حماس کی کامیابی شہیدوں کے لہو کی مرہون منت ہے!

اُم نضال فلسطین کی رکن پارلیمنٹ اور حماس کی حلقہ خواتین کی رکن ہیں۔ اصل نام مریم فرحات‘ لیکن ام نضال اور خنسائے فلسطین کے لقب سے معروف ہیں۔ حماس کے قیام کے اوائل سے ہی انہوں نے حماس کے حلقہ خواتین میں شمولیت اختیار کرلی اور تحریک آزادی فلسطین کی جدوجہد میں شریک رہیں۔ انہیں شہداء کی ماں کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے تین لخت جگر قبلہ اول کی آزادی کے لیے قربان کردیے اور صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے پورے گھر کو جہاد اور تحریک آزادی کا مرکز بنایا۔ ایک معلمہ ہونے کے ناطے انہوں نے اپنے طلبہ کی اس نہج پر تربیت کی کہ نہ صرف شہداء کی ماں قرار پائیں بلکہ تحریک آزادی کے لیے مجاہدین تیار کرنے والے ’’صانع الشہداء‘‘ بھی کہلاتی ہیں۔ بیٹوں کے علاوہ ان کے کئی دیگر رشتہ دار بھی مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اپنا خون پیش کرچکے ہیں اور بہت سے اسرائیلی زندانوں میں قید و بند کی صعوبتیں اٹھارہے ہیں۔

انضال نے گزشتہ ۲۶ جنوری کو فلسطین میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے پلیٹ فارم سے قانون ساز الیکشن میں حصہ لیا اور نمایاں انداز میں فتح یاب ہوئیں۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد ان سے لیا جانے والا انٹرویو پیش خدمت ہے۔


*…انتخابات میں حماس کی دو تہائی اکثریت کو آپ کس نظر سے دیکھتی ہیں‘ کیا آپ کو اتنی شاندار کامیابی کی توقع تھی؟

اُمِ نضال: بلاشبہ اللہ کا بڑا احسان ہے‘ اس نے ہمارے آنسوئوں کی لاج رکھی اور ہمیں فتح و کامرانی سے سرفراز فرمایا۔ یقینا ہمارے لیے اور پوری فلسطینی قوم کے لیے یہ مسرت کی بات ہے لیکن حقیقی خوشی تو یہ ہے کہ فلسطینی عوام نے حماس کو کامیاب کراکے اسلام کو ’’اپنی مشکلات کا حل‘‘ قرار دیا۔ فلسطینی عوام کا اسلام کی طرف رجوع سب سے زیادہ باعث مسرت ہے۔

رہی یہ بات کہ مجھے اس کی توقع تھی یا نہیں۔ ایک مومن کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے اور مجھ سمیت حماس کے دیگر اراکین نہ صرف کامیابی کی امید رکھتے تھے بلکہ ہمیں اللہ کے فضل و کرم سے کامیابی کا پورا یقین تھا۔ اگرچہ فلسطینی عوام اور حماس کے دشمنوں نے اسے ناکام بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔

*…آپ اس کامیابی کو کے نام کرنا چاہئیں گی؟

اُمِ نضال: میں اس کامیابی کو فلسطینی شہیدوں‘ غازیوں اور مجاہدوں کے نام کروں گی جن کی جاں نثارانہ قربانیوں نے ہماری کامیابی کا راستہ ہموار کیا۔ میں اس کامیابی کو ان مائوں کے نام کروں گی‘ جن کے جگر گوشے قابض صہیونیت کی سفاکیت کا نشانہ بنے‘ یہ کامیابی ان نونہالوں کے نام جن کا مستقبل اسرائیل نے تاریک کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور ان قیدیوں کے نام جنہوں نے قبلہ اول اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے طرح طرح کی مشکلات برداشت کیں لیکن ا ن کے پائے ثبات میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے خون نے ہماری کامیابی میںرنگ بھرا ہے او ریہی ہماری کامیابی کے ضامن ہیں۔

*…قانون ساز اسمبلی کی رکن بننے کے بعد آ پ کے عزائم کیا ہیں؟

اُمِ نضال: میں اس بات کو قطعاً پسند نہیں کرتی کہ میرے پاس کوئی بڑا عہدہ او رمنصب ہو‘ لیکن مجھے قوم کی خدمت کا موقع نہ ملے۔ میری پہلی ترجیح فلسطینی قوم کی ہر سطح پر خدمت ہے اور اسی ارادے کے تحت میں نے الیکشن میں حصہ لیا۔

*…کیا حکومت کی تشکیل کے لیے حماس اپنے موقف سے پسپائی اختیار کرے گی؟

اُمِ نضال: نہیں ایسا قطعاً نہیں ہوسکتا۔ حماس کی اپنی اسٹرٹیجک پالیسیاں اور مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ایک دیرینہ موقف ہے۔ اس سے پسپائی ناممکن ہے۔ حماس نے اس وقت اپنے موقف سے پسپائی اختیار نہیں کی جب چاروں طرف سے اس پر حملے ہورہے تھے آئندہ ایسا کیوں کر ہوسکتا ہے؟

*…حکومت بنانے کی صورت میں حماس کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؟

اُمِ نضال: حماس کو بے شمار چیلنجز درپیش ہیں۔ اندرون ملک تبدیلی و اصلاح کا چیلنج‘ علاقائی صورتحال مثلاً اسرائیل کا معاندانہ رویہ‘ بین الاقومای برادری خصوصاً امریکا اور یورپ کا حماس کے بارے میں موقف وغیرہ سب چیلنج ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ کوئی امداد بند کرنے کی دھمکی دے رہا ہے اور کوئی کڑی شرائط عائد کررہا ہے۔ کسی کا مطالبہ ہے کہ اپنے موقف سے دستبردار ہوجائو۔ ہمیں بیرونی چیلنجز سے بھی نمٹنا ہے اور اندرونی مسائل ‘ معیشت کی بہتری‘ صنعت و تجارت کا فروغ‘ سستے انصاف کی فراہمی اور شہریوں کو مناسب روزگار اور تعمیر نو جیسے مسائل اور چیلنجز بھی حل کرنے ہیں۔ ہم انشاء اللہ تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

*…حکومت تشکیل دینے کے بارے میں آپ کیا کہیں گی؟

اُمِ نضال: حکومت تشکیل دینے کے بارے میں حماس کا موقف واضح ہے۔ کامیابی کے فوراً بعد حماس نے ’’الفتح‘‘ سمیت دیگر جماعتوں سے مل کر حکومت تشکیل دینے کی پیشکش کی تھی۔ حماس ذاتی حکومت کی قائل نہیں او رجمہوریت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دوسری پارٹیوں کو بھی ساتھ لے کر چلا جائے۔ حماس کو مختلف النظریات پارٹیوں کا سامنا کرنے کے باوجود انہیں ساتھ لے کر چلنے میں کوئی تحفظ نہیں۔ لیکن ’’الفتح‘‘ نے ہماری پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا۔

*… حماس یورپی یونین اور امریکا سے کیسے تعلقات کی خواہاں ہے؟

اُمِ نضال: حماس عالمی براردی سے دوستانہ لیکن غیر مشروط تعلقات کی خواہاں ہے۔ اس اصول کے تحت حماس دوسرے ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کو تیار ہے تاہم اگر کوئی ملک اسرائیلی مفادات کو پیش نظر رکھے یا فلسطینی عوام کے حقوق کا پاسدارنہ ہو تو ایسی صورت میں خوشگوار تعلقات قائم نہیں کیے جاسکتے۔

*…عرب ممالک اور ان کی حکومتوں کو آپ کس نظر سے دیکھتی ہیں؟

اُمِ نضال: عرب ہمارے بھائی ہیں۔ حماس کی کامیابی عرب دنیا اور عالم اسلام کی کامیابی ہے۔ ہم عرب حکومتوں اور عوام سے توقع رکھتے ہیںکہ اس مشکل گھڑی میں وہ ہمارے پشتیبان ہوں گے۔ یہ ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہمارے ممدوومعاون بنیں اور ماد ومعنوی ہر سطح پر مظلوم اور غریب فلسطینی عوام کی مدد کریں۔

*… آپ کی طرف سے فلسطینی عوام کے نام کوئی پیغام؟

اُمِ نضال: اولاً تو میں پوری فلسطینی عوام کو مبارکباد پیش کرتی ہوں کہ انہوں نے اتنے مشکل حالات میں صحیح معنوں میں جمہوری رویے کا ثبوت دیتے ہوئے حماس کو آگے آنے کا موقع فراہم کیا۔ یہ کامیابی صرف حماس کی نہیں پوری فلسطینی عوام کی کامیابی ہے۔ میں ان سے صرف اتنا کہوں گی کہ وہ اپنے آپ کو ایک مضبوط قوم کے طور پر تیار کریں۔ حماس نے بھی اس نظریے کے تحت الیکشن میں حصہ لیا تاکہ اندرونی سطح پر قوم کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرے۔ فلسطینی عوام اپنے منتخب نمائندوں کی اپنے اپنے دائرے میں رہ کر مدد کریں اور مشکلات میں صبر سے کام لیں۔ کسی کی طرف سے دھمکیوں پر کان نہ دھریں۔ خود کو ایک مضبوط قوم کے طور پر متعارف کرائیں اور یہ ثابت کردیں کہ فلسطینی عوام ہر مشکل میں تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

*… حماس کے اراکینِ پارلیمنٹ کے لیے آپ کی کیا ہدایت ہوں گی؟

اُمِ نضال: میں اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے کارکنوں کو ان کی محنتوںاور کاوشوں کی قبولیت پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ انہوں نے فلسطین میں ہر سطح پر ایک ماڈل کردار ادا کیا ‘ حتیٰ کہ لوگ ان کے اردگرد اکٹھے ہوگئے اور انہیں اپنا نمائندہ منتخب کیا۔ انہیں چاہیے کہ اللہ کی اس نعمت کا شکر بجا لائیں۔ اللہ سے اس عظیم ذمہ داری کی ادائیگی کی توفیق مانگیں اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ سے ہروقت مدد مانگتے رہیں۔ اس میدان (سیاست کے میدان) میں بھی ثابت قدم رہین جیسے میدان کارزار میں انہوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا‘ یہی میرا ان کے لیے پیغام ہے۔

(بشکریہ: پندرہ روزہ ’’جہادِ کشمیر‘‘ راولپنڈی۔ شمارہ: یکم تا ۱۵ جون ۲۰۰۶ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*