اس وقت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جس شدید معاشی بحران کا شکار ہیں اور ان کے اثرات باقی ماندہ ممالک پر جس طرح پڑ رہے ہیں وہ زبان زد عام ہیں۔ ترسیل کے تمام ذرائع اس موضوع پر اپنی توجہ مبذول کیے ہوئے ہیں۔ باالفاظ دیگر اس وقت عالمی معاشی بحران عوامی مباحثہ کا عنوان بنا ہوا ہے۔ جہاں تک ماہرین کا تعلق ہے وہ ایک عرصہ سے یہ بات کہتے رہے ہیں کہ امریکا کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے اور اس کا بُرا اثر دوسرے ممالک کی معیشت پر پڑنے والا ہے، ایسا نہیں ہے کہ پچھلے چند برسوں اور مہینوں کے چند واقعات کی وجہ سے امریکی معیشت خراب ہو گئی ہے۔ بلکہ ماضی قریب میں جو واقعات ہوئے انہیں ہم موجودہ خراب صورتحال کا پیش خیمہ یا علاماتِ مرض (Symptoms) تصور کرتے ہیں۔ اصل مرض کا تعلق گزشتہ تین سو سال سے جاری جدید معیشت کے پایہ چوبیں سے ہے۔ جن غلط بنیادوں پر معیشت کی عمارت کھڑی کی گئی ہے اس کا لازمی نتیجہ خود عمارت کی تباہی کی شکل میں پیش آنا ہی تھا۔ اشتراکیت کی ناکامی عمارت کی کمزوری کی پہلی علامت تھی اور اب عالمی سرمایہ داری کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل اسی رُخ پر مزید خرابیوں کو اجاگر کر رہا ہے۔ اس پوری صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ہم ماضی قریب کے واقعات اور ان کے وجوہ، بنیادی خرابیاں اور ان کے اسلامی حل کے تناظر میں گفتگو کر سکتے ہیں۔
گزشتہ سال اخباروں میں یہ خبریں آنے لگی تھیں کہ امریکا میں مکان کی تعمیرات سے متعلق قرض (Housing Loan) فراہم کرنے والے ادارے گرداب میں پھنس چکے ہیں۔ اسے سب پرائم (Sub Prime) کرائسس سے موسوم کیا گیا۔ قرض فراہم کرنے والے باضابطہ اداروں (یعنی بینک اور مالیاتی اداروں) کے علاوہ بے ضابطہ طریقہ سے رقم کا نظم کرنے والے ادارے مصیبت میں گرفتار ہو گئے تھے کیونکہ تعمیرات کا کاروبار خراب ہو چکا تھا اور قرض خواہ ادائیگی نہیں کر پا رہے تھے۔ ایسے بے ضابطہ ادارے جنہیں ہمارے ملک میں مہاجنی ادارے کا نام دیا جا سکتا ہے اور جو ہمارے یہاں غیر قانونی اور نا پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں، امریکا میں غیر رسمی اور آسان طریقہ پر قرض فراہم کرتے رہے ہیں۔ عموماً طریقہ یہ رہا ہے کہ جن افراد و اداروں کے پاس جائیداد اور آمدنی سے متعلق مضبوط دستاویزات موجود ہوتے ہیں اور جو بینک اور دیگر باضابطہ مالیاتی اداروں سے قر ض حاصل کرنے کے لیے رابطہ اور دیگر کوششوں کی صلاحیت، موقع اور رجحان رکھتے ہیں وہ نسبتاً کم شرح سود پر ان اداروں سے قرض حاصل کرتے رہے ہیں۔ جب کہ دوسرے افراد ان غیر رسمی اداروں سے رجوع کر کے آسانی کے ساتھ زیادہ شرح سود پر قرض حاصل کرتے رہے ہیں۔ یہ غیر رسمی (Sub Prime) ادارے بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کرتے ہیں۔ اس لیے قرض خواہوں کی ادائیگی میں ناکامی نے غیر رسمی اداروں کی کمر توڑ دی، اس کی زد رسمی مالیاتی اداروں پر پڑی اور اس طرح پوری معیشت بحران کے گرداب سے دوچار ہو گئی۔ سب پرائم کرائسس (Sub Prime Crisis) نے خطرہ کی گھنٹی بجا دی۔ پھر مالیاتی اور دیگر کاروباری اداروں کی تباہی کی خبریں آنے لگیں اور ان اداروں کو سہارا دینے کے لیے حکومت کی طرف سے ٹیکس میں چھوٹ، ان اداروں کے حصص (Shares) کی خریداری، آسان شرائط پر قرض کی فراہمی (Soft Loans) سبسڈی (Subsidy) اور دیگر امداد کی خبریں آنے لگیں۔ ایک اندازے کے مطابق سابقہ چند ماہ میں حکومت نے ان پرائیویٹ اداروں کو جو مالی مدد فراہم کی وہ ایک ٹریلین (One Trillion) ڈالر سے زائد ہے۔ (ہندی طریقہ حساب میں دس کھرب ڈالر) اس عرصہ میں بے روزگاری میں تقریباً ایک ملین (دس لاکھ) افراد کا اضافہ ہوا۔ ان تمام باتوں کا مجموعی اثر یہ ہوا کہ معیشت تیز رفتاری کے ساتھ نیچے گرنے لگی ہے۔ درج بالا صورتحال کی وجوہ متعدد ہیں۔ ان تمام وجوہ کا تعلق سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی تصورات سے ہے۔ مثلاً یہ بات کہ صنعت، سرمایہ میں اضافہ کی کوشش اور معیشت کی سعی و جہد پرائیویٹ سیکٹر میں ہونی چاہیے اور اس پر حکومت اور سماج کے دیگر اداروں کا کنٹرول کم سے کم ہونا چاہیے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہے اسی اصول اور ذہنیت کے تحت سرمایہ اور قرض فراہم کرنے والے ادارے بشمول بینک آزاد روی اور من مانی کرتے رہے ہیں۔ سرمایہ کا بازار (Financial Market) کارپوریٹ سیکٹر کی حرص و طمع کا بازار بن گیا۔ بازار میں قرض کی فراوانی ہو گئی تمام اشیاء صرف کریڈٹ پر دستیاب ہو گئیں۔ صارفیت (Consumerism) میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور جو چیزیں کبھی سامان تعیش سمجھی جاتی تھیں، دھیرے دھیرے ’’ضرورت‘‘ کی اشیاء بن گئیں۔ جس معیشت میں صارفیت میں اضافہ ہوتا ہے وہاں بچت (Saving) کم ہو جاتی ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے کم بچت کی شرح امریکا اور مغربی ’’ترقی یافتہ‘‘ ممالک میں ہے۔ بچت کی شرح میں کمی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ معیشت کی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے اور اسے تیز تر کرنے کے لیے مزید سرمایہ کی ضرورت ہے اس کے لیے اپنے ملک کے عوام سے قرض، باہر کے ممالک سے قرض، مرکزی بینک سے قرض اور نوٹ کا چھاپنا وغیرہ ذرائع کی طرف رجوع کیا جائے۔ یہ سب طریقے مسئلہ کا حل نہیں ہیں بلکہ مسئلہ کو مزید خراب کرنے والے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کی جو خرابیاں ہیں ان میں نمایاں ترین سرمایہ کو ’’اشیاء اور خدمات‘‘ (Goods and Services) کے مماثل سمجھنا ہے، جس طرح ہم کسی کو کوئی چیز دے کر یا کوئی خدمت انجام دے کر منافع کے ساتھ رقم وصول کرتے ہیں یا کسی چیز (مثلاً زمین، مکان، مشین وغیرہ) دے کر کرایہ وصول کرتے ہیں اسی طرح سرمایہ پر سود لینے اور سرمایہ سے سرمایہ پیدا کرنے کو درست سمجھ لیا گیا۔ محض سرمایہ یا قرض فراہم کرنا اس بات کے لیے کافی سمجھا گیا کہ اس پر سود کی شکل میں طے شدہ کرایہ وصول کر لیا جائے۔ سرمایہ یا قرض فراہم کرنے اور اس کے کرایہ یا منافع حاصل کرنے کے درمیان کسی دوسری شئے یا خدمت کے پیدا ہونے اور اس کے مفید ہونے کو شرط لازم نہیں رکھا گیا۔ سود اور سٹہ (Interest and Speculation) کی تمام شکلیں جو سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہیں سرمایہ سے متعلق اسی طرح کی ذہنیت کی پیداوار ہیں۔
یہاں زیادہ تفصیلی جائزہ کی گنجائش نہیں ہے اس لیے سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں میں سے صرف سود اور سٹے سے متعلق چند باتیں تحریر میں لائی جا رہی ہیں۔ سرمایہ کو قرض کے بطور فراہم کر کے متعینہ سود لینے کو درست سمجھنے کا نتیجہ یہ ہے کہ اس رقم سے مقروض نے کوئی فائدہ حاصل کیا ہو یا نہیں کیا ہو قرض فراہم کرنے والا اپنا کرایہ وصول کرنے کا حق دار ہے۔ مقروض کو اپنے کاروبار میں نقصان ہوا ہو یا کم فائدہ ہوا ہو۔ ربِّ مال (مال فراہم کرنے والا) شائلاک کی طرح اپنا حصہ نوچ کر لینے کو جائز سمجھتا ہے۔ سٹہ (Speculation) کا معاملہ اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ بنیادی طور پر سٹہ جوا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں اسے قانونی جواز حاصل ہے۔ بلکہ ایک اندازے کے مطابق اشیاء اور خدمات (Goods and Services) کی شکل میں پیدا ہونے والی اصل معیشت (Real Economy) کے مقابلہ میں سٹہ کے بازار میں موجود سرمایہ ایک ہزار فیصد سے زائد ہے۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ جائز اور معمول کے مطابق کاروباری ضرورتوں (Prudent Business Needs) کو سٹہ کی شکل دے دی گئی۔ مثلاً مستقبل کی کسی متعینہ تاریخ میں متعینہ قیمت پر کوئی شئے خریدنے کے لیے حال میں ایڈوانس رقم دی جا سکتی ہے۔ یہ ایک معمول کے مطابق کاروباری عمل ہے۔ لیکن اگر ایسے کسی معاہدے میں سامان کی خرید و فروخت کا کوئی ارادہ نہ ہو بلکہ مستقبل کی تاریخ میں قیمت کیا ہو سکتی ہے اس کا اندازہ کر کے دو فریق کوئی معاہدہ کر لیں اور اس تاریخ کو اس سے پہلے ہی ’’منافع‘‘ یا ’’نقصان‘‘ کا لین دین کر لیں تو یہ جُوا ہے۔ جسے معیشت میں غیر قانونی ہونا چاہیے۔ لیکن یہ طرفہ تماشا ہے کہ آج کے سرمایہ دارانہ نظام میں ایسے لین دین اور معاہدے کو فارورڈ ٹریڈنگ اور فیوچرس ٹریڈنگ (Forward Trading and Futures Trading) سے موسوم کر کے جائز قرار دیا گیا ہے اور معیشت کے اس سمِ قاتل کو معیشت کے لیے مفید (آبِ حیات) قرار دیا گیا ہے۔
اسلامی اپروچ:آج سے چھ دہائی قبل جب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی علیہ الرحمہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ اسلام ایک نظامِ حیات ہے اور اسلام کا معاشی نظام دوسرے تمام تر نظام ہائے حیات سے ممتاز و ممّیز ہے، اس وقت دنیا کے لیے یہ مذاق کا موضوع تھا۔ دنیا کی تمام اسلامی تحریکات نے اس صدا کے حق میں کسی سب و شتم کی پروا کیے بغیر اس آواز میں آواز ملائی اور زبان و قلم سے اس نظامِ حیات کے خدوخال کی وضاحت شروع کر دی۔ اسلام پر یقین کامل رکھنے والے ماہرین معاشیات، علمائے کرام کی بیش بہا خدمات اور امتِ مسلمہ کی کوششیں اور دعائیں اس طرح بارگاہ ایزدی میں قبول ہوئیں کہ اب پوری دنیا از خود یہ اعتراف کر رہی ہے کہ صحیح ’’حل‘‘ صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے۔ اس اجمال کی تفصیلات یہاں پیش نہیں کی جا سکتیں۔ (ویسے بھی اس موضوع پر بیش بہا اسلامی لٹریچر موجود ہے) چند باتوں کے ذکر پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔ اسلام نے معیشت کا یہ رُخ متعین کیا ہے کہ وسائل حیات اس طرح استعمال ہوں کہ وہ انسانوں کے فلاح و بہبود کے ضامن بنیں۔ معیشت کا مقصد عدل اور احسان کا قیام ہے۔ عدل اجتماعی یہ ہے کہ تمام انسانوں کو یکساں مواقع حاصل ہوں اور وسائل حیات کے حصول میں کسی کے ساتھ ظلم نہ ہو۔ احسان یہ ہے کہ عقل، صحت، علم اور دیگر حالات کے پیش نظر وسائل حیات کے حصول میں جو پیچھے رہ جائیں، یا محروم رہ جائیں ان کی بنیادی ضروریات پوری کی جائیں۔
شریعت کے مقاصد میں یہ بات شامل ہے کہ انسان کا عقیدہ، اس کی زندگی، نسل اور دولت محفوظ ہو۔ اسلام نے معیشت کے میدان میں چند چیزوں کو حرام اور چند چیزوں کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ جو چیزیں بھی ان حرام اور مکروہ چیزوں سے نہیں ٹکرائیں اور جو شریعت کے مقاصد سے متصادم نہیں ہیں ان کی اجازت ہے۔ ان مواقع یعنی معیشت کی منفی لسٹ میں سود، جُوا، ارتکاز (یعنی قیمتوں میں اضافہ کے لیے اشیائے خوردنی کو روک رکھنا) رشوت، دھوکہ دینا، بغیر قبضہ کے فروخت کرنا، جبر کرنا معاہدے کے وقت اہم معلومات فراہم نہیں کرنا، کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ فائدہ لینا، جھوٹی بولی بول کر قیمت کو بڑھانا وغیرہ شامل ہیں۔ قرض کے سلسلے میں اسلام کا رویہ بہت واضح ہے اور آج کی معیشت سے بالکل جدا ہے قرض پر کوئی بھی اضافہ کسی بھی شکل میں حرام ہے۔ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایک شخص دوسرے شخص کو صرف دو صورتوں میں رقم دے سکتا ہے۔ قرض حسن کی صورت میں جہاں صرف اتنی ہی رقم واپس ہو گی جو دی گئی تھی خواہ مدت واپسی جو بھی ہو۔ دوسری صورت سرمایہ کاری کی ہے یعنی نفع و نقصان میں شراکت کے ساتھ۔ نفع کی شرح طے شدہ ہو گی اور نقصان کی سرمایہ کے بقدر (Loss on Capital Ratio) اس طرح اسلام نے سرمایہ کاری کو راست معیشت سے جوڑ دیا ہے۔ منافع اسی وقت ممکن ہے جب ’’اشیاء اور خدمات‘‘ میں اضافہ ہو۔ سرمایہ میں اضافہ اشیاء اور خدمات میں اضافہ کے مماثل اور متوازی ہو گا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی متذکرہ خرابی جس میں سرمایہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور اصل معیشت (Real Economy) پیچھے رہ جاتی ہے، اسلامی نظام میں ممکن نہیں ہے۔ اسلام میں اس طرح معیشت کی ترقی سے تمام لوگ مستفید ہوتے ہیں، صرف سرمایہ دار نہیں۔
قبضہ (Possession) کی شرط نے بھی اسلامی معیشت کو متذکرہ خرابیوں سے پاک کر دیا ہے۔ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے مجھے اس سے منع کیا کہ جو چیز میرے پاس موجود نہ ہو۔ میں اس کے بیع کا معاملہ کسی سے کروں (ترمذی) اس اصول کے تحت فروخت صرف وہ شخص کر سکتا ہے جو کسی شئے کا مالک ہو یا اصل مالک کا وکیل (ایجنٹ) ہو۔ سرمایہ دارانہ نظام کے فیوچرس مارکٹ (Futures Market) کے سٹے بازوں (Speculator) کی کوئی گنجائش اسلام نے نہیں چھوڑی ہے۔ اس طرح مالی منفعت اسی وقت ممکن ہے کہ جب معیشت میں نئی شئے اور نئی خدمت کا اضافہ ہو۔ سرمایہ اور سرمایہ کاری کے اسلامی تصورات کے بغیر دنیا نے خود اپنے ہاتھوں اپنی معیشت کی تباہی کا جو نظم کیا ہے، اس کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ ۱۶ نومبر ۲۰۰۸)
Leave a Reply