یہ وائرس جسے ’’۲۰۱۹ء نوول کورونا‘‘ یا ’’این کوو‘‘ کا نام دیا گیا ہے، کے بارے میں سب سے پہلے عالمی ادارہ صحت نے ۳۱ دسمبر کو بتایا تھا اور جب سے اس کے بارے میں تحقیقات کی جارہی ہیں۔
چین کے سائنسدانوں نے اسے وائرس کے ایک خاندان کورونا وائرسز سے جوڑا ہے، جس میں ۲۰۰۰ء کی دہائی کا خطرناک سارس وائرس بھی شامل ہے۔
سائنسدان اب تک پوری طرح اس نئے وائرس کی تباہ کن صلاحیت کو سمجھ نہیں سکے ہیں جبکہ محققین نے اب اس کی ابتدا، اس کی منتقلی اور پھیلاؤ کے بارے میں تعین کرنا شروع کیا ہے۔
چین کی جانب سے اس کے پھیلاؤ کے حوالے سے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے گئے ہیں جبکہ عالمی ادارہ صحت کی خصوصی کمیٹی نے جنوری کے آخری ہفتے میں اسے عالمی سطح پر عوامی ایمرجنسی قرار دیا۔
اس وائرس کے بارے میں صورتحال بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اب اس پراسرار وائرس کے بارے میں آپ وہ سب کچھ جان سکیں گے، جو اَب تک سامنے آچکا ہے اور ایسے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں، جن سے آپ اس میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم کرسکتے ہیں۔
کورونا وائرس ہے کیا؟
کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رِنگ جیسا نظر آتا ہے، اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے، جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔
کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کا نوکدار حصہ ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔
ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتا ہے اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتا ہے اور پھر انہیں دیگر جگہوں پر بھیجنے لگتا ہے، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔
عموماً اس طرح کا وائرس جانوروں میں پایا جاتا ہے جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوتا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔
ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے، یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی۔ ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرس نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔
سارس یا مرس جیسے کورونا وائرسز آسانی سے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوجاتے ہیں، سارس وائرس ۲۰۰۰ء کی دہائی کی ابتدا میں سامنے آیا تھا اور ۸ ہزار سے زائد افراد کو متاثر کیا تھا، جس کے نتیجے میں ۸۰۰ کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔
مرس ۲۰۱۱ء کی دہائی کے ابتدا میں نمودار ہوا اور ڈھائی ہزار کے قریب افراد کو متاثر کیا، جس سے ۸۵۰ سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔
یہ نیا وائرس کہاں سے سامنے آیا؟
۲۰۱۹ء ناول کورونا وائرس بظاہر چین کے شہر ووہان کی سی فوڈ ہول سیل مارکیٹ سے پھیلنا شروع ہوا۔
ووہان ایک کروڑ ۱۰ لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے اور اس مارکیٹ میں مچھلیوں کے ساتھ ساتھ دیگر جانوروں جیسے چمگادڑ اور سانپ کا گوشت بھی فروخت کیا جاتا ہے اور وائرس سامنے آنے کے بعد اس مارکیٹ کو یکم جنوری کو بند کردیا گیا۔
ماضی میں پھیلنے والے وبائی امراض میں بھی مارکیٹیں ان کے آغاز اور پھیلاؤ کا باعث ثابت ہوئی ہیں اور اب تک جن افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، ان میں سے بیشتر حالیہ ہفتوں میں ووہان سی فوڈ مارکیٹ میں جاچکے تھے، یعنی یہ مارکیٹ وائرس کی ابتدا کے معمے کا اہم حصہ ہے، مگر سائنسدانوں کو فی الحال مختلف تجربات اور ٹیسٹوں کے بعد اس کی تصدیق کرنا ہوگی۔
طبی جریدے جنرل آف میڈیکل وائرولوجی میں شائع ایک رپورٹ میں چین کے محققین نے عندیہ دیا تھا کہ سانپوں میں ۲۰۱۹ء ناول کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بننے والا ممکنہ جاندار ہے، اس مقصد کے لیے انہوں نے وائرس کے جینیاتی کوڈ کا تجزیہ کرنے کے بعد اس کا موازنہ دو اقسام کے سانپوں میں چینی کوبرا اور کرایت سے کیا گیا۔ محققین کے مطابق سانپوں کا جینیاتی کوڈ اور اس وائرس میں بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔
مگر اس تحقیق کے فوری بعد ۲ دیگر تحقیقی رپورٹس میں اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس وائرس کو پھیلانے والا جاندار چمگادڑ ہے۔
چین کے ہی سائنسدانوں کے ایک گروپ نے ایک آن لائن مقالے میں کہا کہ انہوں نے وائرس کے جینیاتی کوڈ کا موازنہ پہلے کے سارس کورونا وائرس اور چمگادڑ کے دیگر کورونا وائرسز سے کیا اور انہوں نے گہرائی میں جینیاتی مماثلت کو دریافت کیا۔
یہ وائرس اپنے جینز کے ۸۰ فیصد حصے کو ماضی کے سارس وائرس اور چمگادڑوں میں پائے جانے والے کورونا وائرس کے ۹۶ فیصد حصے سے شیئر کرتا ہے، سب سے اہم بات یہ تھی کہ تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ یہ وائرس خلیات پر بالکل اسی طرح داخل اور کنٹرول کرسکتا ہے جیسا سارس کرتا ہے۔
ماضی کی دریافتوں سے قطع نظر اب بھی اس نئے وائرس کی بنیادی حیاتیاتی معلومات کے بارے میں جاننے کے لیے بہت کچھ باقی ہے اور پھر مستند طور پر بتایا جاسکے گا کہ کون سا جانور انسانوں میں اس کی منتقلی کا باعث بنا، فی الحال سانپ اور چمگادڑوں کو ہی اس کا سبب سمجھا جارہا ہے۔
اس نئے کورونا وائرس کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
چائنیز سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینٹیشن نے ووہان میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم بھیج کر اس نئے وائرس کے بارے میں تفصیلات اکٹھی کی اور مریضوں کے ٹیسٹ کیے تاکہ اسے کنٹرول کرنے کے اقدامات پر غور کیا جاسکے۔
نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں اس ٹیم کے نتائج کو شائع کیا گیا جن کے مطابق ۳ مریضوں کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا، الیکٹرون مائیکرو اسکوپ کو استعمال کرکے جینیاتی کوڈ پر تحقیق کی گئی اور اس کے بعد ٹیم پہلی بار ناول کورونا وائرس کو دیکھنے اور جینیاتی طور پر شناخت کرنے میں کامیاب ہوئی۔
جینیاتی کوڈ کو سمجھنے سے سائنسدانوں کو ۲ پہلوؤں کے بارے میں سمجھنے میں مدد مل سکے گی، یعنی انہیں ایسے ٹیسٹ بنانے میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے جو مریضوں کے نمونوں میں اس وائرس کی شناخت کرسکے اور ویکسین یا طریقہ علاج کو تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی۔
یہ وائرس کس طرح پھیل رہا ہے؟
یہ ایسا اہم سوال ہے جس کے جواب کے لیے سائنسدان سخت محنت کررہے ہیں، ایسا مانا جارہا ہے کہ پہلی بار یہ انفیکشن جانور سے انسان میں منتقل ہوا، مگر اس کے بعد قوی امکانات ہیں کہ ایک سے دوسرے انسان میں یہ منتقل ہورہا ہے۔
مینیسوٹا یونیورسٹی کے Infectious ڈیزیز ریسرچ اینڈ پالیسی کے مطابق چین میں ہیلتھ ورکر اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، سارس کی وبا پھیلنے کے دوران یہ نمایاں نقطہ ثابت ہوا تھا کیونکہ ہیلتھ ورکر ایک سے دوسرے ملک جاتے ہوئے اس بیماری کو پھیلاتے رہے۔
چینی انتظامیہ نے طبی عملے میں وائرس کی تصدیق کرتے ہوئے عندیہ دیا تھا کہ یہ ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوا ہے اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا خدشہ اسپتالوں میں وبا کا پھیلنا ہوسکتا ہے جو سارس اور مرس کورونا وائرسز میں بھی دیکھا گیا تھا، اس حوالے سے اقدامات کی ضرورت ہے۔
ووہان میں حکام مریضوں کے علاج کے لیے ایک ہزار بستروں کا اسپتال ۱۰ دنوں میں تعمیر کررہے ہیں کیونکہ اس وقت اسپتالوں میں گنجائش کی کمی کا سامنا ہے اور یہ نیا اسپتال ۳ فروری کو کھل سکتا ہے۔
چین نے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ووہان شہر کو ہی مکمل طور پر بند کردیا اور سفری پابندیاں عائد کی گئیں جن کا اطلاق بعد میں ۴ اور پھر ۸ مزید شہروں تک کیا گیا۔
یہ پابندیاں اس وقت عائد کی گئیں جب چین میں نئے قمری سال کا آغاز ہوا، اس موقع پر چینی شہروں میں لوگوں کی نقل و حمل میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے، بیجنگ میں اہم تقریبات کو منسوخ کیا گیا اور یہ تمام پابندیاں اور بندشیں غیرمعینہ مدت تک برقرار رہیں گی۔
چینی حکومت نے یہ عندیہ بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ وائرس علامات کے نمودار ہونے سے قبل ہی ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوسکتا ہے، کیونکہ مرض ظاہر ہونے سے پہلے کی علامات ایک سے ۱۴ دن تک ظاہر نہیں ہوتیں اور اس وقت تک مریض خود کو صحت مند سمجھتا ہے، تاہم اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی یقینی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ مدت کتنی ہے، ابھی تعین نہیں کیا جاسکتا۔
علامات کیا ہیں؟
اس نئے کورونا وائرس کی علامات ماضی میں امراض پھیلانے والے کورونا وائرسز سے ہی ملتی جلتی ہیں اور اس وقت جن افراد میں اس کی تصدیق ہوئی ہے ان میں سے بیشتر کو نمونیا جیسی علامات کا سامنا ہوا جبکہ کچھ میں زیادہ سنگین ردعمل بھی دیکھا گیا۔
۲۴ جنوری کو معتبر طبی جریدے دی لانسیٹ میں اس مرض کے کلینیکل فیچرز پر تفصیلی تجزیہ شائع کیا گیا تھا اور اس رپورٹ کے مطابق مریضوں میں درج ذیل علامات سامنے آسکتی ہیں:
بخار، جسمانی درجہ حرارت بڑھ جانا، خشک کھانسی، تھکاوٹ یا پٹھوں میں تکلیف، سانس لینے میں مشکل۔
اس کی کم نمایاں علامات درج ذیل ہیں:
کھانسی میں بلغم یا خون آنا، سردرد، ہیضہ۔
جب یہ مرض بڑھتا ہے تو مریضوں میں نمونیا کی تشخیص ہوتی ہے، جس میں پھیپھڑے ورم کے شکار اور پانی بھرنے لگتا ہے، اس کو ایک ایکسرے میں دیکھا گیا اور تحقیق میں شامل ۴۱ مریضوں میں اسے دیکھا گیا۔
کیا اس کا کوئی علاج موجود ہے؟
کورونا وائرسز کو بہت سخت جان جراثیم قرار دیا جاتا ہے، جو انسانی مدافعتی نظام میں موثر طریقے سے چھپ جاتے ہیں اور اب تک ان کے لیے کوئی قابل بھروسا طریقہ علاج یا ویکسین تیار نہیں ہوسکی ہے جو ان کا خاتمہ کرسکے، بیشتر واقعات میں طبی عملہ اس کی علامات پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسی پروگرام کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر مائیک ریان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ کورونا وائرس کے حوالے سے کوئی طریقہ علاج موجود نہیں، کورونا وائرس سے متعلق وبا کے حوالے سے مریضوں کو مناسب نگہداشت خصوصاً نظام تنفس سپورٹ اور اعضا کی سپورٹ فراہم کی جاتی ہے۔
ایسا نہیں کہ ویکسین کی تیاری ناممکن ہے، چینی سائنسدانوں نے وائرس کے جینیاتی کوڈ کا سیکونس بنانے میں انتہائی تیزی سے کام کیا، جس سے سائنسدانوں کو اس حوالے سے تحقیق اور اس پر قابو پانے کے ذرائع پر غور کرنے کا موقع ملے گا۔
سی این این کے مطابق یوایس نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ نے پہلے ہی ایک ویکسین پر کام شروع کردیا ہے، مگر اسے متعارف کرانے میں ایک سال یا اس سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ۸ ہزار افراد کو متاثر کرنے والے سارس وائرس کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ یہ ایک مخصوص راستے پر چلتا ہے اور پھر لگ بھگ غائب ہوجاتا ہے، ایسی ویکسین نہیں جو اس وائرس کا خاتمہ کرے بلکہ ممالک کے درمیان موثر رابطے اور احتیاطی تدابیر اس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد دیتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق ہم یہ جان چکے ہیں کہ وبائی امراض کو ادویات یا ویکسین کے بغیر کنٹرول کیا جاسکتا ہے، جس کے لیے نگرانی کے عمل کو بڑھانے، مریضوں کو صحت مند افراد سے الگ کرنے، ان کے رابطوں کی ٹریکنگ، خطرے کے حوالے سے ذاتی احتیاط اور انفیکشن کنٹرول اقدامات سے مدد لی جاسکتی ہے۔
شرح اموات کس حد تک ہوسکتی ہے؟
اس وائرس سے دنیا بھر میں لوگوں کو ذہنی پریشانی کا سامنا ہوا ہے، مگر بظاہر یہ وائرس سارس جتنا جان لیوا نہیں، جس کے نتیجے میں ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۳ء میں ۷۷۴ ہلاکتیں ہوئیں۔ اور اموات کی شرح ۶ء۹ فیصد تھی جبکہ اس نئے کورونا وائرس کے شکار افراد کی تعداد سارس کے ۸ ماہ کی مجموعی تعداد سے ایک ماہ کے اندر ہی زیادہ ہوگئی مگر شرح اموات ۲ فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔
درحقیقت چینی حکام نے بتایا ہے کہ اس وائرس کے شکار متعدد افراد صحت مکمل صحت یاب ہوچکے ہیں اور جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں وہ یا تو بزرگ تھے یا دیگر بیماریوں کے شکار تھے جن کے باعث ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوچکا تھا۔
طبی ماہرین کے مطابق اس حوالے سے لوگوں میں خدشات اور خوف پایا جاتا ہے مگر کچھ عناصر ہیں جو اس میں کمی لاسکتے ہیں، پہلا تو یہی ہے کہ اس کی تشخیص اور تعین بہت تیزی سے ہوا، درحقیقت اس کی دریافت کے ایک ہفتے بعد ہی چینی حکام نے وائرس کا سیکونس حاصل کرلیا تھا اور دنیا بھر کی لیبارٹریز سے شیئر کیا، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
دوسری چیز طبی ٹیکنالوجی میں ۱۹۶۰ء کی دہائی میں کورونا وائرس کی دریافت کے بعد سے ہونے والی پیشرفت ہے جو لیبارٹریز اور وائرس کے ماہرین کو زیادہ گہرائی میں جاکر کام کرنے میں مدد دیتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف امریکا میں سیزنل فلو اس نئے کورونا وائرس سے زیادہ بڑا خطرہ ہے، جس سے گزشتہ ۴ ماہ میں کم ازکم ڈیڑھ کروڑ امریکی شہری متاثر ہوئے جبکہ ۲۰ ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔
آپ اس کے خطرے کو کیسے کم کریں؟
چین کے بعد متعدد ممالک میں اس کے کیسز سامنے آچکے ہیں اور یہ ممکن ہے کہ ۲۰۱۹ء ناول کورونا وائرس مزید ممالک تک پھیل جائے۔ عالمی ادارہ صحت نے لوگوں کو اپنے تحفظ کے حوالے سے متعدد اقدامات کا مشورہ دیا ہے تاکہ اس سے بچ سکیں۔
اس مقصد کے لیے ہاتھوں اور نظام تنفس کی اچھی صفائی قابل ذکر ہے، آسان الفاظ سے ہر وہ کام جو آپ فلو یا نزلہ زکام کا خطرہ کم کرنے کے لیے کرتے ہیں، وہ اس کورونا وائرس سے بھی تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔
یعنی اپنے ہاتھوں کو کم ازکم ۲۰ سیکنڈ تک صابن اور پانی سے دھوئیں۔
گندے ہاتھوں سے منہ، آنکھوں اور ناک کو چھونے سے گریز کریں۔
کھانسی اور چھینک کے دوران اپنے منہ اور ناک کو ٹشو سے ڈھک لیں اور پھر اس ٹشو کو کچرے میں پھینک دیں۔
ایسے افراد سے ذرا دور رہیں جن میں سانس کے امراض جیسے کھانسی اور چھینکوں کی علامات نظر آئیں۔
جن چیزوں کو اکثر چھوتے ہیں، ان کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔
کچی یا ناقص طریقے سے پکی ہوئی غذا سے گریز کریں۔
اگر نزلہ زکام یا فلو جیسی علامات کے شکار ہیں تو بغیر کسی تاخیر کے ماسک کو پہن لیں اور ڈاکٹر سے مزید احتیاطی تدابیر کے بارے میں پوچھیں۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ یکم فروری ۲۰۲۰ء)
The article provides fruitful information on this burnining issue and is helpful to reduce fear of death among the people of the world. How ever we could not reach to possible solution of this dangerous issue.