قیامِ پاکستان سے لے کر ۱۹۸۰ء کی دہائی کے آغاز تک ملک کی مغربی سرحد پر واقع قبائلی علاقہ جات کو برطانوی سامراج کے چھوڑے ہوئے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (FCR) کے تحت چلایا گیا۔ نہ تو انتظامی اور نہ ہی ترقیاتی اعتبار سے یہ اہم خطہ کسی بھی حکومت کی ترجیح رہی۔ افغانستان میں روسی مداخلت نے اسے مزاحمتی تحریک کا مرکز بنا دیا۔ یہ علاقہ افغان جنگجوؤں کی تربیت اور مسلح کرنے کا مقام قرار پایا اور یونس خالص کے جنوبی وزیرستان کے صدر مقام، وانا کے مضافات میں وسیع و عریض تربیتی مراکز اس کا ثبوت ہیں۔ جو کھیل یہاں شروع کیا گیا، وہی آج ریاست کا پیچھا کر رہا ہے اور پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے نے اسٹیبلشمنٹ کو احساس دلایا کہ پانی سر سے گزر چکا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت اس علاقے کو مرکزی قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ ہوا۔ حکومتی کمیٹی بنی اور وقت کی کمی کا احساس ہوتے ہوئے کم وقت میں اصلاحات کا ایک پیکیج تیار کر لیا گیا۔ پھر خبر آئی کہ قبائلی علاقوں میں ان مجوزہ اصلاحات کو وفاقی کابینہ کے ایجنڈے سے نکال دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔
قبائلی اسے حکومت کی فاٹا میں عدم دلچسپی کی جاری پالیسی کا حصہ قرار دینے لگے۔ ان کا اصرار ہے کہ قبائلی علاقوں سے روا رکھا ہوا رویہ ماضی کے رویے سے مختلف ہے؟ تاہم بظاہر دباؤ میں آ کر وزیراعظم نے اس اہم موضوع کو وفاقی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا۔ معلوم نہیں کہ حتمی فیصلہ کب تک ہوگا۔
وزیراعظم کی بااختیار لیکن مختصر کمیٹی نے عرق ریزی کرتے ہوئے اپنا قیمتی وقت ان اصلاحات پر لگایا ہے۔ اس کے لیے کئی دورے کیے ہیں اور قبائلیوں سے مل کر جو رائے قائم کی ہے اور تجاویز دی ہیں، اس پر قبائل کے ردعمل سے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ جو ’ہاتھ آئے وہی غنیمت ہے‘ سمجھتے ہوئے بے چین ہیں۔ ان کی بے چینی کی اصل وجہ دہائیوں سے کسی معنی خیز تبدیلی کی ان کی تڑپ اور خواہش اور باقی پاکستان سے ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جانا ہے۔
خیبر ایجنسی کے صحافی راحت شنواری کہتے ہیں کہ اصلاحات متعارف کروانے کی وجہ کسی ایک سیاسی جماعت یا گروپ کی کوشش نہیں بلکہ پشاور اسکول حملے کے بعد طے کیا گیا قومی ایکشن پلان ہے، جس کا ایک اہم جزو قبائلی علاقوں کو مرکزی قومی دھارے میں لانا ہے۔
ان کے مطابق ’’قومی ایکشن پلان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ قبائلی علاقہ جات میں اصلاحات چاہتی ہیں، جس کی وجہ سے فاٹا کے غریب اور مظلوم لوگوں کو کم ازکم کالے قانون ایف سی آر سے نجات ضرور مل جائے گی‘‘۔
پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس سلسلے میں فوج کی رضامندی کا اظہار ۱۲؍فروری ۲۰۱۷ء کو اپنے جنوبی وزیرستان دورے کے دوران کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی آبادی کی خواہشات کے مطابق وہ حکومت کی قبائلی علاقوں کو قومی مرکزی دھارے میں لانے کی حمایت کریں گے۔
بے گھر قبائلیوں کی واپسی
اصلاحات پر عمل درآمد سے قبل حکومت کا پلان تھا کہ گزشتہ برس دسمبر تک علاقے سے بے دخل ہوئے تمام قبائلیوں کو واپس اپنے علاقوں میں بھیج دیا جائے گا۔ اس منصوبے پر سو فیصد عمل درآمد اب تک نہیں ہوسکا ہے اور اب حکومت کو امید ہے کہ یہ ہدف اس سال اپریل تک حاصل کر لیا جائے گا۔ واپسی کے لیے ۸۰؍ارب روپے کی رقم کا اندازہ لگایا گیا تھا لیکن اب تک محض ۳۰؍ارب روپے ہی جاری کیے گئے ہیں۔
حکومتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ایکشن پلان کے تحت ’’فاٹا کو جنگ سے آزاد علاقہ بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور یہاں قبائلی عوام سکیورٹی اور سماجی خدمات کی دستیابی کے ساتھ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہوں گے جو دیگر پاکستانیوں کو میسر ہیں۔‘‘
رجسٹرڈ آئی ڈی پی اور ان کی واپسی
قبائلی علاقہ | نقل مکانی پر مجبور | واپس آنے والے | بقیہ افراد | شرحِ واپسی |
---|---|---|---|---|
خیبر | ۹۱,۶۸۹ | ۸۹,۱۷۲ | ۲,۵۷۱ | ۹۷ فیصد |
شمالی وزیرستان | ۱۰۴,۳۸۲ | ۸۲,۵۶۵ | ۲۱,۸۱۷ | ۷۹ فیصد |
جنوبی وزیرستان | ۷۱,۱۲۴ | ۵۳,۴۴۰ | ۱۷,۶۸۴ | ۷۵ فیصد |
اورکزئی | ۳۵,۸۲۳ | ۳۵,۸۲۳ | ۰ | ۱۰۰ فیصد |
کرم | ۳۳,۰۲۴ | ۳۳,۰۲۴ | ۰ | ۱۰۰ فیصد |
مجموعہ | ۳۳۶۰۴۲ | ۲۹۴,۰۲۴ | ۴۲۰۱۸ | ۸۷ فیصد |
قبائلی اراکین پارلیمان
قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکینِ پارلیمان بھی فاٹا اصلاحات پر متحرک ہوئے ہیں۔ اکثر نے اصلاحات کی حمایت کی ہے اور شاہ جی گل آفریدی کی قیادت میں چار فروری کو ایک اخباری کانفرنس میں انھوں نے علاقے کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی حمایت بھی کر دی۔
ماضی میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہمیشہ ساتھ دینے والے ان اراکین کی قبائلیوں کے نزدیک رائے کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ ان پر اکثر مسائل پر خاموشی اختیار کرنے اور علاقے کے بجائے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے آزاد رکن قومی اسمبلی ناصر خان کا کہنا تھا کہ بڑی رکاوٹ حکومت خود تھی، جو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی تھی۔ ’’پارلیمنٹیرینز اس مسئلے پر متفق تھے لیکن اس میں پھوٹ ڈالنے کی کوششیں کی گئیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات سے سب متفق ہیں لیکن صرف انضمام کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگوں کا مؤقف یہ ہے کہ صوبے کے ساتھ انضمام سے ان کی اپنی روایات متاثر ہوں گی اور علاقے میں مشکلات بڑھ جائیں گی لیکن دوسری جانب انھوں نے کہا کہ موجودہ نظام سے بھی لوگ تنگ ہیں اور یہ ایک سو سال پرانا قانون ایف سی آر اب مزید قابل برداشت نہیں رہا۔
سیاسی سطح پر کون حامی کون مخالف؟
اس سلسلے میں محدود بحث قومی اسمبلی میں یا پھر میڈیا پر ہوئی۔ مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام اور محمود خان اچکزئی کی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے سرکاری موقف کے خلاف کھل کر رائے دی، جس پر انھیں ان اصلاحات کی راہ میں روڑے اٹکانے جیسے الزامات کا سامنا رہا تاہم دونوں جماعتیں اس کی سختی سے تردید کرتی رہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ فرنٹیئر کرائم ریگولیشن کے اتنے ہی مخالف ہیں جتنا کہ کوئی اور۔ مولانا فضل الرحمان حکومت کے حلیف ہونے کے باوجود ریفرنڈم کی بات کر رہے تھے لیکن اب ان کے مؤقف میں کچھ نرمی کے اشارے ملے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی دوسری اتحادی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بھی سرکاری رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے علاقے کو صوبے میں ضم کرنے کی مخالفت کی ہے۔ انھیں خدشہ ہے کہ سرکاری رپورٹ پر عمل درآمد سے قبائلی عوام تباہی سے دوچار ہوں گے۔
صوبے کے موجودہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف اور سابق حکمراں جماعت عوامی نیشنل پارٹی، دونوں قبائلی علاقوں کو صوبے میں ضم کرنے کے حق میں ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی کا مطالبہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل قبائلی علاقوں کو صوبائی اسمبلی میں نشستیں دی جائیں اور صوبائی حکومت میں فاٹا کی وزارتوں کی تعداد اور قومی مالیاتی کمیشن میں اس کے حصے کا تعین بھی کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ قبائلی علاقوں کو کم از کم پانچ فیصد اضافی ترقیاتی فنڈ بھی دیے جائیں تاکہ ان علاقوں کو جلد قومی دھارے میں لایا جا سکے۔
فاٹا اور قومی وسائل
قبائلی علاقوں کی ترقی اور جاری اخراجات کے لیے وفاقی حکومت سالانہ بجٹ بناتی ہے۔ رقوم سالانہ بنیادوں پر مختص کی جاتی ہیں۔
قومی وسائل کی تقسیم کے فورم یعنی قومی مالیاتی کمیشن میں قبائلی علاقوں کی کوئی نمائندگی نہیں۔ وفاقی حکومت اپنے وسائل میں سے رقوم اس کے لیے مختص کرتی رہی ہے۔
گزشتہ برس اس سلسلے میں ۱۸؍ارب روپے سے زائد کی رقم دی گئی تھی۔ اب اسے ۲۰؍ارب روپے تک لایا گیا ہے اور وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کی تعمیرِ نو اور ترقی کے لیے آئندہ دس برسوں میں اسے سالانہ نو ارب روپے اضافی دیے جائیں گے۔ یعنی اگر یہ رقم ملتی ہے تو قبائلی علاقوں کو سالانہ ۲۹؍ارب روپے ملیں گے۔
سیفران کے وفاقی سیکرٹری ارباب محمد شہزاد کا کہنا ہے کہ قومی مالیاتی ادارے سے فاٹا کو تین فیصد وسائل ملیں گے۔ تاہم یاد رہے کہ صوبوں نے پانچ فیصد فنڈ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
صنعت
قبائلی علاقوں میں باضابطہ بینکنگ کا نظام موجود نہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ زرعی ترقیاتی بینک وہ واحد مالیاتی ادارہ ہے جو حکومت کے بقول قبائلی علاقوں میں زراعت کے لیے نہیں بلکہ صنعتی یونٹس کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے۔
وفاقی وزیر برائے قبائلی علاقہ جات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے سینیٹ کو بتایا کہ فاٹا ترقیاتی اتھارٹی علاقے میں صنعتی ترقی کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔
مہمند قبائلی علاقے میں ماربل سٹی کا قیام آخری مراحل میں ہے جو تقریباً ۳۰۰ صنعتی یونٹس کو جگہ دے سکے گا۔ یہ منصوبہ حکومت کے بقول چین پاکستان راہداری منصوبے کا بھی حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایف آر کوہاٹ اور شمالی وزیرستان میں دو صنعتی اسٹیٹس بھی قائم کی جا رہی ہیں۔ ساتھ میں چھوٹے اور درمیانے سطح پر فاٹا انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن اتھارٹی بھی قائم کر دی گئی ہے۔
فاٹا میں ترقی کے اشارے
جب قبائلی علاقوں کی بات کی جاتی ہے تو ذہن میں یہ رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ پسماندگی کی کس سطح پر ہیں۔
۲۰۰۳ء سے قبل جب شدت پسندی کی لہر نے اس خطے میں آگ لگائی، یہ علاقہ پہلے ہی انسانی ترقی کے انڈیکس میں تمام ملک سے پیچھے تھا۔ پھر شدت پسندی نے یہاں کی جو اینٹ سے اینٹ بجائی تو یہ ترقی کے میدان میں کئی دہائیاں پیچھے چلا گیا۔
تعلیم کی بات کریں تو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں شرحِ خواندگی محض ۳۳ فیصد ہے، جبکہ قومی سطح پر یہ شرح ۵۸ فیصد ہے۔ فاٹا میں عورتوں کی شرحِ خواندگی تو صرف ۱۲؍فیصد ہے۔
صحت کے شعبے میں ایک لاکھ افراد میں اموات کی قومی شرح ۲۷۵ ہے تو فاٹا میں یہ شرح ۴۰۰ ہے۔
فاٹا میں ترقی کے اشاریے
ترقی کا شعبہ | فاٹا | قومی شرح |
---|---|---|
شرحِ خواندگی | ۳ء۳۳% | %۵۸ |
ماہرین کی زیرِ نگرانی پیدائش | ۵ء۲۹% | %۸۶ |
نوجوانوں میں بیروزگاری | ۸ء۱۱% | ۳ء۱۰% |
کچے مکانات کی اوسط | ۴ء۷۸% | ۵۲ء۳۴% |
بیت الخلا | ۳ء۳۸% | %۷۱ |
قبائلی کیا چاہتے ہیں؟
قبائلیوں کی اصل رائے جاننے کی کوشش اس خطے سے متعلق واحد تھنک ٹینک فاٹا تحقیقی مرکز نے گزشتہ دنوں کی۔
اس سروے کے معیار اور غلطی کے امکانات اپنی جگہ، لیکن اس سے بھی یہ واضح ہے کہ قبائلی تبدیلی چاہتے ہیں۔
۷۰ فیصد نے ایف سی آر سے جان چھڑانے کی حمایت کی ہے جبکہ اس سے بڑھ کر ۸۴ فیصد نے اس خطے کے لوگوں کو انسانی حقوق دینے کی اپیل کی ہے۔ ۵۴ فیصد نے علاقے کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی حمایت کی ہے جبکہ علیحدہ صوبے کی حمایت ۲۶ فیصد نے کی ہے، جو کہ انتہائی کم ہے لیکن اس کی وجہ اس آپشن کے حق میں اگر کوئی فوائد ہیں تو اس کے بارے میں مناسب آگہی کا فقدان بھی ہو سکتا ہے۔
کیا قبائلی آگاہ ہیں؟
اکثر قبائلیوں کو معلوم ہے کہ ان اصلاحات سے وہاں فوراً دودھ کی نہریں نہیں بہیں گی، لیکن ان کے حالات میں کچھ تبدیلی آ ہی جائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت نے اپنی اصلاحاتی تجاویز سے ۶۰ لاکھ قبائلی آبادی کو آگاہ بھی کیا ہے۔ کیا انھیں مکمل تصویر دکھائی گئی ہے؟ کیا انھیں معلوم ہوچکا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے یا الگ صوبہ بننے کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں؟
خیبر پختونخوا میں انضمام
فوائد
٭ قبائلی علاقوں کا انتظامی انحصار پہلے دن سے بندوبستی علاقوں پر ہے تو معمولات زیادہ متاثر نہیں ہوں گے۔ یہی بنیاد سرکاری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں علیحدہ صوبے کی مخالفت میں بیان کی ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ قبائلی علاقہ مطلوبہ ذرائع اور تربیت یافتہ افرادی قوت پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوگا۔
٭ نسلی اور لسانی یکسوئی۔
٭ قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا پر انتظامی و معاشی انحصار برقرار
نقصانات
٭ خیبر پختونخوا موجودہ علاقے کی ترقی میں مشکلات سے دوچار ہے۔ سات دہائیوں سے پسماندہ قبائلی علاقوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کیا کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
٭ قبائلی علاقوں کے لیے ملازمتوں اور تعلیم میں خصوصی کوٹے کا خاتمہ؟ انضمام کی صورت میں فاٹا کو کیا ملے گا، ابھی واضح نہیں۔
٭ مستقبل میں پسماندگی برقرار رہنے کی صورت میں پشاور سے استحصال کی شکایت کا امکان۔
اگرچہ اب اصلاحات کمیٹی نے قبائلی علاقوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے انھیں پانچ برس میں خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی سفارش کر دی ہے۔ تاہم علیحدہ صوبے کی حمایت اور مخالفت میں کچھ ایسے دلائل ہیش کیے گئے۔
علیحدہ صوبہ
فوائد
٭ مرکزی حکومت کی مدد سے اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہونے کا امکان۔ ناقدین کے مطابق قبائلی علاقوں میں نہ تو کوئی صنعت ہے، نہ زراعت اور نہ کوئی لینڈ ریکارڈ۔ ماسوائے لینڈ ریکارڈ کے یہی مسائل کم و بیش خیبر پختونخوا کو بھی درپیش ہیں۔
٭ خیبر ایجنسی کا، جمرود یا درہ آدم خیل ایسے علاقے ہیں، جہاں صوبائی دارالحکومت قائم کیا جاتا ہے تو سفری اعتبار سے تقریباً پشاور جیسی ہی حیثیت ہوگی۔
٭ قبائلی علاقے کی سینیٹ میں دیگر صوبوں کی طرح برابری کی بنیاد پر موجودہ آٹھ سے بڑھ کر ۲۳ نشستیں ہوسکتی ہیں۔ صوبہ نہ بنانے کی صورت میں کے پی کی ہی پرانی آٹھ نشستیں برقرار رہیں گی۔ اس سے قبائلیوں کی نمائندگی کی صورتحال کیا ہوگی، واضح نہیں۔
٭ ذرائع اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی اب بھی خیبرپختونخوا پوری کر رہا ہے اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے تک مدد کرسکتا ہے۔
٭ فاٹا کو صوبہ کی حیثیت سے اپنا برابر حصہ ملے گا۔ فاٹا میں تمام پوسٹیں صرف میرٹ پر قبائلی نوجوان کو ملیں گی، جس سے فاٹا سے بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔
٭ چھوٹے یونٹ بہتر انتظام۔
نقصانات
٭ مرکز کے بجائے اب خیبر پختونخوا پر مکمل انحصار
٭ لینڈ ریکارڈ کی عدم دستیابی
اکثر قبائلی اس بات پر قائل ہیں کہ حکومت اگر چاہے تو علیحدہ صوبے کے قیام کو عملی شکل دے سکتی تھی۔ وہ اس تجویز کے مخالفت میں دی گئی رائے کو نوکر شاہی کا سرخ فیتہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم صوبے کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے حامیوں کی بھی کمی نہیں اور بعض قبائلی صحافی بھی اس سلسلے میں کھل کر مہم چلاتے رہے ہیں۔
مبصرین کے خیال میں کوشش اس خطے کو غیریقینی کیفیت سے بچانے کی ہونی چاہیے، اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کا پانچ برس میں فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ کتنا دانشمندانہ ثابت ہوتا ہے۔
(بحوالہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘۔ ۲ مارچ ۲۰۱۷ء)
قبائلی اصلاحات کے کھوئے مواقع
۱۹۷۶ء: جنرل ریٹائرڈ نصیراللہ بابر رپورٹ۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۷ء کے عام انتخابات سے قبل قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی، جس پر فوجی بغاوت کے بعد عمل نہ ہوسکا۔
۲۰۰۶ء: صاحبزادہ امتیاز احمد رپورٹ۔ اسے فاٹا میں انتظامی اصلاحات میں پہلی جامع کوشش قرار دیا جاتا ہے لیکن آئین سے متعلق ترامیم پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔
۲۰۰۸ء: جسٹس (ر) میاں محمد اجمل رپورٹ۔ برطانوی راج سے نافذ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن میں ترامیم تجویز کی گئیں لیکن ایف سی آر ۲۰۱۱ء میں سب کو شامل نہ کیا گیا۔
۲۰۱۱ء: سابق صدر آصف علی زرداری نے سیاسی جماعتوں کو سرگرمیوں کی اجازت دی اور لوکل باڈیز ریگولیشن بھی تیار کی گئیں لیکن سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے ان پر آج تک عمل درآمد نہ ہوسکا۔
۲۰۱۵ء: گورنر خیبرپختونخوا نے فاٹا ریفارمز کمیشن تشکیل دیا، جس کی سفارشات پر بھی جزوی عمل درآمد ممکن ہوسکا۔
Be the first to comment
Copyright © 2024 | WordPress Theme by MH Themes
Leave a Reply