اس وقت دنیا میں حکومت و سلطنت‘ افرادی قوت اور اسباب و وسائل کے اعتبار سے مسلمان کسی سے کم نہیں لیکن سب سے زیادہ مظلوم قوم مسلمان ہی ہے۔ وہ امت جو عدل و قسط کے قیام اور اصلاحِ عالم کے لیے برپا کی گئی تھی‘ آج وہ زوال و پستی کی اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ اخلاقی بگاڑ اور فساد کی کوئی ایسی شکل نہیں ہے جو بحیثیتِ مجموعی اس میں نہ پائی جاتی ہو۔ تقلیدِ جاہلیت کا یہ عالم ہے کہ بے دینی اور بد اخلاقی کی جتنی شکلیں مغرب کے افق پر نمودار ہوتی ہیں اس کو یہ امت اپنی متاعِ گمشدہ سمجھ کر اپنی تہذیب و ثقافت میں جذب کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اس میں حکمراں طبقہ اور خواص کچھ تیزی ہی سے پہل کرتے ہیں۔ اب تو ان کو کامل یقین ہو چکا ہے کہ مغرب کی بغیر اندھی تقلید کے وہ ترقی کر ہی نہیں سکتے۔ اس مغرب کی جو عالم شہود پر ایمان رکھتا ہے اور غیب اور آخرت کے تصور سے نجات پاچکا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ مسلمان مغرب کے علوم و فنون اور تحقیق و اجتہاد کو ترقی و خوشحالی کے لیے ضروری سمجھتا ہے بلکہ ان کی تمام ’’خوبیوں‘‘ کو بھی سمیٹ لینا چاہتا ہے جس میں جھوٹ‘ نفاق‘ عیاشی‘ فحاشی اور شراب و شباب سب شامل ہے۔ حالانکہ یہ امت رسولؐ ہاشمی اپنی ترکیب میں خاص امتیاز رکھتی ہے۔ یہ دوسری قوموں میں کھپ نہیں سکتی یا خود ان کو بدل جانا پڑے گا یا پھر یہ ان کو بدل ڈالیں۔ یہ امت دیگر قوموں کی طرح ایک قوم نہیں ہے جس کی کچھ جغرافیائی اور علاقائی شناخت ہو‘ جو کچھ مخصوص رسم و رواج کی پابند ہو جس کی اجتماعی اور انفرادی زندگی پرائیویٹ اور اجتماعی خانوں میں بٹی ہوئی ہو۔ جس کے پاس کوئی آفاقی اصولِ حیات اور ضابطۂ اخلاق نہ ہو بلکہ یہ ایک نظریاتی امت سے ایک مضبوط عقیدہ اور نظریہ حیات پر یقین رکھنے والی امت۔ رنگ و نسل‘ زبان و علاقہ اور اونچ نیچ اور ذات برادری کی تفریق و امتیاز سے پاک اور مبرا ایک امت‘ قرآن و سنت کی حامل امت پہ وہ امت ہے جس کو خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان اور اس کی غیرمشروط اطاعت جوڑ کر ایک امت بناتی ہے۔ یہ قیادت کے لیے پیدا کی گئی ہے تقلید کے لیے نہیں۔ یہ وہ امت ہے جو کبھی علم و عمل کی دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر چکی ہے‘ عالم انسانیت کو امن و سلامتی اور عدل و انصاف کی بہار دکھا چکی ہے‘ مساوات اور جمہوریت اور انسانی حقوق کی روشن مثال قائم کر چکی ہے اور مظلوموں کی حمایت محروموں کی دستگیری کا اعلیٰ ریکارڈ رکھتی ہے۔ مگر یہ تب کی بات ہے جب اس نے قرآن و سنت کی اساس پر جیسے فکری و علمی‘ تہذیبی و اخلاقی اور معاشی و سیاسی نقشہ تعمیر کیا تھا اور جب ان کے اخلاق و کردار سے حق پرستی چھلکتی تھی۔
(بشکریہ: ’’اخبارِ مشرق‘‘۔ کلکتہ)
Leave a Reply