
حیا، صالح فطرت کی وہ اندرونی کیفیت ہے جو انسان کو عصمت و پارسائی، شائستگی اور معقولیت اور تہذیب و شرافت کی حدود کا پابند بناتی ہے۔ ذہن و فکر کی پاکیزگی اور گفتار و کردار کی عمدگی و ستھرائی کو شرم و حیا سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جب انسان میں حیا کی صفت پختہ ہو جاتی ہے تو وہ جذبات و احساسات اور خیالات و افکار کے اظہار میں بے لگام نہیں پھرتا۔ عام طور پر حیا کو صرف عورتوں کا معاملہ سمجھا جاتا ہے، ان کے لیے لازم سمجھا جاتا ہے کہ وہ حجاب اور پردے کی پابند رہیں، نسوانی عفت و حرمت اور عصمت کی حفاظت کا خیال رکھیں اور سرعام شوخ اداؤں اور بے باک نگاہوں کے مظاہرے نہ کرتی پھریں۔ اس سے تھوڑا آگے جائیں تو عورتوں اور مَردوں کے جنسی جذبات کو قابو میں رکھنے اور اپنے آپ کو شرم کے دائرے کا پابند بنانے کو حیا سمجھا جاتا ہے۔ بِلاشبہ بے ہودہ اور لچر فکر، فحش گفتگو اور گھٹیا حرکات یا بزرگوں کے سامنے بے حجابی و بیباکی آداب کے منافی رویے اور بے حیائی میں شمار ہونے والی چیزیں ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مرد ہوں یا عورتیں، نفسِ انسانی کی یہ پاکیزہ باطنی کیفیت دونوں صنفوں کی زندگی کے ہر مرحلے اور ہر میدان کی ضرورت ہے۔ حیا یہی نہیں کہ بُرائی کا ارتکاب کرنے کے لیے اپنے اوپر سات پردے تان لیں کہ بُرا کام کرتے ہوئے لوگوں نے دیکھ لیا تو سماجی حیثیت مجروح ہوگی اور عزت میں کمی آئے گی۔ بُرے کام کو ہر مقام پر اور ہر حال میں بُرا سمجھ کر اس سے بچنا حیا ہے۔ بُرائی سے اس لیے بچا جائے کہ سارے جہاں سے پوشیدہ رہ کر بھی کی جائے، یہ بجائے خود قابلِ نفرت ہے۔
حیا کی صفت نہ تو صرف عورتوں سے خاص ہے اور نہ یہ صرف جنسی جذبات اور افعال تک محدود ہے۔ لیکن نسوانی فطرت کے اندر حیا داری کا جوہر مَردوں کے مقابلے میں بہت قوی ہوتا ہے۔ اسی لیے عورت اور حیا کو باہم لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں نسوانی حیا کی ایک مثال ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں ملتی ہے۔ قبطی کے قتل کے بعد جب فرعونیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا منصوبہ تیار کیا تو خوداختیاری جِلاوطنی اختیار کرکے وہ مدین چلے گئے۔ مدین کے مَرد بزرگ (یہ شعیب علیہ السلام تھے) کی صاحبزادیاں حیاکی پیکر تھیں۔ والد کے ضعفِ پیری کے سبب ان کو گھر کے سارے کاموں کے علاوہ مویشیوں کے چارہ پانی کے لیے باہر بھی جانا پڑتا تھا، لیکن وہ مدین والوں کے مخلوط کلچر کے برعکس کنویں پر اپنے مویشیوں کو اس وقت تک پانی نہیں پلاتی تھیں جب تک وہاں سے مرد چھٹ نہ جاتے تھے۔ حضرت موسیٰؑ وہاں پہنچ کر تھکے ہارے کنویں کے کنارے درخت کے سائے میں کھڑے تھے۔ انہیں جب ان عورتوں کی زبانی ان کی مشکل کا پتا چلا تو ان کے جانوروں کو پانی پلانے میں ان کی معاونت کی۔ صاحبزادیوں نے گھر جاکر اس کا ذکر اپنے والد سے کیا تو انہوں نے اپنی ایک بیٹی کو بھیج کر اس تعاون کا معاوضہ دینے کے لیے اس اجنبی مَرد کو بُلا بھیجا۔ کتابِ مجید میں حضرت موسیٰؑ کو بلانے کے لیے جانے والی اس عورت کی حیا کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے: ’’ان دونوں عورتوں میں سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اس (موسیٰؑ) کے پاس آئی اور کہنے لگی: میرے والد آپ کو بُلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو جو پانی پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دے دیں‘‘۔ (القصص:۲۵)
قرآن حکیم میں نسوانی حیا اور پاکیزہ فطرت کی دوسری تصویر ہمیں حضرت مریم علیہما السلام کے کردار میں ملتی ہے۔ وہ بیت المقدس کے مشرقی گوشے میں معتکف ہوکر پردے میں بیٹھی اللہ کی عبادت کررہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی خوشخبری کے ساتھ ایک بشر کی صورت میں اپنے فرشتے کو ان کی طرف بھیجا۔ ایک اجنبی ’مرد‘ کو یوں تنہائی میں اپنے سامنے دیکھ کر انہیں جو فکر لاحق ہوئی اس سے ان کی حیاداری اور عفت مآبی کی شدت جھلکتی ہے۔ انہیں ڈر محسوس ہوا کہ یہ شخص کسی بُری نیت سے ان کے تخلیہ میں داخل نہ ہوا ہو۔ پریشانی کے عالم میں انہوں نے اچانک وارد ہونے والے اجنبی سے کہا: ’’(ایک مرد کو اپنے سامنے دیکھ کر) مریم یکایک بول اٹھی کہ ’اگر تُو کوئی خداترس آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں‘ اُس (فرشتے) نے کہا: میں تو تیرے رب کا فرستادہ ہوں اور اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دوں۔ مریم نے کہا: ’میرے ہاں کیسے لڑکا ہوگا، جب کہ مجھے کسی بشر نے چُھوا تک نہیں ہے اور میں کوئی بدکار عورت نہیں ہوں‘‘۔ (مریم:۱۸۔۲۰)
قرآن پاک ہی سے یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ حیا مرد اور عورت دونوں کا یکساں اخلاقی وصف ہے۔ یہ وصف ہمیں پوری آب و تاب کے ساتھ قصۂ آدم و حوا میں نظر آتا ہے۔ جب دونوں میاں بیوی نے ابلیس کے دھوکے میں آکر شجرِممنوعہ کا پھل کھالیا تو ان کا جنت کا لباس اُتروا لیا گیا تھا۔ دونوں کو اپنی برہنگی کا احساس ہوا اور حالتِ اضطرار میں انہیں اور کچھ نہ سُوجھا تو انہوں نے فوراً جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنی شرم گاہیں ڈھانپنے کی کوشش کی۔ ’’جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو اُن کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے‘‘۔ (الاعراف:۲۲) ہمارے رسول اللہﷺ کے بارے میں حضرت ابوسعید الخدریؓ سے روایت ہے: ’’رسول اللہﷺ تخلیہ میں بیٹھی ایک کنواری دوشیزہ سے بھی کہیں بڑھ کر صاحبِ حیا تھے۔ حضورؐ کو جب کوئی چیز ناگوار گزرتی تو ہم آپؐ کے چہرے سے بھانپ لیا کرتے تھے‘‘۔ (بخاری و مسلم) اس حدیث سے تین باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ حیا عورت اور خاص کر نوجوان کنواری لڑکی کی فطرت اور سیرت کا جزوِ لازم ہے۔ ایسی لڑکی کی فطرت تقاضا کرتی ہے کہ خواہ گھر کی تنہائیوں میں بیٹھی ہوئی ہو، اس کی چال ڈھال اور انداز و اطوار سے حیا جھلکنی چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ حیا کی صفت مَردوں میں بھی اسی طرح مطلوب ہے جس طرح عورتوں میں اس کا ہونا ضروری ہے۔ تیسری بات یہ کہ ایک خاص ماحول میں حیا انسان کے طرزِ عمل سے ظاہر ہونی چاہیے۔ کسی کے غلط رویے پر اس کی عزت یا جذبات کا لحاظ رکھتے ہوئے کھل کر اظہارِ ناگواری کرنا مناسب نہ لگے تو چہرے کے تاثرات سے ظاہر کر دینا کہ وہ رویہ ناپسندیدہ ہے، حیا کی ایک قسم ہے۔ رسول مکرمﷺ کی ایسی حیا کا ذکر ہمیں قرآن پاک میں سورہ الاحزاب کی ۵۳ ویں آیت ملتا ہے۔ حضرت زینب بنت حجشؓ سے جب آپؐ نے نکاح کیا تو ولیمہ کا خاص اہتمام کیا گیا۔ حضرت انسؓ کو کچھ صحابہ کے نام بتا کر حکم ہوا کہ ان کو اور دیگر ان تمام لوگوں کو جو راستے میں ملیں کھانے کی دعوت دے آؤ۔ لوگ آنے لگے۔ دس دس کی ٹولیوں میں کھانا کھاتے اور چلے جاتے۔ لیکن کچھ حضرات کو موقع کی مناسبت اور اللہ کے نبیؐ کے لیے تخلیہ کی ضرورت کا احساس نہ ہوا اور وہ بے تکلفانہ گپوں میں لگ گئے۔ کھانا کھانے کے بعد ان کا اس طرح بیٹھے رہنا ایک سخت ناپسندیدہ حرکت تھی۔ حضورﷺ کے لیے یہ بہت تکلیف دہ عمل تھا، لیکن شرم و حیا کی بِنا پر اور ان لوگوں کے پاس و لحاظ سے آپؐ ان کو اٹھنے کے لیے نہیں کہہ رہے تھے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے خود اس معاملے میں مداخلت کرکے وحی کے ذریعہ دائمی طور پر ایسی مجلسوں کے آداب اور قاعدے مقرر کر دیے: ’’ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ، مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہو جاؤ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو۔ تمہاری یہ حرکتیں نبیؐ کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا‘‘۔
حیا کا ایک اور اندرونی مفتی
اللہ کے سارے رسول اسلام ہی کا پیغام لے کر مبعوث ہوئے تھے۔ تمدن ایک بہتا دریا ہے۔ تمدنی ترقی کی طرف سفرِ اجتماعیت میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ ان تمدنی تبدیلیوں کی وجہ سے انسانی زندگی میں نئے مسائل اور سوال پیدا ہوتے ہیں۔ شریعت کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ دین کے اصل اعتقادی اور اخلاقی اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے ہر دَور کے مسائل اور سوالوں کے جواب کہیں انبیاء نے خود دیے اور کہیں اس دَور کے اہلِ علم نے تلاش کیے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام نبیوں کی شریعتوں کے احکام وقت اور حالات کے تقاضوں کے تحت بدلتے رہے اور اللہ کے آخری نبیؐ کی بعثت کے بعد سابقہ انبیاء کی شریعتیں منسوخ ہو گئیں۔ البتہ عقیدۂ توحید اور معروف اخلاقی اصول قائم رہے۔ ان اصولوں میں سب سے ارفع رویہ اور اصول حیا ہے۔ یہ وہ اخلاقی وصف ہے جس کی تعلیم آدم علیہ السلام سے لے کر جناب محمد مصطفیﷺ تک ہر نبی نے دی۔ رسولِ پاکؐ کا ارشاد ہے: ’’پچھلی نبوتوں کی تعلیمات میں سے آخری باقی چیز جو لوگوں تک پہنچی وہ ہے کہ جب تُو نے حیا کو چھوڑ دیا تو پھر جو جی میں آئے کرتے پھرو‘‘۔ (البانی فی صحیح الجامع) ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ چور کو چوری کرتے ہوئے پکڑا جائے، کسی کے بارے میں دوسروں کی بہو بیٹیوں اور بہنوں بیویوں کو چھیڑنے کی شکایت ہو، دکان دار کم تولتا ہوا نظر آئے یا اسی طرح کی برائیوں میں ملوث کسی اور شخص کو عام لوگ ہی نہیں بلکہ اس کے خاندان کے شریف اور مہذب لوگ بھی یہ کہتے ہیں کہ ’تجھے یہ فعل کرتے ہوئے شرم نہیں آئی؟‘ یہاں مراد یہ ہوتی ہے کہ کیا تیرے اندر سے حیا مر گئی تھی کہ تو اس حرکت پر اُتر آیا۔ آدمی جو جی میں آئے وہ اسی وقت کرتا ہے، جب اس کے اندر ضمیر کی خلش اور باطن کی چبھن ختم ہو جاتی ہے۔ جب تک شخصیت میں حیا کا جوہر باقی رہتا ہے، برائی کے ارتکاب پر ضمیر کی خلش اور باطن کی چبھن محسوس ہوتی رہتی ہے۔ یہ انسان کے باطن کی مفتی ہے، جو اسے اندر سے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا فتویٰ دیتی ہے۔ حضرت وابصہ بن معبدؓ سے روایت ہے: میں ایک بار نیکی اور بدی کے بارے میں پوچھنے کے لیے نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ نے فرمایا: عبصہ کیا تُو مجھ سے بِرّ اور اِثْم یعنی ثواب اور گناہ کے بارے میں معلوم کرنا چاہتا ہے۔ میں نے عرض کیا: ’جی ہاں‘ رسول اللہﷺ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں اکٹھی کرکے ان سے میرے سینے پر ٹھونکا لگایا اور تین بار فرمایا: ’’اے عبصہ ’’اپنے من سے فتویٰ لو، اپنے دل سے پوچھو۔ نیکی وہ ہے جس سے دل کے اندر طمانیت اور قرار کی کیفیت محسوس ہو اور گناہ وہ ہے جو دل میں کھٹک اور خلش پیدا کردے۔ مفتیوں نے خواہ تمہیں کیسے ہی (عالمانہ) فتوے دیے ہوں‘۔ (احمد۔ دارمی)
حیا کی تین صورتیں
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ بات اسلام اورمسلم معاشرے کے تصورِ حیا کی ہو رہی ہے۔ تمام انبیا اسلام ہی کا پیغام لے کر مبعوث ہوئے تھے۔ سارے نبیوں نے اپنی قوموں کو حیا کی تعلیم دی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ شیطان نے نبیوں کے ماننے والی اقوام سے جو سرمایہ سب سے پہلے چھینا وہ حیا ہی ہے۔ انہوں نے اپنے لیے ایسے ضابطے وضع کرلیے جن میں حیا کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ تصورِ حیا سے تہی دامن ہوگئی ہیں۔ پیغمبروں کے دیے ہوئے زرّیں اخلاقی اصول مسخ ہوجانے اور آسمانی کتابوں کی تعلیمات کو خواہشاتِ نفس کے اتباع میں بدل ڈالنے کے بعد اب وہاں نفوس و قلوب سے نیکی کو نیکی اور بدی کو بدی بتانے والے کسی فتویٰ کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ جب لوگوں کی اکثریت کے اندر صالح روح مسخ ہوگئی ہو اور فسق و فجور اور حیا باختگی کا اس پر غلبہ ہو چکا ہو تو ان کے دل اور روحیں حیا اور راستی کا نہیں بلکہ فسق و فجور اور بے حیائی کا فتویٰ دیتی ہیں۔ اس کے برعکس متقی اور کریم النفس آدمیوں کے دلوں اور روحوں سے نیکی اور راستی کا فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے اپنے صحابی کو اپنے قلب اور نفس سے فتویٰ لینے کی تلقین کی تھی۔ صحابہ کرامؓ حیا من اللہ، حیا من الناس اورحیا من نفس کی پیکر ہستیاں تھیں۔ حیا من اللہ حیا کی بلند ترین صورت ہے۔ حیا کی اس صفت سے متصف ہونے کی وجہ سے سب صحابہ اللہ کے خوف سے اور اس کی رضا کی طلب اور محبت میں معاصی سے دور رہتے تھے۔ ان کے لیے یہ کوئی فلسفیانہ بات نہیں تھی بلکہ ان کے دل کی جڑوں میں راسخ عقیدہ تھا کہ وہ کہیں بھی ہوں اللہ کی نگاہوں میں ہیں۔ قرآن پاک کی درج ذیل آیت ان کے شعور پر مستولی تھی: ’’کیا تم کو خبر نہیں ہے کہ زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اللہ کو علم ہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں کوئی سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو، یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے اندر چھٹا اللہ نہ ہو۔ خفیہ بات کرنے والے خواہ اس سے کم ہوں یازیادہ، جہاں کہیں بھی وہ ہوں، اللہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر قیامت کے روز وہ اُن کو بتادے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا۔ اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے‘‘۔ (المجادلہ:۷) حیا من اللہ کے بعد حیا کی دوسری صورت حیا من الناس تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس سماج اور معاشرے میں ایک شخص زندگی بسر کرتا ہے اس کے تہذیبی اور اخلاقی قاعدوں ضابطوں کو توڑنے کی جسارت نہ کرے۔ حیا من النفس ایک تیسرا درجہ ہے جو تزکیۂ نفس اور اصلاحِ ذات کے مراحل سے گزرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ حیا کے اس درجے کو پہنچنے والا شخص سات پردوں میں بھی بیٹھا ہوا ہو تو معصیت میں پڑنے سے بچتا ہے۔ وہ اپنے آپ سے حیا کرتے ہوئے جائز اور حلال سے تجاوز کرکے ناجائز اور حرام کے حدود میں داخل نہیں ہوتا۔ حیا کی ان ساری شکلوں کی شعور اور نفس میں آبیاری ہو جائے تو پھر قلب و نفس معصیت کے جواز کا فتویٰ نہیں دیتا۔
حیا ایمان کا جزوِ اعظم
رسول اللہﷺ نے ہر خیر اور بھلائی اور ہر نیکی اور راستی کو ایمان سے جوڑ دیا اور بتایا کہ اس کے ثمرات و برکات دنیا سے لے کر آخرت تک پھیلے ہوئے ہیں۔ فرمایا کہ: ’’حیا ایمان کا ثمر ہے اور ایمان جنت کی ضمانت ہے اور فحاشی اور بداخلاقی نتیجہ ہوتی ہے برگشتگی اور بدمزاجی کا، جو دوزخ میں جھونکے جانے کا سبب بنتی ہے‘‘۔ (صحیح ابن حبان)
اسلام جس حیا کا تصورپیش کرتا ہے وہ ایمان سے پھولتی ہے۔ حدیث میں الحیاء مِنَ الْایْمَانِ کے الفاظ میں یہی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ مطلب یہ کہ حیا کی نمو ایمان سے ہوتی ہے یااس کی عمدہ فصل ایمان کی کھیتی میں اگتی ہے۔ ایک اور حدیث میں ایمان اور اخلاق و حیا کا رشتہ بتاتے ہوئے فرمایا گیا: ’’حیا اور اپنی زبان پر قابو رکھنا، ایمان کے دو شعبے ہیں اور بدگوئی اور زبان درازی نفاق کے دو شعبے ہیں‘‘۔ (ترمذی والترغیب والترہیب)۔ ایک اور ارشاد نبویؐ میں حیا کی برکات کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے: ’’حیا کے نتیجے میں اچھائیوں اور بھلائیوں ہی کو رواج ملتا ہے‘‘۔ حیا کا نتیجہ اچھائی کے سوا کسی دوسری صورت میں نکلتاہی نہیں ہے۔ ’’اجتماعیت میں حیا جیسی اخلاقی قدر کا چلن ہو وہاں خیر اور بھلائی، امن و عافیت اور سُکھ اور سکون کا راج ہوتا ہے‘‘۔
نبیﷺ نے فرمایا: ’’ایمان کی ساٹھ یا ستر سے کچھ اوپر شاخیں یا پہلو ہیں۔ بلند ترین شاخ تو یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور عبادت کا مستحق نہیں اور اس کا ادنیٰ شعبہ (خدمتِ انسانی سے تعلق رکھنے والا ایک چھوٹا سا کام) راستے سے کوئی ایسی چیز ہٹا دینا ہے، جس سے گزرنے والوں کو تکلیف پہنچنے کا احتمال ہو اور یاد رہے کہ حیا بھی ایمان کا ایک پہلو ہے‘‘۔
حیا اور نرگسیت میں فرق
بعض لوگ اس منفی نفسیاتی حالت کو بھی حیا کا نام دیتے ہیں، جس کا شکار ہو کر کوئی چھوٹا بچہ یا بڑا آدمی اپنے آپ کو اپنی ذات کی دیواروں میں محبوس کرلیتا ہے۔ آدمی خود ہی یہ سوچنے لگتا ہے کہ وہ جہاں رہ رہا یا کام کررہا ہے وہاں دوسرے لوگوں کے مقابلے میں نہ اس میں صلاحیت ہے، نہ اس میں ہمت ہے اور نہ اس کی عزت ہے۔ احساسِ کمتری کے باعث خجالت اس پر غالب آجاتی ہے۔ وہ لوگوں کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتا ہے۔ یہ نرگسیت (morbidity) زندگی کے میدان میں اسے کوئی اہم کردار ادا کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ نفسیاتی مرض کی اس شکل کا اُس حیا سے کوئی تعلق نہیں، رسول اللہﷺ نے جس کا تعلق خیر اور ایمان سے بتایا ہے۔ وہ حیا انسان میں خود اعتمادی پیدا کرتی ہے۔ گریز پائی کے بجائے پیش قدمی پر ابھارتی ہے۔ ایک تعمیری، مثبت اور حیات آفریں باطنی کیفیت ہے۔ حیا کی صفت قدرت کی ایک نعمت کی صورت میں جبلی طور پر شخصیت میں نمو پاتی ہے اور ارادے اور کوشش سے بھی اس کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ اس کے ایک جبلی اور فطری عنصر ہونے کی تائید رسول اللہﷺ کے ارشاد سے ہوتی ہے۔ عام الوفود میں رسول اکرمﷺ سے ملاقات کے لیے عبدالقیس کا وفد بھی آیا تھا۔ ان لوگوں کے دل میں ملاقات کا جو اشتیاق تھا اس کی وجہ سے مدینہ پہنچتے ہی حضورؐ سے ملاقات کے لیے دوڑ پڑے تھے، لیکن اشبح عبدالقیس (منذر بن عائذ) نے اطمینان سے سواری بٹھائی، اپنا حلیہ درست کیا۔ سامان اونٹوں سے اُتار کر ترتیب سے رکھا اور سکون اور وقار کے ساتھ نبی پاکﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آنحضورؐ نے اس کے اس طرزِ عمل کو دیکھ کر فرمایا: ’’تمہارے اندر دو ایسی خصلتیں ہیں جن کو اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں۔ اس نے حضورؐ سے دریافت کیا کہ کیا یہ خصلتیں میری فطرت میں ودیعت ہوئیں یا میں نے اپنی کوشش سے ان کو نمو دی؟ حضورؐ نے فرمایا: نہیں بلکہ یہ فطری ہیں، اس پر اس نے کہا: اُس اللہ کا شکر جس نے مجھے ایسی فطرت پر پیدا کیا جس کو اللہ اور اس کے رسول پسند کرتے ہیں‘‘۔ (ابن ماجہ، مسند احمد)
خالق اپنی مخلوق کی تخلیق فطرت کے اصولوں کے مطابق ہر لحاظ سے صحیح سالم کرتا ہے۔ انسان اور حیوان کی پیدائش کے بعد لوگ نومولود کے جسد اور علم و عقیدہ کے اعتبار سے کامل فطری وجود کو اپنے مشرکانہ عقائد، جاہلی رسم و رواج اور سماجی روایات میں ڈھال کر اس کی فطرت کو مسخ کر دیتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے ایک بار فرمایا: ’’پیدا ہونے والے ہر بچے کی پیدائش خالص فطرت پر ہوتی ہے۔ یہ والدین (خاندانی ماحول اور اس کے عقائد و اقدار) ہیں جو اسے (اسلام سے ہٹا کر) یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ کیا تم نے کسی جانور کے بچے کو پیدائش کے وقت دیکھا کہ اس کے اعضا کٹے ہوئے ہیں؟ یہ تم خود ہو جو (اپنے عقائد اور رسومات کے مطابق) اس کے اعضا کاٹ کر (فطرت کی صالح اور سالم تخلیق کو) اسے بگاڑ دیتے ہو‘‘۔ حیا کا بھی یہی معاملہ ہے۔ پیدا ہونے والا ہر بچہ پاکیزہ خصلتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، لیکن ماحول، مجلس اور مقام کے اثرات سے ان خصلتوں میں عیب پیدا ہوجاتے ہیں۔ آج مغرب کی عیسائی دنیا ہو یا دیگر غیر اسلامی دنیا کی حیا سوز فضا میں یہ امکان معدوم ہوچکا ہے کہ وہاں پیدا ہونے والے بچے سنِ شعور کو پہنچیں اور ان میں حیا کا کوئی تصور باقی ہو۔ ممکن نہیں ہے کہ اس کے اندر یہ احساس ہو کہ شرک ایک اعتقادی نجاست ہے اور عریانی اور فحاشی اور شراب نوشی اخلاقی برائیاں ہیں۔
فطرتِ انسانی میں حیا کی تخم ریزی ہو تو طبع قباحتوں میں پڑنے اور گھٹیا حرکتوں کے ارتکاب سے کراہت محسوس کرتی۔ یہ زبان اور عمل کی برائیوں کا راستہ روکتی ہے۔ حیا ایمان سے جُڑ کر حلال و حرام کی تمیز پیدا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن کاموں سے منع کیا ہے، اُن کے کرنے سے روکتی اور جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا، ان کو بجا لانے کی تحریک دیتی ہے۔ جب یہ شعور کی روشنی بنتی ہے تو اس سے اللہ کی وحدانیت کا احساس قوی ہوتا ہے۔ اِیْمَان بِاللّٰہ کو تقویت ملتی ہے، تَعَلُق بِاللّٰہ میں مضبوطی آتی ہے اور باطن سے حُب اللہ کی شعاعیں پھوٹتی ہیں، توَکَّل عَلَی اللّٰہ کی خاصیت اجاگر ہوتی ہے۔ اس حیا سے امید اور خوف کی بندگانہ شعاعیں پھوٹتی ہیں۔ زبان جب حیا کے تابع آتی ہے تو ذکر و دعا اور تلاوتِ قرآن کا شغف بڑھتا ہے۔ جب اعضا و جوارح پر اپنا اثر قائم کرتی ہے تو نماز، روزہ، حج اور انفاق جیسے عمل آسان ہو جاتے ہیں۔
حیا کا دائرۂ اثر
حیا تزکیۂ نفس میں معاون بھی ہے اور اس کی محافظ بھی۔ حیا کی حکمرانی ایک صاحبِ ایمان شخص کی گردن کے اوپر سر کی چوٹی سے لے کر اور گردن سے نیچے پاؤں کے تلوؤں تک کے سارے اعضا و جوارح پر ہر جگہ ہوتی ہے۔ اعضا و جوارح پر حیا کے اثرات کا ذکر حلیۃُ الاولیا، ترغیب و ترہیب، ترمذی، امام نووی کی المجموع شرح المہذب میں بیان ایک حدیث میں زیادہ واضح انداز میں آیا ہے۔ حضورﷺ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا: ’’اللہ سے حیا کرو جیسا حیا کا حق ہے‘‘۔ (صحابہ کرام کہتے ہیں) ہم نے عرض کیا: ’یا رسول اللہ! ہم تو اللہ سے حیا کرتے ہیں‘۔ آپؐ نے فرمایا: ایسا نہیں، بلکہ اللہ سے حیا تو یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس سے جڑے ہوئے اعضا اور اسی طرح پیٹ اور اس سے منسلک اعضا کی حفاظت کرو۔ موت اور اس کی بَلاؤں پر دھیان دو۔ جو کوئی آخرت کا طلب گار ہے اسے چاہیے کہ دنیا کی دلکشیوں اور رغبتوں کو چھوڑ دے۔ جس نے یہ کرکے دکھایا اس نے گویا اللہ سے حیا کی جیسا حیا کرنے کا حق ہے۔ سر کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ یہ نہ کسی طاغوت اور باطل کے سامنے جھکے اور نہ خود فرعونوں اور نمرودوں کی طرح غرور سے اکڑے۔ اس کے ساتھ دماغ، کانوں، ناک اور زبان پر حیا کا پہرا نہ ہو تو دماغ میں باطل سوچیں جنم لیتی ہیں۔ نگاہ پر حیا کی چوکیداری سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ نگاہِ حسد و رقابت کی ہو یا ہوس و شہوت کی، بے شمار اخلاقی اور سماجی مفاسد کو جنم دیتی ہے۔ کانوں کو بے ہودہ اورگھٹیا اور شرمناک آوازوں سے نہ بچایا جائے تو ان کے راستے فحش اور گھٹیا پیغام دل کو جاتے اور پاکبازانہ زندگی میں فساد پیدا کرتے ہیں۔ ناک بدبو کی عادی ہو جائے تو نفاستِ طبع اور ذوقِ سلیم کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ حیا نہ رہے تو زبان سے حق اور سچ کا کوئی کلمہ نہیں نکلتا۔ حیا احتیاط کے پاسبان کو چوکس رکھتی ہے کہ پیٹ میں حرام کے لقمے نہ جانے پائیں، دل وسوسوں اور گھٹیا جذبات و احساسات سے پاک رہے، ہاتھ نیکی کے کاموں کے لیے استعمال ہوں اور قدم راہِ حق ہی میں اٹھیں، برائی کے راستے پر نہ پڑیں۔ شرم گاہ کی پوری حفاظت کی جائے، اس لیے کہ رسول اللہﷺ کی طرف سے اس شخص کے لیے جنت کی ضمانت ہے جو اپنی زبان اور شرم گاہ کو حرام سے بچا لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث کا آخری حصہ ہے: ’’خبردار! انسانی جسم میں گوشت کی ایک بوٹی یا ٹکڑا ہے، جب اس کی اصلاح ہو جاتی ہے تو سارا جسد سلجھ سنور جاتا ہے، اور جب یہ بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے تو سارا جسم بگاڑ کی لپیٹ میں آجاتا ہے، اور یہ دل ہے۔ دل ایمان اور حیا دونوں کامرکز و محور ہے۔ اس میں بگاڑ دَر آئے تو حیا اور ایمان دونوں خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک اندر سے اٹھ جائے تو دوسرے کا باقی رہنا بھی ممکن نہیں رہتا۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’حیا اور ایمان دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، جب ایک اٹھا لیا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے‘‘۔
حیا کے اثرات صرف نفسِ انسانی ہی پر نہیں پڑتے۔ جب حیا کا ماحول تشکیل پاتا ہے تو اجتماعی زندگی پر بھی اس کا رنگ چڑھتا ہے۔ یہ فرد کی تطہیر کے علاوہ معاشرے کی اصلاح و تطہیر کا وسیلہ بھی ہے۔ ہمارے سب سے بڑے منتخب ادارے میں ایک شخص نے اپنی دانست میں اپنے حریفوں کی بے اصولی اور بے ضمیری پر چیخ چیخ کر، کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے‘ کے الفاظ کہے تھے۔ یہ الفاظ اب سیاست اور ذرائع ابلاغ میں ضرب المثل کے طور پر کثرت سے دہرائے جاتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ کہنے والے نے اپنی اور اپنے سیاسی گروہ کی شرم اور حیا کو بھی کبھی جانچا یا نہیں۔ ان الفاظ سے یہ حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ ان لوگوں کے اندر حیا کے بیج ہوں یا نہ ہوں مگر یہ سب جانتے ہیں کہ حیا کے زیور سے جتنا ایک دوشیزہ کا آراستہ ہونا ضروری ہے، اتنی ہی یہ سیاست دانوں کے لیے درکار ہے۔ مقننہ ہو یا انتظامیہ، عدلیہ ہو یا اپنے آپ کو جمہوریت کا چوتھا ستون باور کرانے والے ذرائع ابلاغ، سول اور ملٹری بیورو کریسی ہو یا سیاسی اور مذہبی جماعتیں، تاجر ہوں یا صنعتکار، حاکم ہوں یا محکوم، عوام ہوں یا خواص، حیا اور شرم کا جوہر سب کے لیے اشد ضروری ہے۔ قومی زندگی کے جس شعبے سے بھی حیا رخصت ہو جائے وہاں بے اصولی اور بے ضمیری غالب آجاتی ہے۔ جھوٹ اور مکر و فریب کو فروغ ملتا ہے۔ خودغرضی اور نفس پرستی کا چلن ہو جاتا ہے۔ حرص و ہوس غالب آتی ہے۔ دل و دماغ پر خدا پرستی کے بجائے مادہ پرستی چھا جاتی ہے۔
خواہشاتِ نفس الٰہ بن جاتی ہیں۔ آخرت کا تصور دنیا طلبی میں دب جاتا ہے۔ ادنیٰ و اعلیٰ اہلکار حرام خوری کے عادی ہو جاتے ہیں۔ نیچے سے اوپر تک راجا پرجا سب کی رگوں میں کرپشن داخل ہوجاتی ہے۔ موقع پرستی اور ابن الوقتی کو رواج ملتی ہے۔ ضمیر فروشی سے آگے بڑھ کر ایمان فروشی تک نوبت جاپہنچتی ہے۔ ذاتی مفادات کی خاطر قومی اور ملّی مفادات کے سودے ہونے لگتے ہیں۔ دین و وطن سے بے وفائی میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ اس ساری منفی صورتحال کا علاج یہ ہے کہ نفسِ انسانی میں شرم و حیا کی آبیاری ہو۔ حیا نفس کے تزکیہ کا کام کرتی رہے۔
(بحوالہ: “munir-khalili.blogspot.ae”۔ ۲ مارچ ۲۰۱۷ء)
Leave a Reply