خالقِ کائنات نے ہمارے تصرف میں اس قدر نعمتیں کر دی ہیں کہ ان کے شمار کے لیے دنیا کے کمپیوٹر اور اشرف المخلوقات کے دماغ ہیچ ہیں۔ اس نے پتھروں میں لعل و گہر اور سیم و زر بھر دیے۔ درختوں کو زمین میں ساکت رکھا مگر پھر بھی ان کی خوراک زمین، ہوا اور طرح طرح سے بہم پہنچا کا بقیدِ حیات رکھا ہے۔ جانداروں کو رزق درختوں سے قطع نظر چل پھر کر لینے کا حکم دیا کیونکہ وہ پیٹ کے بَل، دو ٹانگوں پر، چار ٹانگوں پر وغیرہ وغیرہ پر چلتے ہیں یا پھر فضائے آسمانی میں اڑتے ہیں اور تو اور آبِ رواں میں تیرتے ہیں۔ کسی سیانے نے کہا کہ حیاتِ دلفریب پتھروں میں ہوتی ہے، پھولوں میں خواب دیکھتی ہے اور انسان میں جاگتی ہے۔ یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔ زندگی کی دلفریبیوں کو رواں دواں رکھنے کے لیے پانی جیسی نعمت ناگزیر ہے جبھی تو اس معصوم سیارے کا بیشتر حصہ پانی سے لبریز ہے۔ زمین، مٹی کا وہ پیالہ ہے جو پانی سے نہ صرف لبریز ہے بلکہ اس کی بساط سے بھی زیادہ آبی ذخیرہ موجود ہے اور دستِ قدرت اسے چھلکنے سے روکے ہوئے ہے۔ نباتات ہوں یا عالم حیوانات سبھی کا دارو مدار پانی پر ہے پانی زندگی کا ایندھن ہے یہ جسم کا اٹوٹ انگ ہے جبھی تو کسی بدیسی نے کہا تھا۔
The Cradle of Life is Certainly the Ocean اور ایک بدیسی نے اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی دلفریبیوں اور نیرنگئی حیات کو پانی کے ذریعے رواں دواں دیکھ کر یوں قوتِ گفتار دکھائی تھی۔
[english]”Everything originated in water and everything is sustained by water”[/english]
کہتے ہیں کہ انسان نے ذوقِ تجسس اور عقلِ سلیم کے بَل بوتے پر عالم کو فتح کیا ہے اور تہذیب کے کارواں کو بامِ ثریا تک پہنچایا ہے۔ یہ بات درست ہے کیونکہ گدھے اور کوے سمیت حیوانوں نے ترقی نہیں کی۔ کوا غلیل اور بندوق دیکھ کر بھاگ جاتا ہے کیونکہ اسے جان کا خطرہ محسوس ہوتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے اسے معلوم ہے کہ غلیل سے پتھر اور بندوق سے گولی نکلتی ہے مگر وہ پتھر کی ماہیت اور گولی کے بارود تک اپنی عقل کے ڈورے نہیں ڈال سکتا۔ یہ انسان ہی ہے جو تجسس کی کڑیاں ملاتا ہے۔ سوچ بچار اور تحقیق سے آگے بڑھتا ہے جبھی تو ترقی کی راہ پر شادمان و کامران ہے۔ سائنس دانوں نے یہ بات بڑی عرق ریزی کے بعد معلوم کی کہ زندگی کے لیے پانی ناگزیر ہے اور یہ کہ جانداروں کا وجود پانی کا مرہونِ منت ہے (مشیت ایزدی سے) قرآن پاک میں صدیوں پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ’’ہر جاندار کو پانی سے پیدا فرمایا گیا ہے‘‘۔ آپ نے یہ بھی پڑھا ہو گا کہ آفرینش سے پہلے اللہ کا عرش پانی پر تھا۔ اگر ہم پہاڑوں اور خاموش پتھروں کو چھوڑ دیں (کیونکہ وہ تو پہلے ہی سے صرف اللہ کی ہی تسبیح کرتے ہیں) تو دنیا میں پائی جانے والی ۸۰ سے ۱۰۰ ملین کے لگ بھگ جانداروں کی اقسام پانی کی مرہونِ منت ہیں۔ اگر پانی نہ ہوتا تو فضائے بسیط میں پرندوں کے غول تیرتے ہوئے نظر نہ آتے، تتلی اور بھونرے پھولوں کے گرد کیسے منڈلاتے۔ مرغزاروں پر موت طاری ہو جاتی ۔ غرض رنگوں اور آوازوں کے جادو کی دنیا شہرِ خموشاں میں سمٹ کر دم توڑ دیتی اور یہ خوبصورت سیارہ فقط قبرستان بن کر قیامت کے انتظار میں عاشقِ مضطرب کی طرح سوئے فلک تک رہا ہوتا۔ مگر ایسا نہیں ہے وسیع و عریض کائنات میں ہماری ننھی سی زمین تو گویا ایک حقیر سا ذرہ ہے مگر اس پر اللہ کی مہربانیاں اور نعمتیں نہ جانے کب سے برس رہی ہیں۔ قریبی سیاروں پر جاکر دیکھ لیا کہ وہاں یہاں جیسی زرخیز منٹی، پانی اور ہوا کے ذخیرے ناپید ہیں۔ کاش جتنی مشقت کے بعد ہم نے چاند پر قدم رکھا اگر اسی قدر توانائی زمین، پانی اور ارد گرد کے ماحول پر صَرف ہوتی تو ہم اتنے تہی دامن نہ ہوتے جتنے آج ہیں۔ پانی ہی کو لے لیجیے اگر ہمیں اس نعمتِ عظمیٰ کا صحیح ادراک ہو جائے تو محض فلش (Flush) کے روزمرہ کے پانی کا ۴۰ فیصد کبھی فضلات کے ساتھ نہ بہاتے…
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا تھا کہ معصوم حضرت اسمٰعیلؑ کو بی بی ہاجرہ کے ساتھ خانۂ کعبہ کے قریب صفا اور مروہ کی سنگلاخ پہاڑیوں پر چھوڑ کر چلے جائیں۔ چنانچہ بے آب و گیاہ سرزمین پر آبِ زم زم جاری ہوا۔ پرندوں کے غول پانی کی تلاش میں اُمڈ آئے پھر انسان رفتہ رفتہ یوں آباد ہو گئے کہ خانۂ خدا کے گرد فرشتوں سے زیادہ انسانی ہجوم نظر آنے لگا۔ یوں اللہ نے پانی جاری فرما کر ذریعۂ حیات پر استدلال فرما دیا۔ آیے دیکھتے ہیں کہ پانی جس کے بغیر ہم ماہیٔ بے آب کی طرح تڑپتے ہیں کیا شئے ہے۔
پانی کے موضوع پر اَن گنت کتابیں ہیں۔ مختصر یہ کہ پانی دو آئن H+ اور OH سے مل کر بنتا ہے۔ حیات کی بنیادی اکائی یا اس کا نمائندہ ایک سالمہ ہے جسے سائنس دان اپنی مشکل زبان میں DNA کہتے ہیں۔جدید سائنس نے ثابت کیا ہے کہ یہ سالمے اپنا H+ آئن پانی ہی سے حاصل کرتے ہیں۔ یوں پانی سے وہ بنیاد تیار ہوتی ہے جس سے زندگی کی عمارت اپنی بنیادوں پر کھڑی رہنے کے قابل ہوتی ہے۔ زندگی کی دوڑ میں یہ بنیادی اصول کار فرما ہے کہ جسیمے (Organisms) صرف H+ آئن کے ذریعے اپنی حرکت اور مصروفیاتِ جہاں برقرار رکھتے ہیں۔زندگی جتنی خوبصورت اور قیمتی ہے اتنی ہی نازک بھی چنانچہ H+ اور OH- آئن کے برقی رویے حیاتِ نوبہار کو طرح طرح تراشتے ہیں اور اس میں نیرنگیٔ جہاں کو اور بھی نکھارتے ہیں۔پانی دراصل وہ زرمبادلہ یا جیب خرچ ہے جسے مختلف جسیمے حاصل کر کے اپنی بقا کو یقینی بناتے ہیں۔ ابھی تک اشرف المخلوقات حیات کے تانے بانے میں پانی کے کردار سے پوری طرح واقف نہیں ہے۔ مثلاً یہ کہ پانی جسم میں ۷سے ۱۴ دن تک رہتا ہے چنانچہ ایک خاص وقت کے بعد پانی کے سالمے ضائع ہو جاتے ہیں نہ جانے کیوں…
دورِ حاضر کے انسان نے چاند اور زمین کے باہمی فاصلے کو سینٹی میٹر کی حد تک ٹھیک ٹھیک ناپ لیا ہے۔ بھلا پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ ہمیں اپنے گرد پھیلے ہوئے ٹھوس مائع اور بخارات کی صورت میں آبی ذخیرے اور ان کا ظرف معلوم نہ ہو۔ آبی ذخیروں کی تفصیل اور دستِ قدرت کی صناعی اتنی عجیب اور عیب سے پاک ہے کہ انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ پانی کا ۹۷ فیصد حصہ سمندروں میں ٹھاٹھیں مار رہا ہے جسے پینے کے لیے ہمیں کانِ نمک بننا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں سمندروں کی بجائے دستِ قدرت نے دریائوں، نہروں اور زیرِ زمین پانی کے وافر ذخیرے عطا کر دیے ہیں۔ نمکین و کھارے پانی کے بعد پانی کا دوسرا بڑا ذخیرہ قطبین کی برف اور گلیشیرز وغیرہ ہیں یوں زمین کے دونوں سروں پر وہ خوبصورت برفانی ٹوپیاں (Ice Caps) ہیں جنہیں دیکھ کر منہ میں پانی آ جاتا ہے مگر یہ ذخیرۂ آب جو کل پانی کا ۴۱ء۲ فیصد ہے بس ہاتھی کے دکھانے والے دانتوں کے مترادف ہے۔ اگر ہاتھی کے دانت دیکھ کر انسان ڈر جاتا ہے تو ان ذخیروں کو دیکھ کر ٹھٹھر جاتا ہے۔
دنیا بھر سے کل پانی کی نہایت قلیل مقدار ۰۳۱ء۰ فیصد بصورتِ بارش بحرو بر پر برستی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سمندر جہاں سے بادلوں کے سائباں بکثرت جنم لیتے ہیں اس بارش کا بیشتر حصہ (۰۲۴ء۰فیصد) خود وصول کر کے خشکی پر بسنے والوں کے لیے صرف ۰۰۷ء۰ فیصد حصہ چھوڑتے ہیں۔ یہ تمام تقسیم اس قادرِ مطلق کی ہے جس نے بے ستون آسمان اور لامتناہی کائنات کو نہ صرف تخلیق کیا بلکہ نظامِ ہستی رواں دواں رکھا ہوا ہے۔
بادی النظر میں قابلِ نوش پانی کی مقدار اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف معلوم ہوتی ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ جاپانی سروے کے مطابق آبِ نوش کی مقدار فی کس ۵۰۰ ملین لیٹر بنتی ہے۔ اگر روئے زمین پر موجود ہر شخص ۱۰۰ سال زندہ رہے (دھرتی کی خیر ہو…) تو ۲ لیٹر یومیہ فی کس کے حساب سے یہ مقدار ۰۰۰،۷۳ لیٹر ہو گی یوں پانی کی قلت کا دور دور تک کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ یہ ہماری بے حسی، ناقص حکمتِ عملی اور خود غرضی ہے کہ دنیا کی تقریباً آدھی آبادی کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ دورِ حاضر میں بنی نوع انسان نے ندی نالوں اور دریائوں کو تو خاکِ پا سمجھ کر نظر انداز کر دیا ہے، جبکہ پانی کے عظیم ذخیروں یعنی سمندروں کی سالمیت پر آلودگی کے بھرپور حملے کیے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے سمندروں میں ۰۳۶ ۱x ۴ء۰ ٹن پانی موجود ہے۔ ہر سال زمین پر دندناتے دریا ۱۰۱۴x۲ ٹن پانی اور ۱۰۱۱x۵ء۴ ٹن غلاظتیں بہا کر سمندروں کو مکدر بناتے رہتے ہیں۔ ہم انسان بھی ابر پاروں کے آبائی گائوں، بارشوں کے قابلِ اعتماد ذخیروں کو طرح طرح کی آلودگیوں سے ناکارہ بنا رہے ہیں۔ صنعتی فضلات ہوں یا ٹھوس آلودگیاں، آبِ نکاس ہو یا تیل کی ندیاں۔ ہم سمندروں کو کچرا دان بنا رہے ہیں۔ جاپان کے جزیرے میناماٹا میں پارے کی آلودگی سے مچھلیوں، مچھیروں اور دیگر جانداروں کی موت سے کون واقف نہیںہے۔ ہم آلودگی پھیلا کر سمندروں میں موجود اپنے آبی ذخیروں کے ساتھ ساتھ اَن گنت آبی حیات کو بھی موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ کیڈمیم کی آلودگی سے اٹائی اٹائی کی نامانوس بیماری بھی آبی حیات کے لیے المیہ سے کم نہیں ہے۔ آبی ذخیروں میں تیل اور پیٹرولیم کے پھیلائو سے دنیا بھر میں لاکھوں آبی پرندے، مچھلیاں اور دیگر آبی حیات صفحۂ ہستی سے وقتاً فوقتاً مٹتے رہتے ہیں۔ اب تو تیزابی بارش نے دریائوں، جھیلوں اور دیگر خوبصورت آبی ذخیروں کو بھی تباہ و برباد کرنا شروع کر دیا ہے یورپ کی بیشتر جھیلیں آبی حیات کو ترس رہی ہیں۔
سویڈن، ناروے، فن لینڈ میں آبی آلودگی کے باعث صرف مخصوص مقدار میں مچھلی کھانے کی اجازت ہے۔ مختلف قسم کی مچھلیوں میں Biomagnification کے عمل سے آلودگی ہزاروں گنا بڑھ جاتی ہے۔ یوں ہم پانی کے ساتھ ساتھ منفرد قسم کی غذائوں اور بہترین پروٹین سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے سمندری حصوں میں بھی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔ آبی حیات کے حوالے سے یہ کرشمہ کیا کم ہے کہ پانی برف بنتے ہوئے پھیلتا ہے یوں یخ بستہ خطوں میں برف کے نیچے بھی اس کے ذخیرے منجمد نہیں ہوتے ورنہ مچھلیاں اور دیگر جاندار جم کر آئس کریم بن جاتے۔ جہاں تک پینے کے پانی کی آلودگی کا تعلق ہے تو خود ریاست ہائے متحدہ امریکا کی متعدد ریاستوں میں زیرِ زمین پانی آلودہ ہے۔ دریائوں اور سطح زمین پر موجود پانی کی نسبت زیرِ زمین پانی کی آلودگی زیادہ خطرناک اور دیرپا ہے۔ اس سے چھٹکارا پانے میں صدیاں بیت جاتی ہیں۔ مملکتِ خداداد (پاکستان) میں زیادہ تر آبادی کا انحصار زیرِ زمین پانی پر ہے جبکہ کراچی میں آبادی کا انحصار سطح زمین پر موجود پانی (Surface Water) پر ہے۔ پاکستان میں آبِ نوش ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ ہمارے ہاں صرف ۶۱ فیصد شہری اور ۱۴ فیصد دیہی آبادی کو صاف پانی دستیاب ہے۔ ہماری دیہاتی خواتین پینے کے پانی کے حصول پر اپنی ۱۵ فیصد توانائی صَرف کرتی ہیں۔ اتنی توانائی سے تو ہم ملک کا گوشہ گوشہ روشن کر سکتے ہیں۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ دنیا میں پانی ہی پانی ہے مگر کئی ارب انسان آبِ نوش کو ترس رہے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ۲۵ ملین انسان آلودہ پانی کے سفاک ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں جبکہ بدنام زمانہ بیماری یعنی ملیریا سے صرف ۷ ملین افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ اتنی کثیر آبادی کی موت کے ذمہ دار بہرحال ہم انسان ہی تو ہیں فرشتے پارسا ہیں اور شیاطین ابھی اتنی ذلت پر نہیں اترے کہ یہ کارِبد کریں۔ انسان خود ہی شیطان کی پیروی میں یہ سب کچھ کیے جا رہا ہے۔ روئے زمین پر موجود دیگر جانداروں کا تو ذکر ہی بیکار ہے ہم تو آبی آلودگی پھیلا کر ہر گھنٹے میں ایک ہزار معصوم بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ فرعون نے تو حضرت موسیٰ کے خوف سے مغلوب ہو کر صرف اولادِ نرینہ کو قتل کیا تھا ہم تو بِلا تشخیص یہ گھنائونا جرم مرد و زن، جانوروں اور نباتات کے ساتھ نہ جانے کب سے کرتے آ رہے ہیں… ایک اندازے کے مطابق آبی آلودگی سے ہر سال ۸۰۰ ملین لوگ بیمار ہوتے ہیں ہم ان کی عیادت کی بجائے رہگزارِ کدورت پر اور بھی تیزگام ہوتے جا رہے ہیں۔ کیمیاوی مادہ ہو یا کیڑے مار دوائیں، صنعتی فضلات ہوں یا بڑے شہروں میں آبِ نکاس ہم ان بیماریوں کو جنم دے رہے ہیں جن کے نام حضرت آدمؑ نے آفرینش میں سنے بھی نہ ہوں گے۔ فرشتے نہ جانے ان بیماریوں کو کیونکر تحریر میں لاتے ہوں گے…
کہتے ہیں کہ کسی یہودی عورت کو انعامِ الٰہی صرف اس لیے ملے گا کہ اس نے پیاسے کتے کو پانی پلایا تھا ہم انسان تو انسان و حیوان اور نباتات کے لبوں سے آبِ نوش چھین کر تشنگی بڑھا رہے ہیں اور عذابِ آخرت بھی… ہمیں تو بچپن میں پڑھی ہوئی فاطمہ بنت عبداللہ کی وہ عظیم اور قابلِ تقلید کہانی نہیں بھولتی جو کہانی نہیں بلکہ ٹھوس حقیقت ہے جس میں زخمی مسلمان پانی پانی پکارتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کی پیاس کو ترجیح دیتے ہوئے تمام کے تمام پیاسے شہید ہو جاتے ہیں۔ اگر دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ جائے تو ہم چرند و پرند اور ہر ہر جاندار کو نہ صرف اپنی پیاس پر ترجیح دیں گے بلکہ آلودگی کے زہر سے آبی ذخیروں کو ناکارہ بھی نہیں بنائیں گے۔
صنعتی ترقی، توانائی، زراعت، خوشحالی کے لیے شہروں کی جانب نقل مکانی، کیمیاوی کھاد، کیڑے مار دوائوں وغیرہ کا دانش مندانہ اور متوازن استعمال دورِ حاضر کے لیے ناگزیر ہے۔ زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق آلودگی جنم ضرور لیتی ہے مگر اس کا مناسب سدِباب ہی انسان کی برتری اور دانش مندی کا مظہر ہے۔
پانی کے معاملے میں فضول خرچی نے بھی ہمیں بدحال کر دیا ہے۔ فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں شیطان کا بھائی کہا ہے۔ پانی کے معاملے میں فضول خرچی بلکہ شاہ خرچی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ۱۹۶۰ء میں ایک امریکی کی روزانہ پانی کی کھپت ۱۵۰۰ گیلن تھی۔ جو ۲۰۰۰ء تک ۲۷۰۰ گیلن ہو گئی۔ جبکہ ہم جیسے پسماندہ اور آئی ایم ایف، سی ٹی بی ٹی اور امریکا کے ڈسے ہوئے ملک میں ایک شریف شہری کو ۴۰ گیلن یومیہ مل جائے تو فرطِ جذبات میں ایٹمی دھماکے کرنے پر تُل جاتا ہے۔۔۔ جاری ہے!
(بحوالہ: ’’قرآن اور ماحولیات‘‘ سے اقتباس)
Leave a Reply