امریکا میں بہت جلد شائع ہونے والی کتاب ’’اے وارننگ‘‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایک سال قبل ٹرمپ انتظامیہ کے افسران نے اجتماعی طورپر مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس فیصلے پر عمل کرنے سے انہوں نے اس لیے گریز کیا کہ ایسی صورت میں ایک کمزور حکومت مزید کمزور ہو جاتی اور ملک کو درپیش مسائل کی شدت میں بھی اضافہ ہو جاتا۔
اشاعت سے قبل ہی حاصل ہونے والے مسودے کے مطابق مصنف نے، جس کا نام دینے کے بجائے ’’ٹرمپ انتظامیہ کا ایک افسر‘‘ بتایا گیا ہے، یہ بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کسی بھی اعتبار سے اس منصب کے اہل نہیں۔ وہ انتہائی سفاک مزاج کے ہیں اور قوم کے لیے خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ایک سال قبل نیو یارک ٹائمز میں ’’اوپینین کالمسٹ‘‘ کی حیثیت سے سامنے آنے والے اس گمنام افسر نے صدر ٹرمپ کے مزاج کے بارے میں بتایا ہے کہ اُن کے دور میں یکے بعد دیگر کئی بحران اِس طرح آئے ہیں جیسے کسی بچے کو ایئر ٹریفک کنٹرول کے سوئچ بورڈ پر بٹھادیا جائے اور وہ سوچے سمجھے بغیر بٹن دباکر طیاروں کو اِدھر سے اُدھر روانہ کرتا رہے اور کسی بھی طیارے کو منزل تک نہ پہنچنے دے۔
یہ کتاب ڈونلڈ ٹرمپ کے مزاج میں پائی جانے والی اخلاقی اقدار اور ذہنی قوتوں کے جائزے اور تجزیے کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ اُس نے جو کچھ بھی لکھا ہے اُس کی بنیاد مشاہدے اور ذاتی تجربے پر ہے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ وائٹ ہاؤس کے بہت سے موجودہ اور سابق مرد و خواتین ملازمین نے بھی اس کتاب کو زیادہ وقیع بنانے کے لیے اپنے مشاہدات اور تجربات بیان کیے ہیں۔
گرینڈ سینٹرل پبلشنگ ہاؤس، ہیچیٹ بک گروپ کے ری پرنٹ پر مبنی اس ایڈیشن کو ’’ٹویلو‘‘ نے شائع کیا ہے۔ ۲۵۹ صفحات کی اس کتاب میں، جسے ۱۹ نومبر سے فروخت کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، کسی بھی واقعہ کو متعلقہ جزئیات کے ساتھ پیش کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔ ایسا کرنے کا واحد مقصد بظاہر یہ ہے کہ مصنف کی شناخت کو طشت از بام ہونے سے روکا جاسکے۔
یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کا عمل شروع کرنے کے لیے کانگریس نے ٹرمپ انتظامیہ کے بہت سے ملازمین کو گواہی کے لیے طلب کیا ہے اور گواہی دینے سے گریز بھی نہیں کیا جارہا، مصنف نے خود کو گمنام رکھنے کو ترجیح دی ہے۔
مصنف نے لکھا ہے ’’میں نے گمنام رہنا اس لیے پسند کیا ہے کہ اس کتاب میں کی جانے والی بحث میرے بارے میں نہیں بلکہ ہمارے بارے میں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ایوان صدر اور صدر کا منصب دونوں ہمارے ملک کی جھلک پیش کریں، کسی اور چیز کی نہیں۔ ساری بحث اِسی نکتے پر مرکوز ہے۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگ میری سوچ کو بزدلی قرار دیں۔ خیر، میں اس بات کے لیے بھی تیار ہوں کہ ضرورت پڑنے پر مجھ سے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں رائے یا گواہی لی جائے‘‘۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری اسٹیفنی گریشم نے اس کتاب کو بے بنیاد واقعات کا پلندا اور مصنف کو بزدل قرار دیا ہے۔ ایک ای میل میں اسٹیفنی گریشم نے لکھا ہے ’’جس بزدل نے یہ کتاب لکھی ہے اس نے اپنا نام ظاہر اس لیے نہیں کیا کہ پوری کتاب میں جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سچ لکھنے والے سامنے آکر حقائق کا سامنا کرتے ہیں تاکہ جو کچھ بھی وہ لکھیں اس میں سچائی دکھائی دے۔ اس کتاب کے مصنف نے مصنف ہونے کے انتہائی بنیادی حصے ہی کو بیچ سے نکال دیا ہے۔ جو تجزیہ کار اور مصنفین اس کتاب پر قلم اٹھائیں اُن میں اتنی پیشہ ورانہ دیانت تو ہونی ہی چاہیے کہ جو کچھ یہ کتاب ہے وہ کھل کر بیان کریں یعنی جھوٹ، صرف جھوٹ‘‘۔
امریکی محکمہ انصاف نے ہیچیٹ اور مصنف کے ایجنٹس جیولین کے میٹ لیٹمر اور کیتھ اربان کو خبردار کیا تھا کہ ہوسکتا ہے گمنام مصنف، نان ڈزکلوزر ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کر رہا ہو۔
۵ ستمبر ۲۰۱۸ء کو نیو یارک ٹائمز میں مصنف نے ’’آئی ایم پارٹ آف دی ریزسٹنس انسائڈ دی ٹرمپ ایڈمنسٹریشن‘‘ کے زیر عنوان اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ چند سینئر افسران ملک کو صدر ٹرمپ کی غیر ذمہ دارانہ سوچ اور بے عقلی پر مبنی اقدامات کے شدید منفی اثرات سے بچانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ تب صدر ٹرمپ نے اس مضمون کے مندرجات کو بغاوت سے تعبیر کیا تھا۔
کتاب میں مصنف نے نیو یارک ٹائمز کے مضمون کے حوالے سے اپنی سوچ میں پائی جانے والی غلطی کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے ’’ٹرمپ انتظامیہ میں اندرونی سطح پر مزاحمت کے حوالے سے میرا اندازہ بالکل غلط تھا۔ غیر منتخب افسران اور کابینہ کے ارکان کسی بھی حالت میں صدر ٹرمپ کو درست راہ پر گامزن کرنے کی تحریک دے سکتے تھے نہ اُن میں ایسا کرنے کی لگن ہی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو کچھ ہیں وہی ہیں، کچھ اور نہیں ہوسکتے‘‘۔
کتاب کے مندرجات کے مطابق بہت سے اعلیٰ افسران صبح اٹھتے تھے تو انہیں شدید بدحواسی کا سامنا ہوتا تھا۔ یہ بدحواسی ان احمقانہ اعلانات کے نتیجے میں پیدا ہوتی تھی، جو رات کو صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر کیے ہوتے تھے! یہ منظر ایسا ہوتا تھا جیسے آپ کسی نرسنگ ہوم میں اپنے بوڑھے انکل کی عیادت کو جائیں اور وہاں آپ دیکھیں کہ انکل کی پینٹ اتری ہوئی ہے اور وہ کیفے ٹیریا کے کھانے کی شکایت کرنے کے نام پر غل غپاڑہ کر رہے ہوں اور نرسنگ اٹینڈنٹس ان پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہوں! یہ دیکھ کر آپ حیران ہوں گے، سوچتے ہی رہ جائیں گے اور گھبراہٹ کا شکار بھی ہوں گے۔ ہاں، ایک فرق ہے۔ آپ کے انکل شاید یہ سب کچھ روزانہ نہ کریں، ان کے کہے ہوئے الفاظ پوری قوم بلکہ دنیا کو سنائی نہ دیں اور اُنہیں پینٹ پہن کر امریکی صدر کی کرسی پر نہ بیٹھنا ہو!‘‘
کتاب کے مندرجات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے ساتھ کام کرنے والوں اور دوسرے بہت سے لوگوں کے بارے میں انتہائی اہانت آمیز انداز سے رائے دینے کا شوق ہے۔ کوئی بھی عورت کیسی دکھائی دیتی ہے اور کس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے یہ سب کچھ بیان کرنے میں انہیں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ وہ غیر معمولی پروفیشنل ازم کی حامل خواتین کو سویٹی یا ہنی کہنے میں ذرا بھی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ خواتین کے میک اپ، لباس، جسمانی ساخت، وزن اور چلنے کے انداز کے بارے میں کچھ بھی کہنا اُن کے لیے ذرا بھی مشکل نہیں۔ مصنف لکھتا ہے کہ کسی بھی ادارے میں اور کسی بھی سطح پر باس کو زیب نہیں دیتا کہ خالص ’’ورکنگ کنڈیشنز‘‘ میں اس طرح کی زبان استعمال کرے۔ ایک میٹنگ کے دوران انہوں نے میکسیکو سے سرحد عبور کرکے امریکا میں داخل ہونے والوں کی شکایت کرنے کے لیے ہسپینک لہجے کی نقّالی بھی کی۔ اس میٹنگ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ’’میکسیکو سے آنے والی عورتیں عام طور پر بہت سے بچوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ یہ ہمارے لیے کسی کام کی نہیں ہوتیں۔ اگر یہ اپنے شوہر کے ساتھ آئیں تو پھر بھی اتنا تو ممکن ہے کہ ہم انہیں بھٹے کے کھیتوں میں کام پر لگادیں‘‘۔
مصنف نے لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ میں کسی بھی بڑے بحران سے ملک کو نکالنے کی صلاحیت نہیں۔ وہ انٹیلی جنس اور قومی سلامتی سے متعلق اجلاسوں کے ماحول کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیتے اور اس بات کو بھی درست نہیں مانتے کہ دنیا بھر میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے اطراف خوشامدی لوگوں کو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ وہ اپنے بارے میں پائے جانے والے اس مضبوط تاثر کو بھی غلط قرار دیتے ہیں کہ وہ بہت تیزی سے دوسروں کی باتوں میں آجاتے ہیں اور یہ کہ کوئی بھی اُن کے کان بھر کر رائے تبدیل کرسکتا ہے۔
کتاب کے مندرجات کے مطابق ۲۰۱۸ء میں واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مشیروں کو بلایا اور کہا کہ اس معاملے میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے سامنے کھڑا ہونا حماقت ہی کہلائے گا، کیونکہ بحران نے زور پکڑا تو عالمی منڈی میں خام تیل کا بھاؤ ۱۵۰؍ ڈالر فی بیرل سے بھی بلند ہوجائے گا اور اگر ایسا ہوا تو عالمی معیشت کا حلیہ بگڑ جائے گا۔
اس کتاب میں چند ایسے دعوے بھی کیے گئے ہیں، جن کے حوالے سے ثبوت یا شواہد فراہم کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ مثلاً یہ کہ ایک مرحلے پر پوری کابینہ اس بات کے لیے تیار تھی کہ آئین کے آرٹیکل ۲۵ کا سہارا لے کر صدر کو عہدے سے ہٹادے اور یہ کہ اس معاملے میں نائب صدر کی طرف سے بھی بھرپور معاونت کی امید تھی۔
نائب صدر پینس نے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے ’’یہ سب کچھ انتہائی بے بنیاد ہے کیونکہ نائب صدر کی حیثیت سے میں نے کبھی آئین کے آرٹیکل ۲۵ کے بارے میں نہیں سُنا۔ اور میں بھلا کیوں صدر کو اُن کے منصب سے ہٹانے کے بارے میں کچھ سوچوں گا یا کروں گا؟‘‘
کتاب میں ایک بنیادی خیال جگہ جگہ ملتا ہے۔ وہ بنیادی خیال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ قانون کا احترام نہیں کرتے اور اپنی مرضی ہی کو قانون قرار دینے پر بضد رہتے ہیں۔ اس حوالے سے مصنف نے لکھا ہے کہ صدر ٹرمپ کو معافی دینے کا بہت شوق ہے۔ وہ اس شوق کو اس طور پورا کرتے ہیں گویا انہیں کسی بھی حد تک جانے کا لائسنس دے دیا گیا ہے۔ مصنف نے اس حوالے سے ان فیڈرل کورٹس کا حوالہ دیا ہے، جنہوں نے ان کی وضع کی ہوئی پالیسیوں کے خلاف فیصلے دینے کی جرأت کی ہے۔ مصنف کے مطابق ۲۰۱۷ء میں سفر پر پابندی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ ایک مرحلے پر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے وکلا سے کہا تھا کہ وہ فیڈرل کورٹس کی تعداد کم کرنے کے حوالے سے قانون کا مسوّدہ تیار کرکے کانگریس کو بھیجیں۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اجلاس کے دوران کہا کہ کیا ہم ججوں سے نجات پاسکتے ہیں؟ پھر کہا کہ ججوں سے تو نجات حاصل کرنی ہی پڑے گی۔
مصنف کا دعویٰ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بغاوت سے بھی بہت ڈر لگتا ہے۔ وہ اس بات کو بھی پسند نہیں کرتے کہ اجلاس کے دوران کوئی نوٹس لے۔ ایک بار اجلاس میں ان کا ایک معاون نوٹ بک میں کچھ لکھ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر ٹرمپ آگ بگولا ہوگئے اور پوچھا کہ کیا تم نوٹس لے رہے ہو۔ اس پر معاون نے گھبراکر نوٹ بک بند کردی۔
مصنف کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کسی بھی اعتبار سے صدر کے منصب پر فائز کیے جانے کے اہل نہیں کیونکہ وہ سوچنے اور سمجھنے کی موزوں صلاحیت سے بہرہ مند نہیں۔ مصنف نے لکھا ہے ’’ٹرمپ ذہنی یا عقلی طور پر اس منصب کے اہل ہیں یا نہیں یہ فیصلہ تو میں نہیں سنا سکتا مگر ہاں یہ ضرور بتا سکتا ہوں کہ اُن کی موجودگی میں لوگ لمحہ لمحہ الجھن محسوس کرتے ہیں۔ وہ بولتے بولتے رک جاتے ہیں، الجھ جاتے ہیں، کچھ کا کچھ کہہ جاتے ہیں، تیزی سے بھڑک اٹھتے ہیں اور معلومات کو باہم مربوط کرنے یا سمجھنے میں غیر معمولی الجھن یا پیچیدگی محسوس کرتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ کبھی کبھی نہیں ہوتا بلکہ باقاعدگی سے ہوتا ہے۔ جو لوگ اس سے ہٹ کر کچھ بیان کرتے ہیں وہ اپنے آپ سے جھوٹ بولتے ہیں یا پھر قوم سے‘‘۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Book by ‘Anonymous’ describes Trump as cruel, inept and a danger to the nation”. (“Washington Post”. November 7, 2019)
Leave a Reply