امریکی میڈیا مسلمانوں کے خلاف کیوں؟

افغانستان اور عراق کے معاملے میں، توہین آمیز کارٹون کے معاملے میں، مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ کر دنیا کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دینے میں، فلسطین کے معاملے اور دیگر سیاسی، سماجی و مذہبی اُمور میں اس مغربی میڈیا، امریکن میڈیا اور یورپی ممالک کے میڈیا نے مسلمانوں کو تیسری پارٹی بنا دیا۔ اس طرح میڈیا اور حکومت کے یک طرفہ ہو جانے نے ایک نئی فکر کو جنم دیا جو حقیقت سے قریب تھی اور ہے۔ اس جنگ میں خواہ وہ سرد جنگ ہو یا عراق پر امریکی حملہ اور قبضہ، اسرائیل کی زیادتی، ظلم اور ہٹ دھرمی ہو یا افغانستان کا معاملہ، ایران کا مسئلہ ہو یا بین الاقوامی اداروں کا، یورپی ذرائع ابلاغ نے حکومت کے مائوتھ پیس کا کام کیا ہے اور اس کی ہمنوائی کر کے عالمی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ نفسیاتی جنگ لڑی ہے۔ یہ کروسیڈ کی جنگ ہے، یہ صہیونیت کی جنگ ہے جو مسلمانوں کے ساتھ عمومی طور پر اور فلسطین و عراق کے ساتھ خصوصی طور پر لڑی جارہی ہے؟

اس صدی میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن مغربی میڈیا اور خصوصی طور پر امریکن میڈیا نے جس طرح کا کردار ادا کیا ہے، اُس نے عالمی پیمانے پر صحافت کے معیار اور صحافت کے وقار کو نہ صرف مجروح کیا ہے بلکہ عوام کی نظروں میں بھی گرا دیا ہے۔ اخبار اور موجودہ دور میں ٹیلیویژن ذرائع ابلاغ کا بہت ہی گراں مایہ اثاثہ ہے۔ اس کو سماج کا تیسرا ستون کہا گیا ہے۔ اس کی صحافتی ذمہ داری میں حکومت کو درست سمت میں چلنے میں راہ نمائی کرنی اور حقائی بیان کر کے سماج، قانون اور انتظامیہ کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا تھا لیکن دنیا کے ذرائع ابلاغ اور خصوصی طور پر امریکا اور دیگر مغربی ممالک و یورپین ممالک کے ذرائع ابلاغ نے جس طرح حکومت کے غیراخلاقی، غیرقانونی، غیرسماجی، غیرانسانی کاموں میں معاونت کی، حکومت کے جھوٹ کو فروغ دینے میں مدد کی اور جانب داری، تعصب، فرقہ پرستی اور نسل کشی کو بڑھاوا دیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔

اس معاملے میں چونکہ تمام برائیوں کا محور اور مرکز امریکا ہے، اس لیے امریکی اخباروں کا، امریکی حکومت اور خصوصی طور پر بش، وہائٹ ہائوس اور پنٹاگون کی ہمنوائی کرنا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ امریکا کے مشہور اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘، ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ اور ’’سی این این‘‘ چینل نے صحافت کے معیار کو نہ صرف گرایا بلکہ بہت سارے راز کو چھپا کر بش حکومت کو دوسری بار برسرِ اقتدار آنے میں مدد کی جیسے اندرونِ ملک فون ٹیپنگ کا معاملہ، ٹریڈ ٹاور پر حملہ کی سازش کو بے نقاب نہ کرنا، بش اور اس کی انتظامیہ جس نے عراق، افغانستان دہشت گردی اور دیگر جنگی اُمور کے فیصلے کیے تھے، اُن کی خبر ہونے کے باوجود ان رازوں کو چھپا کر رکھا جانا اور ہر قدم پر بش حکومت کی پشت پناہی کرنا۔ امریکی اخباروں اور خصوصی طور پر وہاں کے مشہور اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ اور ٹی وی چینلز ’’سی این این‘‘ نے فی الحال جس طرح فلسطین کے معاملے میں رپورٹنگ کی ہے وہ بھی اس بات کی عکاس ہے کہ یہ اخبارات اور ٹی وی فلسطین پر اسرائیل کے ذریعے کیے جارہے ظلم و ستم، فوجی کارروائی اور غیرانسانی شرمناک حرکتوں کے متعلق بڑے سے بڑے واقعات کو اہمیت نہیں دیتا اور نہ ان کی کوئی خبر دیتا ہے لیکن فلسطین کے چھوٹے چھوٹے واقعات جن کا تعلق اسرائیل کی سرزمین سے ہوتا ہے ایسی خبروں کو شہ سرخی کے ساتھ شائع کرتا ہے خواہ یہ خبر خودکش بم دھماکا ہو یا کسی موٹرکار اور موٹر سائیکل کا بم دھماکا۔ ایسے بہت سارے واقعات، وقوع اور حادثے ہیں جن میں نیویارک ٹائمز کا رویہ جانبدارانہ رہا ہے۔ اس کی مثال مشہور صحافی ریمی کناذی نے تاریخی واقعات کے ساتھ دی ہے۔

یکم ستمبر ۲۰۰۰ء میں اسرائیلی فوجیوں نے مقبوضہ فلسطین کے علاقے میں تین ہزار آٹھ سو افراد کو ہلاک کر دیا لیکن امریکا کے لوگوں کو خاص طور سے اور دنیا کو عمومی طور پر اس کے متعلق واقفیت نہیں لیکن ایک فلاحی ادارے نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں لکھا کہ اس فوجی کارروائی کے نتیجے میں مزاحمت کی وجہ سے ۸۰۸ فلسطینی اور ۱۰۷؍ اسرائیلی ہلاک ہوئے۔ اسرائیلی فوجیوں کی اس ہلاکت کو نیویارک ٹائمز نے صفحہ اوّل پر شہ سرخیوں کے ساتھ جگہ دی۔ یہی نہیں رپورٹ میں کہا گیا کہ نیویارک ٹائمز نے اس خبر کو ۱۵۹ بار شائع کیا جبکہ خبر میں صرف چالیس فیصد فلسطینیوں کے ہلاک ہونے کی بات کی گئی۔ مختلف عنوانات سے مضامین لکھے گئے اور یہ بتایا گیا کہ ایک اسرائیلی کے مقابلے میں آٹھ فلسطینی ہلاک کیے گئے۔ اس مضمون کا عنوان ۳۳۴ بمقابلہ ۸۰۸ تھا جسے شہ سرخیوں کے ساتھ صفحۂ اوّل پر شائع کیا گیا تھا لیکن ۸ جولائی ۲۰۰۸ء کو ماں اور باپ کے درمیان کار میں بیٹھے چودہ سال کے راغب المسری کو اسرائیلی فوجی نے گولی مار کر ہلاک کر دیا لیکن سی این این اور واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز کسی نے بھی اس خبر کو شائع نہیں کیا، نہ ان خطاکار، ظالم فوجیوں کو گرفتار کیا گیا اور نہ انھیں سزا دی گئی۔

فلسطینیوں کی ہلاکت کے متعلق خبر جو دہشت گردی کے ساتھ منسوب ہو اور اسرائیلی حکومت کا بیان ہو، اُسے امریکی میڈیا خصوصی خبر کا مقام دیتا ہے اور اسرائیلی حوالوں سے شائع کیا جاتا ہے۔ اس میں فلسطینیوں اور فلسطین کی آرا شامل نہیں ہوتیں لیکن اس خبر کی سچائی کو انسانی حقوق کے ادارے اور غیرسرکاری فلاحی اداروں کی تحقیق کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے بغیر تفریق فلسطینی عوام پر گولیاں برسائیں جیسا کہ ۲۰۰۱ء میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے لکھا کہ اسرائیلی فوجیوں نے ۴۷۰ فلسطینی بے گناہ عوام کو بے سبب ہلاک کیا۔ اس کے بعد دوسری رپورٹ میں انہی اداروں نے لکھا کہ ۳۳۵۰ فلسطینی عوام کو اسرائیلی فوجیوں نے بے سبب ہلاک کر دیا۔

۲۵ اگست ۲۰۰۵ء میں سی این این نے شہ سرخی لگائی ’’چھاپہ ماری میں اسرائیل نے پانچ دہشت گرد مار گرائے‘‘۔ اس خبر میں جن افراد کو دہشت گرد کہا گیا تھا، اُن پر بم بلاسٹ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام تھا جبکہ فلسطینی عوام سے اس سلسلے میں کوئی تفتیش نہیں کی گئی تھی۔ ان لوگوں پر خودکش بم دھماکا میں ملوث، فائرنگ کرنے اور ہتھیار رکھنے کا الزام تھا لیکن یہ بات نہیں کہی گئی کہ ان میں تین لڑکے اٹھارہ سال سے کم عمر کے تھے لیکن اسی واقعہ کو اسرائیل کے اخبار ہارٹیز نے لکھا اور بتایا کہ اسرائیلی فوج نے جن پانچ افراد کو گولی مار کر ہلاک کیا ان کی عمر چودہ سال سے سترہ سال تھی، ان کا کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا، ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا، انھوں نے ملٹری پر گولیاں نہیں چلائی تھیں۔ غزہ پٹی میں دخل اندازی کے بعد اسرائیلی فوجیوں کا یہ پہلا کارنامہ نہیں تھا لیکن سی این این نے اس واقعے کو دہشت گردی کہہ کر کئی دن دہرایا۔ بعد میں ایک فلاحی ادارے اور ہارٹیز کے تحقیق کا مشترکہ نتیجہ شائع ہوا جس میں اس کی وضاحت کی گئی کہ پانچ ہلاک شدہ افراد دہشت گرد نہیں، کسی تنظیم سے وابستہ نہیں، کم عمر لڑکے تھے جن کی عمر اٹھارہ سال کے اندر تھی۔ اسرائیل نے خودکش حملہ آور کو ہمیشہ اپنے حیلہ جوئی اور جھوٹی بیان بازی کے لیے استعمال کیا ہے۔ فلسطینیوں کو گرفتار کرنے اور اذیت دینے کے لیے استعمال کیا ہے۔

اس بی ٹی سولوم اور ہارٹیز کی رپورٹ سے یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ اسرائیل فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں کس قسم کا ظلم کر رہا ہے جو بالکل ناقابلِ قبول ہے۔ اسرائیلی حکومت اور فوج کو فلسطینیوں کی زندگی پر حق ہے، وہ جسے چاہیں ہلاک کر دیں جسے چاہیں گرفتار کر کے اذیتیں دیں۔ اس کی مثال موجود ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی غزہ پٹی کے علاقے پر قبضے کے بعد ۸۷۵ افراد ہلاک کیے جس میں فلسطینی عورتیں اور بچوں کی بڑی تعداد تھی۔

سوال یہ ہے کہ نیویارک ٹائمز اور سی این این فلسطینی عوام پر ہونے والے ظلم و ستم اور اسرائیلی فوجیوں کے ذریعے ان کی ہلاکت اور تباہی کی خبر کیوں نہیں دیتا؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ اگرچہ ان دونوں کو آزاد خیال کہا جاتا ہے لیکن یہ آزاد خیالی نہیں اور نہ یہ ایماندار ہیں۔ یہ صرف ناانصافی کو فروغ دیتے ہیں۔ انھیں اپنے پڑھنے والے گاہکوں، اشتہار دینے والے افراد اور کمپنیوں کا خیال اور خوف رہتا ہے۔ یہ خبروں کو اس وقت شائع کرتے ہیں جب انھیں یقین ہو کہ اس خبر سے ان کی شہرت ہو گی۔

اسرائیل نے ۱۹۶۷ء میں چھ روزہ جنگ امریکی تعاون اور مدد سے جیت کر رفتہ رفتہ خود کو مضبوط بنا لیا اور آج وہ امریکا کا بہترین دوست، معاون اور مشیرِ کار ہے۔ اسرائیل کا یہودی وطن کا نعرہ امریکا میں زیادہ کامیاب رہا، اس لیے کہ عیسائی قدامت پسند ان کے ہم خیال تھے۔ یہی نہیں، یہودیوں کا اعلیٰ طبقہ جو امریکا میں رہائش پذیر ہے، اس نے فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو جائز ٹھہرانے کا جواز بھی ڈھونڈ لیا کہ اسرائیل کی دشمنی امریکا کے دشمن کے ساتھ ہے۔ اس طرح امریکا اور اسرائیل ضابطہ اور اصولوں میں مشترک قرار پائے اور امریکا نے ایک پونجی وادی ملک کو تقویت ۱۹۷۳ء کی جنگ میں دی جسے یوم کی پوروار بھی کہا جاتا ہے اور آج امریکا اسرائیل کو ایک مضبوط فوجی اور سیاسی حلیف کے طور پر دیکھتا ہے۔

یہ اسرائیل کی موافقت والے گروپ کا کمال ہے جس نے اسرائیل کو کبھی موردِ الزام نہیں ٹھہرایا۔ فنکل اسٹین لکھتا ہے منتظم جیوری نے نازی اور ہولو کاسٹ کی بات کو اس طرح گمراہ کیا کہ اس سے اسرائیل پر تنقید اور اس کے کردار اور ناقابلِ تائید پالیسی پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔ اسرائیلی لابی نے امریکا پر ہرممکن دبائو ڈالا کہ وہ اسرائیل کو تعاون دے۔ اسی طرح زیادہ تر یورپین اسرائیلی جو ہر لحاظ سے امریکیوں کی طرح ہیں، دولت کے پجاری ہیں اور عربوں سے دہشت گردی کی جنگ لڑ رہے ہیں، امریکیوں کی طرح۔ وہی میڈیا فلسطینی خبروں کو جگہ نہیں دے رہا ہے۔ امریکا بھی اسے برا نہیں سمجھتا۔ حد یہ کہ اس کی نگاہ میں اسرائیل کا بیروت میں ۱۹۸۲ء میں بمباری کرنا، فلسطینی عوام کے ساتھ اس کا ظلم اور زیادتی وغیرہ بھی قابلِ ذکر نہیں لیکن یہی میڈیا فلسطینیوں پر ہو رہے ظلم کے بارے میں آواز نہیں اٹھا سکا اور آج ۶۰ سال سے یہ اسرائیلی ظلم و ستم جاری ہے۔ اسی میڈیا نے عراق کے معاملے میں بھی اپنا پرانا رویہ برقرار رکھا اور آخر کار باب روڈ ورڈ واشنگٹن پوسٹ کے ایڈیٹر نے اقرار کیا اور لکھا کہ ’’ہم نے اپنا کام کیا لیکن زیادہ نہیں کیا اور میں خود کو زیادہ ذمہ دار قرار دیتا ہوں کہ میں نے زیادہ طاقت کے ساتھ اسے نہیں کیا‘‘۔

امریکی میڈیا کی رپورٹیں اسپانسرڈ ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہاں فلسطینی گروپ نہیں ہے۔ یہودیوں کا ’’ببلیکل رائٹ‘‘ اور ’’ہولو کاسٹ‘‘ پر تحقیق کی ضرورت ہے کہ واقعی ان کے ساتھ ظلم کیا گیا تھا یا نہیں جبکہ اسرائیلی موافق گروپ یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ عرب اسرائیل کو سمندر میں دھکیل دینا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نیوکنزر ویٹو اور عیسائی اسرائیل کے ہمدرد اور دوست ہیں جیسا کہ ریڈیو پر مذاکرہ میں پیٹ روبرٹسن اور بل گراہم نے کہا۔ رش لمبو اور سیان ہینٹی ایلان، ڈرمشووٹز تھومس، فریڈمین یہ سبھی اسرائیل کے ہمدرد اور دوست ہیں۔ اس کے علاوہ بہت ساری کمپنیاں، سیاست داں اور صحافی ان کے دوست ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ امریکا میں میڈیا کی آزادی ایک فریب ہے۔

(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: ۱۶ فروری ۲۰۰۸ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*