شام کی مذہبی اقلیتیں

صورت حال جس قدر تیزی سے خراب ہوتی جارہی ہے، اسی قدر تیزی سے شام کی مذہبی اقلیتیں بھی بدحواس اور پریشان ہوتی جارہی ہیں۔

گیارہ ماہ قبل جب شام میں بشارالاسد انتظامیہ کے خلاف عوامی تحریک کی ابتدا ہوئی تو سرکاری پروپیگنڈا مشینری نے یہ تاثر دیا کہ ملک کی متشدد اسلامی اکثریت دراصل علوی اور عیسائی اقلیت کے ساتھ ساتھ سیکولر عناصر کی مخالفت میں اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ علوی اور عیسائی مل کر شام کی ۲ کروڑ ۲۰ لاکھ آبادی میں ۱۰ فیصد کے مساوی ہیں۔ جو کچھ شام کی پروپیگنڈا مشینری نے کہا وہ، ظاہر ہے، درست نہیں تھا۔ شام میں معاشرے کے ہر شعبے سے احتجاج کی صدائیں بلند ہوئی ہیں۔ حکومت جس انداز سے مخالفین کو کچلتی رہی ہے اور حقیقی جمہوریت کی راہ میں جس طرح روڑے اٹکائے جاتے رہے ہیں اس کے خلاف ہر فرقے اور نسل کے لوگوں نے احتجاج کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مختلف فرقوں کے اتحاد کو برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی جاتی رہی ہے۔ حمص کے شمال مشرق میں سلامیہ علاقے کے اسماعیلی بھی اب بشارالاسد انتظامیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ دروز اور کرد بھی مشتعل ہیں۔ ان کے نوجوانوں میں خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ دروز اور کرد رہنماؤں نے بھی اب بشارالاسد کے مظالم کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔

بشارالاسد انتظامیہ کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کا زور اب تک حمص شہر میں رہا ہے۔ حمص کی حد تک سرکاری پروپیگنڈا مشینری درست معلوم ہوتی ہے۔ حمص ملی جلی آبادی کا شہر ہے۔ اس شہر میں اب فرقہ وارانہ اور مذہبی بنیاد پر تقسیم واضح ہوتی جارہی ہے۔ لوگ علوی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف شدید نفرت کے حامل ہوتے جارہے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ علوی فرقے کے لوگوں نے تعداد میں بہت کم ہونے کے باوجود فورسز اور سول سروس میں اعلیٰ عہدوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اور حکومت کی سرپرستی میں کام کرنے والی ملیشیا میں بھی علوی نمایاں تعداد میں ہیں۔ عوام میں علویوں کے خلاف اس لیے بھی شدید اشتعال پایا جاتا ہے کہ حکومت مخالف تحریک چلانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی نگرانی علوی کرتے آئے ہیں۔ علوی فرقہ شیعہ اسلام کے مسلمہ نظریات سے اختلاف کرنے والا فرقہ ہے۔

بشارالاسد انتظامیہ میں شامل علوی فرقے کے تمام لوگ اس بات کے حق میں نہیں کہ کریک ڈاؤن جاری رکھا جائے اور عوام کو کچلا جائے مگر انہیں اس نظام سے الگ ہونے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ بشار کے رفقاء انہیں دھمکاتے رہتے ہیں کہ اگر بشار انتظامیہ گری تو ان کا انجام بھی برا ہوگا اس لیے اس نظام کو کسی نہ کسی طرح چلتا رکھنا چاہیے۔ ملک بھر میں جہاں جہاں علوی فرقے کے لوگ نمایاں تعداد میں ہیں وہاں حفاظتی انتظامات بہتر بنانے کے لیے ہتھیار تقسیم کیے گئے ہیں۔ علویوں کے ذہن میں یہ بات ٹھونس دی گئی ہے کہ ملک بھر کے لوگ ان کے خلاف ہیں اور انہیں اپنی حفاظت کےحوالے سے غفلت نہیں برتنا ہے۔ دمشق اور حمص میں بھی علوی اکثریت کے علاقوں میں حکومت نے بڑے پیمانے پر ہتھیار تقسیم کیے ہیں۔ بیرون ملک مقیم علویوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر حکومت مخالف تحریک میں علوی بھی نمایاں تعداد میں شامل نہ ہوئے تو بشارالاسد انتظامیہ کے خاتمے کے بعد شام علویوں کا قبرستان ثابت ہوگا۔ شام میں بہت سے علوی یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ انہیں دوبارہ پہاڑی علاقوں تک محدود رہنے پر مجبور کردیا جائے گا۔

عیسائیوں نے اب تک بشارالاسد انتظامیہ کا ساتھ دیا ہے۔ کئی عیسائی راہنمائوں نے بشارالاسد کا بھرپور ساتھ دیا ہے اور ان کے ذہن میں حکومت کے حوالے سے بظاہر کوئی خدشہ نہیں۔ حکومت نے اب تک عیسائیوں کی حمایت قبول کرنے کے معاملے میں خاصے تذبذب کا مظاہرہ کیا ہے۔ عیسائیوں کو خطرہ ہے کہ چار عشروں سے جاری سیکولر حکومت کے خاتمے کی صورت میں سنی مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگی اور ان کے لیے مشکلات کا دور شروع ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں ملک سے نکال دیا جائے۔

۲۰۰۳ء میں عراق میں حالات خراب ہونے پر بہت سے عیسائیوں کو نکلنا پڑا تھا اور ان میں سے بہت سے شام چلے آئے تھے۔ مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد قبطی عیسائیوں کے لیے مشکلات کا دور شروع ہوا۔ دمشق میں عیسائی اکثریت والے علاقے باب توما کے بہت سے مکین بشارالاسد انتظامیہ کے خاتمے کی صورت میں بیروت بھاگ جانے کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ایک عیسائی خاتون کا کہنا ہے کہ اگر بشار انتظامیہ کا خاتمہ ہوگا تو اسے یا تو نقاب استعمال کرنا پڑے گا یا پھر ملک چھوڑنا پڑے گا۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔۷ جنوری ۲۰۱۲ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*