لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے بارہویں جماعت کے طالب علم آدتیہ ٹھاکر نے وزارتِ خارجہ کو خط لکھا ہے جس میں اس نے حکومت کو اِس امر کی طرف متوجہ کیا ہے کہ بھارتی ذرائع ابلاغ اور بالخصوص ٹی وی چینل پڑوسی ممالک کے خلاف نفرت کا پرچار کرتے ہیں۔ آدتیہ ٹھاکر نے یہ خط انڈیا نیوز ٹی وی چینل کے ایک پروگرام سے دُکھی ہوکر لکھا ہے۔ یہ پروگرام پاکستان میں پولیو کے مسئلے سے متعلق تھا۔ بظاہر ایک سنگین مسئلے پر بحث کے لیے بنائے گئے اِس پروگرام کا عنوان ’’لنگڑا پاکستان‘‘ رکھا گیا تھا۔ آدتیہ ٹھاکر نے وزارتِ خارجہ کو لکھا ہے کہ پورا پروگرام پاکستان کے بارے میں (بھارتی میڈیا میں پائے جانے والے) لگے بندھے تصورات، جامد سوچ، اہانت آمیز ریمارکس اور سنسنی خیز مثالوں سے بھرا تھا۔ رپورٹر (یا میزبان) پورے پروگرام میں پاکستان کو ’’دنیا کو تباہ کرنے کے سپنے دیکھنے والا‘‘ قرار دیتا رہا۔ ’’بم کا کیا کروگے پاکستان، کھاؤگے؟‘‘ اور ’’دو بوند سے مت ڈرو پاکستان‘‘ جیسے جملوں سے پاکستان کے لیے نفرت اظہر من الشمس تھی۔
آدتیہ ٹھاکر نے انڈیا نیوز ٹی وی چینل کا خاص حوالہ دیتے ہوئے اِس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ بھارتی ذرائع ابلاغ میں پاکستان کے حوالے سے نفرت پر مبنی رویہ عام ہے۔ ہم پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات تو چاہتے ہیں مگر اُن کے حوالے سے پیہم نفرت کا پرچار بھی کرتے رہتے ہیں۔ آدتیہ ٹھاکر نے مطالبہ کیا ہے کہ نفرت کے پرچار پر پابندی عائد کی جائے۔ بہت سے لوگ ایسے گھناؤنے پروگراموں سے تنگ آکر چینل بدل دیتے ہیں۔ آدتیہ ٹھاکر نے ایک ذمہ داری شہری کی حیثیت سے اپنی رائے کا اظہار مناسب جانا۔ پاکستان کے لیے نفرت کی یہ کوئی واحد یا انوکھی مثال نہیں ہے۔ بھارت میں کہیں بھی بم دھماکا ہو جائے تو کسی بھی قسم کی تحقیقات کے بغیر اور شواہد پیش کرنے کی زحمت اُٹھائے بغیر پاکستان کے سر الزام منڈھ دیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ اب اِس حد تک فطری سا ہوگیا ہے کہ ہم اِس کی غیر اخلاقی حیثیت اور بے عقلی کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہ کام صرف وہی چینل نہیں کرتا جس کا نام آدتیہ نے اپنے خط میں لیا ہے۔ اگر آدتیہ سرکاری ٹی وی دور درشن کا پروگرام ’’پاکستان رپورٹر‘‘ دیکھے تو اُسے پھر وزارتِ خارجہ کو خط لکھنا پڑے گا! ایسا لگتا ہے کہ اِس پروگرام کو نشر کرنے کا بنیادی مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ پاکستان جاہلوں اور دہشت گردوں سے بھرا ہوا ملک ہے اور اُس کے مقابلے میں بھارت جنت ہے! پاکستان کو اسٹیریو ٹائپ بنانے میں دور درشن کے اِس پروگرام کا بھی اہم کردار ہے۔ اور چونکہ یہ سرکاری ٹی وی چینل کا پروگرام ہے، اِس لیے شر انگیزی کی نشاندہی کیے جانے کی صورت میں یہ پروگرام بند کرنے میں حکومت کو بظاہر کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔ مگر نشریات کے حوالے سے بھارتی سیاسی قیادت کی پالیسی شاید یہی ہے کہ پاکستان سے نفرت کا بازار گرم رہے۔
پاکستان سے نفرت آزاد بھارت کی گُھٹّی میں پڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اِس نفرت کا پہلا شکار موہن داس کرم چند گاندھی تھے۔ نتھو رام گوڈسے نے اِس قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے عدالت میں جو بیان دیا تھا، اُس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ (نتھو رام گوڈسے) مسلمانوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے کی بنیاد ہی پر نہیں بلکہ پاکستان کے قیام میں مرکزی کردار ادا کرنے پر بھی نہرو کے ساتھ ساتھ گاندھی جی کو سزا دینا چاہتا تھا۔ گوڈسے کا کہنا تھا کہ گاندھی کو پاکستان بنانے کے جرم کی سزا دینے کا کوئی قانونی راستہ نہیں تھا، اِس لیے وہ اُنہیں قتل کرنے پر مجبور ہوا۔ اُسے پورا یقین تھا کہ گاندھی جی کے قتل کے بعد ہی بھارتی فوج پاکستان کے ارادوں کو مکمل طور پر ناکام بنانے کے قابل ہوسکے گی۔ کہا جاتا ہے کہ نتھو رام گوڈسے کے بیان سے عدالت میں موجود لوگ اِس قدر متاثر ہوگئے تھے کہ اُن سے رائے لی جاتی تو وہ گوڈسے کو باعزت بری کرنے کا مشورہ دیتے! آج بھی آپ کِسی سے اِس قتل کے بارے میں رائے طلب کریں تو سُننے کو ملے گا کہ گاندھی جی نے ۵۵ کروڑ روپے پاکستان کو دینے کے لیے بھارتی حکومت کو مجبور کیا تھا جس کی سزا کے طور پر نتھو رام گوڈسے نے اُنہیں قتل کیا۔
گاندھی جی کے قتل کو درست سمجھنے والا طبقہ تب سے اب تک بھارت میں پایا جاتا ہے۔ اُن کی نظر میں گاندھی مہاتما نہیں بلکہ پاپاتما تھے۔ نتھو رام گوڈسے کو قاتل کہنے پر بُرا ماننے والے آج بھی تعلیمی اداروں اور سیاسی جماعتوں میں اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں۔
گاندھی کے قتل کا سبب بھی ایک ایسا واقعہ ہے جسے ہم پورے سیاق و سباق کے ساتھ یاد نہیں رکھنا چاہتے۔ درسی کتب میں گاندھی جی کو سچائی اور عدم تشدد کا علمبردار اور انسانیت کی اعلیٰ ترین اقدار پر یقین رکھنے والی شخصیت کی حیثیت سے تو پیش کیا جاتا ہے مگر کبھی اُن کے سیاسی نظریات اور تصورات کے بارے میں کچھ بھی بیان نہیں کیا جاتا۔ یہی سبب ہے کہ طلبہ و طالبات کو کچھ اندازہ ہی نہیں کہ گاندھی جی کے سیاسی نظریات کیا تھے، اِس لیے وہ کبھی اُن پر غور یا بحث نہیں کرتے اور اُنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ گاندھی جی کو قتل کیوں کیا گیا۔ نئی نسل کو گاندھی جی کے سیاسی نظریات سے آگاہ کرنے کے لیے دہلی یونیورسٹی نے حال ہی میں ایک مکمل پرچہ متعارف کرایا ہے۔ طلبہ و طالبات سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اور گاندھی جی کے حالات کا موازنہ کریں اور یہ سوچیں کہ اگر وہ گاندھی جی کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے۔
گاندھی جی کی زندگی کے اہم ترین واقعات میں ایک اُن کا قتل بھی ہے۔ اُنہیں قتل تو نتھو رام گوڈسے نے کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ اُسے قتل کی دعوت خود گاندھی جی نے دی! کیا گاندھی جی پر اِس سے قبل کوئی قاتلانہ حملہ نہیں ہوا تھا؟ اور کیا گاندھی جو اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان کو اُس کے حصے کے مالیاتی وسائل دینے کی حمایت کرنے اور اِس کے لیے تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال کرنے کی پاداش میں اُنہیں قتل بھی کیا جاسکتا ہے؟ شدید ترین خطرات ظاہر ہونے پر بھی گاندھی جی نے مسلمانوں اور پاکستان کی طرف جُھکاؤ سے متعلق اپنا امیج بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ اُنہیں نے اِس حوالے سے اپنی صفائی میں کوئی بیان نہیں دیا۔ زندگی کی سب سے بڑی قدر وہی ہوتی ہے جس کے لیے ہم اپنی زندگی نچھاور کرنے کو تیار ہوں۔ مسلمانوں اور پاکستان کے بارے میں گاندھی کے فیصلے سے نئی نسل کو بے خبر رکھنے کا تعلیمی اور سیاسی مقصد کیا ہے؟ کیا حکومت یہ پیغام نہیں دے رہی کہ ہر وہ قدر اور اُصول بے مصرف ہے جس کے لیے کوئی اپنی زندگی نچھاور کرنے پر آمادہ ہو؟ ایسی اقدار کی کسوٹیاں کچھ اور ہیں جن پر یہاں بحث مقصود نہیں۔
گاندھی جی کے قتل کو پاکستان سے نفرت کی انتہا کہا جاسکتا ہے۔ میں بچپن سے بیت الخلا کو پاکستان سُنتا آیا ہوں۔ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہو اُنہیں پاکستان یا مِنی پاکستان قرار دیا جاتا رہا ہے۔ جس طور سزائے موت سب سے بڑی سزا ہے بالکل اُسی طرح کسی بھی بھارتی کے لیے سب سے بڑی گالی یا توہین یہ ہے کہ اُسے پاکستانی کہہ دیا جائے! یہ ہماری سماجی نفسیات کا ایسا انگ ہے کہ چھ سات سال کے بچے کو بھی معلوم ہے کہ کسی سے نفرت کے اظہار کا سب سے ہلاکت خیز طریقہ یہ ہے کہ اُسے پاکستانی قرار دے دیا جائے۔ مسلم بچوں سے ایسے جانے کتنے ہی قصے سُنے ہیں کہ ساتھی ہندو طلبہ نے تذلیل کرنے کی غرض سے اُنہیں پاکستانی کہا!
لفظ ’’پاکستانی‘‘ گالی کیوں ہو؟ پاکستانی کہے جانے پر کوئی بھارتی مسلمان کیوں بُرا مانے؟ یہ سوال فطری ہونا چاہیے، مگر ہے نہیں۔ کوئی یہ بھی نہیں پوچھتا کہ ’’پاکستانی‘‘ اسمِ نکرہ یا اسمِ معرفہ۔ تقریباً ایک سال قبل آشیش نندی کا ایک مضمون پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ پاکستانی کہے جانے پر شرم کے بجائے فخر محسوس ہونا چاہیے۔ اب تک چار مرتبہ فوج نے پاکستان میں اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا ہے مگر پاکستانی قوم نے سَر نہیں جُھکایا اور جمہوریت کا چراغ جلانے میں کامیاب ہوتی رہی ہے۔
کسی بھی فرد یا قوم کا کردار جانچنے کے لیے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اُس میں محبت کرنے کی لگن اور سکت کِس قدر ہے۔ پاکستان سے واپس آنے والے ہر بھارتی باشندے سے میں نے یہی سُنا ہے کہ پاکستانیوں نے بانہیں پھیلاکر اُس کا خیرمقدم کیا۔ اور جب معلوم ہوا کہ وہ بھارت سے آئے ہیں تو دکانداروں نے اُن سے کھانے پینے، کتابوں یا کپڑوں کے پیسے لینے سے بھی انکار کیا! پاکستان سے آنے والا ہر بھارتی جیسے اپنا دِل وہیں چھوڑ آتا ہے۔ مگر کیا ایسا ہی تجربہ اور احساس بھارت میں گھوم پھر کر واپس جانے والے پاکستانیوں کا بھی ہوتا ہے؟ بھارت کا پورا سفر اُن کے لیے شک بھری نظروں کا سامنا کرنے، ہوٹل والوں کی طرف سے کمرے دینے سے انکار اور ایسی ہی دوسری ذِلّتوں سے عبارت ہوتا ہے۔ بھارت میں عام پاکستانیوں کو ناپسندیدہ عناصر کی طرح برداشت کیا جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے ایسا کرکے اُنہیں جلد از جلد دوبارہ پاکستان کی طرف دھکیلنا مقصود ہو! ہر بھارتی باشندہ ایک بار پاکستان سے ہو آنے کے بعد بار بار وہاں جانا چاہتا ہے لیکن اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو شاید ہی کوئی پاکستانی دوسری بار بھارت آنا پسند کرے۔ اِن تمام باتوں سے بھارت کے بارے میں کیا معلوم ہوتا ہے اور پاکستان کی کیسی تصویر ذہن میں اُبھرتی ہے؟ جو محبت کے جذبے سے عاری، محض قوم پرست بھارتی ہیں، وہ ایک عام پاکستانی کی برابری کیسے کرسکتے ہیں؟
(بشکریہ: ہندی روزنامہ ’’جَن سَتّا‘‘ انڈیا۔ ترجمہ: ابو صباحت)
Leave a Reply