
پچاس سالہ عثمان غنی چاٹگام پورٹ ٹرسٹ میں ملازمت کرتے تھے۔ ان کی رہائش حمزہ آباد کے علاقے میں ببرہات کے نزدیک تھی۔ ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء کو چاٹگام پر جو قیامت ڈھائی گئی اس میں عثمان غنی کا اکلوتا بیٹا اور بھائی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انہوں نے بتایا: ’’۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء کو رات دس بجے مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے سیکڑوں غنڈوں نے، جو بندوقوں اور مشین گنوں سے مسلح تھے، ببرہات کے علاقے میں غیر بنگالیوں کے مکانات پر حملہ کردیا۔ ہم لوگ کئی دن سے شدید خوف کے عالم میں جی رہے تھے مگر ہم میں سے کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر حملہ کیا جائے گا۔ ہمارے پاس کسی بھی قسم کے ہتھیار نہیں تھے۔ مارچ کے وسط ہی سے عوامی لیگ کے کارکنوں نے ہمارے مکانات پر نشانات لگا دیے تھے۔ مسلح حملہ آوروں نے غیر بنگالیوں کے مکانات میں گھس کر تمام مردوں کو گولیوں سے بھون دیا۔ ظالموں نے میرے گھر میں گھس کر پہلے میرے بھائی کو شہید کیا۔ اس کے بعد جب انہوں نے میرے گیارہ سالہ بیٹے کو مارنا چاہا تو میری بیوی نے ان کے آگے ہاتھ جوڑ کر اس کی زندگی کی بھیک مانگی مگر انہیں ذرا رحم نہ آیا اور انہوں نے میرے اکلوتے بیٹے کو بھی خون میں نہلا دیا۔ جب میری بیوی خون میں نہائے ہوئے بیٹے پر جھکی تو انسانیت سے یکسر عاری شر پسندوں نے اس کے سر پر بھی رائفل کا بٹ مار دیا۔ میں اُس رات پورٹ ایریا میں پھنسا ہوا تھا اور موت سے بال بال بچا۔ چار دن تک میں اپنے گھر نہ جاسکا۔ ۲۹ مارچ ۱۹۷۱ء کو جب میں اپنے گھر پہنچا تو یہ دیکھ کر میرے پیروں تلے سے زمین سرک گئی کہ میری تو دنیا ہی اُجڑ چکی تھی۔‘‘
عثمان غنی دسمبر ۱۹۷۱ء میں کراچی پہنچے۔ ان کا کہنا ہے کہ باغیوں نے مارچ کے آغاز ہی سے بڑے پیمانے پر ہتھیار ذخیرہ کرنا شروع کر دیے تھے۔ انہیں ہتھیار فراہم کرنے میں بھارت نے مرکزی کردار ادا کیا۔
۳۶ سالہ فہمیدہ بیگم کے شوہر چاٹگام کی تجارتی فرم میں کام کرتے تھے۔ ۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو انہوں نے اپنے شوہر، تین بیٹوں اور ایک بیٹی کے قتل کا دِل سوز منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ نہ تھمنے والے آنسوؤں کے ساتھ اُنہوں نے بتایا۔ ’’۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کی شب شر پسندوں نے بڑی تعداد میں حالی شہر علاقے پر حملہ کیا اور ہمارے گھر کا دروازہ توڑ ڈالا۔ انہوں نے میرے شوہر کے سینے میں گولیاں اتار دیں۔ وہ دیکھتے ہی دیکھتے خون میں لت پت ہوکر گر پڑے۔ جب وہ میرے تین معصوم بیٹوں کی طرف بڑھے اور انہیں قتل کرنے کی تیاری کی تو میں نے غصے اور جوش میں ایک کی مشین گن چھین لی مگر میں نہیں جانتی تھی کہ اسے چلایا کیسے جاتا ہے۔ ایک شر پسند نے اپنی رائفل سے میرے سر پر وار کیا۔ میں وہیں گرگئی۔ انہوں نے مجھے باندھ دیا اور کہا کہ وہ میرے بیٹوں کو میری آنکھوں کے سامنے قتل کریں گے۔ انہوں نے میرے بیٹوں کے سر میرے سامنے تن سے جدا کردیے اور ان سروں کو لاتیں بھی ماریں۔ ان درندوں نے میری بیٹی کو بھی قتل کردیا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر میرا دل تو جیسے پھٹ گیا اور میں ہوش کھو بیٹھی۔ میں وہ بھیانک منظر کبھی نہیں بھول سکتی جب ان ظالموں نے خنجر میری بیٹی کے گلے پر چلایا اور وہ چلائی ’امی بچاؤ‘ اور میں کچھ بھی نہ کرسکی۔ وہ انسان نہیں، درندے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ انہیں ہر صورت سزا دے گا۔‘‘ فہمیدہ چاٹگام کے ایک ریلیف کیمپ میں رہی اور اسے ۱۹۷۴ء میں پاکستان بھیجا گیا۔
۴۷ سالہ بشیر حسین حالی شہر کے علاقے تاج پاڑا میں رہتے تھے۔ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کی شب انہوں نے غیر بنگالیوں کے مکانات پر شر پسندوں کے حملوں میں اپنے دو بیٹے کھو دیے۔ وہ خود بھی شدید زخمی ہوئے اور درندوں نے انہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ انہیں دو دن بعد ہوش آیا۔ فروری ۱۹۷۴ء میں کراچی پہنچنے پر بشیر حسین نے اپنا حالِ زار اِن الفاظ میں سُنایا۔ ’’۱۵ سے ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران چاٹگام سے متصل حالی شہر ٹاؤن شپ دہشت گردوں کے نشانے پر تھی۔ آگ اور موت کا رقص کئی دن جاری رہا۔ شر پسندوں نے کئی علاقوں کو تاراج کیا اور غیر بنگالیوں کو لوٹنے کے بعد موت کے گھاٹ اتارا۔‘‘
’’۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کی شب عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے ہمارے مکان پر بھی حملہ کیا۔ انہوں نے مجھے اور میرے دونوں جوان بیٹوں کو گولیاں ماریں۔ میں نے جب اپنے بیٹوں کو خون میں لت پت گرتے دیکھا تو حواس مختل ہوگئے اور میں بے ہوش ہوگیا۔ میری پشت اور اس سے نچلے حصے پر گولیاں لگیں۔ فوجیوں نے پانچویں دن مجھے اٹھاکر اسپتال پہنچایا۔ میرے دونوں بیٹے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔‘‘
’’ہمارے علاقے میں عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے شر پسند غیر بنگالی مردوں کو ختم کرنے کا ہدف پانے میں نمایاں حد تک کامیاب ہوئے۔ انہوں نے ہزاروں غیر بنگالی لڑکیوں اور عورتوں کو اغوا کیا اور ان میں سے بہتوں کو بے حرمتی کے بعد قتل کرکے پھینک دیا۔‘‘
۲۴ سالہ شاہد حسین عابدی کے والد اصفہانی جوٹ ملز میں اسٹور کیپر تھے۔ شاہد حسین عابدی نے اپنے علاقے میں عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں کے ہاتھوں غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان ان الفاظ میں سنائی۔ ’’اصفہانی جوٹ ملز کے کمپاؤنڈ میں واقع کلب پر حملہ کیا گیا۔ ہم اس مل کی اسٹاف کالونی میں رہا کرتے تھے۔ میرے والد کا اسٹور کیپر کی حیثیت سے بنگالی اور غیر بنگالی دونوں ہی طرح کے ملازمین سے تعلق تھا اور وہ سب سے بہت اچھی طرح پیش آتے تھے۔ اصفہانی جوٹ ملز کی اسٹاف کالونی میں غیر بنگالی ورکرز اور ان کے اہل خانہ کی مجموعی تعداد تقریباً تین ہزار تھی۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے وسط ہی سے عوامی لیگ کے شرپسندوں اور مل میں ان کے ہم خیال لوگوں کا رویہ تلخ ہوچلا تھا۔ وہ بات بے بات لڑنے کا بہانہ ڈھونڈتے تھے۔ ۲۳ سے ۲۸ مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران عوامی لیگ کے غنڈوں نے غیر بنگالیوں کے مکانات لوٹے، مردوں کو اغوا کرکے قتل کردیا۔ قتل کی وارداتیں مل کے کمپاؤنڈ میں واقع کلب میں ہوتی تھیں۔ مغویوں کے سر تن سے جدا کرنے سے قبل بھی ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے تھے۔ بیشتر مغویوں کے جسم سے خون سرنجز کے ذریعے نکال لیا جاتا تھا۔ یہ خون ذخیرہ کیا جاتا تھا۔ شر پسند یہ خون اپنے زخمی ساتھیوں کے علاج میں استعمال کرتے تھے۔ فوج کی بھرپور کارروائی سے قبل شرپسندوں نے ہمارے علاقے میں سیکڑوں عورتوں اور بچوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارا۔‘‘
شاہد حسین عابدی ۱۹۷۲ء میں چاٹگام سے فرار ہوکر کھٹمنڈو (نیپال) پہنچے۔ وہاں سے وہ ۱۹۷۳ء میں پاکستان پہنچے۔ انہوں نے عینی شاہد کی حیثیت سے بتایا کہ مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران اصفہانی جوٹ ملز میں کم و بیش ۷۵ غیر بنگالی مردوں کو شہید کردیا گیا۔ جن غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا ان میں سے بیشتر کو فوج کی آمد اور بھرپور ایکشن سے قبل اجتماعی قبور میں دفن کردیا گیا۔
چالیس سالہ موٹر میکینک محمد شرف الدین چاٹگام سے متصل ٹاؤن شپ حالی شہر کے بلاک اے میں مکان ۶۷۳ میں سکونت پذیر تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران چاٹگام پر جو قیامت ڈھائی گئی اس میں محمد شرف الدین کے دو بھائی بھی جان سے گئے۔ شرف الدین فروری ۱۹۷۴ء میں چاٹگام سے کراچی پہنچے۔ انہوں نے بتایا۔ ’’حالی شہر کی آبادی کم و بیش پچاس ہزار تھی اور اس میں نصف سے کچھ زائد غیر بنگالی تھے۔ یہ لوگ ۲۴ سال سے وہاں مقیم تھے۔ بنگالیوں سے ان کے تعلقات بھی بہت اچھے تھے۔ یہ لوگ گھر میں بھلے ہی اردو بولتے ہوں مگر باہر روانی سے بنگالی بولتے تھے۔ اس علاقے میں آباد غیر بنگالیوں کی اکثریت کا تعلق بھارت کی ریاست بہار سے تھا۔ بہت سے پنجابی اور پٹھان گھرانے بھی وہاں آباد تھے۔ بنگالی انہیں بھی بہاری کہتے تھے۔‘‘
’’۱۸ مارچ ۱۹۷۱ء کو عوامی لیگ کے غنڈوں، منحرف فوجیوں اور بہت سے دوسرے شر پسندوں نے ہمارے علاقے پر حملہ کیا، تمام مردوں کو قتل کرنے کے بعد وہ گھروں سے قیمتی سامان لوٹ کر لے گئے۔ انہوں نے ہمارے گھر پر حملہ کیا، میرے دونوں بھائیوں کو شہید کرکے ان کی بیویوں کو اغوا کرکے لے گئے۔ جب فوج نے چاٹگام کا کنٹرول حاصل کیا تب میں نے اپنے بھائیوں کی بیواؤں کو بہت تلاش کیا مگر ان کا کہیں پتا نہ ملا۔ شر پسندوں نے حالی شہر میں ۷۵ فیصد غیر بنگالی مردوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔‘‘
۳۵ سالہ مشرف حسین چاٹگام کے علاقے آگرہ آباد میں رہتے تھے۔ ان کا پٹ سن کی گانٹھیں تیار کرنے کا کارخانہ تھا۔ ۱۹۷۱ء میں چاٹگام پر جو قیامت ٹوٹی اس کے بارے میں مشرف حسین نے بتایا۔ ’’میں نے ۱۹۵۰ء میں بھارت سے مشرقی پاکستان ہجرت کی تھی۔ تب میں نے اپنے تقریباً دس لاکھ روپے مالیت کے اثاثے مشرقی پاکستان منتقل کیے تھے۔ پٹ سن کی تجارت میں مجھے بہت فائدہ پہنچا اور میں نے بیس لاکھ روپے مالیت کا بیلنگ پریس لگایا۔ ۲۱ مارچ ۱۹۷۱ء کو شرپسندوں نے میرے کارخانے کو آگ لگادی۔ انہوں نے پٹ سن کے ذخیرے کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ چاٹگام کے مرکزی تجارتی علاقے میں واقع میری دکان میں بھی آگ لگادی۔‘‘
’’میں نے دو سال شدید غربت میں بسر کیے۔ ۱۹۷۳ء میں کسی نہ کسی طور میں پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ یہ اللہ کا کرم تھا کہ چاٹگام پر جو قیامت ٹوٹی اس سے میں اور میرا پورا گھرانہ بالکل محفوظ رہا۔‘‘
۲۸ سالہ یونس احمد چاٹگام میں ایک انشورنس فرم کا ملازم تھا۔ فیروز شاہ کالونی میں ۱۸ مارچ ۱۹۷۱ء کو عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں کے حملے میں یونس احمد نے اپنے ۲۲ سالہ بھائی کو گنوادیا۔ یونس احمد فروری ۱۹۷۴ء میں کراچی پہنچے۔
کراچی پہنچنے پر یونس احمد نے اپنی کہانی اِن الفاظ میں سُنائی۔ ’’میں اپنے والدین کے ساتھ ۱۹۴۹ء میں بھارت سے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان پہنچا تھا۔ چاٹگام ہمارے لیے آبائی شہر جیسا تھا۔ ہم اس شہر سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ والد کے انتقال کے بعد میں نے دونوں چھوٹے بھائیوں کی پرورش کی۔ ۱۹۷۱ء میں وہ دونوں طالب علم تھے۔‘‘
’’۱۸ مارچ ۱۹۷۱ء کی شب عوامی لیگ کے غنڈوں اور باغی فوجیوں نے رائفلوں اور اسٹین گنوں سے مسلح ہوکر ہمارے علاقے فیروز شاہ کالونی پر حملہ کردیا۔ اس غیر معمولی حملے میں ہزاروں غیر بنگالی مردوں اور لڑکوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جس وقت ہمارے علاقے پر حملہ ہوا، گھر میں میرا ایک چھوٹا بھائی تھا۔ شر پسندوں نے اس کے سینے میں گولیاں اتار دیں۔ میں اور دوسرا چھوٹا بھائی اتفاق سے گھر پر موجود نہیں تھے۔ قتلِ عام کے بعد شرپسندوں نے غیر بنگالیوں کے مکانات کو آگ لگادی۔
۲۴ سالہ رحیمہ اپنے شوہر شاہد علی اور چار بچوں کے ساتھ چاٹگام کی شیر شاہ کالونی میں رہتی تھی۔ رحیمہ نسلاً بنگالی ہے اور فرید آباد میں پیدا ہوئی تھی۔ اس نے بتایا۔ ’’میرے شوہر کا تعلق لکھنؤ سے تھا۔ انہیں چاٹگام سے محبت تھی اور اپنے بنگالی دوستوں سے بھی وہ بے حد محبت کرتے تھے۔ مارچ ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں شر پسندوں نے ہمارے گھر پر حملہ کیا اور میرے شوہر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ میں نے ان کے پیروں میں گر کر التجا کی کہ میرے شوہر کو قتل نہ کریں مگر ان درندوں کے سروں پر خون سوار تھا۔ حملہ آوروں میں ہندو بنگالی بھی تھے جن کی غیر بنگالیوں سے نفرت انتہائی واضح تھی۔‘‘
’’مارچ کے پہلے ہفتے میں جب عوامی لیگ کے غنڈوں نے تشدد کا بازار گرم کیا تھا تب اگر حکومت نے بھرپور کارروائی کی ہوتی تو شر پسندوں کو شہ نہ ملتی اور وہ مزید قتل و غارت سے باز رہتے۔ شر پسندوں اور قاتلوں کو کھلی چھوٹ دی گئی کہ مکانات کو لوٹ کر آگ لگائیں اور غیر بنگالیوں کو جس طرح چاہیں، قتل کریں۔ اس ڈھیل ہی کے نتیجے میں اِتنے بڑے پیمانے پر قتلِ عام ہوا۔‘‘
’’مارچ ۱۹۷۱ء میں چاٹگام میں قتل و غارت کا جو بازار گرم ہوا وہ پاکستان سے غیر متزلزل محبت کرنے والے کئی بنگالیوں کی بھی جان لے گیا۔ غیر بنگالیوں کو بچانے کی کوشش کرنے والے کئی بنگالی بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‘‘
چالیس سالہ مسز رحیمہ عباسی چاٹگام کے لائنز اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ انہوں نے ۲۱ مارچ کو اسکول پر شر پسندوں کے حملے کا احوال یوں بیان کیا۔ ’’ہم ایم اے جناح روڈ پر اپنے مکان میں رہتے تھے۔ میرے شوہر کا اپنا بزنس تھا۔ میں لائنز اسکول میں پڑھاتی تھی جو انگلش میڈیم اسکول تھا۔ میرے طلبا کا تعلق متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بنگالی اور غیر بنگالی گھرانوں سے تھا۔ شر پسندوں نے ۲۱ مارچ کو ہمارے اسکول پر حملہ کیا۔ اسکول کا چوکیدار بنگالی تھا۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر التجا کی کہ اسکول میں کوئی گڑبڑ نہ کی جائے مگر ان درندوں نے ایک نہ سنی اور اس کی ٹانگ میں گولی مار دی۔ جنونی حملہ آور اسکول کے آفس اور کلاس رومز میں گھس گئے۔ انہوں نے ٹیچرز اور طالبات کو ہراساں کرنا شروع کیا۔ جب ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ وہ لڑکیوں کو اغوا کرنا چاہتے ہیں تو ہم نے شور مچانا شروع کیا تاکہ پڑوس کی عمارتوں سے کچھ مدد مل سکے۔ ہماری چیخ پکار سن کر علاقے کے ایک پاکستان نواز بنگالی لیڈر اپنے پچاس ساٹھ ساتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچے۔ لڑائی میں تین حملہ آور مارے گئے۔ باقی بھاگ گئے۔ اساتذہ اور طلبا و طالبات میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔ اس واقعے کے بعد اسکول کو چند دنوں کے لیے بند کردیا گیا۔‘‘
مسز رحیمہ عباسی، ان کے شوہر اور بچوں کو مارچ ۱۹۷۴ء میں چاٹگام سے کراچی منتقل کیا گیا۔
Leave a Reply