دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر یورپ کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنانے کے لیے امریکا نے ایک بڑا منصوبہ شروع کیا تھا، جسے مارشل پلان کا نام دیا گیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت یورپ کے ۱۸ ممالک کو ۱۲؍ارب ڈالر دیے گئے جو آج کی قدر کے اعتبار سے کم و بیش ۲۰۰؍ارب ڈالر ہوتے ہیں۔ برطانیہ کو مارشل پلان کے تحت کی جانے والی فنڈنگ کا ۲۶ فیصد، فرانس کو ۱۸ فیصد اور مغربی جرمنی کو ۱۱ فیصد ملا۔ مارشل پلان یورپ کو دوبارہ معاشی استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اشتراکیت کا پھیلاؤ روکنے کے لیے بھی تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد فرانس اور جرمنی میں اشتراکیوں نے مستحکم ہونا شروع کردیا تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں ہونے والی تباہی سے بدظن عوام اشتراکیت کی طرف جھک رہے تھے۔ ایسے میں امریکا اور اُس کے حاشیہ برداروں کے لیے لازم ہوگیا تھا کہ اشتراکیت کی راہ روکنے کے لیے کھل کر میدان میں آئیں اور کمزور ممالک کو امداد دے کر اشتراکی بلاک کی طرف جانے سے روکیں۔ مارشل پلان شرائط سے پاک نہ تھا۔ یورپ کے کمزور ممالک کو امریکا اور مضبوط یورپی ممالک کی بہت سی باتیں ماننا پڑیں۔
کورونا وائرس کے ہاتھوں پھیلنے والی تباہی کے اثرات دیکھتے ہوئے بھی یورپ کے لیے مارشل پلان کی طرز پر کسی بڑے امدادی پروگرام کی بات کی جارہی ہے۔ یورپی یونین کمیشن کے صدر ارسلا وان ڈیر لیئن، اطالوی وزیر اعظم گیوسیپ کونٹے اور ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز یورپ کے اُن رہنماؤں میں نمایاں ہیں جو ابھی سے مارشل پلان کی طرز پر کوئی بڑا امدادی پیکیج متعارف کرانے کے حق میں بات کرنے لگے ہیں۔ یورپی یونین کمشنر تھیئری بریٹن نے تو یہ بھی کہا ہے کہ یورپ میں سیاحت کے شعبے کی مکمل اور بروقت بحالی کے لیے بھی الگ سے کوئی بڑا امدادی پیکیج آنا چاہیے۔
مارشل پلان کو اُس وقت کے امریکی وزیر خارجہ جنرل جارج مارشل سے موسوم کیا گیا تھا۔ اُس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین کے دستخط سے یہ پلان ۳؍اپریل ۱۹۴۸ء کو نافذ کیا گیا تھا۔ (بحالیٔ یورپ) پروگرام کہلانے والے اس منصوبے کو بعد میں یوروپین ریکوری ایکٹ میں تبدیل کردیا گیا۔
آج کے یورپی قائدین کا حافظہ کمزور ہوچلا ہے۔ اُنہیں ۷۵ سال پہلے کے حالات کا کچھ اندازہ ہی نہیں۔ دوسری جنگِ عظیم نے یورپ کو تباہی سے دوچار کردیا تھا۔ ایسے میں لازم تھا کہ یورپ کی تعمیر نو پر توجہ دی جاتی۔ یورپ کو جس معاشی بدحالی کا سامنا تھا، وہ ایک بڑی جنگ کا نتیجہ تھی۔ آج حالات بہت مختلف ہیں۔ ایک وائرس کے ہاتھوں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کو کسی بھی اعتبار سے اُن حالات پر مطبق نہیں کیا جاسکتا جو عالمی نوعیت کی جنگ کی کوکھ سے پیدا ہوئے تھے۔ اور یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ جس طور مارشل پلان کو نافذ کیا گیا تھا اگر آج اُسی طرز کے کسی امدادی پیکیج کو اُسی انداز سے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو یورپ ہی میں اِس کی مخالفت میں آوازیں اٹھنے لگیں گی۔ یہ حقیقت یا نکتہ کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں اشتراکیوں کی پوزیشن مستحکم ہونے لگی تھی۔ یہ امریکا اور اس کے ہم نوا ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ اشتراکیت کی راہ روکنے کے لیے امدادی پیکیج کا متعارف کرایا جانا لازم تھا۔ سابق سوویت یونین کے راہنما جوزف اسٹالن نے ترکی اور یونان میں اشتراکیت کی جڑوں کو مستحکم کرنا شروع کردیا تھا۔ مشرقی یورپ کے جن ممالک میں اشتراکی مستحکم تھے، وہاں غیر اشتراکیوں کا صفایا کرنے کی مہم شروع کردی گئی تھی۔
آج کے یورپ میں کئی ممالک ایسے ہیں، جنہیں کورونا وائرس کے ہاتھوں تباہی کا سامنا کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا تو وہاں دائیں بازو کی عوامیت پسند اور قوم پرست جماعتوں کے ذریعے یورپی یونین مخالف جذبات کو تیزی سے فروغ پانے کا موقع ملے گا۔ آج یورپی یونین کے ارکان میں عوامی جذبات کے اُچھال کی بنیاد پر سیاست کرنے کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ مگر خیر، یہ جذبات کسی بھی طور اِتنے طاقتور نہیں کہ اشتراکیوں کی طرح پوری قوت سے معاشرت و معیشت کو دبوچ سکیں۔
یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ مارشل پلان کے تحت یورپ کو دی جانے والی رقم آج کی قدر کے اعتبار سے ۲۰۰؍ارب ڈالر تھی جبکہ اس وقت یورپی یونین کمزور پڑ جانے والے ارکان کی بحالی کے لیے کم و بیش ۱۵۰۰؍ارب ڈالر کا اہتمام کر رہی ہے۔ یہ فنڈنگ یوروپین اسٹیبلٹی میکینزم اور یوروپین سینٹرل بینک کے ذریعے ممکن بنائی جائے گی۔ ہاں، اس فنڈنگ کی تقسیم کے طریق کار پر اختلافات ضرور پائے جاتے ہیں۔ شمالی یورپ کے مضبوط اور خوش حال ممالک (سوئیڈن، ڈنمارک، جرمنی وغیرہ) نہیں چاہتے کہ امدادی رقوم شرائط کے بغیر دی جائیں۔ جنوبی یورپ کی کمزور اور قدرے بدحال ریاستوں کی بھرپور مدد کرنے کے حوالے سے اختلافات اور تحفظات پائے جاتے ہیں۔
مارشل پلان کے تحت دی جانے والی رقوم بنیادی پر انتہائی آسان شرائط کے تحت دیے جانے والے قرضوں پر مشتمل تھیں۔ اور اس میں بھی امریکا کا مفاد نمایاں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اُس کی صنعتی برآمدات بڑھیں۔ مشین ٹولز اور مشینری کی یورپ کو اشد ضرورت تھی۔ پیداواری عمل بھرپور انداز سے شروع کرانے کے لیے امریکا نے یورپ کی اِس طور مدد کی کہ اُس کی اپنی برآمدات کو بھی فروغ ملا۔
امریکا کی سربرآوردہ کاروباری شخصیات نے مارشل پلان پر عمل کی بھرپور نگرانی کی۔ انہوں نے امداد وصول کرنے والے ہر یورپی ملک کے دارالحکومت میں اپنے دفاتر کھولے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ امداد امریکا کے طے کردہ طریق کار کے مطابق ہی تقسیم اور استعمال ہو رہی ہے۔ صنعتی پیداوار کے امریکی ماہرین اور ٹریڈ یونین راہنماؤں نے یورپ کے دورے کیے، جن میں وہاں کی حکومتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کاروباری نظم و نسق کے جدید ترین اصول اور اطوار ہی حقیقی خوش حالی یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہیں۔
اٹلی نے کہا ہے کہ اُسے امداد کی ضرورت ہے مگر شرائط کے بغیر۔ اُس نے ابھی سے اعلان کردیا ہے کہ مارشل پلان کی طرز پر دی جانے والی امداد اُسے قبول نہ ہوگی۔ اطالوی حکومت کہتی ہے اُسے کسی بھی منصوبے کے حوالے سے بیرونی نگرانی قبول نہیں۔
اشتراکیوں نے مارشل پلان قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ سابق سوویت یونین کے زیرِ اثر مشرقی یورپ کے ممالک نے تعمیر نو کے لیے اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرنے کی ٹھانی۔ مارشل پلان کے تحت دی جانے والی امداد قبول کرنے سے انکار کیا گیا۔ فرانس میں امریکی مخالفت اس قدر بڑھی کہ مارشل پلان کے تحت لائی جانے والی امداد کو منزل تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ایک ٹرین پر حملہ کرکے ۱۶؍افراد کو قتل بھی کردیا گیا۔ یہ انتہائی رویہ بیک فائر کرگیا۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی کے دوران برطانیہ، فرانس، اٹلی اور جرمنی پر رجعت پسندوں کی حکومت رہی۔
مارشل پلان آزاد تجارت پر مبنی تھا اور دوسری جنگِ عظیم کے ہاتھوں تباہ ہونے والی یورپی ریاستوں کو سیاسی اعتبار سے مربوط ہونے کی تحریک دی گئی۔ اس وقت یورپ کو معیشتی بحالی کے لیے امداد کی ضرورت ہے۔ مارشل پلان کی طرز پر کوئی پیکیج پرکشش تو دکھائی دیتا ہے مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس وقت یورپ میں وہ حالات نہیں جو مارشل پلان کے وقت تھے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Yet another marshall plan?” (“thegloblist.com”. April 22, 2020)
Leave a Reply