اسرائیل یورپی یونین سے تصادم کی راہ پر گامزن دکھائی دیتا ہے اور اس بات کا بڑی حد تک امکان ہے کہ یہ اپارتھیڈ دور کے جنوبی افریقہ کی طرح اچھوت بن کر نہ رہ جائے‘ اگر اس نے اپنا تنازعہ فلسطین کے ساتھ حل نہیں کیا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ اسرائیل کی جانب سے سنگین غلطی ہو گی۔ اسرائیلی آرمی ریڈیو کے مطابق یہ دس سالہ پیش گوئیوں پر محیط انکشافات میں ایک اہم انکشاف ہے‘ جسے اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے مرکز برائے سیاسی تحقیق اور انکشاف نے تیار کر کے خفیہ طور پر گذشتہ سال اگست میں ریلیز کیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر ۲۵ ممالک پر مشتمل یورپی یونین اپنے داخلی اختلافات پر قابو پاتے ہوئے خارجہ امور پالیسی مثلاً جنگِ عراق پر اتفاقِ رائے پیدا کر لیتی ہے تو اس کے عالمی اثر و رسوخ میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔ رپورٹ میں اسرائیل کو ہوشیار رہنے کو کہا ہے کہ یورپ کے مزید متحد ہونے اور زیادہ بااثر ہونے کی صورت میں وہ اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کی پابندی اور فلسطینیوں کے خلاف اپنی فوجی و سیاسی جارحیت کو روکنے کے لیے دبائو مزید بڑھا دے گا۔ رپورٹ میں بین الاقوامی تاثر کے حوالے سے اسرائیل کی حیثیت کو ظاہر کیا گیا ہے اور اسرائیل میں جاری ملک کی عسکری و سیاسی اسٹراٹیجی سے متعلق بحث کو تقویت بخشی گئی ہے اور اس پر بھی بحث کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ کس طرح یہ حکمتِ عملی صیہونی ریاست کے عالمی تصور کو قوت فراہم کرتی ہے۔ اسرائیلی اپارتھیڈ دیوار‘ مقبوضہ فلسطین میں فلسطینیوں کی نقل و حمل و اشتراک نیز بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور پریس کی آزادی سلب کیے جانے کی پوری دنیا میں مذمت ہوئی ہے‘ جس سے اسرائیلی وزارتِ خارجہ کی اس قیاس آرائی کو تقویت ملی ہے کہ اسرائیل دنیا کا ایک تازہ ترین Pariah اسٹیٹ بن جائے گا۔
حقوقِ انسانی کا بدترین ریکارڈ
حقوقِ انسانی سے متعلق بااثر عالمی تنظیموں کی نظر میں مثلاً ایمنسٹی انٹرنیشنل کی نظر میں اسرائیل کا ریکارڈ پہلے ہی سے خراب ہے۔ اس نے اپنی ۲۰۰۴ء کی رپورٹ میں واضح طور سے بتایا ہے کہ اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین میں یعنی مغربی کنارہ اور غزہ پٹی میں جو اسرائیلی فوج کے زیرِ تسلط تھی‘ فلسطینیوں کے انسانی حقوق بری طرح پامال کیے جارہے ہیں۔ گذشتہ ساڑھے تین سال کے عرصہ میں تقریباً بیس ہزار فلسطینی بے گھر ہو گئے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ روزگار سے محروم ہو گئے جبکہ اسرائیلی فوج نے ۳ ہزار گھروں کو مسمار کر دیا‘ زرعی اراضی کی ایک بڑی مقدار کو تباہ و برباد کر دیا اور بڑے پیمانے پر دیگر املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔ خاندان کے خاندان اور اکثر رات کے اوقات میں بغیر کسی پیشگی انتباہ کے گھر سے بے دخل کر دیے گئے۔ انہیں صرف چند منٹ اپنے گھر خالی کر دینے کے واسطے دیے گئے۔ حتیٰ کہ اپنے سامان باندھنے کی بھی انہیں اجازت نہیں دی گئی۔ ایمنسٹی رپورٹ کے مطابق اس بڑے پیمانے پر تباہی‘ جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی‘ کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ معقول رہائش کے اپنے حق سے لوگ بڑے پیمانے پر محروم ہو گئے اور ہزارہا لوگوں کا معیارِ زندگی اس سطح پر آگیا ہے کہ حقوقِ انسانی اور انسانیت پر مبنی بین الاقوامی قوانین سے ان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔
زرعی زمینوں کو بڑے پیمانے پر اس لیے تباہ کیا گیا تاکہ اپارتھیڈ طرز کی دیوار کے لیے راہ بنائی جائے جو اسرائیل مغربی کنارہ میں تعمیر کر رہا ہے۔ اگرچہ اسرائیل کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ دیوار اس لیے تعمیر کی جارہی ہے کہ اسرائیل میں خودکش حملہ آوروں کے داخلے کو روکا جاسکے لیکن دیوار کا بیشتر حصہ یعنی تقریباً ۹۰ فیصد اسرائیل اور مقبوضہ علاقوں سے نہیں گزرتا بلکہ مغربی کنارہ کے اندر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے فلسطینی شہر اور گائوں الگ تھلگ انکلیوز میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ برادریوں اور خاندانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرتے ہوئے‘ کسانوں کو اپنی زمینوں سے جدا کرتے ہوئے‘ فلسطینیوں کو اپنے کام کی جگہوں‘ نیز تعلیم و صحت عامہ کے مراکز اور دیگر بنیادی ضرورت کی سہولیات سے دور پھینکتے ہوئے۔ دیوار کے علاوہ فوجی چیک پوائنٹس‘ ناکہ بندیاں اور دیگر رکاوٹوں نے فلسطینیوں کو اپنے گھروں یا اپنے قریبی اطراف تک محدود کر دیا ہے۔ اس طرح کی امتیازی اور غیرمساوی پابندیوں سے مقبوضہ علاقے کے ۳۵ لاکھ فلسطینیوں پر بہت ہی خراب اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ گذشتہ سال کے اواخر میں یو این فوڈ رپورٹ نے مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی میں انسانی المیے کا ذمہ دار اسرائیل کے سکیورٹی اقدامات کو قرار دیا۔ رپورٹ کے مرتب جین ریگلر (Jean Ziegler) نے یہ انکشاف کیا ہے کہ کس طرح اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں فوجی قوت اور غذا سے محروم کر دینے کی مشترک پالیسی کے ذریعہ فلسطینیوں کو مجبور کرنے کی کوشش کی ہے۔
رپورٹ وہ نہیں ہے جو آپ دیکھتے ہیں!
مختلف تنظیموں کی کوششوں مثلاً سرحدوں سے ماورا رپورٹرز اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (IFJ) کی کوششوں کے باوجود اسرائیلی حکومت اور فوج نے پریس کی آزادی کو کچلنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ صحافیوں کی پریشان کیا جاتا ہے‘ انہیں قید کر لیا جاتا ہے اور جو کچھ وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں‘ اس کی رپورٹنگ کرنے سے انہیں روکا جاتا ہے۔ جنوبی افریقہ کے اپارتھیڈ دور کے ظالمانہ پریس قوانین کی یاد دلاتے ہوئے اسرائیل نے امسال پریس کا کنٹرول Shin Beit کو تھما دیا ہے جو کہ اسرائیل کی خفیہ پولیس کا سربراہ ہے۔
وہ اقدام جس کا اطلاق پہلے ہی فلسطینیوں پر ہوتا تھا‘ اب ان کا دائرہ اسرائیلی و بیرونی صحافیوں تک وسیع کر دیا گیا ہے۔ اسرائیلی پریس کونسل اور فارن پریس ایسوسی ایشن نے اس اقدام کو آزادیٔ صحافت کے خلاف ننگی جارحیت سے تعبیر کیا ہے اور اسے ناقابلِ قبول قرار دیا ہے کہ سکیورٹی سروسز اس فیصلے کی مجاز ہو گی کہ کس کو صحافی تسلیم (Accredit) کیا جائے۔ جولائی میں برطانوی صحافی Peter Hounam کو اسرائیل میں داخل ہونے سے روک دیا گیا‘ جو رہا پانے والے جوہری سائنسدان Mordechai Vanunu سے انٹرویو کرنا چاہتا تھا‘ جس نے اسرائیل کی جوہری تفصیلات کو ۱۹۸۶ء میں اس کے سامنے بے نقاب کیا تھا۔ اگست میں برطانوی جریدہ “Red Pepper” کے ایک نامہ نگار Ewa Jasiewicz کو وزارتِ دفاع کے افسروں کی جانب سے حراست میں رکھا گیا‘ پوچھ گچھ کی گئی اور Deportation کی دھمکی بھی دی گئی۔ اس بنا پر کہ حکام کا دعویٰ تھا کہ اس خاتون صحافی کی رپورٹنگ معروضی نہیں ہو گی۔ جیسی وِذ کو ۲۲ دنوں تک زیرِ حراست رکھا گیا اور چار دنوں تک اسے میڈیا سے کسی قسم کے رابطے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بالآخر اسے اسرائیل میں داخلے کی اجازت مل گئی لیکن فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں نہیں جو کہ اس کے دورے کا اصل مقصد تھا۔ جیسی وِذ پر لگائی گئی پابندی پر تبصرہ کرتے ہوئے آئی ایف جے کے جنرل سیکرٹری Aidan White نے کہا کہ ’’یہ بات ناقابلِ برداشت ہے کہ وہ ملک جسے خطے میں واحد جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ ہے‘ وہ اپنے ملک میں کسی صحافی کو داخلے کی اجازت دینے سے خوف زدہ ہے‘‘۔ Aidan White کا کہنا ہے کہ اسرائیل اظہارِ رائے کی آزادی جیسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اس طرح وہ اپنے جمہوری اسناد کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اپنے اس ریکارڈ کی روشنی میں اسرائیل سچ مچ ایک دوسری اچھوت ریاست میں تبدیل ہو رہا ہے۔
(بشکریہ: ’’امپیکٹ انٹرنیشنل‘‘۔ لندن۔ مارچ اپریل ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply