
بالاکوٹ میں داخل ہوئے تو بلند و بالا‘ ہیبت ناک پہاڑوں کے سائے وہاں شام کا سماں پیدا کر چکے تھے۔ یہ منظر شام غریباں سے کم نہ تھا۔ یہاں کچھ بھی ثابت و سالم نہ تھا۔ نہ مکان نہ انسان‘ اگر کسی کے ہاتھ پائوں ٹوٹے تھے تو باقی شکستہ دل تھے۔ لیکن یہ منظر بالاکوٹ نے پہلے بھی دیکھا تھا اور شاید بالاکوٹ پر یہ منظر ٹھہر سا گیا ہے کیونکہ ۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء سے پہلے ۶ مئی ۱۸۳۱ء کو بھی تاریخ کے مسافر نے یہ منظر دیکھا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے تاریخ کا یہ مسافر مستقبل میں بھی جھانک سکتا تھا۔ ایک بار پھر یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ ’’تاریخ کا مسافر دریائے کنہار کے مغربی کنارے سرنگوں بیٹھا ہے۔ پہاڑ کی دو متوازی دیواریں شمالاً جنوباً چلی گئی ہیں۔ کنہار ان دیواروں کے درمیان کوئی آدھ میل چوڑے خلا میں پیچ و خم کھاتا محوِ سفر ہے۔ شوریدہ سری کے عالم میں کبھی وہ مشرقی دیوار سے جا ٹکراتا ہے اور کبھی مغربی دیوار سے۔ دریا جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے‘ دائیں بائیں سے کئی برساتی نالے پہاڑوں سے اتر کر اس سے ہم آغوش ہوتے چلے جاتے ہیں۔ شمال میں جہاں دریا وادیٔ کاغان سے گزرتے‘ اپنی راہ میں آنے والی ایک عظیم دیوار میں سے راستہ بناتے ہوئے نئی وادی میں قدم رکھتا ہے۔ وہاں اونچے پہاڑ کے نشیب و فراز پر آباد بالاکوٹ اور گرد و نواح پر سکوتِ مرگ طاری ہے۔ سورج دن بھر ایک خونچکاں المیے کا نظارہ کرنے کے بعد پہاڑ کی اوٹ میں غائب ہو چکا ہے اور وادی میں اندھیرا پھیلتا جارہا ہے۔ بالا کوٹ کے در و دیوار سے اٹھنے والے شعلے اور دھوئیں کے مرغولے اب دم توڑ چکے ہیں اور اب فضا دھرتی کے سینے سے اٹھنے والی آہوں سے دھواں دھواں ہے۔ تاریخ کا مسافر محسوس کرتا ہے کہ یہ آہیں نیزوں کی تیز نکیلی انّیاں ہیں جو اس کے سینے میں پیوست ہوئی جاتی ہیں۔ تاریخ کے کتنے ہی دردناک منظر اس نے دیکھے ہیں‘ ان مناظر نے اس کا دل سنگ خارا میں بدل ڈالا ہے۔ وہ بڑا کٹھور دل ہے لیکن کچھ منظر ایسے بھی ہیں جنہیں دیکھ کر یہ کٹھور دل موم کی طرح پگھل جاتا ہے اور خون آنکھوں سے بہہ نکلتا ہے۔ آج ایسا ہی ایک منظر اس کے سامنے ہے۔ اس کا دل لہو لہو اور جگر قاش قاش ہے۔ اشکوں میں ڈوبی ہوئی نگاہیں کنہار کے خوں رنگ چہرے پر جمی ہیں۔ کبھی کبھی اٹھتی ہیں اور مٹی کوٹ گائوں کے دامن میں بلند پست پہاڑی کھیتوں پر جا پڑتی ہیں۔ جو مٹی کوٹ نالے سے لیکر ست بنے نالے سے پرے تک چلے گئے ہیں۔ ان کھیتوں میں لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ ان غریب الدیار اہل جنوں کی لاشیں جورائے بریلی کے ایک خداپرست مرد درویش سید (احمد) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حق کا کلمہ بلند کرنے اٹھے تھے‘‘۔
لیکن آج کا منظر کچھ مختلف تھا۔ آج بالا کوٹ میں لاشیں ملبوں میں مدفون تھیں۔ فضا میں ایک تعفن تھا۔ پہاڑوں کے سینے کٹ کٹ کر نیچے آبادیوں پر گر چکے تھے۔ جن لوگوں نے یہ منظر دیکھا ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ قیامت کا منظر تھا۔
بالاکوٹ کا تعارف ہمارے لیے سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کے مرقد سے تھا۔ آج بالا کوٹ آنے کا مقصد بھی یہی تھا۔ میرے ساتھی پہلے بھی بالاکوٹ آچکے تھے اور انہیں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کے مرقدوں کا راستہ یاد تھا۔ لیکن آج وہ ساری نشانیاں گر چکی تھیں جن کو انہوں نے ان مزاروں تک پہنچنے کے لیے یاد کر رکھا تھا۔ مارکیٹ کے ملبے کے ڈھیر پر چلتے ہوئے منہ پر سرجیکل ماسک لگائے سید احمد شہید کے مرقد پر پہنچے۔ شہر کی فضا میں ہر جگہ تعفن تھا۔ لیکن یہاں جیسے کوئی تازہ ہوا چل رہی ہو۔ جبکہ مزار کے چاروں طرف ملبہ ہی ملبہ تھا۔ شہر میں موت کی ویرانی اور وحشت تھی لیکن یہاں سکون تھا۔ اگرچہ یہاں ’’سید‘‘ کا سربریدہ لاشہ دفن تھا۔ انہوں نے بھی حسینی سنت کا اتباع کیا تھا۔ سید احمد شہید کا ’’سر‘‘ گڑھی حبیب اﷲ میں دفن ہے اور مزار میں سر کی جگہ کو خالی رکھا گیا ہے۔ میرے ساتھی سید احمد کے مزار کی پائنتی پکڑ کر بیٹھ گئے۔ گویا وہ ان سے باتیں کر رہے ہوں۔ ارد گرد مزار کی چار دیواری گری ہوئی تھی۔ لیکن یہاں نہ زمین پھٹی تھی نہ ہی سنگِ مر مر کے کتبے میں کوئی دراڑ تھی حتیٰ کہ مزار کی طرف اشارہ کرنے والا بورڈ بھی اپنی جگہ صحیح و سالم کھڑا تھا۔ جبکہ دوسرے بورڈ نے اپنی جان بچانے کے لیے اس کا سہارا لے لیا تھا۔ سید احمد شہید کے مزار پر حاضری دے کر رخصت ہوئے تو ہماری اگلی منزل شاہ اسماعیل شہید کا مزار تھی جو وہاں سے تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر دور تھا۔ شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید وہیں مدفون ہیں جہاں انہوں نے شہادت پائی۔ سید احمد شہید کا مزار دریائے کنہار کنارے ہے جبکہ شاہ اسماعیل شہید کا مزار اس پہاڑ پر ہے جہاں سے وہ سکھوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔ آج ان کے مزار کے سامنے کا علاقہ شاہ اسماعیل شہید کالونی کہلاتا ہے۔ شاہ اسماعیل شہید شاہ ولی اﷲ کے پوتے تھے۔ اپنے والد کی اکلوتی اولاد‘ سلسلہ نسب حضرت علیؓ سے جا ملتا ہے۔ انہوں نے بھی سنتِ حسینی کی یاد تازہ کی۔ ان کے مزار مبارک کے کئی حجرے زلزلے کے نتیجے میں نیچے گھاٹی میں جاگرے ہیں‘ مزار کا احاطہ گر چکا ہے لیکن مزار اور وہ دیوار جس پر ان کا نام لکھا ہے‘ سلامت ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس مزار سے ایک خوشبو سی اٹھ رہی تھی۔ مزاروں پر عموماً خوشبو کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن یہاں نہ اگربتی تھی نہ ہی عطردان بلکہ مزار کے متولی بھی شاید شہید ہو چکے تھے اور مزار کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ ایسے میں مزار پر کون خوشبو چھڑکتا۔ مگر مزار سے خوشبو کی ایسی لپٹیں اٹھ رہی تھیں جن کو ہم نے کبھی بھی نہیں سونگھا۔ یہ معجزہ بھی ہم نے دیکھا۔ سید کے مزار پر عطر بیز ہوا اور یہاں پر بھی وہی منظر کہ مزار سلامت‘ کتبے سلامت اور دیواریں شکستہ ہو چکی تھیں۔ قریب ایک شخص کھڑا تھا جس نے بتایا کہ شاہ اسماعیل شہید کے مزار کے حجرے نیچے گر گئے لیکن شہید کے مزار سلامت رہے۔ یہ ساری قبریں شہدا کی ہیں اور شاہ اسماعیل شہید کے نام پر بننے والے مزار کے سامنے یہ مسجد بھی سلامت ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’امت‘‘۔ کراچی۔ شمارہ۔ ۱۹ نومبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply