سوال: بعض ہم عصر علما کا خیال ہے کہ زکوٰۃ کی رقم ان بھلائی کے کاموں میں بھی دی جاسکتی ہے جنہیں چند افراد یا تنظیمیں انجام دیتی ہیں، مثلاً مسجدیں بنوانا یا اسپتال اور مدرسے بنوانا یا یتیموں کا ٹرسٹ قائم کرنا وغیرہ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ مصارفِ زکوٰۃ میں ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد ہر وہ نیک اور بھلائی کا کام ہے جو اللہ کی راہ میں کیا جائے، حالانکہ جمہور مفسرین اور سلف صالحین کے نزدیک ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد جہاد ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد صرف جہاد ہے یا پھر اسے عام کرکے اس سے مراد ہر نیک اور بھلا کام ہے جو اللہ کی خوشنودی کے لیے انجام دیا جائے۔
جواب: بِلاشبہ بعض علما کے نزدیک ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد وہ تمام بھلائی کے کام ہیں جو اللہ کی راہ میں اللہ کی خوشنودی کے لیے انجام دیے جائیں، مثلاً مسجدیں یا اسپتال بنوانا وغیرہ۔ لیکن میرے نزدیک ’فی سبیل اللہ‘ کو عام معنوں پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس طرح ’فی سبیل اللہ‘ کے تحت زکوٰۃ کے مستحقین کی اتنی قسمیں ہو جائیں گی کہ شمار کرنا مشکل ہوگا۔ اس طرح زکوٰۃ والی آیت (التوبہ:۶۰) میں زکوٰۃ کے مستحقین کو آٹھ قسموں تک محدود رکھنے کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ مزید برآں اگر ’فی سبیل اللہ‘ کو عام معنی پر محمول کیا جائے تو اس سے مراد فقرا و مساکین بھی ہوں گے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ والی آیت میں ان کا تذکرہ علیحدہ کیا ہے۔ پھر ان کا علیحدہ سے تذکرہ کرنے کا کیا فائدہ؟ اللہ کا کلام بلاغت کے اعلیٰ معیار پر ہے اور یہ بات فصاحت و بلاغت کے خلاف ہے کہ بے مقصد و فائدہ کسی چیز کی تکرار ہو۔ پس یہ معلوم ہوا کہ یہ تکرار بے مقصد نہیں ہے بلکہ درحقیقت ’فی سبیل اللہ‘ کا علیحدہ اور خاص مفہوم ہے۔
سلف صالحین اور جمہور مفسرین نے اس سے مراد ’جہاد‘ لیا ہے۔ دلیل کے طور پر انہوں نے احادیث اور صحابہؓ کے اقوال میں سے مثالیں پیش کی ہیں۔ مثلاً حضورؐ کی یہ حدیث ہے: ’’اللہ کی راہ میں صبح یا شام نکلنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے‘‘ (بخاری و مسلم)۔ اس حدیث میں ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد جہاد ہے۔ صحابہؓ نے ایک صحت مند نوجوان کو دیکھا تو فرمانے لگے: ’’کاش! اس کی جوانی اور تنومندی اللہ کی راہ میں ہوتی‘‘ (طبرانی)۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس کی جوانی جہاد کے موقع پر کام آتی ہے۔ اس سلسلے میں میری رائے یہ ہے کہ ’فی سبیل اللہ‘ کو نہ صرف جہاد پر محمول کیا جائے اور نہ اسے عام کرکے ہر اس کام پر محمول کیا جائے، جو اللہ کی راہ میں اللہ کی خوشنودی کے لیے ہو۔
بلاشبہ ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد اللہ کی راہ میں جہاد ہے، لیکن جہاد کا مفہوم صرف جنگ کرنا نہیں ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر اس سے وسیع تر مفہوم اس میں شامل ہے، یعنی ہر وہ قدم جو اللہ کے دین کی نصرت اور اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے اٹھے۔ جہاد صرف تلوار اور توپ سے نہیں ہوتا، بلکہ کبھی قلم سے ہوتا ہے اور کبھی زبان سے۔ کبھی اقتصادی جہاد ہوتا ہے اور کبھی سیاسی۔ ان میں سے ہر جہاد میں مالی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر وہ کوشش اور قدم جو اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے اٹھے، اسے ’فی سبیل اللہ‘ کے مفہوم میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
کبھی وہ زمانہ بھی تھا جب توپ اور تلوار سے جنگ کرکے اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب ہوا، اور آج وہ زمانہ ہے جب فکری اور لسانی جنگ زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز ہوتی ہے اور اسی کے ذریعے بڑے بڑے معرکے سر کیے جاتے ہیں۔ جہاد کے اس وسیع تر مفہوم کو ثابت کرنے کے لیے میں چند دلیلیں پیش کرتا ہوں:
۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا جہاد سب سے افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: کسی ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا (مسند احمد و نسائی)۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہاد کی ایک شکل لسانی جہاد بھی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے: ’’مشرکوں سے جہاد کرو، اپنے مال کے ذریعے، اپنی جان کے ذریعے اور اپنی زبانوں کے ذریعے‘‘ (مسند احمد، ابودائود، حاکم)۔ معلوم ہوا کہ جہاد فقط تلوار کی جنگ کا نام نہیں ہے، بلکہ بسا اوقات اور حسبِ ضرورت مال کے ذریعے جہاد ہوتا ہے۔ کبھی جسمانی قوت کا استعمال ہوتا ہے اور کبھی لسانی قوت کی ضرورت پیش آتی ہے۔
۲۔ لفظ جہاد کو وسیع تر مفہوم پر محمول کرنے کے لیے اگر کوئی قطعی نص نہ بھی ہوتی تب بھی محض قیاس کی بنا پر ایسا کیا جاسکتا ہے، کیونکہ جہاد چاہے تلوار سے ہو، چاہے قلم اور زبان سے، ان میں سے ہر جہاد کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے، یعنی اعلاے کلمۃ اللہ۔
یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ حالات اور ماحول کی مناسبت سے بعض کاموں کو ایک ملک میں جہاد تصور کیا جائے گا اور وہی کام بعض دوسرے ملکوں میں محض ایک رفاہی کام قرار پائے گا۔ مثلاً ایک ایسے ملک میں جہاں اسلام کا غلبہ ہے، مسلمانوں کی اکثریت ہے اور لوگ دینی تعلیم سے آگاہ ہوں وہاں کسی مدرسے یا مسجد کی تعمیر ایک رفاہی کام تو ہوسکتا ہے مگر جہاد نہیں ہوسکتا۔ اس کے برعکس کسی غیر مسلم ملک میں جہاں مسلمانوں کی اقلیت ہو، اشاعتِ اسلام کی خاطر مسجد یا مدرسے تعمیر کرنا یقینا جہاد ہے۔ عیسائی مشنریوں کی مثال واضح ہے۔ انہوں نے چرچ، اسپتال اور اسکول کی تعمیر کی آڑ لے کر عیسائیت کی جس قدر تبلیغ کی ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
درحقیقت اس دَور میں جہاد فی سبیل اللہ کی سب سے عظیم صورت یہ ہے کہ مسلم ممالک جو کفار و مشرکین کے قبضے میں چلے گئے ہیں، انہیں بزور قوت واپس حاصل کیا جائے۔ کفار و مشرکین، چاہے عیسائی ہوں یا یہودی ہوں یا کمیونسٹ، ان میں سے کوئی بھی اگر مسلم ممالک پر غاصبانہ قبضہ کر لیتا ہے تو اس وقت تک جہاد کی تمام صورتیں بروئے کار لائی جائیں گی، جب تک یہ علاقے مسلمانوں کو واپس نہیں مل جاتے۔ مثال کے طور پر فلسطین کا نام لیا جاسکتا ہے جس پر یہودی ظالمانہ طریقے سے غاصب ہوگئے ہیں۔ چنانچہ جہاں بھی اس طرح کی جنگ جاری ہو، ہمیں بھرپور مالی تعاون کرنا چاہیے۔ ان جگہوں پر زکوٰۃ کی رقم بھی ارسال کرنی چاہیے۔
البتہ ایک بات یہاں قابلِ ذکر ہے، آج اس دور میں دفاعی اخراجات اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ ان کے لیے علیحدہ بجٹ بنایا جاتا ہے اور یہ بجٹ بھی تمام دوسرے بجٹ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ بعض ممالک تو ایسے ہیں کہ ملکی خزانے کا ۵۰ فیصد دفاعی بجٹ کے لیے مخصوص کردیتے ہیں۔ اس قدر ضخیم بجٹ کے لیے زکوٰۃ کی تھوڑی سی رقم ہرگز کافی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے میری رائے میں زکوٰۃ کی رقم جہاد کی ان صورتوں میں بھیجنا زیادہ بہتر ہے جنہیں لسانی، ثقافتی، فکری اور اعلامی جہاد سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیونکہ ان صورتوں میں تھوڑی رقم بھی زیادہ نمایاں کام انجام دے سکتی ہے۔ ذیل میں بعض ایسی ہی صورتیں پیش کرتا ہوں:
۱۔ اسلامی دعوتی مرکز کا قیام، جہاں سے لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچائی جائے۔
۲۔ خود اسلامی ممالک کے اندر اسلامی ثقافتی مراکز کا قیام جہاں مسلم نوجوانوں کی عملی تربیت ہوسکے اور انہیں اعلاے کلمۃ اللہ کی خاطر تیار کیا جاسکے۔
۳۔ اسلامی اخبارات و جرائد کا اجرا جو غیر اسلامی صحافتی سرگرمیوں کے لیے چیلنج ہو۔
۴۔ اسلامی کتب کی نشر و اشاعت، جس میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جائے اور کفر کی ریشہ دوانیوں کو اُجاگر کیا جائے۔
یہ وہ چند صورتیں ہیں جہاں زکوٰۃ کی رقم ارسال کرنی چاہیے بلکہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی ہر ممکن طریقے سے ان تمام سرگرمیوں میں دل کھول کر مالی تعاون کرنا چاہیے۔ (ڈاکٹر علامہ محمد یوسف القرضاوی۔ ’’فتاویٰ یوسف القرضاوی‘‘۔ ترجمہ سید زاہد اصغر فلاحی، مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دہلی۔ ص ۱۴۳۔۱۴۶)
(ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ لاہور۔ جولائی ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply