مغربی مبصرین چین کے رویے کا مسلسل تجزیہ کرتے رہتے ہیں۔ تازہ ترین مثال مارچ میں تبت میں ہونے والے احتجاج کے خلاف چین کی آرمی کے بجائے Peoples Armed Police (PAP) کا استعمال تھا جبکہ آرمی پس منظر میں رہی۔ اس سے پہلے ۱۹۸۹ء میں بیجنگ کے مشہور چوک Tienaman Square میں ہزاروں چینی نوجوانوں کے اجتماع کو منتشر کرنے کے لیے چینی فوج نے بھرپور اقدام کیا تھا اور ٹینک بھی استعمال کیے تھے چنانچہ واشنگٹن پوسٹ کے ایک تجزیہ نگار نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ چینی حکومت تبت کے بحران کو ۱۹۸۹ء کے بحران سے کم سنگین سمجھتی تھی۔ ایک طرح سے یہ بات صحیح بھی ہے۔ دارالحکومت کے قلب میں ہزاروں کا اجتماع بڑی سنگین صورتحال۔ اگر یہ تحریک زور پکڑتی اور صرف بیجنگ کے شہری اس میں شامل ہونا شروع ہو جاتے تو صورتحال قابو سے باہر ہو جاتی جب کہ تبت دور دراز علاقہ ہے اس کی آبادی کم ہے اور دوسرے لوگوں کے آنے کا امکان بہت کم تھا۔ اتنی دور کون جاتا ہے لیکن میں تبت اور Tienaman تک موازنہ کو محدود رکھنے کے بجائے ۱۹۳۲ء میں واشنگٹن کے ایک مظاہرے کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت Herbert Hoover امریکا کے صدر تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد کانگریس نے لڑنے والے سپاہیوں کے لیے ۲۰ برس تک بونس کا ایک بل ۱۹۲۵ء میں منظور کیا۔ رقوم کا انحصار سپاہیوں کی مدت ملازمت وغیرہ پر تھا۔ ۱۹۳۱ء میں امریکی معیشت میں بحران کے آثار تھے جسے بعد میں ۱۹۳۲ء میں Great Depression کا نام دیا گیا۔ ۱۹۳۱ء میں کانگریس نے ایک اور قانون منظور کیا جس کے تحت یہ فوجی اپنے ۲۰ سالہ بونس کے بقیہ رقوم کا ۵۰ فیصد حصہ بطور قرض لے سکتے تھے جس کی قسطیں کٹتی رہتیں ۔ صدر Hoover نے اس قانون کو Veto کر دیا۔ ۲۵ ہزار ریٹائرڈ سپاہیوں نے واشنگٹن مارچ کیا اور اسے Bonus Expeditionary Force کا نام دیا گیا۔ یہ لوگ پر امن تھے لیکن صدر ہوور نے طاقت کا مظاہرہ کیا اور آرمی بلا لی جس کی کمان Douglos Meartlery کر رہے تھے کیونکہ ۲۸ جولائی کا پولیس آپریشن ناکام ہو گیا تھا اور اس میں دو افراد ہلاک بھی ہو گئے تھے۔ فوج نے نہ صرف سڑکیں صاف کیں بلکہ وہ ان عمارتوں میں گھسے جہاں یہ فوجی عارضی طور پر رہ رہے تھے۔ ٹینک اور گھڑ سوار سپاہی استعمال ہوئے۔ یہ لوگ غیر مسلح تھے اور جنگ لڑنے نہیں آئے تھے لہٰذا کوئی جوابی کارروائی نہیں ہوئی لیکن پھر بھی ایک بچہ ہلاک ہو گیا۔ اسی سال نومبر میں انتخابات بھی تھے لوگ Hoover کی معاشی پالیسیوں سے خوش نہیں تھے۔ اس پر یہ واقعہ ہو گیا۔ چنانچہ صدر Hoover کو دوبارہ منتخب نہیں کیا گیا اور نیویارک کے گورنر Franklin D Roosvelt صدر منتخب ہوئے اور ۱۹۴۵ء تک صدر رہے۔ ۱۹۷۷ء میں Kent State University میں ویتنام کی جنگ کے خلاف نوجوان طلبہ کے ایک پرامن مظاہرے پر نیشنل گارڈ کے حملے میں چار طلبہ ہلاک ہو گئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت ایک ایسا ’’جانور‘‘ ہے جس کی فطرت نہیں بدلتی خواہ اس کا ماحول جمہوری ہو یا مطلق العنان وہ اپنے اقتدار اور پالیسیوں کے خلاف چیلنج کو برداشت نہیں کرتی۔
چین کی عوامی پولیس بھی فوج سے کم نہیں۔ ان کی تعداد ۰۰۰,۷۰۰ ہے اور ان کے فرائض میں بیرونی سفارت خانوں کے دفاع سے لے کر فسادات کو کنٹرول کرنا شامل ہے مغربی اطلاعات کے مطابق اگرچہ پولیس کو فسادات پر قابو پانے میں کچھ وقت لگا مگر کمیونسٹ پارٹی کی قیادت نے فوج کو مداخلت سے باز رکھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ فوج کا اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے ۲۰۴ اراکین میں ۲۰ فیصد اراکین فوج کے افسران ہیں۔
چین کے صدر Hu Jintao نے بعض سیاسی وجوہ کی بناء پر بھی آرمی کا رول محدود کیا ہے۔ ایک تو مغربی مبصرین ابھی تک ۱۹۸۹ء کے واقعات نہیں بھولے اس کے علاوہ چین اس موسم گرما میں بیجنگ اولمپکس کا میزبان ہے۔ ابھی سے وہاں Pollution کا واویلا ہے۔ اگر اندرونی معاملات میں ہر جگہ فوج نظر آتی تو اس پر بھی تنقید ہو گی۔ چنانچہ صدر Hu نے PAP کے نام ایک پیغام میں کہا کہ Olympics کا کامیاب انعقاد PAP کا اوّلین فریضہ ہو گا۔
صدر Hu چین کے ۱۱ رکنی سینٹرل ملٹری کمیشن کے سربراہ ہیں اور اکثر آرمی کی Green Fatigues میں نظر آتے ہیں تاکہ لوگوں کو یاد رہے کہ وہ آرمی کے سربراہ ہیں انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد بعض جرنیلوں کو ترقیاں بھی دیں لیکن کمیشن میں اب بھی متعدد ایسے جرنیل ہیں جنہیں سابق صدر Jing Zemin نے ترقی دی تھی۔ چینی آرمی اس وقت ایک تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے۔ اس کو جدید Electronic Warfare کے لیے تیاری کے ساتھ ساتھ کھلے سمندر میں جنگ کے لیے تیار کیا جا رہا ہے تاکہ وہ وطن کے ساحل سے دور بھی اپنے مفادات کا دفاع کر سکے۔ کہا جاتا ہے کہ چینی صدر Deng Xiao Peng نے ملکی لیڈروں سے کہا تھا کہ اگلے ۲۵ برس تک جنگ سے گریز کرنا۔ غالباً ۱۰ برس گزر گئے ہیں۔ نہ صرف چین کو جنگ سے گریز کرنا ہے بلکہ اندرونی امن و امان بھی برقرار رکھنا ہے۔ اگر صورت حال بگڑی تو شاید چین کی ۲۲ لاکھ فوج اپنے ایک ارب ۳۰ کروڑ عوام کو قابو نہ کر سکے گی۔ مشرقی اور جنوبی ایشیاء کے عوام کو بھی ایک سپر پاور کے تحفظ کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ شمارہ: ۱۰مئی ۲۰۰۸)
Leave a Reply