
مصر میں ۱۹۵۲ء کا فوجی انقلاب امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اُکسانے اور اس کے عملی تعاون سے برپا ہوا تھا۔ مصری بادشاہت کو ختم کرکے فوج کو مصر کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے جمال عبدالناصر (جو اس وقت فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے جونیئر عہدے پر فائز تھے) اور ان کے ساتھی فوجی کو سی آئی اے کی آشیرباد اور پوری مدد حاصل تھی۔ فوجی انقلاب کے ترجمان ریڈیو اسٹیشن وائس آف عرب کا قیام بھی سی آئی اے کی مدد سے ممکن ہوا تھا۔ سی آئی اے اور لیفٹیننٹ کرنل جمال عبدالناصر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کا انکشاف برطانوی مصنف جیمز بار کی تازہ ترین کتاب ’’دی لارڈز آف ڈیزرٹ‘‘ میں کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس فوجی انقلاب کے سربراہ جنرل نجیب تھے لیکن فوج کی جانب سے نظم و نسق سنبھالنے کی ساری منصوبہ بندی لیفٹیننٹ کرنل جمال عبدالناصر اور ان کے ساتھی فوجی افسروں نے کی تھی اور وہی سی آئی اے کے ساتھ رابطے میں تھے۔ مصنف کے مطابق مصر میں اس فوجی انقلاب کی وجہ امریکا اور برطانیہ کے درمیان مشرق وسطیٰ میں اپنا اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کشمکش سے تھا۔ برطانیہ مصری بادشاہ شاہ فاروق کی حمایت کر رہا تھا، جسے امریکی ناپسند کرتے تھے۔ مصری فوج کے اندر ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے ہاتھوں غیر متوقع شکست کی وجہ سے بہت بے چینی تھی۔ کرنل جمال عبدالناصر اور ان کے ساتھی فوجی افسروں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سی آئی اے کی مدد سے بادشاہت کو ختم کرکے جنرل نجیب کی سربراہی میں فوجی حکومت قائم کردی۔
برطانوی مصنف نے برطانوی دفتر خارجہ کی دستاویزات اور دیگر تاریخی دستاویزات کی مدد سے اپنی کتاب میں مشرق وسطیٰ کے بارے میں برطانیہ اور امریکا کے درمیان مسابقت اور تعاون پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ جیمز بار نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ انقلاب سے دو دن قبل کرنل ناصر نے برطانیہ اور امریکا کو فوج کی طرف سے ٹیک اوور کرنے کے منصوبے کے بارے میں اعتماد میں لیا تھا۔ اگرچہ انقلاب کی تمام تر منصوبہ بندی لیفٹیننٹ کرنل جمال عبدالناصر نے کی تھی لیکن فوج میں جونیئر رینک افسر ہونے کے باعث انہیں مشہور جنرل نجیب کو انقلاب کا سربراہ بنانا پڑا، کچھ ہی عرصے بعد ناصر نے جنرل نجیب کو ہٹا کر اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا، اور ۱۹۵۶ء میں باقاعدہ مصر کے صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔
اسی سال (۱۹۵۶ء) جب جمال عبدالناصر نے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا، تو برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کے ساتھ مل کر نہر پر قبضہ کرنے کے لیے مصر سے جنگ شروع کر دی۔ اس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور نے فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ اس پسپائی پر برطانیہ کو فوجی، سیاسی اور سفارتی محاذ پر انتہائی خفت کا سامنا کرنا پڑا اور اس واقعہ کے بعد مشرق وسطیٰ میں اس کا اثر و رسوخ کم ہوتا چلا گیا اور پورا خطہ امریکی حلقہ اثر میں آگیا۔ امریکا کے پیش نظر مشرقی وسطیٰ پر اپنا تسلط قائم کرنے کی بنیادی وجہ اس علاقے میں اسرائیل کی حفاظت اور مشرقی وسطیٰ کے تیل کے ذخائر تک رسائی اور اجارہ داری تھی۔
امریکی مدد سے اسرائیل کو فوجی لحاظ سے تمام عربوں کے مقابلے میں اتنا طاقتور بنا دیا گیا کہ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں مصر، شام اور اردن تین ممالک کی مشترکہ افواج کو ۶ روز کے اندر اسرائیلی فوج نے شکست دے کر بیت المقدس، غزہ اور باقی ماندہ فلسطین، اردن کے مغربی کنارے، گولان کی پہاڑیوں اور مصر کے جزیرہ نما سینائی پر قبضہ کرلیا۔ نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی اسرائیل کا ان علاقوں پر (سوائے مصر کے جزیرہ نما سینائی) قبضہ برقرار ہے۔
فوج کے ذریعے حکومتوں کو گرانے اور تبدیل کرنے کی سی آئی اے کی یہ سرگرمیاں صرف مصر تک محدود نہیں رہیں۔ مصر میں فوج کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کا جو سلسلہ ۱۹۵۲ء میں شروع ہوا تھا، وہ ۱۹۵۳ء میں ایران میں ڈاکٹر محمد مصدق کی حکومت کو ختم کرکے آگے بڑھایا گیا اور اس کے دس سال بعد عراقی بادشاہت کو بعث پارٹی کے ذریعے فوجی انقلاب برپا کرکے ختم کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں بالآخر صدام حسین اقتدار میں آئے۔ ۲۰۰۳ء میں صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا اور برطانیہ نے عراق پر براہ راست حملہ کرکے قبضہ کرلیا اور اس طرح حکومتوں کو گرانے اور تختہ الٹنے کا جو سلسلہ ۱۹۵۲ء میں مصر سے شروع ہوا تھا، وہ آج بھی مسلمان ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ سب سے زیادہ تلخ حقیقت یہ کہ جن طالع آزماؤں نے اقتدار میں آنے کے لیے سی آئی اے کے منصوبے پر عمل کیا، اسی سی آئی اے نے ان کو شکست سے دوچار اور ان کے ممالک کو تباہ کرکے اقتدار سے الگ کیا۔ جمال عبدالناصر اور صدام حسین اس کی عبرتناک مثال ہیں۔
(جیمز بار کی کتاب ’’دی لارڈز آف ڈیزرٹ‘‘ سے اقتباسات)
(بشکریہ: روزنامہ جنگ کراچی، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۸ء)
Leave a Reply