
اب جبکہ سعودی عرب کے زیرقیادت عرب مداخلت کو ایک برس گزر چکا ہے، اور اسے یمن کی سرکاری فوج کی مدد بھی حاصل ہے۔ میں یمن کے عوام سے پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہم امن کی بحالی کے لیے سنجیدگی سے مصروف عمل ہیں۔
’’حوثی‘‘ باغی عسکری طور پر کمزور ہوچکے ہیں۔ آئندہ ماہ امن بات چیت کا شروع ہونا مقرر ہے اور ۱۰؍ اپریل سے فائر بندی پر عمل درآمد کا آغاز ہوجائے گا، جس کے نتیجے میں بات چیت کی راہ ہموار ہوگی۔ حوثیوں پر لازم ہے کہ وہ فائر بندی کا احترام کریں۔ ہمیں اب اپنے وطن کی تعمیر نو پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے، جس کو جنگ نے تباہ کردیا۔
یمن کی جنگ کا آغاز ۲۰۱۴ء کے موسم سرما میں ہوا تھا جب حوثی باغیوں نے سابق صدر علی عبداللہ صالح کی ہمنوا فورسز کی معاونت سے عمران شہر میں سرکاری فوجوں کے یونٹوں پر حملہ کردیا۔ اس کے بعد اسی سال ستمبر میں باغیوں نے دارالحکومت پر قبضے اور منتخب آئینی حکومت کو ہٹانے کے واسطے صنعا کا رخ کیا۔
سابق صدر صالح کی فورسز اور حوثیوں کی جانب سے تشدد کی آگ بھڑکانے سے قبل میری حکومت نے کسی بھی جامع جنگ سے بچنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ چھوڑا اور ملک میں اقتدار کی پرامن منتقلی عمل میں آئی۔ تاہم معاملات اس وقت ہاتھ سے نکلے جب کہ ملک میں ’’قومی مکالمے کی کانفرنس‘‘ کی قراردادوں پر عمل درآمد کی کوشش ہورہی تھی۔ یہ کانفرنس جسے دنیا بھر نے سپورٹ کیا، اس کے زیربحث امور میں خود حوثیوں نے بھی شرکت کی، تاہم اس کے باوجود انہوں نے تشدد کو بھڑکایا دیا۔
ہمارے ملک کے انارکی کے گڑھے میں جانے کے بعد، ہمارے سامنے اس کے سوا کوئی حل نہ تھا کہ ہم سعودی عرب اور بعض دیگر عرب ممالک میں اپنے بھائیوں سے مدد طلب کریں۔ مداخلت کے بغیر یمن کا مستقبل ان ممالک جیسا ہوجانا تھا، جہاں کوئی قانون نہیں اور دشمنیوں نے ڈیرہ ڈالا ہوا ہے۔ چوں کہ یمن خلیج عدن پر اسٹریٹجک محل وقوع کا حامل ہے، اس لیے ممکن تھا کہ انارکی کا اثر ہماری ریاست کی سرحدیں عبور کرکے خلیجی اور یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ امریکا تک جا پہنچے۔
اب میری حکومت اور اتحادی افواج زمین پر طاقت کا توازن تبدیل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔ حوثیوں اور سابق صدر صالح کی فورسز کی جانب سے قبضے میں لی گئی اراضی کا ۷۵ فیصد حصہ آزاد کرالیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے حوثی امن بات چیت میں شرکت پر سنجیدگی سے آمادہ ہوئے ہیں۔ ہم حقیقتاً ان کوششوں کے بعض نتائج دیکھ رہے ہیں اور سعودی سرحد پر پھیلے علاقوں میں بھی لڑائی رک چکی ہے۔
میرا وطن جس کا ۱۰۰۰ سال سے زیادہ پرانا تہذیبی ورثہ قابل افتخار ہے، یہ وطن ایک بار پھر سے زندگی کا موقع حاصل کرنے کا مستحق ہے۔
انتہا پسندی کو شکست دینے کے لیے ہمارے پاس مضبوط اور ثابت قدم حکومت ہونا چاہیے، جو اپنے شہریوں کو خدمات فراہم کرسکے۔ ہم اس وقت جنگ کے بعد کے مرحلے کے لیے اقتصادی ترقی کا پروگرام تیار کرنے پر کام کررہے ہیں تاکہ یمن کی بحالی میں مدد کی جاسکے۔ تاہم عالمی برادری کو ہمارے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور ہماری مدد کرنا چاہیے، تاکہ یمن کی تعمیر نو کی جاسکے۔ ہمیں فوری طور پر اقتصادی امداد اور یمنی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان نوجوانوں کے عزم سے ملک کے مستقبل کے لیے فائدہ اٹھایا جاسکے۔
ہم اپنے عرب اور مسلمان بھائیوں کی جانب سے امداد کی پیش کش دیکھ رہے ہیں اور یقیناً حکومت کے زیادہ تر وزراء اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کے لیے عارضی دارالحکومت عدن واپس آچکے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اپریل میں مقررہ اقوام متحدہ کے مذاکرات کا نتیجہ امن کی سیاسی بات چیت کے دوبارہ آغاز اور قومی مکالمے کی کانفرنس کی ہدایات پر عمل درآمد کی صورت میں سامنے آئے گا، جس میں ایک وفاقی ریاست کے قیام پر زور دیا گیا۔ میرا وطن اقوام متحدہ کی جانب سے یمن کی مدد کی تمام تر کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ہم یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسماعیل ولد الشیخ احمد کی کوششوں کو بھرپور طور پر سپورٹ کریں گے۔
آئندہ ماہ ہونے والی بات چیت کی کامیابی کے لیے صالح اور حوثی فورسز کو سلامتی کونسل کی قرارداد ۲۲۱۶ کو قبول کرلینا چاہیے۔ اس قرار داد میں تمام فریقوں کو سیاسی راہ اپنانے اور ایک ایسے معاہدے پر زور دیا گیا ہے، جس کے تحت حکومت تارکین وطن کو ان کے گھروں کو واپسی اور جنگ کی تباہ حالی کی درستی کے لیے کام کرسکے۔
امن سے متعلق حتمی معاہدے کو یمن میں امن کی بحالی کے لیے سنجیدہ اقدامات پر مشتمل ہونا چاہیے۔
ہم دہشت گردوں کے لیے اس پرامن پناہ گاہ کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیں گے اور دہشت گردوں کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کرنے کے لیے اپنے مغربی اور عرب شراکت داروں کے ساتھ پھر سے کام کریں گے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران یمنی حکومت نے عدن میں دہشت گرد تنظیموں اور شدت پسند مسلح جماعتوں پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اس مہم کے نتیجے میں عدن میں امن کی بحالی میں کامیابی حاصل ہوئی۔ میری حکومت اس وقت دیگر علاقوں میں بھی مماثل کارروائیوں کے لیے کام کررہی ہے۔
اس کے علاوہ ایران جو اپنے حوثی ایجنٹوں کے ذریعے اپنا رسوخ بڑھانے کی کوشش کررہا ہے، اس کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یمن غیرملکی افواج کے لیے اپنی ایک بالشت زمین سے بھی دست بردار نہیں ہوگا۔
میں نے ۲۰۱۲ء میں صدارت سنبھالی تھی، جب میرا ملک سیاسی شورشوں سے دوچار تھا اور یہاں انارکی پھیلی ہوئی تھی۔ اس سے پہلے بھی بیک وقت بہت سے مسائل تھے، جن کو حل کیے بغیر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اب ہمیں فوری طور پر ایک مہم کی طرف متوجہ ہونا ہے اور وہ ہے مصالحت۔
سابق صدر صالح اور حوثی فورسز کی جانب سے خانہ جنگی کی آگ بھڑکانے سے قبل گزرے ہوئے سالوں میں یمن نے قومی مکالمے کی کانفرنس میں پیش کردہ عملی خاکے کے ذریعے بڑی پیش رفت کو یقینی بنایا تھا۔ ہم پر لازم ہے کہ ان ہی اقدامات اور ہدایات کی خطوط پر کاربند رہیں تاکہ حوثیوں اور صالح کی فورسز کی جانب سے لائے گئے انقلاب کے بھیانک نتائج کا علاج کیا جاسکے۔
ہماری حکومت مستقل امن کو مضبوط کرنے اور یمنی ریاست کی تعمیر نو پر کام کرنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا کر رکھے گی۔ چیلنجوں کے باوجود اس وقت یمن کا مستقبل گزشتہ سال کے کسی بھی وقت سے زیادہ روشن نظر آرہا ہے۔ تشدد کا عفریت کمزور ہوا ہے اور ہم اب مذاکرات کے آغاز کے منتظر ہیں ساتھ ہی امید ہے کہ امن کی منزل زیادہ دور نہیں۔
ہم ایک ایسے مستقبل سے مشرف ہوسکتے ہیں جس میں یمن امن و استحکام، ترقی، اچھی زندگی اور تمام لوگوں کے لیے مساوات کا گہوارہ ہو۔ ہم پر لازم ہے کہ امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔
(بحوالہ: اخبار ’’الشرق الاوسط ‘‘۔ ۳۱ مارچ ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply