شمسی توانائی کے استعمال میں اضافہ

فرانس میں شمسی توانائی سے چلنے والی پہلی کار کی تیاری کے جملہ حقوق ۱۸۶۱ء میں محفوظ کیے گئے تھے۔ اس وقت سے اب تک سائنسدانوں کا یہ خواب رہا ہے کہ سورج کی روشنی اور حرارت کو توانائی میں تبدیل کیا جائے۔ آج کے دور میں ایجادات‘ سرمایہ کاری اور تحقیق و ترقی سے شمسی توانائی کی ایسی ٹیکنالوجی تیار کرنے میں مدد ملی ہے جس سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے اور بجلی کی پیداوار کے بنیادی ڈھانچے پر دبائو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

شمسی توانائی کی تین اہم ٹیکنالوجیز میں سولر تھرمل‘ شمسی توانائی کا ارتکاز اور فوٹو وولٹک شامل ہیں۔

سولر تھرمل آلات کے ذریعے سورج کی حرارت براہِ راست حاصل کر کے اسے سوئمنگ پولز کو گرم کرنے سے لے کر بجلی کی پیدواار کے لیے بھاپ تیار کرنے تک استعمال کیا جاسکتا ہے۔

شمسی توانائی کو مرتکز کرنے والے پلانٹس میں بجلی پیدا کرنے کے لیے بڑے شیشوں کے استعمال سے دھوپ‘ بلند درجہ حرارت میں تبدیل کر کے روایتی جنریٹرز کو منتقل کی جاتی ہے۔ ان پلانٹس کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک حصے میں شمسی توانائی حاصل کر کے اسے حرارت میں تبدیل کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے حصے میں حرارت کی اس توانائی سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔

سولر تھرمل اور شمسی توانائی کے ارتکاز کی ٹیکنالوجیز دنیا بھر میں استعمال کی جارہی ہیں اور ان سے شمسی توانائی کی قابلِ تجدید ٹیکنالوجیز کے فروغ میں مدد مل رہی ہے۔ تاہم اس سلسلے میں سب سے زیادہ ترقی کرنے والی ٹیکنالوجی فوٹو وولٹک ہے۔ یہ لفظ‘ فوٹو سے مراد روشنی اور وولٹک سے مراد وولٹیج کی تیاری سے مل کر بنا ہے۔

فوٹو وولٹک سیلز کو توانائی سورج کی حرارت نہیں بلکہ روشنی سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ سیل‘ جو زیادہ تر غیرموصل سیلیکان سے بنے ہوتے ہیں‘ سورج کی روشنی کو براہِ راست بجلی میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
کولوراڈو (Colorado) میں امریکی محکمہ توانائی (DOE) کی نیشنل ری نیوایبل انرجی لیبارٹری (NREL) کے ڈائریکٹر ڈان اروز (Dan Arvizu) نے کہا ’’فوٹو وولٹک‘ باوقار اور عمدہ ٹیکنالوجی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی ترقی DOE کا ایک سب سے بڑا پروگرام ہے جس پر عمل کیا جارہا ہے‘‘۔

فوٹو وولٹک سیلز میں روشنی کے ذرات‘ جنہیں فوٹونز کہا جاتا ہے‘ سیل میں داخل ہو کر ان الیکٹرانز سے ٹکراتے ہیں جن پر سیلیکون ایٹموں کا چارج نہیں ہوتا۔ اس سے الیکٹرک کرنٹ پیدا ہوتا ہے۔ جب تک روشنی سیل میں داخل ہوتی رہتی ہے‘ اس وقت تک سیل سے الیکٹرانز کا اخراج جاری رہتا ہے۔ سیل‘ بیٹری کی طرح اپنے الیکٹرانز استعمال نہیں کرتا اور اس کی توانائی کم نہیں ہوتی۔ یہ ایک کنورٹر (Converter) ہے جو ایک قسم کی توانائی (سورج کی روشنی) کو دوسری توانائی (الیکٹرانز) میں تبدیل کر دیتا ہے۔

فوٹو وولٹک سیلز کو ملا کر ایسے یونٹ تیار کیے جاتے ہیں جو تقریباً ۴۰‘ ۴۰ سلیز پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان دس یونٹوں کو ایک لائن میں نصب کر کے ایک عمارت کے لیے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے یا ایک بجلی گھر کے لیے بڑی تعداد میں ان کی تنصیب کی جاتی ہے۔

اروزو کے مطابق شمسی توانائی کے شعبے میں زیادہ توجہ فوٹو وولٹک سیلز کی تیاری پر دی جارہی ہے حالانکہ ان پر لاگت زیادہ آتی ہے۔ فوٹو وولٹکس پر ۲۰ سے ۲۵ سینٹ فی کلو واٹ گھنٹہ خرچ ہوتے ہیں۔ تاہم یہ دونٹوں کی شکل میں ہونے کی وجہ سے چھوٹے سسٹمز میں بآسانی استعمال ہو سکتے ہیں۔ فوٹو وولٹکس کے مقابلے میں پون ٹیکنالوجی پر ۵ یا ۶ سینٹ فی کلو واٹ گھنٹہ لاگت آتی ہے۔

الیکٹرک پاور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (FPRI) میں‘ جو توانائی اور ماحول کے بارے میں ایک آزاد اور غیرمنافع بخش ادارہ ہے‘ پون توانائی کے ٹیکنیکل لیڈر چارلس میک گوون (Charles McGowin) نے کہا ’’قابلِ تجدید توانائی کی دوسری ٹیکنالوجیز کے مقابلے میں شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی زیادہ مہنگی تو ہے لیکن اس کے ذریعے شمسی توانائی کو زیادہ بہتر اور موثر انداز میں بجلی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے‘‘۔

اروزو کے مطابق زیادہ لاگت کے باوجود فوٹو وولٹک سسٹمز کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ دور دراز علاقوں میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ ایسی جگہ جہاں محض ڈیزل جینریٹر ٹیکنالوجی قابلِ عمل ہو‘ اکثر اوقات فوٹو وولٹک لاگت کے لحاظ سے زیادہ بہتر امکانی صورت ہو سکتی ہے۔

فوٹو وولٹک سسٹمز‘ گرڈ اسٹیشنوں سے الگ تھلگ اور آزادانہ طور پر بجلی پیدا کرتے ہیں۔ یہ خاص طور پر نیشنل پارکس جیسے دور دراز اور ماحول کے لحاط سے حساس علاقوں‘ کیبنز اور دور دراز گھروں کے لیے نہایت موزوں ہیں۔

دیہی علاقوں میں شمسی توانائی کے چھوٹے سسٹمز اکثر و بیشتر کھیتوں میں روشنی باڑھ کی لائٹوں اور سولر واٹر پمپس کے لیے بجلی فراہم کرتے ہیں۔ ان واٹر پمپس سے مویشیوں کو پانی دیا جاتا ہے۔ بعض سسٹمز میں بجلی‘ شمسی توانائی اور پون یا ڈیزل جیسے دوسرے ذرائع کو ملا کر حاصل کی جاتی ہے۔

فوٹو وولٹک ٹیکنالوجی کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اسے تعمیراتی سامان کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے اور یونٹوں کو عمارتوں کی چھت پر نصب کرنے کے بجائے عمارت کے ڈھانچے میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
میک گوون نے کہا ’’بعض کمپنیاں تعمیراتی سامان جیسے سولر پینل تیار کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر چھتوں کی ٹائلیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی کھڑکیاں تیار کی جائیں جن میں سولر سیل لگے ہوں۔ اس مقصد کے لیے کھڑکی کی سطح پر امورفس (Amorphous) سیلیکون کی پتلی سی فلمیں لگا دی جائیں گی۔ دنیا بھر میں فوٹو وولٹک انڈسٹری اربوں ڈالر کی صنعت ہے جس سے سولر ٹیکنالوجی کی ترقی میں مدد مل رہی ہے۔

مثال کے طور پر فوٹو وولٹک پاور سسٹمز پروگرام‘ مشترکہ تحقیق و ترقی کا ایک سمجھوتہ ہے جس کے لیے امداد توانائی کا بین الاقوامی ادارہ (IEA) فراہم کر رہا ہے۔ یہ ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جس نے توانائی کی پالیسی میں تعاون کے ذریعے توانائی کے تحفظ‘ اقتصادی ترقی اور ماحول کے استحکام کے مقاصد کو آگے بڑھانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔

اس پروگرام پر امریکا سمیت رکن ملکوں میں قومی ٹیموں کے نظام کے ذریعے عمل کیا جارہا ہے۔ اس کا مقصد‘ فوٹو وولٹک شمسی توانائی کو مستقبل قریب میں قابلِ تجدید توانائی کا نمایاں ذریعہ بنانے کے بین الاقوامی اشتراک عمل بڑھانا ہے۔

توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے مطابق مربوط اور دیگر فوٹو وولٹک سسٹمز کی تیاری سے مارکیٹ میں ان کی کھپت میں بتدریج اضافہ ہو گا۔ اس مقصد کے لیے پروگرام میں شامل ۲۱ ممالک اور یورپی کمیشن‘ فوٹو وولٹک سسٹمز کی کارکردگی‘ ڈیزائن رہنما اصولوں‘ منصوبہ بندی کے طریقوں اور ٹیکنالوجی کے دوسرے پہلوئوں کے بارے میں باوثوق اطلاعات کا تبادلہ کریں گے تاکہ فوٹو وولٹک آلات پر لاگت کم کی جاسکے اور اس کی تیاری میں حائل فنی اور دوسری رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔

NREL میں تحقیق و ترقی سے فوٹو وولٹکس پر لاگت میں ممکنہ کمی کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ اس سلسلے میں حاصل ہونے والی پیش رفت کے مطابق سائنسدانوں نے مالیکیولر سطح پر چھوٹے ڈھانچے تیار کر لیے ہیں۔

(بشکریہ: ماہنامہ ’’خبر و نظر‘‘۔ امریکی شعبہ تعلقاتِ عامہ‘ اسلام آباد۔ جولائی ۲۰۰۵)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*