سعودی حکومت نے مصر کی فوجی حکومت کو اربوں ڈالر کی امداد دی ہے۔ مغربی دنیا مصر کی فوجی حکومت کے لیے امداد کی بندش کے حق میں ہے مگر سعودی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ امداد جاری رکھے گی۔
سعودی عرب نے مصر میں حکومت مخالف مظاہرین کو کچلنے کے لیے فوجی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرتے رہنے کی حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ اس سلسلے میں سعودی حکومت تیل کی دولت کے ساتھ ساتھ سفارت کاری کو بھی استعمال کر رہی ہے۔ یہ اقدامات مغرب کی ان کوششوں کے جواب میں ہیں جن کا مقصد مصر میں قتل و غارت کی راہ مسدود کرکے معاملات کا پرامن حل تلاش کرنا ہے۔ امریکا اور یورپ نے مصر کی فوجی حکومت کے لیے امداد میں کٹوتی اور بعض حالات میں بندش کا اعلان کیا ہے مگر دوسری طرف سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ اس کے (علاقائی) اتحادی مغرب کی طرف سے امداد میں پیدا ہونے والا خسارہ پورا کریں گے۔ مصر کی معیشت ڈانوا ڈول ہے۔ فوجی حکومت نے مظاہرین کو کچلنے کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ایسے میں بیرونی امداد کے بغیر اس ملک کا چل پانا انتہائی دشوار ہے۔ اگر خلیجی ممالک بڑے پیمانے پر مدد نہ کریں تو مصر کی معیشت مکمل طور پر گر پڑے گی۔
سعودی فرماں روا عبداللہ بن عبدالعزیز نے چند ہفتوں کے دوران اخوان المسلمون پر کھل کر تنقید کی ہے، گشتی ہسپتال مصر بھیجے ہیں اور مصر کی فوجی حکومت کی مدد کرتے رہنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے حال ہی میں یورپ کا دورہ کیا ہے جس کا مقصد مصر کی فوجی حکومت کو سزا دینے سے متعلق یورپی اقدامات کو غیر موثر بنانا تھا۔ شاہ عبداللہ نے ایک نشری تقریر میں کہا ہے کہ جو لوگ بھی مصر کے معاملات میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں، ہم ان کے خلاف کھڑے ہیں۔
سعودی عرب بیشتر معاملات میں امریکا کا حلیف ہے مگر اس نے مصر میں امن کے قیام کے حوالے سے یورپ کی کوششوں کے خلاف جانا پسند کیا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس نے ایسا کرکے عرب دنیا میں امریکی اثر و نفوذ کی کمی بے نقاب کی ہے۔ امریکا اور یورپ مصر کے جرنیلوں کو اعتدال کی راہ پر گامزن ہونے پر مائل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس معاملے میں وہ سعودی عرب کو بھی مصر پر دباؤ ڈالنے کے لیے آمادہ کرنے میں ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔
مصر کی فوجی حکومت کا ساتھ دینے کے معاملے میں سعودی عرب تنہا نہیں۔ امریکا کے دو اہم اتحادی اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے بھی مصر کی فوجی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت ختم کرنے کے بعد جو کچھ بھی مصر میں ہوا ہے، اس کے حوالے سے یورپ کی صلح جویانہ کوششوں کے خلاف جانے والوں میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات بھی نمایاں ہیں۔
سعودی عرب عام طور پر پردے کے پیچھے رہ کر چیک بک ڈپلومیسی کی راہ پر گامزن رہنا پسند کرتا ہے مگر اس بار اس نے ایک ایسے انقلاب کو الٹنے کا موقع ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا جس کی اُس نے ابتدا ہی سے مخالفت کی ہے۔
دو سال قبل جب عرب دنیا میں بیداری کی لہر اٹھی اور مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، تب سعودی عرب نے شدید ردِعمل ظاہر کیا تھا اور اس سے زیادہ شدید ردِعمل اس وقت ظاہر کیا گیا جب مصر میں عام انتخابات ہوئے اور اخوان المسلمون سب سے بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری اور حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوئی۔ سعودی عرب کو اس بات سے بھی رنج ہوا کہ اخوان المسلمون اور جنرل عبدالفتاح السیسی کے درمیان بظاہر گاڑھی چھنتی دکھائی دی، جو ریاض میں مصر کے ملٹری اتاشی کی حیثیت سے کام کرچکے تھے اور سعودی حکام سے غیر معمولی روابط کے حامل تھے۔
اٹلانٹا (امریکا) کی ایموری یونیورسٹی میں عربی کی لیکچرر اور مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا سے متعلق امور کے بلاگ ’’مفتاح‘‘ کی کنٹری بیوٹر ایمینڈا ای راجرز کہتی ہیں کہ سعودی عرب کی بادشاہت کو اسلام نواز جمہوری تحریک سے شدید خوف لاحق ہے۔
سعودی عرب نے ضرورت پڑنے پر علاقائی معاملات میں اپنی دولت خوب خرچ کی ہے۔ مصر کی نئی فوجی حکومت کی مدد کے معاملے میں سعودی عرب نے اپنا ہی ریکارڈ توڑنے کی قسم کھالی۔ صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے (۳ جولائی ۲۰۱۳ء) کے محض ایک ہفتے کے اندر سعودی عرب نے مصر کی فوجی حکومت کے لیے ۱۲؍ ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا۔ امریکا نے ڈیڑھ ارب ڈالر اور یورپی یونین نے ایک ارب ۳۰ کروڑ ڈالر کا اعلان کیا تھا۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات اور قطر بھی مصر کی فوجی حکومت کے لیے فیّاضی کا مظاہرہ کرنے پر تُل گئے۔
شاہ عبداللہ کی نشری تقریر کے چند ہی گھنٹوں بعد سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل پیرس کی طرف رواں تھے، جہاں انہوں نے صدر فرانکوا اولاند سے ملاقات کی تاکہ مصر کی فوجی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا عہد لے سکیں۔ یہ یورپی معیارات کے خلاف تھا، جس نے کچھ دن قبل ہی کہا تھا کہ مصر کی فوجی حکومت کی حمایت نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ تشدد روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
فرانس سے واپسی پر سعودی وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ فرانس کی حکومت مفروضوں نہیں بلکہ حقائق کی بنیاد پر مصر کی فوجی حکومت کی حمایت پر آمادہ ہوچکی ہے۔ یہ واضح نہیں تھا کہ جو کچھ سعود الفیصل کہہ رہے تھے وہ فرانسیسی حکومت کی پالیسی کا آئینہ دار تھا یا نہیں۔ سعودی پریس ایجنسی کی سرکاری ویب سائٹ پر اپنے بیان میں سعود الفیصل نے کہا کہ جو لوگ مصر کی نئی حکومت کی مدد نہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ جان لیں کہ سعودی عرب نئی مصری حکومت کی بھرپور مدد کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ سعودی عرب نے جنوری ۲۰۱۱ء میں مصر میں شروع ہونے والی عوامی تحریک کے دوران حسنی مبارک کی حکومت کو گرنے سے بچانے میں ناکامی کا ذمہ دار امریکا اور یورپ کو ٹھہرایا تھا مگر تب یہ تنقید غیر سرکاری سطح پر اور ڈھکی چھپی تھی۔ جب محمد مرسی صدر منتخب ہوئے اور نئی حکومت تشکیل دی تب بھی سعودی عرب کا رویّہ زیادہ مخاصمانہ نہیں تھا۔ سعودی حکومت نے مصر کی پہلی جمہوری حکومت کے لیے پانچ ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تاکہ معیشتی ابتری کو دور کرنے میں خاطر خواہ مدد مل سکے۔
امریکی امداد کے برعکس، سعودی امداد پوری کی پوری براہِ راست حکمرانوں کو جاتی ہے اور اس کے ساتھ شرائط بھی منسلک نہیں ہوتیں۔ امداد کا بڑا حصہ مصر کے مرکزی بینک میں جمع ہوتا ہے۔ کچھ حصہ مفت یا سستے تیل کی شکل میں ہوتا ہے۔
امریکا اور یورپ کی حکومتیں جسے بھی امداد دیتی ہیں، وہ ان کے بعض قوانین کے پابند ہوتے ہیں۔ ان کا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ امدادی رقم سے جو کچھ بھی کیا جائے، وہ غیرسرکاری تنظیموں کی سطح پر ہو تاکہ اس کے اثرات نمایاں ہوں اور دکھائی دیں۔
سعودی عرب اور خلیج کے متعدد ممالک مصر میں فوجی حکومت برقرار رکھنے کے حق میں ہیں، جبکہ قطر اور ترکی چاہتے ہیں کہ جمہوری حکومت بحال ہو، اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اخوان المسلمون کی حمایت کرتے ہیں۔ قطر نے اپنی خارجہ پالیسی کو کامیاب بنانے کے لیے خرچ کے معاملے میں سعودی عرب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس نے عرب دنیا میں بیداری کی لہر شروع ہونے کے بعد سے اب تک لیبیا اور شام پر خطیر رقم خرچ کی ہے۔
مصر کے لوگوں کا سعودی عرب سے محبت اور نفرت پر مبنی ملا جلا رشتہ رہا ہے۔ کم و بیش بیس لاکھ مصری سعودی عرب میں کام کرتے ہیں، مگر ان میں بیشتر تلخ تجربات کے ساتھ وطن واپس آتے ہیں۔
گزشتہ برس قاہرہ میں سعودی عرب کو اپنا سفارت خانہ مظاہروں کے باعث بند کرنا پڑا۔ سعودی عرب میں انسانی حقوق کے مصری وکیل احمد الغزاوی کو قید اور ۳۰۰ کوڑوں کی سزا سنائے جانے پر مصر میں عوام نے شدید احتجاج کیا۔ سعودیوں کا دعویٰ تھا کہ وہ منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث تھا۔ اہلِ مصر کا کہنا ہے کہ اس کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے سعودی عرب میں کام کرنے والے مصری باشندوں سے ناروا سلوک کے خلاف سعودی فرماں روا عبداللہ بن عبدالعزیز کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مقدمہ درج کرایا تھا۔
اب جبکہ سعودی عرب نے مصر کے لیے غیر معمولی امداد کا اعلان کیا ہے، مصر میں اخوان المسلمون کے مخالفین میں سعودی حکومت کے لیے غیر معمولی ستائشی جذبات پائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں آسٹریلیا سے مصر واپس آنے والے بزنس مین محمود سلامہ کا کہنا ہے کہ امریکی امداد کے مقابلے میں سعودی امداد کو وہ چوم کر قبول کریں گے۔
(“Saudi Arabia Keeps aid flowing to Egypt”… “International Herald Tribune”.Aug. 21, 2013)
Leave a Reply