نائن الیون کے بعد امریکا میں سب کے سر پر ایک بھوت سوار ہوا اور یہ بھوت تھا سیکورٹی کا۔ انسداد دہشت گردی کے نام پر حکومت نے عوام کا جینا حرام کردیا۔ ایک طرف تو ان کی محنت کی کمائی سیکیورٹی کے نام پر غیر معمولی سیٹ اپ قائم کرنے پر لٹائی گئی اور دوسری طرف ان کے لیے چلنا پھرنا بھی محال کردیا گیا۔ قدم قدم پر نگرانی کا نظام امریکیوں کی زندگی میں حکومت کی واضح مداخلت نہیں تو کیا ہے؟ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے دو سال کی تحقیق کے بعد ’’ٹاپ سیکریٹ امریکا‘‘ کے عنوان سے رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکا میں سیکیورٹی کے نام پر جو سیٹ اپ کام کر رہا ہے وہ کس حد تک پیچیدہ ہے اور اس سے وابستہ افراد کے لیے کتنی دشواریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس رپورٹ کی تیاری میں ہزاروں سرکاری دستاویزات کا جائزہ لیا، انٹرنیٹ پر جاری کیے جانے والے تجزیوں اور جائزوں پر نظر ڈالی، سیکڑوں فوجی اور انٹیلی جنس افسران سے انٹرویو کیے۔ بیشتر افسران نے اپنے نام خفیہ رکھنے کی درخواست کی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ سرکاری قوانین کے تحت انہیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ انہیں بہت سے حساس معاملات پر اظہار خیال کی بنیاد پر اپنے ہی ساتھیوں کے شدید ردعمل کا خوف بھی تھا۔ ڈانا پریسٹ نے اس رپورٹ کی تیاری کے لیے انتھک محنت کی۔ ان کی معاونت کرنے والے رپورٹروں کی تعداد دو درجن سے زیادہ تھی۔
نائن الیون کے بعد امریکا میں ہوم لینڈ سیکیورٹی اور انسدادِ دہشت گردی کے نام پر جو کچھ کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے اور اس کے نتیجے میں امریکا میں کس حد تک سیکیورٹی ممکن بنائی جاسکی ہے، یہ بھی سب کے سامنے ہے۔ امریکا میں کسی کو نہیں معلوم کہ انسداد دہشت گردی اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کے نام پر کتنے ادارے کام کر رہے ہیں، کتنے افراد ملازمت کر رہے ہیں، کتنے اخراجات کی ادائیگی کی جارہی ہے اور کتنے پروگراموں پر عمل کیا جارہا ہے۔ یہ پورا معاملہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ بہت کوشش کرنے پر بھی سمجھ میں آنے والا نہیں۔ دو سال کی محنت کے بعد جو کچھ سامنے آیا ہے وہ اس قدر وسیع ہے کہ اسے امریکا کا متبادل جغرافیہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ بہت کچھ ہے جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق ۱۲۷۱ سرکاری تنظیمیں اور ۱۹۳۱ نجی کمپنیاں دہشت گردی کے خاتمے اور داخلی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ امریکا بھر میں دس ہزار مقامات کی نگرانی کی جارہی ہے اور وہاں سے متواتر رپورٹنگ بھی ہو رہی ہے۔ ۸ لاکھ ۵۴ ہزار افراد کو ٹاپ سیکریٹ سیکیورٹی کلیئرنس دی جاچکی ہے۔ دارالحکومت واشنگٹن کے اندر اور نواح میں نائن الیون کے بعد سے ۳۳ عمارات داخلی سلامتی یقینی بنانے کے نام پر مختص کی گئی ہیں یا زیر تعمیر ہیں۔ ان عمارات کا مجموعی رقبہ ایک کروڑ ۷۰ لاکھ مربع فٹ ہے۔ اس رقبے میں امریکی محکمہ دفاع جیسی تین عمارات یا پھر کیپٹل ہل کی ۲۲ عمارات بنائی جاسکتی ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بیشتر خفیہ ادارے ایک ہی کام کر رہے ہیں۔ کسی ایک کام کے لیے متعدد اداروں کو کام پر لگانا وقت اور وسائل دونوں کا ضیاع ہے۔ ۵۱ وفاقی اور فوجی ادارے دہشت گردی کے لیے استعمال کیے جانے والے فنڈز کی ترسیل کا سراغ لگانے پر مامور ہیں۔ امریکی خفیہ اداروں کے تجزیہ کار ملک بھر اور بیرون ملک سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں ہر سال کم و بیش ۵۰ ہزار رپورٹس تیار کرتے ہیں۔ رپورٹس کی تعداد اس قدر ہے کہ ان میں بیشتر کو ایک نظر دیکھنا بھی ممکن نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس چیز کو ایک نظر دیکھنا بھی اعلیٰ حکام کے لیے ممکن نہ ہو اُسے تیار کرنے کا فائدہ؟
امریکا کو اندرونی سطح پر محفوظ رکھنے کی تمام کوششیں اب تک مکمل کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکیں۔ فورٹ ہڈ میں میجر ندال ملک حسن کے ہاتھوں ۱۳ افراد کی ہلاکت انہماک کی کمی کا نتیجہ تھی، وسائل کی قلت کا نہیں۔ گزشتہ کرسمس کے موقع پر ایمسٹرڈیم سے ڈیٹرائٹ جانے والی فلائٹ میں عمر فاروق عبدالمطلب کو دیسی ساختہ بم کے ساتھ گرفتار کرنا ایک مسافر کی مہربانی سے ممکن ہوسکا جس نے ایک سیٹ کی نیچے سے دھواں اٹھتا ہوا دیکھ لیا تھا۔ اس گرفتاری میں ان ہزاروں ماہرین کا کوئی کردار نہیں تھا جن کی خدمات امریکا نے دہشت گردی ختم کرنے اور داخلی سلامتی کو یقینی بنانے کے نام پر حاصل کر رکھی ہیں۔
انسدادِ دہشت گردی کے نام پر امریکا میں جو کچھ کیا جارہا ہے وہ ضرورت اور گنجائش سے کہیں زیادہ ہے۔ خفیہ اداروں کی رپورٹس کے ڈھیر لگتے جاتے ہیں اور ان پر ایک نظر ڈالنا بھی ممکن نہیں رہتا۔ سی آئی اے کے لیے بھی تمام امور کا ٹریک ریکارڈ رکھنا ممکن نہیں رہا۔ بہت سے امور پر بر وقت توجہ دینا ممکن نہیں رہا۔ معلومات کا ایک سمندر ہے جس میں بہت کچھ ڈوبتا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کہتے ہیں کہ کام کا بوجھ یقیناً بڑھتا ہی جارہا ہے اور بہت سے امور پر توجہ دینا اب ممکن نہیں رہا۔
امریکی محکمہ دفاع میں دو تہائی سے زیادہ انٹیلی جنس پروگراموں پر عمل ہوتا ہے۔ اس محکمے میں غیر معمولی حساس معلومات کے انبار لگے ہیں تاہم ان معلومات تک رسائی چند ہی افراد کو میسر ہے جنہیں سپر یوزرز کہا جاتا ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ ان اعلیٰ افسران میں بھی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی اور وہ مل کر کام نہیں کر پاتے۔ تمام معاملات پر سب کو بریفنگ دینا ممکن نہیں۔ کام کا بوجھ اس قدر ہے کہ بعض افسران بریفنگوں اور پریزینٹیشنوں سے اکتا جاتے ہیں۔ افسران پر کام کا دباؤ زیادہ ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل جان آر وائنز کو جب خفیہ رپورٹس کا جائزہ لینے کے لیے بلایا گیا تو مجموعی سیکیورٹی سیٹ اپ پر نظر ڈالنے کی استدعا بھی کی گئی۔ انہیں یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ تمام ایجنسیوں کی نگرانی اور ان سے جواب طلب کرنے کا اختیار کسی ایک ایجنسی کے پاس نہیں۔ اتنے بڑے سیٹ اپ اور اس پر غیر معمولی اخراجات کے باوجود پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ملک محفوظ تر ہو پایا ہے یا نہیں۔ سیکیورٹی سے متعلق بیشتر معاملات اب تک الجھے ہوئے ہیں۔ جان وائنز کا کہنا ہے کہ اب تک یہ کہنا ممکن نہیں کہ ملک کی سیکیورٹی کو ہر اعتبار سے بے داغ بنایا جاچکا ہے۔ یاد رہے کہ جان وائنز نے عراق میں ایک لاکھ ۴۵ ہزار امریکی فوجیوں کی کمان سنبھالی تھی۔
امریکا میں ہوم لینڈ سیکیورٹی کے نام پر جو کھڑاگ کھڑا کیا گیا ہے اس میں پیچیدگی اس قدر ہے کہ اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ کسی بھی اہم معاملے پر مطلوبہ معلومات کس طور سامنے لائی جاسکتی ہیں۔ کئی خفیہ دستاویزات تک فوری رسائی ممکن نہیں۔ سیکیورٹی کے معاملات میں تاخیر زہر کا درجہ رکھتی ہے۔ امریکی وزیر دفاع بل گیٹس اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کبھی کبھی کسی مطلوبہ دستاویز تک رسائی آسان نہیں ہوتی۔ یا خفیہ معلومات کا حصول مشکل ثابت ہوتا ہے تاہم انہیں اس بات پر بھی اصرار ہے کہ یہ پورا سیٹ اپ اتنا الجھا ہوا نہیں جتنا دکھائی دیتا ہے۔ وہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سیٹ اپ پر نظر ثانی کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔ انہیں یہ بات تسلیم کرنے میں بھی عار نہیں کہ بوجھ گھٹانے کی ضرورت ہے۔ بہت سے معاملات میں کام ضرورت سے زیادہ ہو رہا ہے۔
کیا خفیہ اداروں کو بھی اب تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے؟ اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینٹا کہتے ہیں کہ اخراجات کے معاملے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ نائن الیون کے بعد کی فوری صورت حال میں سیکیورٹی کے لیے غیر معمولی اخراجات کی منظوری مسئلہ نہ تھی مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ان اخراجات کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ پینٹا کہتے ہیں ’’سی آئی اے نے اپنے اخراجات پر نظر ثانی کے لیے پانچ سالہ پروگرام ترتیب دیا ہے۔ تمام اخراجات مرحلہ وار کم کیے جائیں گے۔ قومی معیشت اب خسارے سے دوچار ہے۔ ایسے میں سیکیورٹی کے لیے بھی فنڈنگ گھٹ جاتی ہے۔ اس بات کو اب سبھی محسوس کر رہے ہیں۔‘‘
مئی میں مستعفی ہونے والے انٹیلی جنس چیف ڈینس بلیئر کا کہنا ہے کہ ’’پریشانی کی کوئی بات نہیں، قومی سلامتی یقینی بنانے کے لیے جو سیٹ اپ لایا گیا تھا وہ عمدگی سے کام کر رہا ہے اور تمام متعلقہ اداروں کو تمام مطلوبہ معلومات بروقت فراہم کرنا ممکن ہے۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ داخلی سلامتی کو بنانے کے لیے جو کچھ کرنا ضروری ہے اس سے کچھ زیادہ ہی کیا جارہا ہے۔‘‘
آفس آف دی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس میں ۱۷۰۰ وفاقی ملازمین اور ۱۲۰۰ پرائیویٹ کنٹریکٹر کام کرتے ہیں۔ ان سب کا بنیادی کام داخلی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ نائن الیون کے بعد جو ادارے تیزی سے ابھرے اور جو نئے لوگ اس شعبے میں آئے ان سب کے وسط یا قلب میں یہ ہیڈ کوارٹر قائم ہے۔ اسی میں نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم سینٹر بھی ہے۔ ان دونوں مراکز کے لیے مشترکہ طور پر ’’لبرٹی کراسنگ‘‘ کی عرفیت استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ہیڈ کوارٹر اگرچہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے تاہم اسے نائن الیون کے بعد کی صورت حال میں سب سے بڑا سیٹ اپ قرار نہیں دیا جاسکتا۔۔۔۔(جاری ہے۔)
(بشکریہ: ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ ۱۹؍ جولائی ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply