کو یمن کی سابق شیعہ سلطنت کا حصہ قرار دے کر دوبارہ قبضے کے دعوے دار ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ یمن کی ۷۰ فیصد آبادی سنّی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ۲۰ فیصد آبادی زیدی شیعہ ہے، جبکہ حُوثی کل آبادی کا ۵ فیصد بھی نہیں بنتے۔ اس لیے یمن پر اُن کے مستقل قبضے کی کوئی صورت عملاً نظر نہیں آتی۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ حُوثی اور ایران حُوثیوں کے موجودہ قبضے کے ذریعے یمن میں ایک خود مختار علاقے اور شام میں بشار الاسد کی حکومت کے برقرار رہنے کی یقین دہانی کے علاوہ، بحرین میں شیعہ حکومت کے قیام کے لیے سودے بازی کرنا چاہتے ہیں۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’ایقاظ‘‘ لاہور۔ مارچ تا اپریل ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply