
امریکا بھر میں محنت کشوں سے متعلق قوانین کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔ کم یا کم از کم اجرتوں والے شعبوں میں صورت حال خطرناک ہے۔ سینٹر فار اربن ڈیویلپمنٹ، دی نیشنل ایمپلائمنٹ پروجیکٹ اور یو سی ایل اے انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ آن لیبر اینڈ ایمپلائمنٹ کے تحت کی جانے والی تحقیق ’’بروکن لاز، ان پروٹیکٹیڈ ورکرز، وایولیشنز آف ایمپلائمنٹ اینڈ لیبر لاز ان امریکن سٹیز‘‘ کے عنوان سے رپورٹ کی شکل میں شائع کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں امریکا کے تین بڑے شہروں نیو یارک، لاس اینجلس اور شکاگو میں محنت کشوں کو درپیش حالات کا اس قدر جامع انداز سے جائزہ لیا گیا ہے کہ معیشت کا ایک تاریک پہلو اجاگر ہوکر ہمارے سامنے آتا ہے۔ تحقیق کرنے والوں نے جنوری ۲۰۰۸ء سے اگست ۲۰۰۸ء کے دوران ۱۸ ؍سال سے زائد عمر کے ۴۳۸۷ محنت کشوں کو اوسطاً ۹۰ منٹ تک انٹرویو کیا۔ کوشش یہ کی گئی ہے کہ رائے عامہ کے عمومی جائزوں میں جن لوگوں کا ذکر نہیں ہو پاتا ان کے مسائل بھی سامنے آئیں تاکہ ان کے تدارک کی کوئی صورت نکلے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ کم از کم اجرت پانے والے محنت کشوں سے غیر معمولی نوعیت کی ناانصافیاں روا رکھی جاتی ہیں۔ انہیں اوور ٹائم نہیں دیا جاتا یا پھر کم دیا جاتا ہے۔ مقررہ اوقات سے زیادہ کام لینا عام سی بات ہے۔ انہیں کھانے یا آرام کا وقفہ دینے سے بھی گریز کیا جاتا ہے۔ اگر وہ بہتر اجرتوں کے لیے انجمن سازی کرنا چاہیں تو انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ جس جگہ وہ کام کرتے ہیں اس کے حالات بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ زخمی ہو جانے پر انہیں معاوضہ نہیں دیا جاتا بلکہ تشویشناک حالت میں بھی کام کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ غیر ضروری کٹوتیاں بھی عام ہیں۔ اگر ملازم کو ٹپ ملتی ہے تو آجر اس ٹپ میں بھی حصے دار بن بیٹھتا ہے۔ کبھی کبھی کسی بھی ملازم کو پیشگی اطلاع دیے بغیر اس کا منصب تبدیل کردیا جاتا ہے تاکہ قانونی پیچیدگیوں سے بچا جاسکے اور اسے کسی بھی ہنگامی صورت حال میں کوئی ادائیگی نہ کرنی پڑے۔
امریکی معیشت کے چند شعبوں میں محنت کشوں سے متعلق قوانین کی خلاف ورزیاں عام ہیں۔ ایپرل اور ٹیکسٹائل انڈسٹری، پرسنل اور ریپیئر کے شعبے میں اور گھریلو ملازمین سے زیادتی عام ہے۔ تعمیرات، سماجی تعاون، تعلیم اور ہوم ہیلتھ کیئر جیسے شعبوں میں ملازمین سے نا انصافی عام نہیں۔ ریستوراں، گروسری اسٹور، ویئر ہائوس اور اسی نوعیت کے دوسرے بہت سے شعبوں میں ملازمین سے زیادتی عام ہے۔ انہیں معاوضہ بھی پورا نہیں ملتا اور ہر وقت ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔ ملازمت چھوٹ جانے کا خوف کسی بھی اجرت پر کام جاری رکھنے پر مجبور رکھتا ہے۔ جن ملازمین کو اجرت ہفتہ وار اور نقد دی جاتی ہے ان سے نا انصافی یقینی سی دکھائی دیتی ہے۔ جن اداروں میں ملازمین کی تعداد سو سے زیادہ ہو وہاں آجر کی جانب سے نا انصافی کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
امریکا میں غیر ملکی محنت کشوں اور بالخصوص غیر قانونی تارکین وطن اور خواتین سے معاشی نا انصافی عام ہے۔ بعض شعبوں میں پڑھے لکھے افراد بھی نا انصافی کا شکار ہوتے ہیں۔ امریکا بھر میں کم از کم اجرت کی سطح پر کام کرنے والوں میں دو تہائی ایسے ہیں جن کی اجرت کا پندرہ فیصد تک کسی جواز یا سبب کو بیان کیے بغیر منہا کردیا جاتا ہے۔ خانساماں، کھانا پکانے میں مدد دینے والے، ڈش واشر، سلائی کرنے والے افراد، بلڈنگ ورکر، فیکٹری میں پیکنگ ورکر، چائلڈ کیئر ورکر، جنرل کنسٹرکشن ورکر، ہوم ہیلتھ کیئر، ریٹیل سیلزمین، بینک ٹیلر، گھریلو ملازمین، کیشیئر، ویٹر، کیفے ٹیریا ورکر، بارٹینڈر، آفس کلرکس، کار واشر، پارکنگ انچارجز، ڈرائیور، ڈرائی کلیننگ ورکر، بیوٹیشینز، جنرل ریپیئرر، سیکورٹی گارڈ اور معاون اساتذہ سے زیادتی عام ہے۔
فروری ۱۹۹۰ء میں نیو یارک کے ادارے ایمش مارکیٹس نے قانونی کارروائی کے بعد ۵۵۰ ملازمین کو غیر ادا شدہ تنخواہوں کی مد میں ۱۵ ؍لاکھ ڈالر ادا کیے۔ اسی ماہ لاس اینجلس کے ایک کار واشنگ پلانٹ کے مالکان کو کم از کم اجرت کے قانون اور کھانے کا وقفہ دینے کے ضابطے کی خلاف ورزی کی پاداش میں جرمانے کا سامنا کرنا پڑا۔ شکاگو میں عارضی ملازمتیں دینے والے ایک ادارے نے عدالت کے حکم پر ۳۳۰۰ ملازمین کو دس لاکھ ڈالر ادا کیے۔ ۲۰۰۸ء میں وال مارٹ نے ۴۲ ریاستوں میں مقررہ اوقات سے زائد کام لینے سے متعلق ۶۳ مقدمات میں موجودہ اور سابق ملازمین کو ۳۵ کروڑ ۲۰ لاکھ ڈالر ادا کیے۔ عدالت کی جانب سے تعینات کیے جانے والے ایک افسر نے غیر قانونی طور پر انڈیپنڈنٹ کنٹریکٹر قرار دیے جانے والے فیڈیکس کے ۲۰۰ ڈرائیوروں کو ایک کروڑ ۴۴ لاکھ ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا۔
عدالتی کاررائیوں اور ملازمین کے حق میں فیصلوں کے باوجود امریکا میں محنت کشوں کے حقوق غصب کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ چند قوانین از کار رفتہ ہوچکے ہیں۔ انہیں جواز بناکر محنت کشوں کا استحصال کیا جارہا ہے۔ چند ایک صنعتوں کو غیر ضروری طور پر ٹیکس اور متعلقہ قواعد سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن سے زیادتی کا سلسلہ جاری ہے۔ خواتین سے امتیازی سلوک عام ہے۔ چھوٹی بڑی تمام صنعتوں کی صورت حال یہی ہے۔ ۲۶ فیصد معاملات میں کم از کم اجرت کے قانون کی خلاف ورزی پائی گئی ہے۔ ۷۳ فیصد ملازمین کا کہنا ہے کہ انہیں اوور ٹائم یا تو ملتا نہیں یا پھر ملتا ہے تو معمول کے نرخ سے۔ ۱۹ ؍فیصد محنت کشوں کا کہنا ہے کہ انہیں یاد ہی نہیں کہ اوور ٹائم کیا چیز ہوتی ہے کیونکہ کبھی یہ انہیں ملا ہی نہیں! ۱۷ ؍فیصد ملازمین کا کہنا ہے کہ مقررہ اوقات سے بڑھ کر ان سے کام لیا جاتا ہے مگر کوئی صلا نہیں دیا جاتا۔ ۱۸ ؍فیصد ملازمین کی شکایت یہ ہے کہ انہیں کھانے کا وقفہ نہیں دیا جاتا۔ ۱۱ ؍فیصد کا کہنا ہے کہ انہیں کھانے کا وقفہ دیا تو جاتا ہے مگر بیچ ہی میں بلالیا جاتا ہے۔ ۴۳ فیصد کا کہنا ہے کہ انہیں کھانے کا مختصر وقفہ دیا جاتا ہے۔ ۵۷ فیصد کا کہنا ہے کہ بسا اوقات انہیں اضافی ادائیگی کی کوئی رسید نہیں دی جاتی۔ ایسے ملازمین بھی ہزاروں ہیں جنہیں کرم فرماؤں کی جانب سے ٹپ ملتی ہے مگر آجر اس میں بھی ڈنڈی مار لیتا ہے۔ لاس اینجلس میں ۷۷ فیصد افراد نے بتایا کہ انہیں کھانے کا وقفہ دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ اصول تو یہ ہے کہ مقررہ اوقات کے بعد ہر گھنٹے کے لیے اجرت معمول کے نرخ سے ۵۰ فیصد زائد دی جائے۔ اس اصول پر شاز و نادر ہی عمل ہو پاتا ہے۔ شفٹوں میں کام کرنے والوں کو ریلیور کے آنے تک رکنا پڑتا ہے۔ اگر وہ ڈیڑھ دو گھنٹے بھی اضافی خدمات انجام دیں تو کوئی صلا نہیں ملتا۔ جو لوگ دیر سے آتے ہیں ان کی تنخواہ سے کٹوتی ہو جاتی ہے لیکن ان کے بدلے دیر تک خدمات انجام دینے والوں کو کچھ نہیں ملتا۔ نیو یارک، کیلی فورنیا اور الینوئے میں ۴۳ فیصد محنت کشوں نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے حقوق کے لیے انجمن سازی کا ارادہ ظاہر کیا تو آجر کی جانب سے انہیں دھمکی آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ ۶۲ فیصد نے بتایا کہ انجمن سازی کی کوشش پر ان کے کام میں کمی کردی گئی اور کسی بھی بڑی اور اہم اسائنمنٹ میں شامل کرنے سے گریز کیا جانے لگا۔ ۴۷ فیصد محنت کشوں نے بتایا کہ انجمن سازی کی کوشش پر انہیں (غیر قانونی تارکین وطن ہونے کی صورت میں) امگریشن حکام کے حوالے کرنے کی دھمکی دی گئی۔ ۳۵ فیصد کو برطرفی یا معطلی کا سامنا کرنا پڑا۔ ۲۱ فیصد نے بتایا کہ انہیں ہراساں کیا گیا۔ ۴۳ فیصد ملازمین نے بتایا کہ شدید زخمی ہوجانے پر بھی انہیں کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ۳۰ فیصد ملازمین کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے پر انہیں کسی بھی قسم کی مدد فراہم نہیں کی گئی۔ ۱۰ ؍فیصد ملازمین ایسے بھی تھے جنہیں زخمی ہونے پر کہا گیا کہ ڈیوٹی پر ضرور حاضر ہوں، خواہ کوئی کام نہ کریں۔
(بحوالہ: “www.theglobalist.com”)
Leave a Reply