جے اے کڈن نے ’’پینگوئن ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز اینڈ لٹریری تھیوری‘‘ میں بتایا ہے کہ ادب میں کسی بھی رجحان یا پیش رفت کو تحریک کہا جاتا ہے۔ جو لوگ رجحان اور پیش رفت میں تمیز کو ضروری سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ادب میں کوئی بھی تحریک کسی مشترکہ مقصد یا مقاصد کے حصول کے لیے ہوتی ہے جبکہ رجحان سے مراد کسی بھی معاملے میں عمومی جھکائو ہے، خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی۔
پاکستان میں اسلامی ادب کی تحریک نے خاصی طاقت حاصل کی اور اثرات بھی مرتب کیے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد پیدا ہونے والی اس تحریک نے اخلاقی، روحانی یا روایتی اقدار کی پاسداری کا عزم رکھنے والے مصنّفین اور قارئین کو غیر معمولی حد تک متاثر کیا۔
اسلامی ادب کی تحریک سے بھی پہلے پاکستانی ادب کی تحریک شروع ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر تاثیر اور محمد حسن عسکری قیام پاکستان سے قبل ہی پاکستانی ادب کی ممکنہ خصوصیات کا سوال اٹھا چکے تھے۔ ان کا اصرار اس بات پر تھا کہ پاکستانی ادب کی اپنی خصوصیات مواد اور لہجہ ہونا چاہیے۔ اور یہ کہ اس ادب سے پاکستان کا نظریہ اور اقدار جھلکنی چاہیئں۔ بعض نقادوں کا خیال ہے کہ بعد میں عسکری صاحب نے پاکستانی ادب کے معاملے کو اسلامی ادب کی تحریک سے ملا دیا۔ اس کے نتیجے میں بہت سے امور آپس میں الجھ گئے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اسلامی ادب کی تحریک نے پاکستانی ادب کی تحریک ہی سے جنم لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی ادب اور اسلامی ادب کے لیے چلائی جانے والی تحاریک الگ الگ تھیں۔
کارل مارکس کے نظریات پر یقین رکھنے والے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے قیام کے حق میں تھے۔ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کے حوالے سے فیض احمد فیض نے کہا تھا۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
ان خیالات سے وہ لوگ آزردہ اور برہم ہوئے جن کے لیے قیامِ پاکستان ایک خواب کی تعبیر سے کم نہ تھا۔ حسن عسکری اور ممتاز شیریں نے وطن سے مصنف کی کمٹمنٹ کا سوال اٹھایا اور یہ مطالبہ کیا کہ مصنف کو وطن سے وفادار رہنا چاہیے۔ مارکس نواز عناصر کے نظریات مختلف تھے اور وفاداری کے بارے میں ان کا اپنا فلسفہ تھا۔ اس پس منظر کے ساتھ بعض مصنفین نے ترقی پسند تحریک پر تنقید شروع کی۔ بالخصوص اخلاقی اور مذہبی اقدار کے بارے میں ترقی پسند مصنفین کے نظریات کو زیادہ نشانہ بنایا گیا۔ ترقی پسند ادب کے بارے میں سوالات اٹھانے والو ںکی پہلے بھی کمی نہ تھی۔ نئے ناقدین نے اسلامی اور اخلاقی اقدار کو بنیاد بنایا اور حب الوطنی کا سوال بھی اٹھایا۔ ان کوششوں نے بہت جلد اسلامی ادبی تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ اسلامی ادبی تحریک کے لیے آواز بلند کرنے والے مصنفین اور ناقدین کی اکثریت کا تعلق جماعت اسلامی سے ہمدردی اور لگائو رکھنے والوں سے تھا۔ تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلامی ادب کی تحریک میں صرف جماعت اسلامی کے لوگ شامل تھے۔
۱۹۵۳ء میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی عائد کر دی گئی جب کوئی طاقتور حریف سامنے نہ رہا تو اسلامی ادب کی تحریک بھی کمزور پڑ گئی۔ آج یہ تحریک اپنے ماضی کامحض عکس ہے تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلامی ادب کی تحریک دَم توڑ چکی ہے۔
ترقی پسند تحریک کے شدید ناقدین اور دانشوروں میں ماہر القادری بھی شامل تھے۔ وہ ترقی پسند تحریک اور اس کے لیے کام کرنے والوں کی مخالفت قیامِ پاکستان سے قبل سے کرتے آ رہے تھے۔ ۱۹۴۷ء میں ہجرت کر کے پاکستان آنے کے بعد ماہر القادری نے ترقی پسند تحریک کے خلاف لڑائی وہیں سے شروع کی جہاں اسے چھوڑا تھا۔ کراچی میں انہو ںنے ماہنامہ ’’فاران‘‘ جاری کیا اور چند اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے کام کیا۔ اس جریدے کے لیے لکھی جانے والی کسی بھی چیز کے لیے لازم تھا کہ چند اصولوں کی بنیاد پر مرتب ہو۔ یہ اصول اخلاقی، تہذیبی اور مذہبی تھے۔ ’’فاران‘‘ میں کسی بینک کا اشتہار شائع نہیں ہوتا تھا اور کوئی تصویری اشتہار بھی شائع نہیں کیا جاتا تھا۔ ماہر القادری زبان و بیان میں کوتاہی برداشت نہیں کرتے تھے۔ اور کتب پر تبصروں میں وہ مصنفین کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بناتے تھے کہ وہ الفاظ کی اہمیت او رقوت سے واقف نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ ماہرالقادری کے اصولوں سے متفق نہ بھی ہوں مگر سچ یہ ہے کہ چند اصول اور تصورات تھے جن پر وہ کاربند رہتے تھے۔ ’’فاران‘‘ محض ادبی جریدہ نہ تھا بلکہ یہ اسلامی اور اخلاقی اقدار کا آئینہ بھی جس سے روایتی اسلامی کلچر جھلکتا تھا۔
ماہر القادری کا اصل نام منظور حسین تھا۔ ۳۰ جولائی ۱۹۰۶ء کو اترپردیش کے ضلع بلند شہر میں کسیر نامی قصبے میں پیدا ہوئے۔ ماہرالقادری شاعر، نقاد، افسانہ نگار، ناول نگار، خاکہ نگار، ماہر لسانیات اور صحافی تھے۔ لکھنے پڑھنے کا شوق ان میں والد کو دیکھ کر پیدا ہوا جو قصبے کے واحد پڑھے لکھے شخص تھے اور شاعری بھی کرتے تھے۔ ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ماہر القادری نے دکن کی ریاست میں ملازمت اختیار کی۔ وہاں انہیں شعرا اور دانشوروں کی معیّت میں رہنے کا موقع ملا۔ انہوں نے عمیق مطالعے اور مشق سے شاعری میں اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا اور چند معرکہ آرا نظمیں لکھ کر نام کمایا۔ ۱۹۳۳ء میں ماہر القادری نے ملازمت ترک کر کے بجنور کی راہ لی تاکہ ہفتے میں دو دن شائع ہونے والے اخبار ’’مدینہ‘‘ میں کام کر سکیں۔ بعد میں یہ اخبار روزنامہ میں تبدیل ہوا۔ بچوں کے ماہنامہ ’’غنچہ‘‘ کی ادارت بھی انہیں سونپی گئی تاہم ۶ ماہ بعد ہی اس پرچے کی اشاعت بند ہو گئی۔ اس کے بعد ماہر صاحب دکن واپس چلے گئے۔ ۱۹۴۱ء میں ایک مشاعرہ پڑھنے کے لیے ماہر صاحب ممبئی گئے، ممبئی میں ماہر صاحب کی خوب پذیرائی کی گئی۔ ۱۹۴۴ء میں انہوں نے ممبئی میں رہائش اختیار کر لی جہاں انہیں کئی فلموں کے گیت اور کہانیاں لکھنے کا موقع ملا۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا فلمی دنیا کی کامیاب ترین ہستیوں کے ساتھ تھا یہ افواہ بھی پھیلی کہ مشہور مغنیہ جدن بائی اپنی بیٹی (اداکارہ) نرگس کی شادی ماہر القادری سے کرنا چاہتی تھیں۔ مگر ماہر صاحب کو ادب سے گہرا لگائو تھا اور وہ چند اقدار کو ہر شے پر مقدم رکھتے تھے۔ ۱۹۴۶ء میں ماہر صاحب نے ممبئی کو خیرباد کہہ کر دہلی میں رہائش اختیار کی جہاں سے وہ ’’فاران‘‘ جاری کرنا چاہتے تھے۔ بعد میں ماہر صاحب فلمی دنیا میں گزارے ہوئے دنوں کو یاد کر کے کفِ افسوس ملا کرتے تھے۔
دہلی میں ماہر صاحب نے جیسے ہی پراپرٹی خریدی، پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا اور وہ اپنے آبائی شہر چلے گئے۔ اس شہر کو بلوائیوں نے گھیر لیا تاہم ماہر صاحب کسی نہ کسی طور بچ نکلے اور اہلِ خانہ کے ساتھ پاکستان پہنچ گئے۔
۱۹۴۹ء میں ماہر صاحب نے ’’فاران‘‘ کراچی سے جاری کیا اور ساتھ ہی حلقۂ ادبِ اسلامی قائم کیا۔ ۱۹۷۸ء میں ماہر صاحب کا انتقال ہوا۔ تب تک ’’فاران‘‘ باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔ ماہر صاحب ۱۳ مئی ۱۹۷۸ء کو جدہ میں خالقِ حقیقی سے جا ملے اور مکہ مکرمہ میں ان کی تدفین عمل میں لائی گئی۔ ان کی تخلیقات میں طلسمِ حیات، ظہور قدسی، درِ یتیم، محسوساتِ ماہر، جذباتِ ماہر، نغماتِ ماہر، نقشِ توحید، کاروانِ حجاز اور یادِ رفتگاں شامل ہیں۔ ’’قرآن کی فریاد‘‘ ان کی مقبول ترین نظم ہے۔
عبدالغنی فاروق نے ماہر القادری پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جو ۲۰۰۲ء میں شائع ہوا۔
(بشکریہ: ’’ڈان‘‘ کراچی۔ ۱۰ مئی ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply