مصر میں جولائی ۲۰۱۳ ء میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک اخوان المسلمون کی قیادت سمیت ۵۰ ہزار سے زائد کارکنان کو جیلوں میں قیدکر دیا گیا ہے۔ اس صورتحال سے پیدا ہونے والے خلانے خواتین کارکنان کو مجبور کیا کہ وہ تحریک میں پہلے سے زیادہ فعال کردار ادا کریں ۔جس کی بنیاد ان کا کئی دہائیوں پہ محیط سیاسی تجربہ ہے ،جس میں تحریک کا ۱۲-۲۰۱۱ ء میں بطور سیاسی جماعت (فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کام کرنے کا تجربہ بھی شامل ہے۔
۲۰۱۱ ء کی’’ عرب بہار‘‘ سے پہلے خواتین کارکنان تحریک کے تنظیمی ڈھانچے میں پہلے سے زیادہ نما ئندگی کا مطالبہ کر رہی تھیں، ساتھ ہی ساتھ وہ ریاستی جبر کا سامنا بھی کر رہی تھیں۔ عرب بہار کے بعد خواتین کی بڑھتی ہوئی فعالیت نے انھیں ایک بار پھر ریاست کے نشانے پہ لا کھڑا کیا ہے۔
شروع میں اِن خواتین کارکنان کے ذمے صرف سماجی کام جیسے غریب خاندانوں کی رہائش کا انتظام وغیرہ تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ اِنھوں نے سیاسی دائرے میں بھی کام کا آغاز کیا، حسنی مبارک کے دورِاقتدار(۲۰۱۱ء-۱۹۸۲ء) میں اِن خواتیں نے اپنی توجہ اخوان کے ان کارکنان کی سیاسی و معاشی مدد کی طرف مرکوز کی جنھیں ریاست کی طرف سے خطرہ سمجھ کر قید کردیا گیا تھا۔
اخوان المسلمون کی خواتین کارکنان نے ایک سنگ میل اُس وقت عبور کیا، جب اُنھوں نے ۲۰۰۵ء اور ۲۰۱۰ء کے انتخابات میں اخوان کے امیدواروں کے لیے ذرائع ابلاغ پر مہم چلانے میں معاونت کی۔ ۲۰۱۱ ء کے انقلاب سے پہلے حکومت کی طرف سے خواتین کا کردار معمولی سمجھا جاتا تھا ، اسی وجہ سے اُس وقت خواتین کے ریاستی جبر کا نشانہ بننے کے بہت کم واقعات سامنے آئے۔خواتین کارکنان کے محدود کردار کی ایک وجہ اخوان کی مرد قیادت کی جانب سے عائد پابندیاں بھی تھیں، وہ نہیں چاہتے تھے کہ خواتین ریاستی تشدد کا نشانہ بنیں۔
حسنی مبارک کی حکومت نے دیگر چالیں آزما کر خواتین کو جیلوں میں قید کرنے سے اجتناب کیا۔ مثال کے طور پہ ۲۰۰۰ء کے انتخابات میں جب اسکندریہ کی ایک سینئر خاتون کارکن نے حکمران جماعت کے امیدوار کے خلاف حصہ لیا تو ریاست نے ان پہ دباؤ ڈالنے کے لیے ان کے شوہر(جو خود بھی اخوان کے کارکن تھے ) کو گرفتار کر لیا۔سکیورٹی افسران نے انتخابات سے دستبردار ہونے کے بدلے ان کے شوہر کی رہائی کی پیشکش کی۔
فروری ۲۰۱۱ء سے جون ۲۰۱۳ء تک کے عرصے میں سیاسی فضا سازگار ہونے کی وجہ سے اخوان کے تنظیمی ڈھانچے میں اور عوامی سطح پرخواتین کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔ اخوان کی خواتین نے مصر بھر میں پھیلے فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے دفاتر میں خواتین کو سیاسی آگاہی د ی اور میڈیا ریلیشن کمیٹیوں میں کام کیا۔ یہ خواتین اب اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہونے لگی تھیں۔ مثلاََ ۲۰۱۲ء کے صدارتی انتخابات میں عمیمہ کامل کو اُس اسمبلی کا رکن بنایا گیا ۔جس کے پاس آئین سازی کی ذمہ داری تھی، وہ صدر محمد مرسی کی معاون بھی رہیں۔ اس کے علاوہ دینہ ذکریا کو فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کا ترجمان مقرر کیا گیا۔ ۲۰۱۲ء کے بعد سے اخوان نے خواتین کو علاقائی کمیٹیوں کی سربراہی کی بھی اجازت دے دی، یہ کمیٹیاں براہِ راست شوریٰ کے ساتھ رابطے میں ہوتی ہیں۔ ماضی میں اس طرح کے عہدے صرف مردوں کے پاس ہوتے تھے۔
تاہم خواتین اب بھی اخوان یا فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی میں کوئی بڑا عہدہ نہیں رکھتیں۔ صباح الشاکری، جو پارٹی سیکریٹریٹ کی رکن بھی ہیں، نے ۲۰۱۲ء میں پارٹی چیئرمین کے انتخابات میں حصہ لینا چاہا ،لیکن اِس کے لیے درکار دستخطوں کی مقررہ تعداد کے حصول میں ناکام رہیں۔ فوجی بغاوت کے بعد حکومت اور تحریک کے خلاف صدرعبدالفتح السیسی کے خونی کریک ڈاؤن کی وجہ سے کئی خواتین کارکنان نے سیاسی طور پر فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کی بجائے آزاد حیثیت میں کام کرنا شروع کردیاہے۔اِن کے کام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو سامنے لانا بھی شامل ہے۔ مثال کے طور پر رابعہ العدویہ کے دھرنے کے دوران خواتین نے Women Against The Coup(WAC) نامی تحریک کا آغاز کیا۔ یہ ۲۰۱۳ء کی فوجی بغاوت کے بعد قائم ہونے والی خواتین کی مزاحمتی تحریکوں میں سب سے پہلی اور ملک بھر میں سب سے زیادہ متحرک تنظیم ہے۔یہ خواتین مظاہروں میں حصہ لیتی ہیں، مظاہرین کے خلاف حکومتی جارحیت کے حوالے سے ذرائع ابلاغ پر بات کرتی ہیں اور Human Rights Watch جیسے اداروں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں آگاہ کرتی ہیں۔ بیرونِ ملک مقیم اس تنظیم کی ترجمان اسما شوکر خواتین کے خلاف سیسی حکومت کی جانب سے کی گئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں آواز اٹھاتی ہیں۔ ریاست کے خلاف اخوان کی خواتین کے بڑھتے ہوئے تحرک نے انہیں اُس وقت ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا، جب ۱۹ جولائی ۲۰۱۳ء کو سکیورٹی فورسز نے حکومت مخالف مظاہرے میں شریک ۳ خواتین کو شہید کر دیا۔
اخوان کی خواتین کارکنان نومبر ۲۰۱۳ء سے ہی خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے معلومات و حقائق جمع کر رہی ہیں۔ مزید یہ کہ انھوں نے حزب اختلاف میں اپنا اثر بڑھانے کے لیے بائیں بازو کی نمایاں تنظیموں سے بھی اتحاد کیا ہے، جن میں ’’حشام مبارک لاء سینٹر‘‘ بھی شامل ہے۔ جو اِن خواتین کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے حوالے سے تربیت دیتا ہے۔
اخوان کی خواتین بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں ’’ہیومن رائٹس مانیٹر‘‘ اور ’’انسانیہ‘‘ سے بھی رابطے میں ہیں۔ مصر سے باہر ان خواتین کا کام حزبِ اختلاف کے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹ عالمی برادری تک پہنچانا ہوتا ہے ، اِن رپورٹوں میں موجود معلومات وہ خواتین فراہم کرتی ہیں جو ابھی بھی مصر میں موجود ہیں۔
۲۰۱۳ء سے اخوان کے خلاف آنے والے ردِعمل نے اخوان کو تنظیمی اور نظریاتی طور پر دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے، ایک طرف اخوان کی معمر قیادت ہے اور دوسری طرف نوجوان انقلابی کارکن۔ یہ تقسیم ۲۰۱۴ء میں اُس وقت مزید گہری ہو گئی جب حکومت کی طرف سے اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا گیا۔ نوجوان ریاست سے مقابلہ کرنے کا رویّہ رکھتے ہیں جبکہ بزرگ قیادت ریاست سے صلح صفائی اور تصفیے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ تاہم خواتین کارکنان کی اکثریت قیادت کے ساتھ کھڑی ہے یا پھر غیر جانبدار ہے۔
تحریک سے وابستہ خواتین کو ایسی مہمات کا سامنا ہے جن میں انہیں رُسوا کیا جاتا ہے۔دوسری جانب کئی ایسے ادارے بھی ہیں، جو رابعہ العدویہ کے دھرنوں میں خواتین کی شرکت پہ تنقید کرتے ہیں اور اخوان پر خواتین اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پہ استعمال کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔یہاں تک کہ ایک مقامی اخبار نے اخوان کی خواتین پر اٹارنی جنرل حشام براکات کے قتل اور دیگر دہشت گرد کارروائیوں کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا۔آخر کار جولائی ۲۰۱۳ء میں قاہرہ کی عدالت نے WACپہ پابندی عائد کردی۔
عوامی سیاست میں خواتین کے بڑھتے ہوئے کردار نے اخوان کی قیادت کے لیے خواتین کی طرف سے تنظیمی ڈھانچے میں مزید نمائندگی کے مطالبے کو نظر انداز کرنا مشکل کر دیا ہے۔ دینہ ذکریا کا کہنا ہے کہ ’’ فوجی بغاوت کے بعد خواتین نے خود مزاحمت کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تھا۔ کوئی خواتین کو اس لیے گھروں میں رہنے کا نہیں کہہ سکتا کیوں کہ گھروں سے باہر اُن کے لیے خطرات ہیں‘‘۔اس وجہ سے ترکی میں مقیم اخوان کی قیادت نے جنوری ۲۰۱۷ء میں نئے قوانین ترتیب دیے اور شوریٰ میں خواتین کا کوٹہ مخصوص کیا، اس کے ساتھ ہی انھوں نے شوریٰ کی پہلی خاتون رکن کا بھی انتخاب کیا۔
(ترجمہ: محمد عمید فاروقی)
“How the Muslim Brotherhood’s women activists stepped up in Egypt”. (“middleeasteye.net”. January 15, 2018)
Leave a Reply