
تُرک پارلیمانی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق حکمراں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پارٹی) کا یک جماعتی دور حکومت ختم ہوگیا ہے۔ اے کے پارٹی نے پارلیمان میں ۲۵۸ نشستیں حاصل کیں جبکہ سادہ اکثریت کے لیے ۲۷۶ نشستیں درکار تھیں۔ سو ترکی کے سامنے اس وقت دو ممکنات ہیں: ایک مخلوط حکومت یا ایک اقلیتی حکومت۔
اقلیتی حکومت یا اتحاد؟
تُرک سیاسی نظام کے تحت اگر کسی جماعت کے پاس اکثریت (یعنی ۲۷۶ نشستیں) نہ ہو تو اقلیتی حکومت بنائی جاتی ہے۔ جماعت یا جماعتیں دیگر جماعتوں کے ساتھ باضابطہ اتحاد یا معاہدہ کرکے اعتماد کا ووٹ لیتی ہیں۔
اقلیتی حکومتیں عموماً غیرمستحکم ہوتی ہیں، کیونکہ ان سے اعتماد کا ووٹ کسی بھی وقت چِھن سکتا ہے اور نئے انتخابات ناگزیر ہوجاتے ہیں۔ اور پھر اقلیتی حکومتیں اکثر پالیسیوں پر سمجھوتا کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔
اتحادی حکومت وہ ہوتی ہے جس میں تمام جماعتیں ’’اقلیتی‘‘ جماعتیں ہوتی ہیں اور کسی بھی کام کے لیے ہر ایک کو تعاون کرنا پڑتا ہے۔ مگر بات وہی ہے کہ مختلف نظریات کا کسی ایک مرکزی نکتے پر متفق ہونا مشکل ہوتا ہے اور اتحادی حکومتوں کو عموماً خاتمے کا ڈر رہتا ہے۔
تُرک سیاسی نظام انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کو انتخابی اتحاد بنانے کی اجازت نہیں دیتا، نتیجتاً سیاسی جماعتوں کے لیے مشترکہ ایجنڈے پر اتفاق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
پہلا منظرنامہ: اے کے پارٹی کی اقلیتی حکومت
اگر اے کے پارٹی ۲۵۸ ارکان کے ساتھ اقلیتی حکومت بناتی ہے تو اسے انتخابات میں ۱۰؍فیصد سے زائد ووٹ لے کر پارلیمان میں آنے والی تین جماعتوں میں سے کسی ایک کی حمایت درکار ہوگی۔ یا پھر اسے ۱۸؍ارکان کو کسی طرح راضی کرنا ہوگا کہ وہ اعتماد کا ووٹ اے کے پارٹی کو دیں تاکہ ۲۷۶ کی مطلوبہ تعداد پوری ہوجائے۔ لیکن اب جبکہ تینوں جماعتیں اے کے پارٹی سے کسی بھی قسم کے اتحاد کا دروازہ بند کررہی ہیں، اس منظرنامہ کی تشکیل پر بے یقینی کے سائے لہرا رہے ہیں۔ دوسری جانب حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں سربراہی کے جھگڑے روکنے اور انہیں تقسیم سے بچانے کے لیے اندرونی نظم و ضبط سخت کردیا گیا ہے، لہٰذا یہ مشکل دکھائی دیتا ہے کہ اے کے پارٹی ۱۸؍ارکان کو اعتماد کا ووٹ دینے پر آمادہ کرسکے۔
خود اے کے پارٹی کے اندر سے بھی متضاد اور مخالف آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ نائب وزیراعظم نعمان قورتولموش (Numan Kurtulmus) کا کہنا ہے کہ وزیراعظم احمد داؤد اولو معیّنہ وقت کے اندر حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ اے کے پارٹی کے بغیر کوئی اتحاد ممکن نہیں۔ تاہم نائب وزیراعظم بلند ارینچ (Bülent Arinç) کہتے ہیں کہ ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی)، نیشنل موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کو آگے بڑھ کر اتحادی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دوسرا منظرنامہ: ایچ ڈی پی کی حمایت یافتہ سی ایچ پی اور ایم ایچ پی کی حکومت
سی ایچ پی اور ایم ایچ پی اپنے طور پر حکومت تشکیل نہیں دے سکتیں کیونکہ دونوں کے ارکان کی مجموعی تعداد محض ۲۱۲ ہے جوکہ حکومت بنانے کے لیے درکار ۲۷۶ سے کہیں کم ہے۔ لہٰذا ان دونوں جماعتوں کو ۸۰؍ ارکان کے ساتھ منتخب ہونے والی ایچ ڈی پی کی حمایت درکار ہوگی تاکہ اقلیتی حکومت بناسکیں۔ لیکن چونکہ ایم ایچ پی کے چیئرمین ڈیلویٹ باکیلی (Devlet Bahçeli) کسی بھی جماعت کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کا بیان دے چکے ہیں، سو یہ منظرنامہ بھی فی الحال واضح نظر نہیں آتا۔
تیسرا منظرنامہ: اے کے پارٹی اور ایم ایچ پی کی اتحادی حکومت
ایم ایچ پی کو ایک عرصے سے اے کے پارٹی کا سب سے زیادہ ممکنہ اتحادی سمجھا جارہا ہے۔ وزیراعظم احمد داؤد اولو کو انتخابی مہم کے دوران ایم ایچ پی کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ لیکن بات وہی ہے: ایم ایچ پی کے چیئرمین نے اے کے پارٹی کے ساتھ کسی بھی اتحاد کا دروازہ بند کر رکھا ہے، سو یہ منظرنامہ بھی یقینی نہیں ہے۔
چوتھا منظرنامہ: اے کے پارٹی اور سی ایچ پی کی اتحادی حکومت
ایک اور منظر نامہ یہ ہے کہ اے کے پارٹی اور سی ایچ پی ایک اتحادی حکومت بنائیں۔ لیکن کُل ووٹوں کا ۹۶ء۲۴ فیصد لینے والی سی ایچ پی نے حکمراں جماعت کے ساتھ کسی بھی اتحاد کو واضح ’’نہیں‘‘ کے ساتھ رد کردیا ہے۔ ایسا اتحاد شاید سی ایچ پی کے ووٹروں کو بھی ناراض کردے، جن کا مؤقف اے کے پارٹی کی حکومت اور پالیسیوں کے خلاف ۲۰۰۲ء سے بہت سخت رہا ہے۔ یہ جماعت اپنے ووٹروں کے مطالبات کے بارے میں مزید حساس ہوگئی ہے کیونکہ ایچ ڈی پی نے اندازوں سے زیادہ ووٹ اس سے چھین لیے ہیں۔
پانچواں منظرنامہ: اے کے پارٹی اور ایچ ڈی پی کی اتحادی حکومت
انتخابی مہم کے دوران اس اتحاد کے بارے میں سب سے زیادہ گفتگو کی گئی تھی۔ گوکہ ایچ ڈی پی کے چیئرمین صلاح الدین دیمرطاس (Selahattin Demirtas) نے انتخابی مہم کے آغاز میں تو اے کے پارٹی کے ساتھ اتحاد کے امکان کو واضح طور پر رد نہیں کیا تھا، تاہم بعد ازاں انہوں نے کہا کہ وہ حکمراں جماعت کے ساتھ کسی قسم کی شراکت داری نہیں کریں گے۔
انتخابات میں ۱۰؍فیصد سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہونے کے بعد صلاح الدین نے استنبول دفتر کے باہر حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کی جماعت اے کے پارٹی کے تشکیل کردہ اتحاد کا حصہ نہیں ہوگی۔
بہت سے لوگوں کے خیال میں ایچ ڈی پی کے مؤقف میں تبدیلی دیمرطاس پر ووٹروں کے دباؤ کے باعث آئی جو پارٹی کو اس کے وعدوں پر یقین کرکے ووٹ نہیں دیتے بلکہ اے کے پارٹی کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے دیتے ہیں۔ ۱۰؍فیصد سے زائد ووٹوں نے ۸۰ نشستوں کے ساتھ ایچ ڈی پی کو پارلیمان میں مضبوط پوزیشن میں لاکھڑا کیا ہے۔ پارٹی نے بہت سی نشستیں حکمراں جماعت سے چھینی ہیں جس کے بعد اے کے پارٹی کی خواہشات کے مطابق آئین میں تبدیلی ممکن ہے اور نہ فی الحال صدارتی نظام کے بارے میں کوئی بحث ہوسکتی ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ایچ ڈی پی کا اے کے پارٹی سے اتحاد اس کے ہزاروں ووٹروں کو دھوکا دینے کے مترادف ہوگا جنہوں نے ۱۰؍فیصد کی حد عبور کرنا ممکن بنایا ہے۔ ۲۰۱۱ء کے انتخابات میں کُرد نواز جماعت کے امیدواروں کو کُل ووٹوں کے محض ۵ء۶ فیصد ووٹ ہی مل سکے تھے۔
بہرحال، اے کے پارٹی کی جانب سے شروع کردہ مفاہمتی عمل اور نتیجتاً کُرد عوام کے معیارِ زندگی میں بہتری کے باعث یہ دو جماعتیں پارلیمان میں موجود دیگر تمام جماعتوں سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ ان انتخابات کے بعد ایچ ڈی پی اور اس کی اتحادی کُرد نواز اور اشتراکی تحریکوں کے لیے اب پہلا موقع آیا ہے کہ وہ اے کے پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے تُرک ریاستی نظام کا حصہ بن جائیں۔
چھٹا منظرنامہ: سی ایچ پی، ایم ایچ پی، ایچ ڈی پی کی اتحادی حکومت
اگر اے کے پارٹی دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحادی حکومت بنانے میں ناکام رہتی ہے تو سی ایچ پی، ایم ایچ پی اور ایچ ڈی پی ۲۹۲ منتخب ارکان کے ساتھ اس پوزیشن میں ہیں کہ مل کر حکومت بناسکیں۔ یہ منظرنامہ، گو کہ اعداد و شمار کی رُو سے کاغذوں میں ممکن دکھائی دیتا ہے، حقیقت کا روپ بہت مشکل سے ہی دھار سکتا ہے۔ کیونکہ دائیں بازو کی ایم ایچ پی کے سخت قوم پرستانہ نظریات کُرد نواز ایچ ڈی پی کے نظریات سے ٹکراتے ہیں۔
درحقیقت یہ تُرک تاریخ میں پہلا موقع نہیں ہوگا کہ مختلف نظریات کی حامل جماعتیں ایک حکومت بنائیں۔ ۱۹۹۹ء میں ایم ایچ پی نے ڈی ایس پی (Democratic Left Party) اور دائیں بازو سے قریب اے این اے پی (Motherland Party) کے ساتھ حکومت بنائی تھی۔ تینوں جماعتوں نے اپنی پالیسیوں پر کسی حد تک سمجھوتا کیا، لیکن ان کے نزدیک تُرک سیاست میں فوج کی بڑھتی ہوئی مداخلت روکنے کے لیے اتحادی حکومت ناگزیر تھی۔ یہ اتحاد جتنا بھی غیر فطری تھا، اس نے دو بڑے زلزلوں کے بعد صنعتی نظام کو سنبھالا، گرتی معیشت اور کمزور مالیاتی نظام سے پیدا شدہ ایک اقتصادی بحران ٹالا، اور بہت سے سیاسی بحران اور خارجہ پالیسی کے مسائل حل کیے۔ کسی حد تک بدنام اتحاد نے یورپی یونین کی شرائط کے تحت بہت سی انتظامی اور معاشی اصلاحات کر ڈالیں جن کا فائدہ بعد ازاں اے کے پارٹی کی یک جماعتی حکومتوں کو ہوا۔
یہ مثال ثابت کرتی ہے کہ انتہائی نامساعد حالات میں بھی ایک مقصد کی خاطر مختلف نظریات آپس میں مل کر کام کرسکتے ہیں اور تُرک جمہوریت و معیشت کی موجودہ حالت کے پیشِ نظر ایک غیر فطری اتحاد اب بھی کام کرسکتا ہے۔
ساتواں منظرنامہ: قبل ازوقت انتخابات
اگر کوئی اتحاد نہیں بن پایا اور اقلیتی حکومت بھی ۴۵ روز کے اندر اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام رہی تو آئین صدر ایردوان کو اختیار دیتا ہے کہ وہ قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کا اعلان کردیں۔ یہ ساتواں منظرنامہ ہوگا اور انتخابات اس کے بعد ۹۰ روز کے اندر کرانے ہوں گے۔
(مترجم: حارث رقیب عظیمی)
“7 scenarios: What awaits Turkey as ruling AK Party loses parliamentary majority in elections?”. (Daily “Sabah”. June 8, 2015)
Leave a Reply