گزشتہ دنوں شام و لبنان اور حزب اللہ کے خلاف صہیونی گیدڑ بھبکیوں کا بڑا زور رہا۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع سمیت ایک سے زیادہ اسرائیلی ذمہ دار دھمکی بازیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے تھے۔ ایک اعلیٰ ذمہ دار نے تو یہاں تک زبان درازی کی کہ اگر حزب اللہ نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائیل پھینکے تو اسرائیل شام کو تہس نہس کر کے پتھروں کے دور میں پہنچادے گا۔ اس لیے کہ اس کے خیال میں شام نے حزب اللہ کو یہ میزائل دیے ہیں۔ اس طرح کے بے تُکے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل اتنے پیچیدہ مسائل سے دوچار ہے کہ اب وہ جنگ کے بارے میں سوچنے لگا ہے۔ اس لیے کہ فی الوقت اس کی عزلت و تنہائی سے مشابہ حالت کی وجہ سے اس کے پاس سیاسی و سفارتی امکانات تقریباً مفقود ہو رہے ہیں اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں سابق انتظامیہ کے زمانے کی چمک نہیں رہی ہے۔
یورپ اب اسرائیل کے لیے اتنا پر جوش نہیں رہا ہے جتنا کہ ماضی میں تھا، اس صورتحال پر خاص طور سے غزہ کے واقعات اور اسرائیل میں دائیں رجحانات کی حکومت کی آمد سے اثر پڑا ہے جو فلسطین کے اصلی باشندوں کو ہجرت پر مجبور کرنے کی قائل ہے اور وہ سابق جنوبی افریقی حکومت کی طرح نسلی علیحدگی پسندی کی سیاست کر رہی ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کا تماشا موقوف ہو چکا ہے جس کی وجہ سے عالمی برادری میں اس کی کچھ لاج قائم تھی۔ نیز اسرائیلی دھمکیوں کی وجہ سے محمود عباس کو خوف لاحق ہو گیا ہے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی سابق صدر یاسر عرفات کا سا معاملہ نہ ہو جن کو بعض فلسطینی اور عرب فریقوں کے تعاون سے صہیونیوں نے ٹھکانے لگا یا تھا۔
اس کے علاوہ اسرائیلی اور اردنی تعلقات میں سابق گرمجوشی ختم ہوچکی ہے۔ شاہ عبداللہ ثانی کے بیانات میں اسرائیلی خرمستی کی وجہ سے چندماہ کے اندر خطے میں جنگ چھڑنے کے واضح اشارے موجود ہیں، جبکہ اسرائیل کے ساتھ اردن کے تعلقات کی بڑی اہمیت تھی۔ سولہ برس قبل دونوں کے مابین امن و امان کا معاہدہ ہوا تھا، مگر ان کے درمیان تعلقات کے انتظار کا منفی اثر نہ صرف تمام عالم اسلامی و عرب بلکہ لندن اور واشنگٹن میں بھی محسوس کیا گیا جہاں اردن کی قیادت کو بڑی قدردانی و مقبولیت حاصل ہے۔
شام یا لبنان کے خلاف آئندہ جنگ کو ڈرامائی رنگ دینے کی اسرائیل کوشش سے صاف طور پر اس کی سیاسی و فوجی قیادت کا یہ خوف جھلکتا ہے کہ کہیں ۲۰۰۶ء کی جنگ جیسا حال نہ ہو جس میں اسرائیلی فوج کو ایسا جھٹکا لگا تھا کہ اس سے اس کی خود اعتمادی متزلزل ہوگئی تھی اور کئی فوجی ذمہ داروں کو اپنے عہدے چھوڑنے پڑے تھے۔ اس لیے اسرائیلی دھمکیوں کا مقصد حالات کو بگاڑنا اور شام کو یہ پیغام دینا ہے کہ وہ حزب اللہ کو قابو میں رکھے یا لبنان پر اسرائیل کے حملے کے وقت اس کو اپنی پوری طاقت سے مزاحمت کرنے سے روکے۔ یعنی اسرائیل شام سے یہ چاہتاہے کہ وہ حزب اللہ کو اس کے اور لبنان کے خلاف اسرائیل حملہ قبول کرنے کا قائل کرے کہ وہ بغیر قابل ذکر مزاحمت اور بغیر اسرائیل پر میزائیل پھینکے مقابلے کا مظاہرہ کرے تاکہ اسرائیل فوج کے مٹی کے شیروں کی خود اعتمادی بحال ہو اور ماضی کی طرح خطے میں اسرائیل کا رعب و دبدبہ قائم رہے۔
لیکن اسرائیل کی اس معصومانہ خواہش سے شام کو کیا فائدہ ہوگا؟ وہ فعال اداروں کا مالک ملک ہے۔ اس نے کئی بار ثابت کیا ہے کہ اس میں نقصان اٹھائے بغیر بارودی سرنگوں سے بھرے کھیتوں میں چلنے کی صلاحیت ہے اور وہ موجودہ اسرئیلی صورتحال کو خوب سمجھتا ہے۔ اس کو یقین ہے کہ اسرائیل فی الوقت جن اندرونی اور علاقائی و بین الاقوامی حالات سے دوچار ہے، ان میں وہ جنگ میں الجھنے کی ہمت نہیں کرسکتا، پھر بھی اگر اس نے یہ کھلی غلطی کی تو وہ فرار کی راہ اختیار کرے گا جس کی وجہ سے پورا خطہ انتشار و تشدد کی لپیٹ میں گھر جائے گا اور ہوسکتا ہے کہ یہ صورتحال یورپی ممالک تک پہنچ جائے۔
آئندہ جنگ میں شام کو پتھر کے زمانے میں پہنچانے کی دھمکی بڑے مبالغے کی بات ہے جس سے صرف اسرائیل ہی کا اندرونی خوف جھلکتا ہے، نیزا گر اسرائیل، لبنان اور شام کے انفرا اسٹر کچر کو برباد اور وہاں کے باشندوں کا جانی نقصان کرے گا تو کیا یہ یکطرفہ طور پر تفریحاً ہوگا؟ کیا متعدد اسرائیلی شہر کئی جانب سے میزائل کے بڑے حملوں سے بچ جائیں گے جن کی وجہ سے دو ملین اسرائیلیوں کو شمال سے وسط اسرائیل تک نفل مکانی کرنی پڑسکتی ہے۔ اسی طرح صہیوفی مملکت کے مکمل طور پر مفلوج ہونے کے امکان کو خارج نہیں کیا جاسکتا اور اگر جنگ فریقین کے درمیان آر پار کے معرکے میں تبدیل ہوئی تو بہت سی غیر متوقع چیزوں کے بھی پیش آنے کا امکان ہے۔ ان میں سے ایک بات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ جنگ پھیل کر علاقے اور اقلیم کے دوسرے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے یا عام تباہی کے اسلحے کا استعمال ہوجائے جس کی وجہ سے خطے میں سیاسی اور امن و امان کی بڑی تبدیلیاں پیدا ہوجائیں۔
اسرائیل کے غیر ذمہ دارنہ کھیل کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں امریکیوںکو اپنے مفادات کے خلاف پیدا ہونے والے خطرات کا خوب احساس ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکی وقت کے لحاظ سے اسرائیلی گھڑی چلانے سے اب تک معذور ہیں اور ان کو اسرئیل کی نافرمانی کی سرشت سے اس بات کا ڈرلگا ہوا ہے کہ وہ کہیں حزب اللہ و شام یا ایران کے خلاف طالع آزمائی کی کوئی غیر ذمہ دارانہ حرکت نہ کربیٹھے جس کی وجہ سے خطے کے حالات قابو سے باہر ہونے لگیں اور عرب سیاسی نظام ہائے حکومت کے وجود کو خطرہ لاحق ہو جائے، نیز گھڑی کی سوئیاں چالیس برس سے کچھ زیادہ عرصے کی طرف لوٹ جائیں تو امن و امان کا پورا عمل (بشمول اسرائیل کے اردن و مصر کے ساتھ معاہدہ کے) برباد ہو جانے کا اندیشہ ہے۔
آئندہ چند ماہ فیصلہ کن ہوں گے جن پر انجام کا دارومدار ہوگا۔ یہ بات شاہ اردن نے امریکی اخبار ’’شکارگو ٹریبون‘‘ کے ساتھ انٹرویو میں کہہ دی ہے۔ وہ اپنی گفتگو میں مشرق وسطیٰ کے حالات اور امن کے عمل کے بارے میں اسرائیل کے اڑیل پن کے رویے سے مایوس معلوم ہوتے تھے لیکن صحیح صورتحال کے اندازے کے لیے ان کی آراء کا لحاظ کرنا چاہیے، اس لیے کہ وہ امریکی و برطانوی اور اسرائیل نقطہ ہائے نظر کو قریب سے جانتے ہیں اور علاقائی و عالمی تبدیلیوں پر اچھی نظر رکھتے ہیں۔
(ترجمہ: مسعود الرحمن خان ندوی)
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’الامان‘‘ بیروت۔ شمارہ نمبر۹۰۶)
Leave a Reply