
جوہری توانائی کے عدم پھیلائو کے معاہدے (NPT) کی خلاف ورزی کرنے والوں اور عالمی سطح پر نجی اور خفیہ اداروں کی طرف جو جوہری توانائی کی ٹیکنالوجی ایران‘ لیبیا اور شمالی کوریا منتقل کرنے کی الزام میں ملوث ہیں‘ بین الاقوامی برادری جس طرح اپنی توجہ مرتکز کیے ہوئے ہے‘ بدقسمتی سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سرکردگی میں پاکستانی سائنسدان اس کا نشانہ بن گئے ہیں۔ تاہم بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے افسرِ اعلیٰ البرادی نے اس بارے میں ایک بیان دیا ہے اور کہا ہے کہ ڈاکٹر خان تو جوہری توانائی کے برفانی تودے کا محض ایک سرا ہیں‘ تودے کا بقیہ حصہ عرصہ سے یورپ اور امریکا پہنچا ہوا ہے‘ جس کا نہ صرف فرانس اور امریکا جیسے ممالک کو علم ہے بلکہ وہ خود اس میں ملوث ہیں:
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
دراصل جوہری توانائی کے اولین پھیلانے والوں میں امریکا اور فرانس کی حکومتیں نمایاں طور پر ملوث ہیں‘ افراد نہیں بلکہ ان دونوں ملکوں کی ذمہ دار حکومتیں۔ جس ملک نے اس سے فائدہ اٹھایا وہ اسرائیل ہے۔ اسرائیل کا جوہری توانائی کا پروگرام جس کا آغاز ۱۹۵۲ء میں ہوا تھا اور اس کے ایٹمی توانائی کے کمیشن کا قیام عمل میں آیا تھا درحقیقت فرانس کی حکومت کی امداد سے ہی عملی شکل اختیار کر گیا۔
ابتدا میں فرانس نے اسرائیل کو ۱۹۵۶ء میں ۱۸ میگاواٹ کا جوہری توانائی ری ایکٹر فراہم کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا لیکن بعد میں ۱۹۵۶ء کی جنگ سویز میں اسرائیل کی حمایت کے بدلے میں فرانس نے اسرائیل کی جوہری توانائی کے حصول کی خواہش پوری کرنے کے لیے اس سے بڑھ کر امداد کی یقین دہانی کرائی لہٰذا جب اسرائیل نے مصر پر حملہ کر دیا تو (اکتوبر ۱۹۵۷ء میں) ۲۴ میگاواٹ کا ری ایکٹر فراہم کرنے کے لیے معاہدے میں ترمیم کی گئی اور آلات کو ٹھنڈا رکھنے اور جوہری فضلے کو ٹھکانے لگانے کی سہولتوں کے طریقوں کو اس معیار پر تیار کیا گیا جو اس سے سہ گنی توانائی کے ری ایکٹر کے لیے بھی کافی ہوں۔ اس میں سے کوئی عمل بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے حفاظتی اقدامات سے کسی بھی اعتبار سے بھی مطابقت نہ رکھتا تھا۔ لطف یہ ہے کہ دستاویزی شرائط کے مسودے (Protocols) تحریر کرائے بغیر یہ بھی طے کیا گیا کہ فرانس اسرائیل کو یورینیم (Uranium) کو مختلف مراحل سے گزارنے کے لیے ایک کیمیاوی ری پروسیسنگ پلانٹ (Chemical Reprocessing Plant) بھی فراہم کرے گا۔ فرانس اور اسرائیل کے درمیان اس معاہدے سے پہلے کبھی کسی ملک نے کسی دوسرے ملک کو جوہری توانائی کے حصول کے لیے ذرائع فراہم نہیں کیے۔
اسرائیل کے ساتھ اس معاہدے کے تحت فرانس نے اسرائیل کے ری ایکٹر کے لیے ثقیل پانی (وہ پانی جس میں ہائیڈروجن کی مقدار زیادہ ہو) ناروے سے خریدا اور اس طرح ناروے کی حکومت کو دی ہوئی اس یقین دہانی کی خلاف ورزی کی کہ وہ کسی تیسرے کو یہ ثقیل پانی منتقل نہیں کرے گا۔ فرانسیسی ایئر فورس نے خفیہ طریقے سے بذریعہ ہوائی جہاز ۴ ٹن ثقیل پانی اسرائیل کو پہنچا دیا۔ فرانسیسی حکومت نے اپنے اس پُرفریب عمل کو جاری رکھنے کے لیے اور بہت سے اقدامات کیے۔ مثلاً ایک رپورٹ کے مطابق فرانسیسی کسٹم کے عملے کو یہ بتلایا گیا کہ ری ایکٹر کے بہت بڑے پرزے یعنی ری ایکٹر ٹینک دراصل لاطینی امریکا کو بھیجے جانے والے پانی کی نمکینی کو دور کرنے والے پلانٹ Desalination Plant کا حصہ ہیں۔
اس پروجیکٹ پر فرانس اور اسرائیل کے درمیان اختلافات ہو جانے کے باوجود ۱۹۶۰ء میں فرانس اسرائیل کو ری ایکٹر کے پرزوں کی فراہمی مکمل کرنے کے لیے رضامند ہو گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۶۴ ۱۹ء میں ڈائمونا (Dimona) ری ایکٹر نے کام کرنا شروع کر دیا بلکہ فرانس نے اسرائیل میں ری پروسیسنگ کمپلیکس (Reprocessing Complex) بھی بنا دیا۔
فرانس کو اس بات کا ذرا سا احساس بھی نہ ہوا کہ اس نے اسرائیل کو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے بنیاد فراہم کر کے کوئی غلطی کی ہے بلکہ فرانسس پیرین (Francis Perrin) نے جو فرانسیسی محکمہ رسد رسانی (L’Energie Atomidue) کا سابق ہائی کمشنر تھا بتایا کہ فرانس نے ۱۹۵۰ء کی دہائی میں اسرائیل کے جوہری توانائی کے پروگرام میں تعاون کر کے امریکا کے ساتھ کیے گئے کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی کیونکہ ایسے کسی معاہدے کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔
لہٰذا ان دلائل کی روشنی میں وہ ملک اور ان ملکوں کے شہری جنہوں نے این پی ٹی (NPT)‘ ایم ٹی سی آر (MTCR) یا اسی قسم کے دوسرے معاہدوں پر دستخط نہیں کیے ہیں وہ دوسرے ملکوں کی میزائل اور جوہری توانائی کے حصول میں امداد کر کے کسی جرم کے مرتکب نہیں ہوتے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یوں سمجھا جائے گا کہ کیا مختلف ملکوں کے لیے مختلف معیار ہیں اور دلائل بھی کیا ان کے لیے مختلف ہیں اور یہ فرق کیا مذہب کی بنیاد پر بھی برتا جاتا ہے؟ اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ پیرن نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ممکن ہے فرانس نے برطانیہ کے ساتھ کیے ہوئے کسی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہو۔ وہ فرانسیسی سائنسدان جو امریکا‘ کینیڈا اور برطانیہ کے درمیان جوہری توانائی کے سلسلے میں اشتراک میں شریک تھے وہ برطانوی حکومت کی طرف سے فری فرنچ ادارے کے رکن کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور انہوں نے برطانیہ کے آفیشل سیکریٹس ایکٹ (British Official Secrets Act) پر دستخط بھی کیے تھے۔
اسرائیل کے جوہری توانائی کے حصول کے پروگرام میں اعانت اور حوصلہ افزائی کے لیے فرانس تنہا نہ تھا۔ امریکا کو جو کہ خاص طور پر اسرائیل کو فوجی امداد دینے والا ملک ہے‘ اسرائیل کے جوہری توانائی کے حصول کے پروگرام کا پوری طرح علم تھا۔ انڈیانا یونیورسٹی کے فیلو سرٹموتھی گارڈن (Sir Timothy Garden) کے مطابق اسرائیل نے ۱۹۵۴ء میں امریکا کے ساتھ جوہری توانائی کے حصول میں باہمی تعاون کے معاہدے پر دستخط کر دیے تھے۔ ۱۹۵۵ء اور ۱۹۶۶ء کے درمیان اسرائیل کے پچاس سے زیادہ جوہری توانائی کے ماہرین نے امریکا کے سب سے بڑے سائنسی اداروں میں ابتدائی تربیت حاصل کی تھی۔ اسرائیل نے ۱۹۵۵ء ہی سے ۶ سے لے کر ۱۰ کلو گرام سالانہ کی مقدار میں یورونیم حاصل کرنا شروع کر دیا تھا جو ۱۹۶۶ء تک ۴۰ کلو گرام تک پہنچ گیا تھا۔ ۱۹۵۵ء میں امریکا نے اسرائیل کو ایک چھوٹا جوہری توانائی کا ری ایکٹر فراہم کیا جو ۱۹۶۰ء میں چلنے لگا۔ ۱۹۵۸ء میں امریکا کے جاسوسی ہوائی جہازوں نے ڈائمونا کمپلیکس کی تصویریں اتاریں لیکن امریکا کا ایٹمی توانائی کا کمیشن (AEC) ۱۹۶۰ء کی دہائی کے آخری حصہ میں اسرائیلی حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے ڈائمونا کی سہولتوں کا معائنہ نہ کر سکا۔ ایک تجزیہ نگار روہان پیٹرس (Rohan Pearce) کے مطابق اپنے جوہری توانائی کے کمپلیکس کے معائنے میں مزاحمت کرنے اور اس کے اوقات کو بدلنے کے علاوہ ایٹمی توانائی کے کمیشن AEC کے اراکین کو بیوقوف بنانے کے لیے اسرائیل نے ظاہری رکاوٹ کی دیواریں اور اینٹوں کے دریچے کھڑے کر دیے تھے۔ جیسا کہ پیئرس نے لکھا ہے کہ اکتوبر ۱۹۶۹ء کی امریکی حکومت کی ایک تحریر جس میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے افسران اور اے ای سی (AEC) کے نمائندوں کے درمیان تبادلۂ خیال ہوا‘ ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل کا جوہری توانائی کے ہتھیار تیار کرنے کی سہولتیں رکھنا امریکا کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس تحریر سے یہ واضح ہو گیا کہ امریکا خود اسرائیلی جوہری توانائی سے کمپلیکس کے حقیقی معائنے کی حمایت نہیں کرتا۔
فرانس اور امریکا کی طرف سے اسرائیل کے جوہری توانائی کے بلاتحفظ حصول میں امداد کرنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ ڈائمونا کا جوہری توانائی کا کمپلیکس ۸ کلو گرام سالانہ کی مقدار میں پلوٹونیم تیار کرنے لگا جسے مزید کارآمد بنانے کے عمل (Reprocessing) سے گزار کر اسرائیل ایک یا دو جوہری توانائی کے ہتھیار بنا سکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
۱۹۶۷ء سے لے کر جنوبی افریقہ میں نسلی منافرت (Aparthied) کے زوال تک اسرائیل نے ڈائمونا کمپلیکس کے لیے جنوبی افریقہ کی نسلی منافرت کی حامی حکومت کے ذریعے ۵۵۰ ٹن کی مقدار میں یورینیم حاصل کیا۔ یہ بات عام ہے کہ دونوں ملکوں نے مشترکہ طور پر ستمبر ۱۹۷۹ء میں جوہری توانائی کے ہتھیاروں کو بحرہند میں ٹیسٹ کیا۔ ۱۹۹۷ء میں اسرائیلی پریس کی خبروں کے مطابق یہ بات واضح ہو گئی کہ دونوں ملکوں نے جوہری توانائی کی صلاحیت کے حصول کے لیے ایک دوسرے کی مدد کی۔ ۱۹۸۶ء میں پہلی مرتبہ اسرائیل کے جوہری توانائی کے ہتھیار رکھنے کی علی الاعلان تصدیق کی گئی جبکہ موردیچائی ونونو (Morde chai Vanunu) نے برطانیہ کے سنڈے ٹائمز کو اسرائیلی جوہری توانائی کی سہولتوں کی تصاویر دے دیں۔ ونونو ڈامونا میکون۲ (Dimona Machon-2) میں ۱۹۷۶ء اور ۱۹۸۵ء کے درمیان ایک ٹیکنیشن کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ اس کے بعد اسے فلسطینی سیاست کی بائیں بازو کی تنظیم کی حمایت کے الزام میں برطرف کر دیا گیا۔ میکون ۲ پلوٹونیم اور جوہری بم کے اجزاے ترکیبی بنانے کے لیے مشہور ہے۔
ان تمام معروف حقائق کے ساتھ امریکا جوہری توانائی اور فوجی صلاحیت کے حصول میں اسرائیل کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے۔ اکتوبر ۱۹۹۸ء میں اسرائیل اور امریکا نے ایک معاہدہ کیا جس کے ذریعہ امریکا نے اسرائیل کی دفاعی اور مزاحمتی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ ایک اور معاہدہ جس کے متعلق فروری ۲۰۰۲ء میں علم ہوا‘ جوہری توانائی اور توانائی کی دوسری ٹیکنالوجیز (Technologies) کے حصول میں تعاون سے متعلق تھا۔ اس معاہدے کے ذریعے اسرائیل کے سائنسدانوں کو امریکی جوہری ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کی ایک مرتبہ پھر اجازت مل گئی ہے۔ لہٰذا اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اکتوبر ۲۰۰۳ء میں اسرائیل اور امریکی کارکنان نے یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے امریکا کے ہارپون کروز میزائل (Missile Harpoon Cruise) جو نیوکلیئر وار ہیڈس (Nuclear Warheads) سے مسلح تھے‘ اسرائیل کو فراہم کرنے میں تعاون کیا جو اسرائیل کے ڈولفن کلاس سب میرینز (Dolphin Class Sub Marines) کے فلیٹ (Fleet) کا حصہ بنے (جنگ کے مقاصد کے لیے زیرِ آب چلنے والی آبدوز کشتیوں کا بیڑا)۔
اسرائیل کو جوہری توانائی کی صلاحیت فراہم کرنے کے لیے جوہری توانائی کے پھیلائو میں امریکا اور فرانس کے اس کردار کے علاوہ جوہری توانائی کے میدان میں ہندوستان اور اسرائیل نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ہے اور یہ بات سب کے علم میں ہے کہ ہندوستان نے ۱۹۹۸ء میں جب دوسری مرتبہ اپنی جوہری توانائی کا ٹیسٹ کیا تو یہ ہندوستان اور اسرائیل کا ایک مشترکہ منصوبہ تھا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ہندوستان کے جوہری توانائی کے ماہرین جوہری ٹیکنالوجی کے میدان میں ۱۹۸۰ء کی دہائیوں سے اسرائیل کے ساتھ اشتراک کے لیے کوشش کر رہے تھے۔ مساڈ (Mossad) کے ایک سابق ایجنٹ اوسٹرووسکی (Ostrovsky) نے اپنی کتاب (By Way of Deception) میں بیان کیا ہے کہ اسے یہ کام بھی سپرد کیا گیا تھا کہ وہ ۱۹۸۴ء کی جولائی کے وسط میں ہندوستانی جوہری توانائی کے سائنسدانوں کے ایک گروپ کے ساتھ اسرائیل جائے جو اسرائیلی جوہری توانائی کے ماہرین کے ساتھ ملاقات اور اسی موضوع پر تبادلۂ خیال کے خفیہ مشن پر آئے تھے۔
یہ بھی قابلِ غور ہے کہ جوہری توانائی کے پھیلائو میں ملوث ممالک میں یہ کوششیں صرف حکومتی سطح تک محدود نہیں تھیں بلکہ امریکا کی جوہری توانائی کی تمام سہولتوں سے جوہری مواد چرا کر اسرائیل پہنچایا گیا جس کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں اور امریکا میں ایسے افراد موجود ہیں جو امریکا میں اہم مقامات پر فائز ہیں اور اسرائیل کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس کی مثال جوناتھن پولارڈ (Jonathan Pollard) کے مشہور و معروف قصے سے دی جاسکتی ہے (جسے امریکا نے قید کر دیا تھا اور اسرائیل نے قید کے دوران ہی اس کی خدمات کے صلہ میں اسے اسرائیلی شہریت سے نواز دیا تھا)۔
لہٰذا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ آج بھی اسرائیل کے اسلحہ خانہ میں تقریباً ۳۰۰ جوہری توانائی کے ہتھیار موجود ہیں۔ اس کے باوجود بے حد مہلک ہتھیاروں پر عمومی طور سے جو بین الاقوامی مباحثے ہوتے ہیں اور جو خصوصی طور سے جوہری توانائی سے متعلق ہوتے ہیں ان میں سے کسی میں بھی اسرائیل کے اس پہلو کو کبھی زیرِ غور نہیں لایا جاتا۔
امریکا اور یورپی ممالک کی طرف سے جوہری توانائی کا پھیلائو حکومتی سطح تک ہی محدود نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپین حکومتوں کی طرف سے ان دھڑوں اور خفیہ تنظیموں کو بے نقاب کرنا اور این پی ٹی (NPT) اور این ایس جی (Nuclear Suppliers Group) کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر انہیں سزا دینا باقی ہے۔ اگر ایران اور آئی اے ای اے (IAEA) نے اس سلسلے میں پاکستان کی نشاندہی کر کے پاکستان کو ذمہ دار قرار دیا ہے تو اس کے ساتھ انہوں نے کچھ یورپی ممالک مثلاً جرمنی اور ہالینڈ کو بھی ملوث قرار دیا ہے لیکن مغربی پریس میں اس معاملے میں ان دونوں ممالک پر کوئی تنقید نہیں کی گئی جب کہ وہی پریس پاکستان کو نشانہ بنا رہا ہے اور اس سے بیزاری کا اظہار کر رہا ہے۔ یہ ایک عجیب تضاد ہے۔ مانا کہ کچھ پاکستانیوں نے اس سلسلے میں غیرمناسب طرزِ عمل اختیار کیا ہو اور حصولِ دوکت کی طمع نے انہیں قومی مفاد اور قواعد و قوانین کی خلاف ورزی کی طرف راغب کر دیا ہو لیکن خلاف ورزی کے اس انفرادی عمل سے پاکستان نے نہ تو بین الاقوامی معاہدوں کو پامال کیا اور نہ قوانین کی خلاف ورزی کی کیونکہ پاکستان نہ تو این پی ٹی (NPT) میں شامل ہے اور نہ این ایس جی (NSG) کا رُکن ہے۔
یہ جواز ان یورپی ممالک اور افراد کے متعلق یقینا نہیں پیش کیا جاسکتا جنہوں نے افزودگی کی ٹیکنالوجی اور جوہری توانائی سے متعلق دوسری معلومات ایران اور اسرائیل جیسے ممالک کو فراہم کی ہیں۔ بالآخر فرانس اور امریکا نے این پی ٹی (NPT) پر اسی طرح دستخط کیے ہیں جس طرح جرمنی اور ہالینڈ نے کیے اور یہ سب ممالک این ایس جی (NSG) کے بھی رکن ہیں لہٰذا اگر وہ حکومتی سطح پر یا افراد کی حیثیت سے نجی طور پر جوہری توانائی سے متعلق معلومات کی منتقلی کے مرتکب ہیں تو وہ نہ صرف اپنے ہی قوانین کی خلاف ورزی کے جرم میں ملوث ہیں (کیونکہ این ایس جی کے قواعد و ضوابط رکن ممالک کے برآمدی قوانین کا حصہ ہیں) بلکہ بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کے بھی۔ لہٰذا اسی کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔
ڈچ حکومت نے بالآخر اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ حساس جوہری توانائی کی ٹیکنالوجی جسے ایک ڈچ کمپنی نے تیار کیا تھا شمالی کوریا‘ لیبیا اور ایران منتقل کر دی گئی ہو۔ اسی بات کا نیدر لینڈ کی حکومت کی دو وزارتوں نے بھی ۱۹ جنوری ۲۰۰۴ء کو اعتراف کیا ہے لیکن جو افراد منتقلی کے اس عمل میں ملوث ہیں‘ اُن کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہالینڈ میں ایسے حساس تنصیبات کی حفاظت اس طرح کیوں نہیں کی جاتی جس طرح جوہری توانائی کی سہولتوں کی حفاظت کی جانی چاہیے‘ بالخصوص جوہری توانائی نہ رکھنے والے علاقوں میں جو این پی ٹی (NPT) کے رکن بھی ہیں؟
یورپ کے نجی اداروں کی حساس جوہری توانائی کی ٹیکنالوجی کی منتقلی کا کاروبار اس قدر وسعت اختیار کر چکا ہے کہ آئی اے ای اے (IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر جوہری توانائی سے متعلق مواد اور اس کے پرزوں کی منتقلی کا کالا دھندا (ممنوعہ کاروبار) اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ہتھیاروں کے متلاشی ممالک کے لیے اسے وال مارٹ (Wal-Mart) کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے جسے ہم نجی سیکٹر کے جوہری توانائی کے پھیلائو کا وال مارٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ یورینیم کی افزودگی کی مختلف معلومات سے متعلق کوئی بات بھی صیغۂ راز میں نہیں ہے لہٰذا جب یہ معلومات چوری چھپے بعض افراد کی کج روی کے ذریعے حاصل کی گئی ہوں تو صاف ظاہر ہے کہ نہ کوئی خفیہ راز چرایا گیا ہے اور نہ اسے افشا کیا گیا ہے۔ یہ بھی قابلِ غور ہے کہ سوئیڈن کے بے حد قابلِ اعتماد ادارے نے جس کا کام ہتھیاروں پر پابندی لگانا اور تخفیف اسلحہ اور امن و امان سے متعلق تحقیق کرنا ہے جسے ایس آئی پی آر ای (SIPRI) کہا جاتا ہے اپنی ۱۹۸۳ء کی مطبوعہ کتاب Uranium Enrichment And Nuclear Weapons Policy میں جس کے مصنف کراس ایت ایل (Karass,et al) ہیں‘ یورینیم کی افزودگی کے لیے مرکز گریز تیز رفتار آلہ جات کی دو قسموں کی تفصیلات بتائی ہیں۔ اس کتاب میں سینٹری فیوج ڈیزائنز (Centrifuges Designs) کی تصاویر بھی ہیں‘ یعنی یورینکو ڈیزائن (Urenco Design) اور جاپانی ڈیزائن (Japanese Design)۔ ماہرین کے لیے بھی ان دونوں ڈیزائنوں میں فرق کرنا مشکل ہے (جیسا میں نے محسوس کیا جب میں نے ایک ماہر سے اس بارے میں تبادلۂ خیال کیا)۔ سپری (SIPRI) کی اس کتاب سے دو اہم مسئلے ابھرتے ہیں۔ کیا اس کتاب نے سوئیڈن کے کیے ہوئے بین الاقوامی معاہدوں اور ساتھ ہی اپنے قوانین کو توڑا ہے؟ کیا سوئیڈن جوہری توانائی کے پھیلائو کے جرم کا بالواسطہ مرتکب ہے؟ آئی اے ای اے (IAEA) اور سوئیڈن حکومت کو اس معاملے میں اور (SIPRI) کی دوسری مطبوعات کے سلسلہ میں سنجیدگی کے ساتھ تحقیق کرنی چاہیے۔
دوسرے یہ کہ ایران کے یورینیم کی افزودگی کے مرکز گریز تیز رفتار آلہ جات (Centrifuges) کے متعلق تحقیق سے یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ یورینکو ڈیزائن کے مطابق ہیں؟ ہم ہندوستان اور ایران کے درمیان سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک معاہدہ ہونے کا حوالہ دینے میں حق بجانب ہیں اور ہم یہ بتانے میں بھی حق بجانب ہیں کہ امریکا کی مخالفت کے باوجود ہندوستان نے ۱۹۹۱ء میں جوہری توانائی کا ۱۰ میگا واٹ کا ری ایکٹر ایران کے ہاتھ فروخت کیا۔ (۔۔۔جاری ہے)
(بشکریہ: ششماہی ’’تاریخ و ثقافت پاکتان‘‘۔ اسلام آباد۔شمارہ اپریل تا ستمبر ۲۰۰۴ء)
Leave a Reply