ترکی میں معاشرے کی تیزی سے بدلتی ہوئی نوعیت کی تفہیم کے لیے معروف صحافی اور جرنلسٹس اینڈ رائٹرز فاؤنڈیشن کے میڈیا بلاگ پلیٹ فارم کے سیکریٹری ارقم طوفان آئتاف (Erkam Tufan Aytav) نے حال ہی میں ایک کتاب لکھی ہے۔ ’’سیودیم سینی بن کیرے‘‘ (مجھے تم سے پیار ہوا۔۔۔ I Happened to Love You) نامی کتاب میں انہوں نے سنیوں اور علویوں کے درمیان شادی کے تمام پہلو جاننے کی کوشش کی ہے۔ علوی فرقے کے لوگ ترکی میں اقلیت میں ہیں اور بہت سے معاملات میں امتیازی سلوک سے بچنے کے لیے اپنی شناخت چھپاتے ہیں۔ شادی بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے۔ بہت سے جوڑے اپنی شناخت چھپاتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی علوی لڑکی یا لڑکا شادی کے بعد بھی یہ بات بتاتا ہے کہ وہ علوی ہے کیونکہ اسے امتیازی سلوک کا خوف لاحق رہتا ہے۔ دوسری طرف سنی بھی اپنی شناخت یا شادی کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ خاندان اور معاشرہ ایسی شادیوں کو قبول کرنے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتا۔
ترک معاشرے میں مختلف مسالک کے لوگوں کا میل جول کبھی ایسا آسان نہیں رہا۔ ایک دوسرے کے بارے میں خدشات اور تحفظات پائے جاتے ہیں۔ بعض اقلیتی گروپوں کے لوگ معاشرے میں خود کو خاصا اجنبی سمجھتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ کسی بھی طور انہیں آسانی سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ جو لوگ سیکولر اقدار کو گلے لگاتے ہیں ان کے لیے ایک دوسرے کو قبول کرنے کی تھوڑی بہت گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔
سنیوں اور علویوں میں بعض امور بہت مختلف ہیں۔ سنی مسجد میں عبادت کرتے ہیں اور علوی اپنی عبادت گاہ کو سیمیوی (Cemevi) کہتے ہیں۔ علوی عام طور پر ترک یا کرد زبان میں اپنی رسوم ادا کرتے ہیں جبکہ سنی مذہبی رسوم ادا کرنے کے لیے عربی کا سہارا لیتے ہیں۔ علویوں کی بہت سی رسوم میں موسیقی اور رقص کو بھی دخل ہے جسے وہ سماع کا نام دیتے ہیں۔ ترکی کی ۷ کروڑ کی آبادی میں علویوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ کے درمیان ہے۔
سنیوں اور علویوں میں شادی کا معاملہ بہت پیچیدہ رہا ہے۔ دونوں خاندان اس شادی کو آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ بچوں کی تربیت پر بھی اس کا برا اثر مرتب ہوتا ہے۔
زیر نظر انٹرویو میں ارقم طوفان آئتاف کتاب لکھنے کی غایت اور ترک معاشرے میں مختلف مسالک کے لوگوں میں ہم آہنگی سے متعلق بتا رہے ہیں۔
٭ سب سے پہلے تو یہ بتائیے کہ آپ نے یہ کتاب کیوں لکھی؟ وہ کون سا امر تھا جو اس کتاب کے لکھنے کا محرک بنا؟
ارقم طوفان آئتاف: میں سنی اور علوی فرقے کے لوگوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی نوعیت سمجھنا چاہتا تھا تاکہ ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے والے امور کو سمجھ اور پیش کرسکوں۔ میں نے مواد تلاش کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ سنیوں اور علویوں کے درمیان شادی پر بہت کم مواد موجود ہے۔ کتابیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ مجھے ملا۔ ایک اور مقالہ لکھا جارہا ہے۔
٭ بین المسالک شادیوں پر اس قدر کم مواد کیوں ہے؟
ارقم: اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ یہ شادیاں ایک نئے رجحان کا درجہ رکھتی ہیں۔ ترک معاشرے میں سنیوں اور علویوں کے درمیان شادیاں ماضی میں عام نہیں تھیں۔ اب چونکہ ان کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ معاشرے کی اس تبدیلی کو اچھی طرح سمجھا جائے۔ میں نے سوچا کہ دوسروں پر الزام دھرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ ہم دوسروں کو برا سمجھتے رہتے ہیں اور اپنا احتساب نہیں کرتے۔ کسی بھی بڑی معاشرتی تبدیلی کے لیے غیروں کو موردِ الزام ٹھہرانے سے پہلے ہمیں یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ قصور کہیں ہمارا تو نہیں۔ ہمیں دوسروں کی کارستانی کے بارے میں سوچتے رہنے کے بجائے معاشرتی ہم آہنگی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں کچھ بہتری آئے۔
٭ ماضی میں سنی اور علوی ایک دوسرے سے کس حد تک دور دور رہے ہیں اور اب ایسی کیا ضرورت پیش آگئی ہے کہ ان کے باہمی تفاعل کا جائزہ لیا جائے؟
ارقم: بات یہ ہے کہ دیہی معاشرے میں سب الگ تھلگ رہتے تھے۔ سنیوں اور علویوں کے علاقے الگ الگ ہوا کرتے تھے۔ ان کا رہن سہن بھی الگ تھا اور رسوم بھی الگ تھیں۔ ان میں ساتھ رہنے کا رجحان نہیں تھا۔ معاشی سرگرمیوں کی حد تک تو ان میں میل جول تھا مگر مجموعی طور پر وہ ایک دوسرے سے بیگانے رہتے تھے۔ شہروں کی آبادی میں اضافے سے یہ ہوا کہ سنی اور علوی ایک علاقے ہی میں نہیں بلکہ ایک عمارت میں بھی ساتھ ساتھ رہنے لگے۔ ان کے بچے ساتھ ساتھ پڑھتے ہیں۔ سنی اور علوی جب ایک دوسرے کے قریب آئے تو ان کے رویے میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ انہوں نے ایک دوسرے میں دلچسپی لینا شروع کی، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے لگے۔ علویوں کی عبادت گاہیں کم ہیں۔ انہوں نے شہری کلچر کے زیر اثر سیکولر ازم کو اپنالیا۔ اب ان کے لیے علیٰحدہ مذہبی حیثیت محض علامتی سی ہوکر رہ گئی ہے۔ سنیوں میں بھی سیکولر اقدار پروان چڑھیں تو دونوں نے ایک دوسرے کو زیادہ قبول کیا۔ ایسے ماحول میں شادیاں آسان ہوگئیں۔
٭ سنی اور علوی شادی کے حوالے سے حقیقی مشکلات کیا رہی ہیں؟
ارقم: مشکلات جوڑے کے لیے نہیں بلکہ ان کے خاندانوں کے لیے ہوا کرتی تھیں اور ہوا کرتی ہیں۔ بین المسالک جوڑوں کو آسانی سے قبول نہیں کیا جاتا۔ انہیں خاندان اور برادری سے نکال دیا جاتا ہے۔ بہت سوں کو شادی کے لیے اپنی شناخت چھپانا پڑتی ہے۔ بہت سے علوی لڑکے اور لڑکیاں شادی کے بعد بھی سسرال والوں سے اپنی شناخت چھپاتے ہیں۔ شادی کے بعد مختلف معاشرتی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے بہتر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی کو بتایا ہی نہ جائے کہ تعلق کس مسلک سے ہے۔ یہ کوئی پسندیدہ طریقہ نہیں کیونکہ بعد میں حقیقت کھلنے پر تو خرابی ہی پیدا ہوتی ہے مگر مجبوری میں ایسا کیا جاتا ہے۔
٭ شناخت کے معاملے کی وضاحت کیجیے۔
ارقم: ترکی میں سنیوں کے بیشتر علما نے علویوں سے شادی کی اجازت دے رکھی ہے کیونکہ ان کے نزدیک علوی بھی اللہ اور رسول اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور حضرت علی کو دیگر پر مقدم رکھتے ہیں۔ شناخت چھپانے کا معاملہ یہ ہے کہ فتح اللہ غلین کے پیرو کسی کو بتاتے نہیں کہ وہ غلین کے پیرو ہیں کیونکہ اس صورت میں انہیں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے لوگ اپنے بچوں کو بھی شناخت چھپانے کی ہدایت کرتے ہیں۔
علویوں میں بعض سخت گیر گروہ ایسے ہیں جن کے علما سنیوں سے شادی کو گمراہی سے تعبیر کرتے ہیں، وہ ایسی شادی کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں۔ عدم قبولیت کا معاملہ جوڑوں تک محدود نہیں رہتا۔ بعض علوی فرقوں کے علما کا استدلال ہے کہ اگر والدین ایسی شادی پر رضامند ہوں تو وہ بھی گمراہ کہلائیں گے۔ بین المسالک شادیوں کو پسند نہ کرنے کے اور بھی اسباب ہوسکتے ہیں۔ علویوں میں بہت سے لوگ سنیوں میں شادی کو اس لیے بہتر نہیں سمجھتے کہ ان کے خیال میں خواتین سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت بھی کی جاتی ہے۔ دوسری طرف علویوں میں اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی کہ کسی کا مذہب یا مسلک کیا ہے۔ ساتھ ہی علویوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ترک معاشرے میں چونکہ خواتین زیر نگیں اور زیر دست رہتی ہیں اس لیے شادی کے بعد سنی گھرانے میں علوی لڑکی کو بھی زیر دست رہنا پڑتا ہے اور وہ بہت سے امور میں کچھ نہ کہنے پر مجبور ہوتی ہے۔
اب معاشرے میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ سنی اور علوی ایک دوسرے کو ازدواجی معاملات میں بھی اپنا رہے ہیں۔ بین المسالک شادیاں عام ہو رہی ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے قبولیت بڑھ رہی ہے۔ اسی طور سنیوں اور کردوں میں بھی شادیوں کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ بیشتر معاملات میں جوڑوں کے خاندان بھی شادی کو قبول کر رہے ہیں اور یوں معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔
(‘I Happened to Love You’ Dissects Alevi-Sunni Marriages… “Today’s Zaman”. May 13th, 2012)
Leave a Reply