لیبیا میں نومبر کے آخری ہفتے میں تشکیل دی جانے والی عبوری کابینہ کے سامنے کئی چیلنج اب تک موجود ہیں۔ ایک طرف تو اسے امن و امان کو یقینی بنائے رکھنا ہے اور دوسری طرف آئین سازی کی راہ ہموار کرتے ہوئے عام انتخابات کو یقینی بنانا ہے۔ اور یہ سب کچھ محض چند ماہ میں کرنا ہے۔ عبوری ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس میں عبوری وزیر اعظم عبدالرحیم الکعب کے ماتحت چوبیس رکنی کابینہ تشکیل دی گئی ہے۔ دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ یہ کابینہ پورے لیبیا کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس دعوے کی سچائی کی بنیاد پر مستقبل میں لیبیا کے متحد رہنے کی امید ہے۔ نئی لیبیائی کابینہ سے توقعات تو بہت سی ہیں مگر یہ دیکھنا پڑے گا کہ جنہیں عبوری حکومت میں نمائندگی کا موقع نہیں ملا ان کا ردعمل کیا ہوگا اور وہ کس طور اپنی بات منوائیں گے۔ بہت سے دھڑے، قبیلے اور علاقے یہ شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ قذافی حکومت کے خاتمے کے بعد قائم کیے جانے والے حکمراں سیٹ اپ میں انہیں نظر انداز کردیا گیا ہے۔
معمر قذافی کے بڑے بیٹے سیف الاسلام کو گرفتار کرنے والی زنتان بریگیڈ کے سربراہ کرنل اسامہ جویلی کو عبوری وزیر دفاع مقرر کیا گیا ہے۔ مصطفی عبدالشکور اور محمد عبداللہ عبدالکریم نائب وزرائے اعظم ہیں۔ حسن زیغلم کو عبوری وزیر خزانہ مقرر کیا گیا ہے۔ امور خارجہ کا قلمدان عشعور بن خیل کے حصے میں آیا ہے۔
یونیورسٹی آف ایگزیٹر میں مڈل ایسٹ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر اور بروکنگز دوہا سینٹر کے وزٹنگ فیلو عمر عشعور کا کہنا ہے کہ نئی کابینہ ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہے۔ اور اس سے سیاست دانوں کو دور رکھا گیا ہے۔ نئی کابینہ نے مغربی اثرات قبول کرنے کا واضح عندیہ دیا ہے۔ وہی لوگ اس میں نمایاں ہیں جو مغرب سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ اسلامی عناصر کو فی الحال شامل کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ حکمراں سیٹ اپ کی تشکیل کے وقت نظر انداز کیے جانے پر اسلامی عناصر کی جانب سے شدید ردعمل بھی سامنے آسکتا ہے۔ عمر عشعور کا کہنا ہے کہ جنہیں عبوری کابینہ میں نظر انداز کیا گیا ہے وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش ضرور کریں گے کہ زمینی حقائق کچھ اور ہیں اور یہ کہ انہیں بھی بہت سے مسلح گروپس کی حمایت حاصل ہے!
ملک میں اسلحے کی بھرمار ہے۔ عبوری کابینہ کے لیے امن و امان کا قیام ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔ کئی علاقوں میں مسلح گروپ موجود ہیں جو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی بھرپور کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ کئی گروپ آپس میں لڑتے بھی رہتے ہیں۔ یہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ بہت سے مسلح گروپوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو قومی فوج میں شامل کرلیا جائے یا ایک اور تجویز ہے کہ مسلح گروپس کو غیر مسلح کیا جائے اور ان کے لیے نوکریوں کا انتظام کیا جائے تاکہ معاشرہ ان کی ناپسندیدہ سرگرمیوں سے محفوظ رہے۔
یونیورسٹی آف ٹیکساس (سان انتونیو) میں سیاسیات و جغرافیہ کے شعبے کے سربراہ منصور الکخیہ کہتے ہیں کہ مشرقی لیبیا میں کئی دھڑے حکومت سے ناراض ہیں۔ ان کا شکوہ یہ ہے کہ مغربی لیبیا میں طاقت مرتکز کردی گئی ہے اور مشرقی لیبیا کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ وہ اپنی خفگی کے اظہار میں بخل سے بھی کام نہیں لے رہے۔ کابینہ میں مغربی لیبیا سے تعلق رکھنے والے مضبوط اور نمایاں پوزیشن میں ہیں۔ بن غازی اور تبروک کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ بن غازی وہ علاقہ ہے جہاں قذافی فورسز کے خلاف شدید لڑائی ہوئی اور عوام نے حکومتی نظام کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے لازوال قربانیاں دیں۔
اب لیبیا میں علاقائی تقسیم نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ قذافی کے بعد جو دور شروع ہوا ہے اس میں لیبیا کو ابھرنا اور کچھ کرکے دکھانا ہے۔ اس حوالے سے عوام اور حکومت پر یکساں دباؤ ہے۔ کابینہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ منصور الکخیہ کا کہنا ہے کہ اب سب کو مل کر کام کرنا ہے۔ عبوری حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج آئینی ڈھانچے کا تعین اور نئے انتخابات کی تیاریوں کو حتمی شکل دینا ہے۔ ایسا وفاقی نظام تیار کرنا بہت بڑا چیلنج ہے جسے ملک کے تمام حصوں کی حمایت حاصل ہو۔ طرابلس میں طاقت مرتکز رکھنے پر زور دیا جارہا ہے۔ اس روش نے مشرقی لیبیا کے لوگوں کو کسی بہتر صورت حال کے حوالے سے مایوس کردیا ہے۔ مشرقی لیبیا کے لوگ مغرب میں تریپولی کو دارالخلافہ ماننے کو تیار ہیں، لیکن چاہتے ہیں کہ طاقت تقسیم کردی جائے اور ملک کے تمام حصوں کو بھرپور ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ خوش حالی آئے اور معیار زندگی بلند کرنے میں مدد ملے۔ کابینہ میں اقربا پروری، حاشیہ برداری، جانبداری اور سفارش کو ابھی سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ جو وزیراعظم کے جتنے نزدیک ہے اس کا منصب اسی قدر بلند ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ نئی حکومت کون سا حکومتی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوگی۔ البتہ پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ نئی حکومت مغرب سے ہم آہنگ ہوکر چلے گی۔ کابینہ کے بیشتر ارکان مغرب کے تعلیم یافتہ ہیں یا پھر وہاں قیام کے نتیجے میں اس کے واضح اثرات کو قبول کیے ہوئے ہیں۔
نئی کابینہ فی الحال یورپ میں زیادہ دلچسپی لیتی دکھائی دے رہی ہے۔ امریکا کو اس سے کم اہمیت دی جارہی ہے۔ لیبیا کی حکومت جغرافیائی حقائق کو بھی پیش نظر رکھ کر کام کر رہی ہے۔ چاڈ، نائیجر اور دیگر پڑوسی یا علاقائی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے پر فی الحال توجہ نہیں دی جارہی۔ معمر قذافی نے قبائلی نظام کو فروغ دیا تھا جس نے ملک میں افراتفری پھیلائی تھی۔ نئی کابینہ قبائلی نظام کو ترک کرچکی ہے اور حکمرانی کے نظام کو نئے خطوط پر استوار کر رہی ہے۔
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے سینئر فیلو اور امریکی محکمہ خارجہ میں مشرق وسطیٰ سے متعلق امور کے سابق مشیر ڈیوڈ پولوک کہتے ہیں کہ صورت حال ایسی نہیں کہ زیادہ ناامید ہوا جائے۔ بہت سے معاملات درست سمت میں گامزن ہیں۔ کابینہ کے لیے سب کچھ اچھا نہیں ہے تو برا بھی نہیں۔ چند ایک معاملات میں چیلنج ضرور درپیش ہیں مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ معاملات صرف بگاڑ پر ختم ہوں گے۔
ڈیوڈ پولوک کا خیال ہے کہ اسلامی عناصر کو یکسر نظر انداز کرنا درست نہیں۔ شدت پسند مسلم لیڈر عبدالحکیم بلہاج نے غیر معمولی انداز سے دادِ شجاعت دیتے ہوئے تریپولی کا کنٹرول حاصل کیا تھا اور اب عبوری سیٹ اپ میں انہیں نظر انداز کردیا گیا ہے۔ عبدالرحیم الکعب نے ٹیکنوکریٹس کو منتخب کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ حکومتی سیٹ اپ کسی علاقے، نسل، قبیلے یا نظریاتی گروہ کی نمائندگی نہیں کرتا۔ انہوں نے مختلف شعبوں میں غیر معمولی مہارت رکھنے والوں کو کابینہ کا حصہ بنانے پر خاص توجہ دی ہے۔ ڈیوڈ پولوک کے نزدیک اچھی بات یہ ہے کہ لیبیا میں طویل مدت سے قیام کرنے والوں کو ترجیح دی گئی ہے۔ جن لوگوں نے جلا وطنی اختیار کی یا مغربی ممالک میں زیادہ وقت گزارا ہے انہیں کابینہ کا حصہ بنانے سے گریز کیا گیا ہے۔ مگر خیر، الکعب کو یہ بات ذہن نشین رکھنا ہوگی کہ ملک کے مشرقی علاقوں میں مغربی علاقوں کے خلاف تنفر پایا جاتا ہے جسے دور کرنا بے حد ضروری ہے۔
معمر قذافی نے ملک کو عملاً دو حصوں میں بانٹ دیا تھا۔ دو مختلف ثقافتیں پروان چڑھائی جارہی تھیں۔ بن غازی کی اہمیت گھٹ کر رہ گئی تھی۔ دولت ملک کے مغرب میں مرتکز ہوگئی تھی۔ اب لازم ہے کہ ملک بھر کے وسائل اور دولت کو تمام علاقوں میں خوش حالی یقینی بنانے کے لیے بروئے کار لایا جائے۔
پولوک کا کہنا ہے کہ ملک میں بدامنی گھٹ گئی ہے۔ گروپوں میں لڑائی کا گراف گرگیا ہے۔ زندگی معمول پر آچکی ہے۔ لوگ پرسکون ہوکر زندگی بسر کرنے کے خواہش مند ہیں۔ معاشی بہتری کے آثار ہیں۔ نئی کابینہ تیل کی برآمدات پر خاص توجہ دے رہی ہے۔ یورپ سے تجارتی تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دی جارہی ہے تاکہ معیشت کو سہارا ملے۔ لیبیا سے تیل کی بیشتر شپمنٹ یورپی ممالک کو جاتی ہے۔ لیبیا میں مالیات کے شعبے کو مستحکم کرنا نئی کابینہ کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
سیف الاسلام پر مقدمہ چلانے کے سلسلے میں معاملات طے کرنے کے لیے لیبیا کا دورہ کرنے والے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے چیف پروسیکیوٹر لوئی مورینو اوکیمپو کا کہنا ہے کہ لیبیا کے عوام اب استحکام چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ امن قائم ہو۔ ملک میں پولیس دکھائی دیتی ہے نہ کوئی پیرا ملٹری فورس۔ مگر خیر، جرائم بھی دکھائی نہیں دیتے۔ تشدد کو روکنے کا نظام نمایاں نہیں ہے تو اب تشدد بھی نمایاں نہیں۔ لوگ نئی زندگی میں مگن ہیں۔ انہیں امید ہے کہ جلد نیا زمانہ آئے گا اور خوش حالی کی راہ ہموار ہوگی۔
(بشکریہ: ’’سی این این ڈاٹ کام‘‘۔ ۲۳ نومبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply