نوٹ: یہ کالم تیونس میں انتخابات سے قبل لکھا گیا تھا۔
۱۵؍ستمبر کو تیونس میں صدارتی انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا،یہ انتخابات دو ماہ قبل منعقد کیے جارہے ہیں، جس کی وجہ صدر کی غیر متوقع موت ہے۔ ان انتخابات کے حوالے سے اب تک کے تجزیے غلط ثابت ہوئے ہیں، بعض اوقات مغرب اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سے تعلق رکھنے والے اورنظریاتی تجزیہ نگار تیونس کے اہم حقائق نظر انداز کردیتے ہیں۔ ان انتخابات کو سمجھنے کے لیے سات نکات اہم ہیں، جن سے غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔
پہلا نقطہ،یہ انتخابات بہت زیادہ مسابقتی، غیر متوقع ہیں، جو نئے ریکارڈ بنائیں گے۔ کافی سارے تجزیہ نگاروں کے برعکس تیونس کے عوام انتخابات کی اہمیت سے پوری طرح واقف ہیں۔یہ کسی بھی عرب ملک میں ہونے والے دوسرے جمہوری صدارتی انتخابات ہیں، ان انتخابات کے دوران عرب ممالک میں پہلی بار ٹی وی چینل پر صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثے پیش کیے جائیں گے۔ ۲ ستمبر کو الیکشن مہم کے باقاعدہ آغاز کے فوری بعد ہی تین راتوں پر مشتمل سیاسی مباحثے کا آغاز ہوگا۔ امریکی انتخابات کے برعکس تیونس میں ان مباحثوں میں ۲۶امیدواروں کو اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کے لیے برابر کا وقت دیاجائے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ ۲۰۱۸ کے بلدیاتی انتخابات کے بعد رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد میں۳۲ فیصد اضافہ ہوچکا ہے، اتنے بڑے پیمانے پر ووٹر رجسٹریشن میں امریکاکی جانب سے بھر پور تعاون کیاگیا ہے۔
دوسرا نقطہ،یہ تیونس میں ۲۰۱۶ ء کے کارتھیج معاہدے کے بعد ہونے والے پہلے انتخابات ہیں، جس کے بعد اقتدار کی پرامن منتقلی کا عمل مکمل ہوگا۔معاہدے میں تیونس کو مختلف طاقتوں سے بچانے کی بات کی گئی ہے، جس میں انتہاپسند وں کے دہشت گرد حملے بھی شامل ہیں، تیونس کے انتہا پسندوں نے لیبیا میں پناہ لی ہوئی ہے۔اس سے قبل ملک میں سیاسی اضطراب حد سے زیادہ بڑھ گیاتھا اور معاشی صورتحال انتہائی خراب تھی،پڑوسی ملک الجیریا سے یکجہتی سیاحت کے نتیجے میں معاشی بہتری آئی ہے۔تیونس میں شدید خراب حالات کی وجہ سے صدر بیجی کیڈ اور النہضہ پارٹی کے راشدالغنوشی کے درمیان ۲۰۱۳ء میں ایک معاہدہ ہوا۔ دونوں رہنماؤں نے شدید اختلافات کے باوجود جمہوریت کو بچایا،، مشترکہ حکومت بنائی اور اپنے حامیوں کو جیل سے دور رکھا۔کارتھیج معاہدہ ایک سال قبل ختم ہوچکا او ر اقتدار کی پرامن منتقلی کے لیے انتخابات کے بعد نیا حکمران اتحاد بنانا پڑے گا۔
تیسرانقطہ: ان انتخابات کو بڑے پیمانے پر سیکولر ازم اور اسلام پسندوں یا بہتر مستقبل اور آمرانہ ماضی کے درمیان انتخاب قرار دیاجارہاہے،جو سراسر غلط ہے۔حقیقت میں تیونس کے عوام پانچ کیمپوں میں تقسیم ہیں،جن میں بوروگوئسٹ، اسلامسٹ، ڈیموکریٹک، سوشلسٹ اور پاپولسٹ شامل ہیں۔ان پانچوں کو مکمل طور پر دائیں یا بائیں بازو کا گروپ قرار نہیں دیاجاسکتا ہے، ہرگروپ میں دائیں اوربائیں بازو کی کچھ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طورپر بوروگوئسٹ کچھ معاملات میں قدامت پسند اور کچھ معاملات میں ترقی پسند ہوسکتے ہیں،اسی طرح ڈیموکریٹک گروپ معاشی اور جمہوری عمل کے حوالے سے اسلام پسندوں کے ساتھ کھڑا ہے لیکن سماجی معاملات میں ان کا مخالف ہے، جبکہ مسلم ڈیموکریٹ کے نام سے سامنے آنے والے اسلام پسند خواتین کے حقوق اور سماجی مسائل پر وسیع نظریات رکھتے ہیں۔ سوشلسٹ معاشی، سماجی اور سیاسی معاملات میں قدامت پسند ہیں اور پاپولسٹ تو ہر جگہ ہی چھائے ہوئے ہیں۔ پاپولسٹ رہنما سیاسی، معاشی اور سماجی خرابیوں کی بات کرتے ہیں جبکہ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرکے اپنی ذاتی حیثیت کو مضبوط بنایاجائے۔ یہ پانچ گروپس ۲۰۱۱ء اور۲۰۱۴ء کے الیکشن میں بھی ایک دوسرے کامقابلہ کرچکے ہیں، ان کی جڑیں ۱۹۸۰ء کی دہائی سے جاکر ملتی ہیں۔ حقیقت میں ۱۹۸۰ ء کے بعد معاشی مسائل پر بہت زیادہ بحث نہیں کی گئی ہے، اس وقت بن علی نے اقتدار پر قبضہ کرکے سیاست کے بہت سے پہلوؤں پر پابندی لگادی تھی۔
چوتھا نقطہ: ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ بنانے کے لیے متازع امور پر اشتعال انگیز بیان بازی جاری ہے۔
لیکن یہ معاملات تیونس کی طویل مدتی کامیابی کے لیے اہم نہیں ہیں۔حالیہ انتخابی جائزوں کے مطابق سب سے زیادہ مقبول رہنما نبیل کروئی ہیں، جو بدعنوان سیاست دان کے طور پر مشہور ہیں، ان کو حکومت کی جانب سے تنقید کا سامنا رہتاہے، جس کی وجہ سے انہیں انتخابات میں فائدہ ہوسکتا ہے،ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کے الزام میں وہ ۲۳اگست کے بعد سے جیل میں ہیں۔صدارتی امیدواروں میں ایک مفرور رہنما سلیم بھی شامل ہے، جس کو بدعنوانی اور چیک فراڈ کے الزام میں سزا ہوچکی ہے، وہ ہولو گرام کے ذریعے بیرون ملک سے سیاسی مباحثے میں شریک ہوگا۔سب سے بڑی سیاسی جماعت النہضہ پہلی بار صدارتی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے، وہ اس سے قبل ہر حکومتی ادارے پر غلبے کے خدشے کی وجہ سے صدارتی انتخابات میں شرکت سے گریز کرتی رہی ہے،تاکہ اسلام پسندوں کی فتح کی صورت میں الجزائر اور مصر کی طرح غیر جمہوری بغاوتوں سے بچاجاسکے،یہ بات کئی تجزیہ نگاروں کی نظر سے اوجھل رہی، النہضہ کا انتخابات لڑنا بڑے پیمانے میں لوگوں میں اشتعال کا باعث بنے گا۔ ہم جنس پرستی کو قانونی قراردینے اور وراثت میں خواتین کوبرابری کا حصہ دینے پر بہت بحث ہوچکی ہے، لیکن نظام میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کے بارے میں گفتگو کرنے کی ضرورت ہے،اگر ان معاملات کو حل نہیں کیاجاتا توتیونس کی جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
پانچواں نقطہ: تیونس کے تقریباً ووٹر مختلف رجحانات رکھنے کے باوجود ایک ہی مقصد رکھتے ہیں، سیکورٹی اور معاشی صورتحال کی بہتری اور ایک ایسا لیڈر جو سماجی اقدار کا تحفظ کرسکے۔ بہت سارے تجزیہ نگاروں کی رائے کے برخلاف تیونس کے ووٹر انتخابات اور امیدواروں کے حوالے سے الجھن کا شکار نہیں، نہ ہی اس حقیقت سے پریشان ہیں کہ صدارتی انتخابات پارلیمانی انتخابات سے قبل ہورہے ہیں، نہ وہ حکومت اور حکومتی اداروں سے بددل ہیں، جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے۔ اصل میں عوام سیاست دانوں، تمام امیدواروں اور سیاسی جماعتوں سے مایوس ہیں، یہی مایوسی عوام کی بڑی تعداد کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ بناتی ہے۔ تیونس کے عوام سیاسی اور معاشی نظام کو مسلسل مسترد کررہے ہیں، آج بھی تیونس کے عوام ماضی کی طرح ناراض ہیں، ۱۹۸۳ء، ۲۰۰۸ء، ۲۰۱۱ء اور ۲۰۱۳ء میں بھی اچانک احتجاج میں اضافہ نہیں ہو گیا تھا، جس چیز میں آج اضافہ ہوا ہے وہ ہے موجودہ سیاسی قیادت کو مسترد کرنا، جس کی وجہ سے کچھ لوگ ووٹ نہیں ڈالیں گے اور کچھ لوگ مقبول اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ امیدواروں کو ووٹ دیں گے، ایک بڑی تعداد اسٹیبلشمنٹ سے ابھرنے والے امیدواروں کو ووٹ دے گی، کیوں کہ عوام کی نظر میں ان امیدواروں کو اسٹیبلشمنٹ کا تحفظ حاصل ہے، پھر چاہے اسٹیبلشمنٹ کے امیدوار خواتین کے حقوق کا تحفظ کریں یا نہ کریں، کرپشن کے خلاف کارروائی کریں یا نہ کریں۔
چھٹا نقطہ: ان انتخابات کا اہم پہلو یہ ہے کہ سابق حکمرانوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ان انتخابات میں چار سابق سربراہان حکومت، ۱۱ سابق وزرا حصہ لے رہے ہیں۔ کم ازکم ایک سے دو اسٹیبلشمنٹ کے امیدوار اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے، حکومت کا تجربہ نہ رکھنے والے مقبول امیدوار بھی بہتر کارکردگی دکھائیں گے، لیڈنگ امیدواروں میں سابق وزیر دفاع عبدالکریم زبیدی بھی شامل ہوں گے، جسے بورو گوئسٹ اسٹیبلشمنٹ صدر بیجی کیڈ کا جانشین بنانا چاہتی ہے، ایک اور اہم امیدوار سابق اسلام پسند وزیراعظم یوسف چاہید ہیں، جو بوروگوئسٹ گروپ سے تعلق توڑ کر لبرل گروپ میں شامل ہوچکے ہیں۔ سابق وزیر محمد ابو اور قید نبیل کروئی بھی اہم امیدوار ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک یا دو امیدوار بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کریں گے جبکہ دوسرے امیدوار اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کی نمائندگی کریں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے ۲۶؍امیدواروں میں ۱۰؍امیدوار دو مرکزی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں، نیڈا سے تعلق رکھنے والے چھ افراد اور النہضہ سے تعلق رکھنے والے چار امیدوار صدارتی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی امیدوار کامیاب ہوتا ہے، جس کا امکان بھی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ووٹروں نے سیاسی اسٹیبلشمنٹ کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا، حالانکہ کچھ تجزیہ نگار اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں۔
ساتواں نقطہ: بہت سارے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آزاد امیدوار زیادہ جمہوری،جمہوریت کے لیے بہتراور تیونس کی شخصیت پرستی پر مبنی سیاست کے خاتمے کے لیے کارآمد ہوں گے، حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے، آزاد امیدوار اکثر اپنی شخصیت کی بنیاد پر ہی انتخاب لڑتے ہیں ناکہ کسی پارٹی سے تعلق کی بنیاد پر، اور اہم بات یہ ہے کہ ان آزاد امیدواروں کی اکثریت بھی کسی سیاسی جماعت کی طرح کرپٹ اور پرانی طاقتوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔ تیونس میں کس طرح معاشی اور سلامتی کی صورتحال بہتر بنائی جائے اور سیاسی عمل کو تیز کیا جاسکتا ہے، یقینی طور پر ایسا آزاد امیدواروں کے زیراثر ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور غیر منظم سیاست سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے ایک منظم، غیر مقبول اور صاف سیاستدان چاہیے، جو ووٹروں کے سامنے جوابدہ ہونے کے ساتھ ساتھ مسائل کو حل بھی کرسکے۔ پارلیمنٹ میں ۹۰ بل ایسے ہیں، جن پر فوری اقدامات کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ معاشی اور سلامتی کی صورتحال میں بہتری بھی ضروری ہے۔ اگر تیونس کی منظم سیاسی طاقتیں چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوگئیں تو ملک مزید محفوظ، جمہوری اور خوشحال بن کر ابھرے گا۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Seven keys to understanding the Tunisian election”. (“mei.edu”. August 29, 2019)
Leave a Reply