
جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے رجب طیب اردوان نے، جیسی کہ توقع تھی، ۱۰؍اگست کو ترکی کے پہلے براہِ راست لڑے جانے والے صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی اور اب وہ صدر کے منصب پر فائز بھی ہوچکے ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ 55 فیصد ووٹ حاصل کرسکیں گے۔ انہوں نے ماہرین اور عوام کے اندازوں کو غلط ثابت نہیں ہونے دیا اور ۵۲ فیصد ووٹ حاصل کیے۔
ایسے وقت میں کہ جب ترکی کے پڑوس میں صورتحال کسی بھی اعتبار سے آدرش نہیں اور ہر طرف انتشار ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رجب طیب اردوان اپنے ملک کے لیے کیا کریں گے، کیا دیں گے۔ کیا وہ ملک کے سیاسی نظام کو پارلیمانی سے صدارتی میں تبدیل کردیں گے؟ کیا وہ بیک وقت ملک کے صدر بھی ہوں گے، اپنی پارٹی بھی چلائیں گے اور وزیر اعظم کو بھی کنٹرول کریں گے؟ کیا وہ دو برسوں کے دوران پیدا ہونے والے سیاسی جمود کو توڑنے اور ۲۰۰۰ء کی دہائی کے دوران ترکی میں پائی جانے والی اصلاحات کی فضا کو دوبارہ جنم دینے میں کامیاب ہوپائیں گے؟ کیا یہ سب کچھ ہوگا یا ترکی میں معاملات جوں کے توں ہی رہیں گے، یعنی جو کچھ ہے وہی مزید پختہ ہوتا جائے گا؟
ترکی میں روایتی طور پر صدر کا انتخاب پارلیمان کے ذریعے ہوتا رہا ہے اور اُس کے اختیارات بھی خاصے محدود رہے ہیں۔ جون ۲۰۱۱ء میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے تیسری بار انتخابی کامیابی حاصل کی اور تب سے وزیر اعظم کے عہدے پر رجب طیب اردوان کی بھرپور خواہش اور کوشش رہی ہے کہ وہ صدر بنیں اور ملک میں ایسی تبدیلیاں لائیں جو ان کے ذہن میں برسوں سے ہیں۔ اردوان نے ملک کو نیا آئین دینے کی بھرپور کوشش کی ہے مگر تین سال قبل اپوزیشن کے احتجاج اور دو سال قبل ایک کرپشن اسکینڈل نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا ہے۔ اب جبکہ رجب طیب اردوان صدر بن چکے ہیں تو وہ چاہیں گے کہ اپنی مرضی کا آئین لائیں۔ مگر اس کے لیے انہیں کچھ انتظار کرنا پڑے گا۔ آئندہ انتخابات ۲۰۱۵ء میں ہوں گے۔ تب اگر ان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی پھر بھرپور کامیاب رہی تو اُنہیں پارلیمنٹ میں اتنی اکثریت حاصل ہوگی کہ نیا آئین لاسکیں اور اس معاملے میں اپوزیشن کی کسی بھی جماعت کو خاطر میں نہ لائیں۔ اگر ایسا ہوا تو وہ ممکنہ طور پر صدارتی نظام لے آئیں گے اور پھر آزاد ترکی کے قیام کے ۱۰۰ سال مکمل ہونے تک یعنی ۲۰۲۳ء تک صدر کے منصب پر فائز رہ سکیں گے۔
اکمل الدین احسان اولو اور صلاح الدین دیمیتراس نے رجب طیب اردوان کے انتخابی حریف کی حیثیت سے نام کمایا ہے۔ ان میں سے کسی کی پوزیشن اتنی مستحکم نہیں تھی کہ اردوان کے لیے خطرہ بن سکتا مگر دونوں کے پاس ترکی کے لیے کچھ نہ کچھ اہم ضرور ہے۔ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی سیکیولر ری پبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) اور دائیں بازو کی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) نے مل کر احسان اولو کی حمایت کی۔ احسان اولو قاہرہ میں پیدا ہوئے تھے اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ وہ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۱۰ء تک آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کے سیکرٹری جنرل رہے۔ ان کے بارے میں خیال کیا جارہا تھا کہ وہ نمایاں امیدوار کی حیثیت سے سامنے آئیں گے۔ ترکی میں ان کی موجودگی کم کم رہی ہے اور وہ سیاسی بصیرت کے معاملے میں تھوڑے کمزور تھے مگر پھر بھی اُن کی کارکردگی ایسی بُری نہیں رہی۔ اُنہوں نے ۳۸ فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ رواں سال مارچ میں ایم ایچ پی اور سی ایچ پی نے مل کر ۴۴ فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ صلاح الدین دیمیتراس نے کرد رہنما کی حیثیت سے نام کمایا ہے۔ کردوں کا مسئلہ حل کرنے سے اُن کا نام بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ انہوں نے کردوں اور خواتین کے مسائل حل کرنے پر زور دے کر نام کمایا ہے۔ انہوں نے حالیہ صدارتی انتخابات میں کم و بیش ۱۰ فیصد ووٹ حاصل کیے۔ یہ رائے عامہ کے جائزوں اور ماہرین کے اندازوں سے کچھ کم تھے مگر گزشتہ مارچ کے بلدیاتی انتخابات میں ان کی پیس اینڈ ڈیموکریسی پارٹی نے جتنے ووٹ حاصل کیے تھے، اُن سے یہ دگنے تھے۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور وہ زیادہ لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ ماضی میں ترکی کا سیاسی نظام کس طور کام کرتا رہا ہے۔ اردوان کی بھرپور کامیابی سے ترکی ایک نئے موڑ پر آگیا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک ترکی میں پارلیمانی نظام رائج رہا ہے۔ وزیر اعظم حکومت کی ایگزیکٹیو برانچ کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرتا آیا ہے اور دوسری طرف صدر کا عہدہ محض رسمی اور نمائشی نوعیت کا رہا ہے۔ ۱۹۸۰ء میں کنعان ایورن کی طرف سے فوجی بغاوت کے بعد سے سب کچھ بدل گیا۔ کنعان ایورن نے ۱۹۸۲ء میں نیا آئین متعارف کرایا، جس کا مقصد سیاست دانوں کو کنٹرول کرنے کے لیے صدر کے ایگزیکٹو اختیارات میں اضافہ کرنا تھا۔ مگر خیر کنعان ایورن اور ان کے جانشین ترگت اوزال ہی نے صدر کے بڑھے ہوئے اختیارات کا استعمال کیا۔ سلیمان دیمرل اور احمد سیزر نے ان اختیارات کو استعمال کرنے سے گریز کو ترجیح دی۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدر کے براہِ راست انتخاب کا تصور کہاں سے آیا؟
پارلیمان کے بجائے براہِ راست پولنگ سے صدر کے انتخاب کا تصور ۲۰۰۷ء کی فوجی بغاوت کی کوششوں کے بطن سے پیدا ہوا ہے۔ سخت گیری کی حد تک سیکیولر اور سیاسی عزائم سے مبرّیٰ احمد سیزر کے عہدِ صدارت کے خاتمے کے نزدیک فوج نے مداخلت کی کوشش کی تاکہ اُس وقت کے وزیر خارجہ عبداللہ گل کو صدر بننے سے روکا جاسکے۔ اس وقت کی عسکری قیادت اور عدلیہ کو عبداللہ گل اور اے کے پارٹی کے اس عہد پر بھروسا نہ تھا کہ سیکولر ازم کو ہر حال میں اولیت اور فوقیت دی جائے گی۔ اے کے پی نے اس چیلنج کا مقابلہ کیا اور قبل از وقت انتخابات کرائے اور وہ ایک بار پھر بھرپور کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور عبداللہ گل کے صدر بننے کی راہ ہموار ہوئی۔ اس کامیابی نے اردوان کو اتنی ہمت دی کہ وہ قوم سے پوچھ سکیں کہ وہ صدر کا براہِ راست انتخاب چاہتی ہے یا نہیں۔ اس اِیشو پر ریفرنڈم کرایا گیا جس میں ۵۸ فیصد باشندوں نے کہا کہ صدر کا انتخاب براہِ راست ہونا چاہیے تاکہ وہ زیادہ با اختیار اور ملک کو بہتر انداز سے چلانے کے قابل ہو۔ اردوان نے اِس طور مخالفین کو اپنی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا احساس دلانے کے ساتھ یہ بھی بتادیا کہ وہ جمہوری کلچر کے بارے میں جو بھی رائے رکھتے ہیں اُس کی پشت پر عوام کی بھرپور حمایت ہے۔
حالیہ صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران یہ واضح ہوگیا کہ آئندہ دس برس کے دوران ترکی کو کس طور چلایا جائے گا۔ رجب طیب اردوان چاہتے ہیں کہ ملک کو اکثریت کی بنیاد پر چلایا جائے اور آئین کے تحت غیر معمولی چیک اینڈ بیلنس کو ہر معاملے میں رکاوٹ بننے کا موقع نہ دیا جائے۔ اس کے عوض انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ ۲۰۲۳ء تک ترکی کو غیر معمولی ترقی سے ہمکنار کرکے دسویں بڑی معیشت میں تبدیل کریں گے اور اگر ترکی عالمی طاقت نہ بھی بن سکا تو بڑی علاقائی طاقت بن کر ضرور اپنی بہت سی باتیں منوانے کے قابل ہوجائے گا۔ ترکی کے لیے اس قدر کامیابی بھی کم نہیں۔
دوسری طرف اکمل الدین احسان اولو کا کہنا تھا کہ پارلیمانی نظام ترک کرنے سے ترکی کو زیادہ نقصان پہنچے گا کیونکہ اس صورت میں صدر کا منصب غیر معمولی اختیارات کا حامل ہوجائے گا اور تمام فیصلے پارلیمان کی مرضی کو مسترد کرکے کیے جانے لگیں گے۔ ان کا استدلال ہے کہ پارلیمانی نظام کو ترک کرنے سے ترکی میں مطلق العنانیت کا ایسا ماحول پیدا ہوگا جو صرف خرابیوں کو جنم دے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدارتی نظام آنے سے فیصلوں میں مشاورت کا پہلو ختم ہوجائے گا اور ملکی استحکام کو نقصان پہنچے گا۔
ترکی کا آئین صدر کے طور پر منتخب ہونے والی شخصیت سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی جماعت سے لاتعلقی اختیار کرے اور پارٹی منصب سے مستعفی ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ رجب طیب اردوان ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ چند ماہ کے دوران ہی ثابت ہوجائے گا کہ وہ ملک کو کس نہج پر لے جانا چاہتے ہیں۔ اور بیشتر معاملات میں مطلق العنان ہونے کی حالت میں وہ ملک کے لیے کس طرح کے فیصلے کرسکتے ہیں۔
“Yet another election victory for Erdogan-What’s next for Turkey?” (“brookings.edu”. August 11, 2014)
Leave a Reply