امریکی تجزیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان میں جمہوری نظام کو سبوتاژ کرنے اور وطن عزیز کے خلاف سازشوں کا انکشاف تشویشناک ہے۔ ان اداروں کی تحقیقاتی رپورٹوں کو واشنگٹن میں بڑی اہمیت دی جاتی ہے اور ان کی روشنی میں قومی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔ اسی لیے پاکستان کے ارباب اختیار کو ان خبروں کا محتاط اور بے لاگ تجزیہ کرتے ہوئے قومی سلامتی کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی پالیسی ترتیب دینا لازم ہے۔ اگر ان تجزیات کا مؤثر جواب نہ دیا گیا تو معاشی بدحالی، سیاسی بے یقینی اور عدم تحفظ کی شکار پاکستانی قوم پر بہت ہی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
امریکی کانگریس کے ادارے نیشنل سیکوریٹی کونسل نے اپنی ’’۲۰۲۵ء تک رو پذیر ہونے والی عالمی تبدیلیاں‘‘ نامی تفصیلی رپورٹ میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کے غیر یقینی حالات کے پیش نظر مستقبل میں پاکستان کا قائم رہنا مشکل نظر آتا ہے۔ اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز دو ہاتھ آگے ہے۔ اخبار نے مستقبل قریب میں پاکستان کے ٹوٹنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے نئی سرحدوں پر مبنی نقشہ بھی شائع کر دیا ہے۔ اس تجزیئے کے مطابق:
’’اگر پاکستان ۲۰۲۵ء تک قائم رہ سکا تو اس صورت میں پشتون قبائل کے مابین قائم ہونے والے اتحاد کی وجہ سے ڈیورنڈ لائن کا وجود ختم ہو جائے گا۔ اس طرح پاکستان کی سرحدیں سکڑ جائیں گی اور پاکستان کے صوبہ پنجاب اور افغانستان کے تاجک اور دیگر مشرقی علاقوں پر مشتمل ایک پشتون سلطنت قائم ہو جائے گی۔ پشتونوں کی اس نئی سلطنت کے قیام سے بھارت کے لیے بھی افغانستان میں اپنے منصوبوں پر عمل جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا اور اس ضمن میں اسے ایران کی طرف دست تعاون دراز کرنا پڑے گا‘‘۔
اس قسم کے گمراہ کن تجزیات سے قطع نظر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پاکستان کے نام نہاد دوست اور بہی خواہ گزشتہ تیس سالوں سے اس قسم کے تجزیات کی شکل میں زہر اُگلتے رہے ہیں۔ مثلاً ۱۹۸۸ء میں جارج بش سینئر نے کہا تھا:
’’امریکا ایک اُبھرتی ہوئی قوم ہے۔ میں امریکا کو عالمی بساط پر قائدانہ کردار کے حامل ملک کی حیثیت سے دیکھ رہا ہوں۔ یہ صدی بلاشبہ امریکا کی ہے کیونکہ ہم نے اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے اپنی برتری منوا لی ہے۔ ہم نے یورپ کو بچایا، پولیو کا خاتمہ کیا، چاند پر قدم رکھے اور اپنی ثقافت سے دنیا کو روشن کیا۔ اب جبکہ ہم نئی صدی کے دہانے پر کھڑے ہیں تو میں بلا جھجک کہہ سکتا ہوں کہ یہ نئی صدی بھی ہماری ہی ہو گی‘‘۔
لیکن امریکی اربابِ اختیار کو ایسی غلط سوچ کے نتیجے میں غلط اقدامات کر کے شکست اور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور امریکی عالمی برتری کے خواب کو عراق، افغانستان اور لبنان میں ساری دنیا نے بکھرتے دیکھا ہے اور دہشت گردی کے تعاقب میں پے در پے شکست کے باوجود جنگ جاری رکھی گئی ہے اور پورے علاقے کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں جاری عدم استحکام کا سلسلہ اس وقت ختم ہو جائے گا جب ’’تمام برائیوں کی جڑ‘‘ یعنی غیر ملکی تسلط سے افغان قوم آزاد ہوگی۔ کیونکہ افغان قوم ملک کی آزادی اور خود مختاری کے حصول کے بغیر ہر گز چین سے نہیں بیٹھے گی۔ یہ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ جو بھی افغانستان میں داخل ہوا وہ ذلیل و خوار ہو کر نکلا ہے۔ امریکا اور ان کے اتحادیوں کا بھی یہی حشر نوشتۂ دیوار ہے۔ یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے سوویت یونین ٹوٹ جانے کے بعد کیسے کیسے منصوبے بنائے لیکن کس طرح یہ منصوبے خاک میں مل گئے۔ مثلاً ’’وسیع تر اسرائیلی ریاست کا تصور‘‘ اور ’’نئی سرحدوں کے حامل مشرقِ وسطیٰ کا منصوبہ‘‘ دنیائے اسلام کے قلبی علاقوں پر مستقل تسلط کا منصوبہ تھا، لیکن یہ تمام سازشیں خاک میں مل گئیں اور ہم دین مبین کے ماننے والوں کا ایمان مستحکم کر گئیں کہ ’’جو طاغوتی قوتیں دین اسلام کے خلاف جنگ کر کے اللہ سے جنگ کی مرتکب ہوتی ہیں تو اللہ سے جنگ کرنے والوں کا یہی حشر ہوتا ہے‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ تیس سالوں سے پختون قوم دریائے سندھ سے لے کر کوہِ ہندو کش تک اپنی مسلمہ حیثیت کا لوہا منوا چکی ہے اور اس حقیقت کو سمجھنے میں ہی پورے خطے کی بھلائی کا راز پوشیدہ ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ جسے بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ یا بھارت، امریکا اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ سے نہیں توڑا جا سکتا ہے کیونکہ اس ابھرتی ہوئی طاقت سے نہ تو پنجابیوں کو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی سندھیوں اور بلوچوں کو ڈرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پختونوں کی طاقت پاکستانی قوم کی یکجہتی اور ملی اتحاد کی ضمانت ہے، نہ صرف یہ بلکہ یہ حقیقت بھی ذہن نشین رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ ایک مضبوط اتحاد کی نوید ہے جو تزویراتی گہرائی یعنی Strategic Depth کے تصور کی عملی شکل بھی ہے جس سے ہمارے دشمن خوفزدہ ہیں۔
امریکی تحقیقی ادارے (IISS) نے پاکستان اور خطے کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
’’اگر پاکستان کے قومی سلامتی، سیاسی اور اقتصادی حالات ایسے ہی رہے تو آرمی پھر سے اقتدار سنبھال سکتی ہے‘‘۔ مشرف دور میں نو سالوں تک آرمی کا تشخص بُری طرح مجروح ہوا جس کے سبب آرمی سیاست سے بظاہر کنارہ کش دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے باوجود عنانِ حکومت سنبھال سکتی ہے۔ آصف زرداری کا ایوان صدر میں قیام بدستور خطرات کی زد میں ہے۔ باوجود اس کے کہ انہوں نے میاں نواز شریف کو کامیاب سیاسی چالوں سے رام کر رکھا ہے۔ آصف زرداری عام پاکستانیوں کی نگاہوں میں انتہائی غیر مقبول ہیں کیونکہ ۱۹۹۳ء میں جب وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں وزیر تھے توان کی وجہ شہرت ان کی بدعنوانی تھی۔ مزید برآں پیپلز پارٹی کے اندر بھی انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے دیرینہ رفقاء کو کونے سے لگا کر انہیں اپنا دشمن بنا لیا ہے۔ اب پاکستان آرمی کا نظریاتی تشخص بھی کمزور ہو چکا ہے‘‘۔
یہ خیالات گہرے غور و فکر اور بے لاگ تجزیے کے متقاضی ہیں کیونکہ ان سے زیادہ خطرہ ہماری جمہوریت کو ہے۔ ہمیں ماضی میں چار فوجی مداخلتوں کا تلخ تجربہ ہے اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ وہ کون سے اسباب تھے جو ان فوجی مداخلتوں کا سبب بنے۔ وہ عوامل یہ ہیں (۱) فوجی سپہ سالاروں کا سیاسی حکمرانوں سے جھوٹا عہد وفاداری (۲) پاکستانی اور امریکی سپہ سالاروں کے باہمی خفیہ روابط (۳) فوج کا سیاسی مسائل کے حل کے لیے استعمال (۴) غیر مقبول حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے حزب اختلاف کا فوجی حکومت کی حمایت۔
فوجی سپہ سالاروں کی جانب سے سیاسی حکمرانوں سے عہد وفاداری کے عمل کو ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مثلاً جنرل ایوب خان کو عہدِ وفاداری کے عوض باوردی وزیر دفاع بنایا گیا۔ جنرل ضیاء نے جب وہ ملتان میں کور کمانڈر تھے تو مرحوم سجاد حسین قریشی کی لائبریری میں قرآن پاک پر بھٹو کو وفاداری کا یقین دلا کر چیف بھی بنے اور بھٹو کو تختہ دار تک پہنچایا۔ جنرل مشرف غیر سیاسی سمجھے جاتے تھے اور حکومت وقت سے وفاداری کا یقین دلایا تھا حالانکہ ان کے ایک سیاسی جماعت سے گہرے روابط تھے۔ جنرل کیانی کو حکومت وقت کا بھرپو اعتماد حاصل ہے کیونکہ انہوں نے حالیہ انتخابات میں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کو الگ رکھ کر جمہوریت پسند ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ جنرل ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے امریکی ہم منصبوں کے ساتھ باہمی روابط ان کی فوجی مداخلت سے پہلے قائم ہو چکے تھے جو کہ دانستہ ’’پوشیدہ‘‘ رکھے گئے۔ لیکن جنرل کیانی کے امریکی ہم منصب سے روابط کھلے عام ہیں جیسا کہ ان کے کابل، بحیرہ ہند اور برسلز میں ہونے والی ملاقاتیں اس بات کی شاہد ہیں کہ ان کے کوئی پوشیدہ عزائم نہیں ہیں جو کہ نہایت خوش آئند ہے۔
سیاسی حکومتیں سیاسی مسائل کو سلجھانے کے لیے فوج کو استعمال کرتی رہی ہیں جن کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ مثلاً ۱۹۶۷ء میں جنرل ایوب خان کی زیر کمان فوج کو بلوچستان میں استعمال کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے ایک سال کے اندر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ۱۹۷۴ء میں بھٹو صاحب نے آرمی کو بلوچستان میں سیاسی اختلافات کچلنے کے لیے استعمال کیا اور بالآخر اسی فوج نے ۱۹۷۷ء میں جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ جنرل مشرف نے ۱۹۹۸ء میں سانحہ کارگل جیسا ناکام آپریشن کیا اور پھر ایک سال بعد نواز شریف حکومت کو چلتا کیا۔ جنرل کیانی اس وقت سوات اور باجوڑ میں عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ جیت رہے ہیں لیکن اس طرح آرمی کو لامحدود اختیارات دے کر قتل عام کا لائسنس دینا اچھا نہیں کیونکہ یہ عمل آئین کا قتل کرنے اور جمہوریت کا گلا گھونٹنے کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ سیاسی عمل شروع کیا جائے اور افہام و تفہیم کے ساتھ اس معاملے کا حل نکالا جائے۔
پاکستان میں سیاسی اور فوجی کشمکش کا یہ منفرد نتیجہ ہے کہ یہاں سیاسی تحریکوں کی کوکھ سے ہمیشہ آمریت نے جنم لیا ہے۔ ۱۹۶۷ء میں ایوب خان کے خلاف اصغر خان اور بھٹو کی قیادت میں چلائی جانے والی تحریک کے نتیجے میں جنرل یحییٰ خان نے ۱۹۶۸ء میں اقتدار سنبھال لیا۔ ۱۹۷۷ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے چلائی جانے والی تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیاء ملک پر قابض ہو گئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے چلائی جانے والی تحریک اور ۱۹۹۸ء میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے امریکی ناراضی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل مشرف نے نواز شریف حکومت کو ختم کر کے اقتدار سنبھال لیا۔ موجودہ صورتحال میں تحریک شروع کرنے کے لیے امریکا کے اشارے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وکلاء، میڈیا اور سول سوسائٹی کی چلائی ہوئی تحریک جاری ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں فوجی مداخلت کا کوئی بھی خیر مقدم نہیں کرے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی زیرِ عتاب ہو گی اور مسلم لیگ (ن) اپنے ماضی کے تلخ تجربے کی روشنی میں فوجی مداخلت کی حمایت نہیں کرے گی۔ اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کون سی طاقت ہے جو فوجی مداخلت کی تائید کرے گی؟ یقینا کوئی نہیں، حتیٰ کہ مسلم لیگ (ق) بھی نہیں اور یہی زرداری حکومت کے لیے ایک نہایت مثبت اور حوصلہ افزاء اشارہ ہے کہ وہ بگڑے ہوئے حالات و معاملات کو درست کریں۔ ان حالات میں سول سوسائٹی کی تحریک کو طاقت سے دبانے کی بجائے گفت و شنید سے حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔
یہاں میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا تاکہ فوجی مداخلت کے حوالے سے اصل اسباب کو سمجھا جا سکے: ۱۹۹۹ء میں ہمارے ادارے فرینڈز کا وفد جرمنی کے دورے پر تھا۔ گیارہ اکتوبر کو ہم برلن میں پاکستانی احباب کی جانب سے دیئے گئے عشایئے میں شریک تھے۔ میں نے شرکاء سے سول ملٹری تعلقات پر تفصیلی گفتگو کی۔ ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ: ’’اگر نواز شریف نے ایک اور غلطی کی تو انہیں حکومت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے‘‘۔ دوسرے دن یعنی ۱۲ اکتوبر کو جب ہم ہوٹل واپس پہنچے تو لابی میڈیا ارکان سے بھری ہوئی تھی جو مجھ سے پوچھنا چاہتے تھے کہ آپ کو کیسے علم تھا کہ ’’صرف ایک اور غلطی کرنے سے نواز شریف کی حکومت چلی جائے گی‘‘۔ میں نے جواب میں کہا کہ ’’میں آرمی ہائوس کے سامنے رہتا ہوں اس لیے مجھے بخوبی علم تھا کہ وہاں کیا کھچڑی پک رہی تھی‘‘۔ لیکن اس جواب سے وہ مطمئن نہیں ہوئے اور مجھے وضاحت کرنی پڑی۔
آج کے حالات بھی تسلی بخش نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں امریکی کانگریس یا دیگر تحقیقی اداروں کے گمراہ کن تجزیات سے خوفزدہ ہونے کی ہر گز ضرورت نہیں کیونکہ یہ اقدامات امریکیوں کو ان کی دہشت گردی کے خلاف بپا کی گئی جنگ میں نظر آتی ہوئی شکست سے بچنے کے لیے پاکستانی حکومت سے مراعات اور سہولیات حاصل کرنے کی چالیں ہیں۔ حکومت کی اصل طاقت کا سرچشمہ عوام اور منتخب پارلیمنٹ ہے۔ہمیں عوام اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی اختلافات ختم کر کے قومی یکجہتی کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے نہ تھی۔ ہوش مند حکمرانوں کے لیے وقت پر کیے گئے درست فیصلے جمہوری نظام کی بنیادوں کو مستحکم کریں گے جسے غیر مستحکم کرنے کے لیے سازشوں کا سلسلہ کم نہیں ہوا ہے۔ ان سازشوں کا جواب ہمارے پاس ہے اگر ہم اپنے آپ کو پہچان سکیں۔ اس پہچان کا نام ہے ’’ہمت، حوصلہ، احساس خودی اور شان کریمی‘‘۔ اور وہ جو پاکستان اور ساری دنیا کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں ان کے لیے جمہوریہ چیک کے دانشور ویکلیو ہائول (Vaclav Havel) کا مشورہ پیش کرنا چاہوں گا:
’’میرا یقین کامل ہے کہ (مختلف اقوام و مذاہب میں) ہم آہنگی لانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو خود پسندی اور خود غرضانہ رویوں سے پاک کریں اور خود کو مختار کل سمجھتے ہوئے ساری دنیا سے افضل و اعلیٰ خیال کرنے کی عادت ترک کر دیں۔ ہمیں خود کو زندگی کی حقیقتوں سے ماورا خیال کرنے کی بجائے خود میں عالمی، ارضیاتی اور قومیت پر مبنی حقائق کے احترام کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔دیگر اقوام اور ان کی ثقافت کا احترام ہم تب ہی کر سکتے ہیں جب ہم خود کو ان کا ایک حصہ سمجھیں گے۔ یاد رہے جو رویئے ہم ظاہر کرتے ہیں وہ ختم نہیں ہوتے بلکہ تاریخ کے سینے میں محفوظ ہو جاتے ہیں جہاں ان کی اصلیت کا فیصلہ کیا جاتا ہے‘‘۔
{}{}{}
Leave a Reply