کولنجنْ: ہندی زبان میں پان کی جڑ کو کہتے ہیں۔ گلوکاروں کے گلے میں جب خرابی ہو جاتی ہے تو وہ ’’کولنجن‘‘ تلاش کرتے ہیں کیونکہ اسے منہ میں رکھنے سے ان کے گلے کی خرابی رخصت ہو جاتی ہے۔ اس لفظ کی اصل ’’خولنجان‘‘ ہے۔ یہ کئی امراض میں بطور دوا استعمال ہوتی ہے۔
شَنگرَف: سرخ رنگ کی ایک معدنیات جو گندھک اور پارے کی آمیزش سے بنتی ہے۔ اسے تقویتِ بدن کے لیے بطور دوا استعمال کیا جاتا ہے۔ ’’شنگرف‘‘ کے رنگ کی شے کو ’’شنگرفی‘‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ فارسی زبان کا یہ لفظ عربی میں پہنچ کر ’’شنجرف‘‘ بن جاتا ہے، حالانکہ عربی زبان میں اس کے لیے ایک اور لفظ ’’زنْجَفر‘‘ موجود ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ زَنْجَفر اور شَنجرَف ایک دوسرے کی بدلی ہوئی صورتیں ہیں۔ گویا شنجرف، شنجفر اور پھر زَنجفَر بن گیا۔
رَسَن: فارسی زبان میں ’’رسّی‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اردو میں یہ لفظ ’’دارورَسَن‘‘ کے حوالے سے مشہور ہے۔ اہلِ لغت کے مطابق یہ لفظ عربی زبان میں بھی موجود ہے اور عربی میں اس لفظ کی جمع ’’ارسان‘‘ بنائی جاتی ہے یعنی رسّیاں! فرق صرف یہ ہے کہ عربی میں ’’رسَن‘‘ نکیل کی رسی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ہم اردو داں جب ’’رَسَن‘‘ کو ’’دارورَسَن‘‘ کی صورت میں پڑھتے ہیں تو ہم اسے ’’گلے کی رسّی‘‘ یعنی ’’پھانسی کے پھندے‘‘ کے معنوں میں لیتے ہیں۔!!
چَرم: آپ کو فوراً عیدالاضحی کے زمانے میں جگہ جگہ لگے ہوئے بینر اور پوسٹر یاد آ گئے ہوں گے، جن میں ’’چرمِ قربانی کے بہترین مصرف‘‘ سے آپ کو آگاہ کیا جاتا ہے۔! جی ہاں، ’’چَرْم‘‘ فارسی زبان میں ’’چمڑے‘‘ کو کہتے ہیں۔ اسی سے لفظ بنا ’’چرمی‘‘ یعنی چمڑے سے بنا ہوا۔ مثلاً چرمی دستانے، چرمی تھیلا وغیرہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عربی زبان میں جب ’’چرم‘‘ کو چمڑے کے مفہوم میں استعمال کرتے ہیں تو اسے اپنی سہولت کے لیے ’’صَرم‘‘ کہتے ہیں۔ حالانکہ خود عربی زبان میں ’’صَرم‘‘ کے معنی ہیں: درخت کاٹنا، بات کاٹنا، دوٹوک فیصلہ سنانا، اسی سے لفظ بنا۔ ’’صارِم‘‘ جس کا مطلب ہے، تیز دھار والی تلوار، دلیر آدمی۔
آب: یوں تو چھوٹا سا لفظ ہے لیکن اس کے معنوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ عموماً پانی، چمک، رونق اور عزت کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ فارسی زبان کے اس لفظ سے کئی محاورے بھی بنا کر اردو زبان میں ٹانک لیے گئے ہیں۔ مثلاً آب آمد، تمیّم برخاست…. آب آب کر مر گئے، سرہانے دھرا رہا پانی! اس کے علاوہ ’’آب‘‘ سے بہت سا ری تراکیب یعنی مرکب الفاظ بھی اردو میں رائج ہیں، مثلاً ’’آب دار‘‘ یعنی تیز دھار والا، چمکیلا، صاف، ’’آبدوز‘‘ یعنی پانی کے اندر بھی چلنے والی کشتی، ’’آب و گِل‘‘ یعنی پانی اور مٹی، مجازاً عادت، سرشت، خمیر وغیرہ۔
’’زہراب‘‘ سے مراد ہے زہریلا پانی، ’’آب و تاب‘‘ سے مراد ہے ’’رونق‘‘۔ ’’آبرو‘‘ کا مطلب ہے، وجاہت، یعنی وہ وقار جو چہرے پر نظر آتا ہے۔ اسی مناسبت سے ’’عزت‘‘ کے لیے لفظ ’’آبرو‘‘ استعمال ہونے لگا۔ ’’آب خور‘‘ یا ’’آب خورہ‘‘ اس برتن کو کہتے ہیں، جو پانی پینے کے لیے استعمال ہوتا ہے، لیکن جدید فارسی دانوں نے ’’آب خور‘‘ سے مراد ایسا شخص بتایا ہے، جو ’’آب‘‘ یعنی شرم و غیرت تک کو پی جائے، یعنی بے غیرت اور بے حیا کو اب ’’آب خور‘‘ کہتے ہیں۔ ’’آبِ جُو‘‘ کا مطلب ہے ’’ندی، نہر‘‘ ’’جُوئے آب‘‘ اس کا مقلوب (اُلٹ) ہے، جس طرح ’’وطنِ مادر‘‘ کے مفہوم میں ’’مادر وطن‘‘ کی ترکیب بولی جاتی ہے۔ ’’آب ریز‘‘ لوٹے کو کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ پانی بہاتا اور بکھیرتا ہے۔ کثرتِ استعمال سے ’’آب ریز‘‘، ’’ابریز ‘‘ بن گیا۔ یہی لفظ عربی میں پہنچ کر ’’ابریق‘‘ بن گیا۔ عربی میں ’’ابریق‘‘ لوٹے ہی کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع ’’اباریق‘‘ بنائی جاتی ہے۔
قِمّہ: پہاڑ کی چوٹی کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع ہے: ’’قِسَمم‘‘۔ یہ لفظ باز نطینیوں نے استعمال کیا تو اسے یونانی زبان میں اِقمہ ACME کہا گیا، گویا اسے ’’القمہ‘‘ سے بنایا گیا۔ جب یہ لفظ انگریزی میں پہنچا تو اسے ’’ایکمی‘‘ ACME کہا جانے لگا۔ مراد وہی ہے، پہاڑ کی چوٹی۔ اسی سے مجازاً اور معنی بھی وجود میں آگئے، مثلاً: کسی کام کا درجہ کمال کو پہنچنا، بیماری وغیرہ کی وجہ سے پیدا ہونے والی بحرانی کیفیت۔ انگریزی کے لفظ ’’ایکمی‘‘ ہی سے ایک لفظ بنایا گیا، ’’ایکمائٹ‘‘ ACMITE یہ لفظ ایک کیمیکل (سوڈا ہائر وکسین) کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسے ’’ایکمائٹ‘‘ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی قلمیں (کرسٹلز) مخروطی انداز میں کسی اہرام کی طرح بنتی ہیں، گویا کوئی پہاڑی ہو!
شہاب: یہ لفظ جب فارسی میں بولا جاتا ہے تو ’’ش‘‘ پر زبر لگاتے ہیں اور اس سے مراد نہایت سرخ رنگ لیتے ہیں جو ایک قسم کے پھول ’’کسم‘‘ کو بھگو کر ٹپکانے سے حاصل ہے۔ اس لفظ کو ’’شاہ آب‘‘ کا مخفّف مانا جاتا ہے۔ یہی لفظ جب عربی میں استعمال ہوتا ہے تو ’’ش‘‘ کے نیچے زیر لگا دیتے ہیں اور اس کے معنی آگ کا بلند شعلہ لیے جاتے ہیں، گویا سرخ رنگت تو مشترک ہے لیکن اس کی کیفیت بدل گئی ہے۔! ’’شِہاب‘‘ کا لفظ عربی میں روشن ستارے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور آسمان سے گرنے والے ستارے کے لیے بھی۔ اس لفظ کو رات میں ستارے سے نکلنے والے شعلے کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ اسی سے ’’شِہاب ثاقب‘‘ کی ترکیب بنی۔ ’’ثاقب‘‘ کا مطلب ہے نہایت چمکیلا، روشن۔ ’’شہاب ثاقب‘‘ سے مراد ہے، ’’رات کو ٹوٹنے والا چمکیلا ستارہ۔‘‘
تبرزد: سفید شکر کی ڈلیاں۔ مصری کی ڈلیاں۔ ادویہ کے ذائقے کو اچھا بنانے کے لیے طبیب حضرات اسے استعمال کرتے ہیں۔ ’’تبرزد‘‘ جب فارسی سے عربی میں پہنچا تو ’’طبرزد‘‘ ہو گیا۔
دَردَشہ: عربی زبان کا غیر فصیح لفظ ہے اگرچہ بلیغ ہے! اسے مخلوط باتوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یعنی مختلف موضوعات پر نامکمل گفتگو یا متعدد باتوں کا آمیزہ بنانا۔ قدیم مفہوم ہے۔ مختلف مشروبات کو آپس میں ملا کر ایک مشروب تیار کرنا۔ اسی طرح عربی زبان میں ’’بِالدَردَشہ‘‘ کا مطلب لیا گیا: ’’مخلوط عمل کے ذریعے‘‘ ۔ یہ لفظ جب انگریزی میں پہنچا تو انہوں نے اسے ’’بال دَردَش‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ اس کے ہجے ہیں: BALDERDASH اس کے معنی بھی وہی لیے جاتے ہیں، جو ہم نے ابھی بیان کیے یعنی، مشروبات کا آمیزہ، بے معنی گفتگو، کوئی بھی شے جو کسی جواز کے بغیر دوسرے پر تھوپ دی جائے وغیرہ۔
طبرخون: عربی میں سرخ صندل کی لکڑی کو کہتے ہیں۔ ہندی میں پہنچ کر یہ لفظ ’’تبرخون‘‘ بن گیا۔ بعض لوگ اسے ’’مجیٹھ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔
(بحوالہ: ’’لفظوں کا دلچسپ سفر‘‘۔ ڈاکٹر ایس اے ہاشمی)
Leave a Reply