
یمن میں عبوری حکومت (اخوان بھی جس کا اہم حصہ ہے) کے قیام سے اب تک امن و امان کی صورتحال میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی ہے۔ فروری ۲۰۱۲ء میں عوامی تحریک کے نتیجے میں علی عبداللہ صالح کی حکومت کے خاتمے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ حالات معمول پر آجائیں گے تاہم ملک کے جنوبی حصے میں آباد حوثی قبائل پہلے کی طرح حکومت کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہوئے۔ حوثی قبائل کا تعلق زیدی فرقے سے تھا جو شیعوں میں نسبتاً ایک معتدل فرقہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اس کے سربراہ علامہ بدرالدین حوثی تہران میں کئی سالہ قیام کے دوران ڈرامائی انداز میں اثناء عشری فرقے میں تبدیل ہوگئے۔ شروع میں ان کا مطالبہ اپنے حقوق کے حصول تک محدود تھا، پھر ایک الگ اور خود مختار ریاست کے قیام میں بدل گیا اور اب وہ پورے ملک پر قبضے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
گزشتہ ایک ماہ سے جنگجوؤں کی کارروائی میں تیزی آئی ہے، اور انہوں نے کئی اہم شہروں پر قبضہ کرنے کے بعد گزشتہ ایک ہفتے سے دارالحکومت صنعاء کا محاصرہ کر رکھا ہے اور دوسرے شہروں سے اس کا رابطہ منقطع کر دیا ہے۔ صنعاء کے اطراف میں انہوں نے متعدد چیک پوسٹ بھی قائم کی ہیں، جہاں وہ ہر آنے جانے والے پر نظر رکھتے ہیں اور ایئرپورٹ کی طرف جانے والی شاہراہ پر خیمے نصب کر رکھے ہیں اور راستوں کو سیمنٹ کے بڑے بڑے بلاک رکھ کر بند کر دیا ہے۔ جنگجوؤں نے وزارتِ مواصلات اور محکمہ بجلی کے مرکزی دفاتر کی جانب جانے والے راستوں پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق صنعاء میں مختلف سرکاری دفاتر پر قبضے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے بھی سرکاری محافظوں اور حوثی باغیوں کے درمیان جھڑپوں کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں جن میں ۷؍افراد ہلاک ہوئے۔
باغیوں کی جانب سے جاری مطالبات کی فہرست میں صدر کا استعفیٰ، حوثی قبائل کے اکثریتی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ خودمختاری، ملک میں مہنگائی کا خاتمہ اور گزشتہ معاہدوں پر عمل درآمد جیسے مطالبات شامل تھے۔ اب ان کے کچھ نئے مطالبات بھی سامنے آئے ہیں جن میں ملکی سطح پر اہم سیاسی فیصلوں میں ان کو شریک کرنا، وزیراعظم سمیت کئی اہم وزرا کی نامزدگی میں ان سے مشورہ کرنا شامل ہے۔
حوثی قبائل کو مکمل طور پر ایرانی سرپرستی حاصل ہے۔ ایران پہلے تو انکار کر رہا تھا لیکن بعد میں ایسے واقعات ہوئے جس کی وجہ سے یمن میں مداخلت سے انکار نہ کرسکا۔ تاہم کھلم کھلا حمایت کا راز اُس وقت کھلا، جب تہران کے امام جمعہ نے اپنے خطبے میں علی الاعلان یمن کے صدر کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور دھمکی دی کہ حکومت حوثی قبائل کے خلاف کارروائیوں سے باز آئے۔ انہوں نے حوثی قبائل کی امداد جاری رکھنے کا اعادہ کیا۔
حوثی تنظیم کا آغاز یمن میں اس وقت ہوا، جب ۱۹۹۰ء میں حکومت نے ایک جماعتی نظام کا خاتمہ کر کے سیاسی پارٹیوں پر سے پابندی ہٹا دی۔ لیکن چھوٹی سی تنظیم اب ایک مضبوط قوت بن گئی ہے۔ جو پورے ملک کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں بنیادی وجہ ایران کی پشت پناہی ہے۔ ایک مختصر جماعت جس کے ماننے والے ایک چھوٹے سے علاقے تک محدود ہوں، کسی بیرونی امداد کے بغیر اتنے لمبے عرصے تک اپنی جدوجہد برقرار نہیں رکھ سکتی۔ ایران حوثی قبائل کو یمن میں اس لیے برسراقتدار دیکھنا چاہتا ہے کہ اس طرح اسے سعودی عرب کے گرد حصار تنگ کرنے میں مدد ملے گی۔ وہ شمال میں عراق، شمال مشرق میں کویت، مشرق میں بحرین اور سعودی عرب کی شیعہ آبادی کے ذریعہ بھی سعودی عرب کے لیے ایک مسلسل پریشانی کا سبب ہے۔ اب اگر یمن میں بھی کامیابی ملتی ہے تو جنوب سے بھی اس کا محاصرہ ہو جائے گا۔ اس طرح ایران کے ہاتھ ایک مضبوط کارڈ آجائے گا جسے وہ جب چاہے، سعودی عرب کے خلاف استعمال کر سکے گا۔
حوثیوں کی مضبوطی اور پے درپے کامیابیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے گرد حکومت سے ناراض دیگر قبائل بھی جمع ہو گئے ہیں۔ ان میں ایسے قبائل بھی ہیں جو فکری اعتبار سے حوثیوں کے ہم خیال نہیں ہیں لیکن حکومت مخالف ہونے کی وجہ سے ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ قبائل اقتصادی بدحالی سے تنگ آکر ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
موجودہ صورتحال سے سعودی عرب کو سخت تشویش لاحق ہے۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے یمنی صدر منصور ہادی کو فون کرکے انہیں اپنی اور عرب لیگ کی جانب سے بھرپور حمایت کا یقین دلایا ہے۔
Leave a Reply