سعودی عرب: عجلت پسند شہزادہ

سعودی عرب میں بہت کچھ تبدیل ہوچکا اور مزید بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ حکمراں خاندان آلِ سعود کے آبائی دارالحکومت کو ترک عثمانی سلطنت نے کالعدم قرار دے دیا تھا، مگر اب اِسے سیاحتی مقام کی حیثیت سے ترقی دی جارہی ہے۔ سعودی فرماں روا سلمان بن عبدالعزیز کے صاحبزادے تیس سالہ نائب ولی عہد محمد بن سلمان میں بہت کچھ کر گزرنے کا جذبہ موجزن ہے۔ وہ اپنے ملک میں معیشت اور معاشرت، دونوں کی اِصلاح چاہتے ہیں۔ مگر ایسا کرنا آسان نہیں۔

محمد بن سلمان جو کچھ کر رہے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں، اُس کے بارے میں میڈیا کو بتانا بھی پسند کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنا ہے۔ اس معاملے میں سعودی حکومت اصولوں پر کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتی۔ جب ناقدین ان کے سامنے یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ سعودی عرب کی طرف سے کسی پڑوسی ملک میں مداخلت کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اور معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں کہ معاملات پہلے ہی بہت بگڑ چکے ہیں، اب ان کے مزید بگڑنے کی گنجائش نہیں! ان کی بات غلط بھی نہیں۔ پانی سر سے گزرنے کی تیاری کر رہا ہے تو سعودی حکومت کو بھی خیال آیا ہے کہ اب کچھ کرنا چاہیے۔ یعنی ایسے اقدامات کیے جانے چاہئیں جن سے خطے میں استحکام بحال ہو اور سعودی عرب کے لیے پیدا ہونے والے خطرات بھی کم ہوں۔

سعودی عرب کے لیے سب سے بڑا مسئلہ معیشت کو متوازن اور فعال رکھنے کا ہے۔ سعودی باشندوں کو تقریباً ہر معاملے میں دی جانے والی سبسڈی بہت زیادہ ہے۔ اس کے نتیجے میں قومی خزانے پر بوجھ بڑھتا ہی گیا ہے۔ اس وقت بھی بیشتر سعودی باشندے کچھ کیے بغیر محض سبسڈی کے ذریعے انتہائی پُرتعیش زندگی بسر کررہے ہیں۔ معیشت کو ایک ایسے نئے سانچے میں ڈھالنا ہے جس میں لوگوں کو بھی کچھ کرنے کی تحریک دی گئی ہو۔ اصلاحات ناگزیر ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو بہت سے معاملات میں سبسڈی سے محروم ہونا پڑے گا۔ محمد بن سلمان اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں کی نظر میں اب کوئی بھی شعبہ یا معاملہ شجرِ ممنوعہ نہیں۔ سعودی باشندے جن مراعات کو پیدائشی حق سمجھ کر حاصل کرتے آئے ہیں، اُن کے بڑے حصے سے انہیں دست بردار ہونا پڑے گا۔ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی خدمات کے شعبے میں بھی سعودیوں کو اب سبسڈی سے محرومی برداشت کرنا پڑے گی۔ حد یہ ہے کہ محمد بن سلمان سعودی حکمراں خاندان کے تاج میں لگے ہوئے سب سے بڑے ہیرے ’’آرامکو‘‘ کے حوالے سے بھی سنجیدہ ہیں یعنی اس کمپنی کو بھی نجی شعبے میں دیا جاسکتا ہے۔ آرامکو دنیا کی سب سے بڑی آئل کمپنی ہے۔

۸۰ سالہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو بادشاہت موروثی طور پر ملی ہے۔ وہ اپنے تیس سالہ بیٹے پر بہت بھروسا کرتے ہیں۔ ان کے بیشتر معاملات محمد بن سلمان نے سنبھال رکھے ہیں جو خاصے عجلت پسند ہیں۔ ملک کے سنگین ترین مسائل کا انہیں شدت سے احساس ہے۔ تیل کے نِرخ گرتے رہنے سے سعودی عرب کو آمدن میں شدید کمی کا سامنا ہے۔ خطے کی دیگر عرب ریاستیں تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ اس صورتحال کا ایران نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ لبنان، عراق اور شام کے بعد اب یمن میں بھی ایرانی اثرات نمایاں ہوچکے ہیں۔

عرب دنیا کو اس وقت شیعہ ہلال نہیں بلکہ شیعہ ماہِ کامل کا سامنا ہے۔ سعودی حکومت کے لیے دردِ سر صرف ایرانی نہیں بلکہ اپنی سرزمین پر نمودار ہونے والے جہادی بھی ہیں۔ یمن میں القاعدہ اور عراق و شام میں اسلامک اسٹیٹ (داعش) نے معاملات کو اس حد تک بگاڑ دیا ہے کہ اب سعودی عرب کو بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہونا پڑا ہے۔ داعش کی طرف سے حملوں کے ساتھ ساتھ معاشرتی بگاڑ کا بھی خطرہ ہے۔ داعش سعودی نوجوانوں کے جذبات بھڑکا کر انہیں حکومت کے خلاف بغاوت پر اُکسا رہی ہے۔

آلِ سعود کا اقتدار تین ستونوں پر قائم ہے۔ ایک طرف تو اس خاندان نے مسلک کے طور پر وہابی اِزم کو اپنا رکھا ہے۔ یہ مسلک انتہائی سخت گیر ہے، جس میں لچک کی گنجائش بہت ہی کم ہے۔ دوسرے یہ کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دی جاتی رہیں تاکہ وہ حکومت یعنی شاہی خاندان کے خلاف کچھ بھی الٹا سیدھا نہ سوچیں۔ تیسرے یہ کہ سعودی عرب نے اپنے دفاع کی ذمہ داری امریکا کو سونپ رکھی ہے جس کے عوض وہ تیل کی منڈی میں امریکا اور یورپ کے لیے استحکام برقرار رکھتا ہے۔

اب یہ تینوں معاملات ڈانوا ڈول ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ امریکا کی توجہ اب مشرقِ وسطیٰ کے خطے سے ہٹ چکی ہے۔ وہ اس خطے میں اپنے لیے زیادہ کشش نہیں پاتا۔ تیل کی منڈی گرگئی ہے یا گرا دی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں سعودی عرب میں بھی آمدن میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ معیشت کا پرانا ماڈل اب ذرا بھی کارگر نہیں رہا۔ عوام کے لیے ہر معاملے میں سبسڈی کا اہتمام کرنا ممکن نہیں رہا۔ اور وہاب اِزم پر کاربند رہنے کی صورت میں جہادیوں کی طرف سے حملوں کا خطرہ بھی برقرار رہے گا۔ ایسے میں آلِ سعود کو معیشتی اور معاشرتی، ہر دو طرح کی تبدیلیاں متعارف کرانے پر غور کرنا ہوگا۔ اصلاحات نافذ کرنے کا وقت آگیا ہے۔

عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر دوڑے ہوئے پانچ سال ہوچکے ہیں۔ ایسے میں لازم ہوگیا ہے کہ معاملات کا اچھی طرح جائزہ لیا جائے۔ سعودی حکومت اس معاملے میں اپنے فرائض سے غافل نہیں۔ اس نے حالات پر بھرپور نظر رکھی ہے۔ ہر تبدیلی کا اچھی طرح تجزیہ کیا گیا ہے تاکہ کسی بھی بڑے خطرے سے بہتر انداز سے نمٹا جاسکے۔ عرب دنیا میں بیداری کی لہر سے اور کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، اتنا ضرور ہوا ہے کہ سعودی شاہی خاندان نے ملک کو نئے معیشتی ماڈل سے ہمکنار کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا ہے۔ ساتھ ہی معاشرتی اور فکری سطح پر بھی بہت کچھ تبدیل کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اگر آلِ سعود کو اقتدار میں رہنا ہے تو اپنی جڑیں گہری کرنا ہوں گی۔ معاشی اور معاشرتی اصلاحات نافذ کیے بغیر کسی بھی حقیقی تبدیلی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ لازم ہوگیا ہے کہ تمام شعبوں کو تبدیلی کے عمل سے گزارا جائے۔

محمد بن سلمان بہت متحرک ہیں۔ انہوں نے مغرب میں تعلیم پائی ہے، اور ان کے ساتھی بھی مغربی جامعات ہی کے پڑھے ہوئے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ بہت سے معاملات میں شدید خطرات بھی مول لینا پڑیں گے۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ تبدیلی کا عمل اب بہت تیز کرنا ہوگا کیونکہ وقت زیادہ نہیں رہا۔ محمد بن سلمان کا تجربہ کم ہے اور انہوں نے بیرونی سفر بھی کم کم کیا ہے مگر وہ اپنے بے مثال اعتماد اور لگن کے ذریعے اس خامی کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اپنے مشیروں کی دی ہوئی رپورٹس پر بھروسا ہے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے بیشتر مشیر، معاونین اور نوجوان خاصے متحرک ہیں۔ یہ لوگ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔

محمد بن سلمان بیشتر معاملات میں اپنی ذات کو آگے رکھ کر کام کرتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ سے گفتگو کے دوران بھی وہ صیغہ واحد متکلم میں بات کرتے ہیں۔ ان سے ہم نے پانچ گھنٹے گفتگو کی، جس کے دوران صرف ایک بار انہوں نے شاہ سلمان کا ذکر کیا۔ داخلی سلامتی کے انچارج ولی عہد محمد بن نائف کا ذکر تو ایک بار بھی نہیں کیا گیا۔

محمد بن سلمان تبدیلیاں اتنی تیزی سے چاہتے ہیں کہ ان کے نزدیک رہ کر کام کرنے والے افسران انہیں چائنا شاپ میں گھس جانے والے بیل سے تشبیہ دیتے ہیں۔ یعنی ان کے ہاتھوں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ سلمان بن عبدالعزیز نے جب انہیں وزیر دفاع بنایا، تب انہوں نے یمن میں شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائی کا حکم دیا۔ جب ناقدین نے بیرون ملک مداخلت کے حوالے سے اعتراض کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ بہت پہلے کرلیا جانا چاہیے تھا۔ یعنی یہ کہ سعودی عرب کو جو کرنا ہے، وہ کرنا ہے۔ محمد بن سلمان کہتے ہیں کہ سعودی عرب کی طرف سے بروقت کارروائی نہ کیے جانے ہی کے باعث ایران کی مدد سے حوثی باغیوں نے یمن پر قبضہ کرلیا۔ سعودی حملوں کے بعد حوثی باغیوں کی کسی بھی جوابی کارروائی سے بچنے کے لیے یمن سے ملحق سعودی علاقوں سے ہزاروں افراد کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔

شام میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بھی سعودی حکومت کے لیے کسی طور قابلِ برداشت نہیں۔ داعش کے خلاف بھرپور کارروائی کے لیے سعودی حکومت متحرک رہی ہے۔ محمد بن سلمان کوئی بھی بڑا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہیں۔

سعودی حکومت کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تیل کی منڈی گرگئی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت ڈیڑھ سال قبل ۱۱۵؍ڈالر فی بیرَل تھی۔ اب یہ ۲۵ ڈالر فی بیرل کی سطح پر آگئی ہے۔ سعودی حکومت کو آمدن میں غیر معمولی کمی کا سامنا ہے۔ بہت سے شعبوں کے لیے فنڈنگ برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ گزشتہ برس بجٹ کا خسارہ خام قومی پیداوار کے ۱۵؍فیصد کے مساوی رہا۔ زر مبادل کے ذخائر ۱۰۰؍ارب ڈالر کی کمی سے ۶۵۰؍ارب ڈالر کی سطح پر آگئے ہیں۔ سرکاری قرضے خام قومی پیداوار کے ۵ فیصد کے مساوی ہیں، جو ویسے تو زیادہ پریشان کُن بات نہیں مگر پھر بھی صورتحال کے پیشِ نظر یہ بھی خاصی پریشان کُن بات ہے۔

دسمبر میں پیش کیے جانے والے بجٹ میں حکومت نے بجلی، پانی اور ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی میں کمی کردی ہے۔ بڑے صارفین کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا ہے۔ لوگوں کو یکم جنوری سے ایندھن کے لیے پہلی بار قطار بند ہونا پڑا۔ بجلی کے نِرخ بڑھنے سے ایئر کنڈیشن اور زیادہ بجلی صرف کرنے والے دیگر آلات کے بارے میں سوچنا عوام کے لیے ناگزیر ہوگیا ہے۔ پورے ملک میں ایئرکنڈیشنوں کا استعمال عام ہے۔ اگر اس طرف توجہ نہ دی گئی تو لوگوں کو بجلی کے بڑے بل ادا کرنے پڑیں گے اور ان پر سبسڈی بھی گھٹ چکی ہوگی۔

وزارتوں نے بہت سے اخراجات میں کٹوتی شروع کردی ہے۔ فرنیچر، کاریں اور شو کیس پراجیکٹس کے حوالے سے فنڈنگ گھٹا دی گئی ہے۔ اخراجات کا گراف مزید نیچے لانے کے لیے حکومت نے الاؤنس اور اوور ٹائم کے کلیمز کی جانچ پڑتال شروع کردی ہے۔ بہت سی غیر لازم اشیا پر ویلیو ایڈیڈ ٹیکس نافذ کیا جارہا ہے۔ یہ اقدام چھ رکنی خلیجی مجلسِ تعاون سے ہم آہنگی کے طور پر کیا جارہا ہے۔ محمد بن سلمان کو اندازہ ہے کہ ان تمام اقدامات سے پانچ سال کی مدت میں معیشت متوازن اور مستحکم ہوجائے گی مگر اب تک یہ واضح نہیں کہ ایسا کرنے سے ویلتھ اور انکم ٹیکس کا نفاذ روکنا ممکن ہوگا یا نہیں۔

محمد بن سلمان نے ٹرانسفارمیشن پلان ۲۰۲۰ء بھی تیار کیا ہے، جس کے ذریعے لوگوں کو بے روزگاری الاؤنس کی مد میں کی جانے والی ادائیگیاں روکی جاسکیں گی۔ مقصود یہ ہے کہ لوگ کام کرکے کھائیں، مفت کی روٹیاں نہ توڑیں۔ یہ سب کچھ اس لیے بھی ناگزیر ہے کہ ۲۰۳۰ء تک مقامی ورک فورس دُگنی ہوچکی ہوگی۔ ان سب کے لیے روزگار کا اہتمام کرنا بھی لازم ہے۔ سعودی حکومت کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ نجی شعبے سے بھی مدد لے تاکہ لوگوں کو روزگار، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنا آسان ہو۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں نجی شعبے کی شراکت کو دگنا کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ ۳۰ فیصد تک طلبہ و طالبات کو نجی شعبے کے تعلیمی اداروں میں کھپایا جائے۔ ایسی صورت میں سرکاری شعبۂ تعلیم پر دباؤ میں کمی واقع ہوگی۔ حکومت چاہتی ہے کہ صحتِ عامہ کے شعبے میں بھی اپنے سَر سے ذمہ داری کا بوجھ کم کرے۔ انشورنس بیسڈ ہیلتھ کیئر متعارف کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یعنی سعودیوں کو ہر حال میں مفت ملنے والی طبی سہولتیں حاصل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ ادا کرنا پڑے گا۔

نجی شعبے کی شراکت کے معاملے میں سب کچھ محض ’آرامکو‘ تک محدود نہیں۔ محمد بن سلمان چاہتے ہیں کہ ٹیلی کام، توانائی اور دیگر اہم شعبوں میں بھی نجی شعبے سے شراکت کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ اب تو قومی ایئر لائن کا ایک حصہ بھی نجی شعبے کے حوالے کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے لینڈ ڈیویلپمنٹ پر بھی توجہ دی ہے۔ دنیا کی مہنگی ترین ریئل اسٹیٹ مکۂ مکرمہ کے گرد ہے۔ چالیس لاکھ مربع میٹر زمین کو ڈیویلپ کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ سعودی حکومت زائرین سے ہونے والی آمدن کو کئی گنا کرنا چاہتی ہے۔ اس وقت حج اور عمرے کے لیے آنے والے غیر ملکیوں کی تعداد ایک کروڑ ۸۰ لاکھ تک ہے۔ سعودی حکومت مذہبی بنیاد پر سیاحت کے شعبے کو فروغ دینا چاہتی ہے تاکہ دنیا بھر سے آنے والے زائرین کی تعداد پانچ سال میں ساڑھے تین سے ساڑھے چار کروڑ تک جا پہنچے۔

ایک بنیادی مسئلہ اصلاحات کا نفاذ ہے۔ اب تک کئی بار منصوبے تیار کیے گئے ہیں مگر ان پر عمل کرنا ممکن نہیں ہوسکا ہے، کیونکہ بیورو کریسی کی طرف سے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی طبقہ اپنی مراعات سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ کام کرنے والے مغرب کے پڑھے ہوئے ہیں اور ہر معاملے میں عمدہ منصوبہ بندی کرسکتے ہیں مگر اصل مسئلہ متعلقہ فنڈنگ کا اہتمام کرنے اور پھر انہیں کھپانے کا ہے۔

سعودی شاہی خاندان بہت کچھ تبدیل کرنا چاہتا ہے مگر لوگ اب تک اس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں۔ سبب؟ اس کے سوا کیا سبب ہوسکتا ہے کہ انہیں حکمراں خاندان اور طبقے کی نیت پر بھروسا نہیں؟ بات کچھ یوں ہے کہ شاہی خاندان نے اب تک اپنے معاملات کو خفیہ ہی رکھا ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ ان کے لیے بیشتر معاملات میں سبسڈی ختم کی جارہی ہے مگر خود شاہی خاندان کے تعیشات پر کوئی قدغن نہیں لگائی جارہی۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی ان پارٹیوں کا بھی سوشل میڈیا پر بہت چرچا ہے، جو مالدیپ میں دی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے سارڈینیا میں ۵۰ کروڑ یورو سے زائد مالیت کا ایک وِلا خریدنے کی تیاری بھی کی ہے، جس کے حوالے سے انہیں سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے سربراہ بھی ہیں۔ اس حوالے سے بھی لوگ ان کی نیت پر شک اور تنقید کر رہے ہیں۔

عام سعودیوں کو سب سے زیادہ پریشانی اس بات سے لاحق ہے کہ شاہی خاندان نے اپنے معاملات کو اب تک خفیہ رکھا ہے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ شاہی خاندان اصلاحات کی چوکھٹ پر اپنے کتنے تعیشات اور مراعات قربان کر رہا ہے۔ چار سال قبل تک شاہی خاندان کا اپنا سالانہ بجٹ کم و بیش بیس ارب ڈالر تھا! عوام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ شاہی خاندان ان سے بہت کچھ لینا چاہتا ہے مگر کچھ دینے، یعنی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے نتیجے میں بہت حد تک بے چینی بھی پھیل رہی ہے۔ جب تک یہ بے چینی ختم نہیں ہوگی، سعودی عرب میں اصلاحات کا عمل کامیاب نہیں ہوسکے گا۔

محمد بن سلمان کے ارادے نیک ہیں مگر انہیں اپنی حکمتِ عملی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے یہ بھی ثابت کرنا پڑے گا کہ ملک کے لیے قربانی ہر طبقہ دے گا۔ وہ بہت کچھ بہت تیزی سے کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں تحرک زیادہ ہے مگر انہیں یاد رکھنا ہوگا کہ راتوں رات سب کچھ تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ہر معاملہ مرحلہ وار آگے بڑھے تو اچھا ہے۔ یہی بہتر طرزِ فکر و عمل ہے۔

(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)

“Saudi Arabia: Young prince in a hurry”.
(“The Economist”. Jan.9, 2016)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*